تبلیغی جماعت ،میڈیااور راج ٹھاکرے کی گولی

0
78

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔ 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

محمد اویس سنبھلی

تبلیغی جماعت اور اس کے امیر مولانا سعد کاندھلوی دہلی نظام الدین مرکز میں منعقد ہونے والے ایک اجتماع کی وجہ سے ان دنوں سرخیوں میں ہیں۔مولانا سعد ۱۹۲۶ء میں تبلیغی جماعت کی تشکیل کرنے والے مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ کے پڑ پوتے ہیں اور مولانا محمد یوسف ؒ کے پوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مولانا سعد کاندھلوی کو تبلیغی جماعت کی سربراہی وراثت میں ملی ہے۔اس وقت مولانا کی عمر تقریباً ۵۵؍برس ہے۔مولانا سعد کاندھلوی کی تعلیم مرکز میں واقع مدرسہ کاشف العلوم میں مکمل ہوئی۔چند اختلافات کے زیر سایہ ۵؍برس قبل وہ تبلیغی جماعت کے امیر مقرر ہوئے ۔زیادہ عمر نہ ہونے کہ باوجود وہ اس وقت وہ دنیا بھر کی تبلیغی جماعت کے سرپرست ہیں۔
تبلیغی جماعت کا قیام نظام الدین اولیاءؒ کی مسجد بنگلے والی میں عمل میں آیا اور یہاں سے مولانا الیاس کاندھلویؒ نے مسلمان کو مسلمان بنانے کی تحریک شروع کیا اور اس دعوتی کام اور تحریک کا آغاز ہندوستان کے اخلاقی لحاظ سے سب سے زیادہ پسماندہ علاقے میوات سے کیا۔مولانا الیاسؒ کی اس دعوت پر اس علاقہ سے بلامبالغہ سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں باشندوں نے لبیک کہااور دیکھتے ہی یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔مولانا الیاس کاندھلویؒ کی اس محنت کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں اسلام کی تبلیغ کے اس کام کو ایسی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی کہ آج دنیا بھر میں تقریباً ۱۵۰؍ممالک میں تبلیغ کا کام جاری اور اس سے جڑے افراد کی تعداد ڈھیڑھ سے ۲؍کروڑ تک بتائی جاتی ہے۔
گذشتہ ۱۳سے ۱۵؍مارچ کو تبلیغی جماعت کا ایک سہ روزہ مختصر اجتماع مرکز نظام الدین میں ہوا۔ اس میں تقریباً ۵؍ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ کچھ لوگ ایک دن گزارنے کے بعد واپس چلے گئے۔ اور کچھ پروگرام کے اختتام کے بعد جماعت کی شکل میں ملک کے الگ الگ حصوں میں نکل گئے۔باقی جو رہ گئے جن کی تعداد تقریباً ۳۵۰۰؍ تک بتائی جارہی ہے ، مرکز میں ہی رُکے تھے۔کہ اچانک وزیر اعظم نے ۲۳؍مارچ والے دن کے لیے ’’جنتا کرفیو ‘‘ کا علان کردیا۔۲۰؍سے ۲۲؍مارچ کے درمیان تقریباً ایک ہزار لوگ مرکز سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے۔ مسئلہ اب ان باقی بچے ہوئے لوگوںکا تھا (جس میں ۳۰۰؍کی تعداد میں غیرملکی شہری بھی شامل تھے)، جو ابھی بھی مرکز ہی میں تھے۔۲۴؍مارچ کی رات ۱۲,بجے سے اچانک وزیر اعظم نریندر مودی نے بنا کسی پلانگ کے ملک میں لاک ڈائون کا اعلان کردیا۔اس لاک ڈائون کی پابندی کرنے کے لیے سب سے بڑا فرمان’’جو جہاں ہے وہیں رہے‘‘ تھا۔ایسے میں جماعت کے افراد کا وہاں سے نکلنا مشکل ہوگیا۔ باوجود کوششوں کے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔اس دوران حکومت، انتظامیہ اور مرکز کے ذمہ داروں کے درمیان اس سلسلہ میں گفتگو اور خط و کتابت بھی رہی۔
ملک میں لاک ڈائون کے چلتے صرف دہلی سے ہزاروں کی تعداد میں مزدور اپنے اپنے گھروں کی طرف نکل پڑے۔ ٹرانسپورٹیشن بند ہونے کے سبب ان لوگوں نے پیدل سفر کرنے کا ارادہ کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاک ڈاؤن کی دھجیاں اُٹاتے ہوئے آنند وہار بس ٹرمنل پر پہنچ گئے۔یہ سب مرکزی حکومت کی پولیس اور دہلی حکومت کی انتظامیہ کی ناک کے نیچے ہورہا تھاکہ اچانک مرکز نظام الدین میں ڈھائی ہزار لوگوں کے جمع ہونے کی خبر میڈیا میں گردش کرنے لگی۔ میڈیا نے حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے اور چاپلوسی کرتے ہوئے مرکز نظام الدین کو ٹارگیٹ کرنا شروع کردیا اور بڑی خوبصورتی سے آنند وہار اور پیدل سفر پر نکلنے والے مزدوروں کی طرف سے دھیان ہٹا دیا گیا۔یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بڑی پلاننگ سے کیا گیااور اس سازش کے نتیجہ میں ’کورونا‘ ہندوستان میں مسلمان ہوگیا۔
