بیسویں صدی میں اردو ادب کے آسمان کا ایک روشن ستارہ ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی

0
605

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر جہاں آرا سلیم

دسمبر1996ء سردی پڑنا شروع ہوئی تھی۔ ایک گنگنی دوپہر اپنی رشتہ کی پھوپھی جو پاٹانالہ لکھنؤ میں رہتی تھیں ، کے گھر سے واپس آرہی تھی، راستہ میں نسرین ، لکھنؤ یونیورسٹی میں ایم۔اے۔ کی کلاس فیلو کا گھر دکھائی دیا۔ خیال آیا بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی، مل لیتے ہیں۔میں نے اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔دروازے کی کنڈی نہیں لگی تھی ، صرف بھڑا ہوا تھا۔ میںنے نسرین کو آواز دی۔ میری آواز سن کر سامنے اس کی بھابھی آئیں۔ ان سے پہلے کئی بار ملاقات ہو چکی تھی۔ اس لیے وہ مجھے گھر کے اندر لے آئیں۔ان کی خیریت لینے کے بعد میں نے نسرین کو پوچھا تو انھوںنے بتایا کہ بڑے ماموںجان کی طبیعت خراب ہے۔ سب لوگ انھیں دیکھنے کے لیے گئے ہیں۔ کیسی طبیعت ہے ان کی؟ میں نے پوچھا۔ کئی دنوںسے صاحب فراش ہیں۔ ہاسپٹل میںبھرتی ہیں ۔بھابھی نے بتایا۔ کس ہاسپٹل میں؟
نشاط ہاسپٹل
یہ کہاں پر ہے؟
جئے بھارت کے پاس۔
گھر سے باہر آکر سبزی منڈی چوراہے سے ایک رکشہ کیا اور نشاط ہاسپٹل پہنچ گئی۔ سیڑھیاں چڑھ کر پانچویں منزل پہنچی تو کئی دوسرے لوگ جو شجاعت صاحب کی عیادت کے لیے آئے ہوئے تھے، مل گئے۔ روم تک پہنچنا آسان ہوگیا۔ روم کے باہر قمرنایاب صاحبہ سے ملاقات ہوئی ، جن سے بزم ادب کی محفلوں میں کئی بار ملاقات ہو چکی تھی۔ میں نے ان سے ڈاکٹر صاحب کی طبیعت کے متعلق دریافت کیا تو وہ مجھے کمرے میں ان کے پاس لے گئیں۔ بیڈ پر صاحب فراش حالت میں ڈاکٹر صاحب آنکھیں بند کئے ہوئے لیٹے تھے۔ ٹوپی ان کے سر پر ہمیشہ کی طرح سجی ہوئی تھی۔ ان کا سرخ سفید چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ جیسے کسی نے ان کے جسم کا تمام خون نچوڑ لیا ہو۔ کوئی حرکت نہیں ، کوئی سوال نہیں۔دنیا اور دنیا والوںسے بے نیاز صرف سانسیں چل رہی تھیں۔ اس لیے زندوں میں شمار تھا۔ کمرے میں کھڑکی دروازے کے پردے برابر تھے۔ کمرے کے اندر روم ہیٹر کی گرمی تھی۔ کچھ دیر اندر ٹھہر کر میںکمرے سے باہر آگئی۔ کئی دوسروں کو اندر جانے کا انتظار تھا۔ قمر نایاب صاحبہ کو رخصت کا سلام کیا اورپانچویں منزل سے گراؤنڈ فلور آنے