یہ سب بتانے یا دہرانے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ مرکز کے ذمہ داروں نے کوئی لاپرواہی نہیں برتی۔کورونا ایک وبائی مرض ہے جس کی ابتداء چین سے ہوئی اور اب یہ تقریباً دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے چکا ہے۔باہر ملک سے ہندوستان آنے والے لوگوں میں اس کے جراثیم زیادہ پائے جارہے ہیں۔اور مرکز میں غیر ملکی تبلیغیوں کی تعداد خاصی تھی۔اس سلسلہ کا پہلا سوال تو مرکزی حکومت کو ہی دینا ہوگا کہ یہ لوگ بنا کسی چیک اپ کے مرکز نظام الدین پہنچے کیسے اور کورونا کے چلتے ان کے ویزے آنے سے قبل رد کیوں نہیں کیے گئے۔
دوسرا سوال مرکز کے ذمہ داران سے اورخاص کر مولانا سعد کاندھلوی سے کہ ان کا رویہ اس واقعہ کے سلسلہ میں بڑا مایوس کن رہا۔ انھیں جب یہ لگ رہا تھا کہ انتظامیہ اور ان کی ناک کے نیچے بیٹھے پولیس کے ذمہ داران، ان کے ساتھ مناسب رویہ نہیں برت رہے تو کیا ان کو از خودیا مرکز کے کسی ترجمان کو میڈیا سے گفتگو نہیں کرنی چاہئے تھی؟ کیا وہ سوشل میڈیا پر انتظامیہ سے ہوئی خط و کتابت کو پہلے سے پوسٹ نہیں کرسکتے تھے؟کیاوہ اس بات سے لا علم ہیں کہ اس ملک کے اندرخاص کر گزشتہ ۶؍برسوں سے ملک کی اقلیت کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کیا جارہا ہے؟۔کیا وہ دنیا سے اتنے بے خبر ہیں کہ ایک ماہ قبل تک کا شاہین باغ اور اس کے طرز پر پورے ملک کے مظاہرین کو حکومت نے کس طرح نظر انداز کیا جاتا رہا؟۔کیاوہ اس سے بھی بے خبر ہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے اقلیتی اداروں کے ساتھ حکومت نے کس طرح کا ظالمانہ رویہ اختیار کیا ہوا تھا؟۔اور اگر وہ اس سب سے بے خبر ہیں تو جو ہورہا ہے وہ باکل درست ہے۔مرکز سے باہر بھی ایک دنیا ہے اور اس میں بھی آپ ہی جیسے انسان رہتے ہیں۔ اس ملک کی ۵؍فیصدمسلم آبادی تبلیغ سے جڑی ہوگی لیکن اس پانچ فیصد کی وجہ سے بقیہ ۹۵؍فیصد کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔اس لیے ذمہ داری مولا سعد صاحب کی بھی بنتی ہے۔لیکن باتیں ابھی کچھ اور بھی ہیں۔
مرکز نظام الدین واحد ایسی جگہ نہیں تھی جہاں لوگ پھنسے ہوئے تھے۔جو جہاں پھنسا تھا اس کے بارے میں تو چھوڑئے۔ اقتدار کے نشے میں چور حکومت کے لوگوں نے تو قدم قدم پر لاک ڈائون کا مذاق اُڑاتے ہوئے تقریبات تک کا انعقاد کیا۔خود دہلی میں ہندو مہا سبھا نے کورونا سے حفاظت کے نام پر گئو موتر اور گوبر کے لیپ کا استعال کرتے ہوئے ایک تقریب کی جس میں سیکڑوں کی تعداد میں لوگ شامل ہوئے اور اس کے علاوہ بھی دیگر مذہبی تقریبات ہوتی رہیں۔ویشنو دیوی کا مندر ہو یا سدگرو کا آشرم سب جگہ لوگ پھنسے ہوئے تھے ۔اس لیے صرف مرکز کو نشانہ بنانا محض حکومت کی ناکامیوں کو چھپانا ہے۔ اس کے علاو ہ اور کچھ نہیں۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر مرکز اور تبلیغی جماعت کے خلاف زہر اگلا جارہا تھا کہ مہاراشٹر نو نرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے نے بھی مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے جہاں علماء کرام کے بارے میں توہین آمیز کلمات ادا کیے وہیں مرکز کے تبلیغی اجتماع سے مہاراشٹر واپس آنے والوں کو سیدھے گولی مارنے کی بات تک کہہ ڈالی۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ کورونا کے خلاف جاری جنگ میں عوام کی صحت کو نقصان پہنچانے والے تبلیغیوں کا علاج روک دینا چاہئے تاکہ آئندہ پھر کوئی ہمت نہ کرسے۔
راج ٹھاکرے کے اس بیان کی ہم پُر زور مذمت کرتے ہیں اور ان سے صاف طور پر کہہ دینا چاہتے ہیںکہ مشتعل بیانات دینا اور سستی شہرت حاصل کرنا بھلے ہی آپ کا وطیرہ ہو لیکن ’ہمارا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘۔ہندوستانی عوام راج ٹھاکرے جیسے موقع پرست سیاست دانوں کے جال میں نہیں پھنسنے والے۔ تبلیغی جماعت سے اختلاف کا حق سب کو ہے ۔ لیکن اس جماعت کا ایک انفرادی لائحہ عمل ہے اور جس پر انفرادی و اجتماعی کارکردگی انجام دی جاتی ہے۔ تبلیغی جماعت نہ کوئی سیاسی جماعت ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی تحریک کہ جس کے خلاف یا حمایت میں آواز اُٹھا کر ہندوستانی ماحول میں کوئی اتھل پتھل واقع ہوجائے۔
آج الیکٹرانک میڈیا تبلیغی جماعت کے حوالے سے اس انداز میں خبریں نشر کرتا ہے جیسے اینکر یہ جتانا چاہتا ہے کہ مرکز نظام الدین میںکوئی دہشت گردانہ کاروائی ہونے والی تھی اور تبلیغی جماعت کے لوگ وہاں ’’چھپے ‘‘ہوئے تھے۔ڈاکٹر اسرار عالم نے اپنی کتاب ’’دجال اکبر‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ایک دور آئے گا جب کوئی مسلمان کسی درخت کی شاخ کی آڑ میں تنہا بھی نماز پڑھ رہا ہوگا تو بھی ادھر سے گزرنے والے لوگ کہیں گے کہ دیکھو یہ دہشت گرد ہے‘‘۔ ہو سکتا ہے ڈاکٹر اسرار عالم کی یہ بات غلط ثابت ہوجائے لیکن یہ ’’چھپے ‘‘ہوئے اور’’ پھنسے ‘‘ہوئے والی کرونولوجی بھی کورونا وائرس سے کم خطرناک نہیں ہے۔ماحول کو خراب کرنے والی میڈیا کی اس طرح کی نشریات پر بھی پابندی لگنی چاہئے۔لاک ڈائون کے نفاذ کے بعد کئی مقامات پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ باگ جمع ہوکر کرفیو یا لاک ڈائون کو پیروں تلے روندتے ہوئے نظر آئے مگر نہ وہاں کسی کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور نہ ہی علاج کے لیے کسی کو بھیجا گیاجیسا جماعت کے افراد کے ساتھ ہورہا ہے۔افسوس!ہمارے ملک کی انتظامیہ کو ہزاروں کی تعداد میں جمع افراد میںکوئی ایک شخص ایسا نہیں ملا جو کورونا کا شکار ہواور نہ ہی اس جم غفیر کو کورونا کے پھیلنے کی وجہ قرار دیا گیا۔
میڈیا کی آنکھیں تعصب کا عینک لگا کر بیٹھی ہیں اور جب تک میڈیا اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھے گا اور زہر افشانی کرتا رہے گا ۔ ہندوستان کے سیاسی لیڈر ان تو کیا عام آدمی بھی مشتعل ہوجائے گا۔اس لیے میڈیا کی ذمہ داری طے ہونا ضروری ہے تاکہ ان کی بیہودہ نشریات پر لگام لگ سکے۔سوشل میڈیا کی تبلیغی جماعت کے خلاف ایک پوسٹ کے جواب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالر محمد وسیم نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کمنٹ کیا کہ’’پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی بڑی آفت (کورونا)کی وجہ سے اسلامی فرائض کو چھوڑ دیا۔ جمعہ اور فرض نمازیں مسجدوں کے بجائے گھروں میں ادا کرنے لگے تاکہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے حکومت کے احکامات پر عمل کیا جاسکے ، لیکن اس کے باوجود بھی مسلمانوں کے خلاف حکومت اور میڈیا کا رویہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔۔‘‘
میڈیا اورسوشل میڈیا پر افواہوں کا بازار گرم ہے ۔عوام الناس میں پھوٹ ڈالنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے ’’راج ٹھاکرے کی گولی ‘‘سے میڈیا کا سینہ چاک کیا جائے اس کے بعد افراد کی ذمہ داری طے کی جائے۔ اسی سے آئندہ کے لیے راحت ہوگی اور بس!
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here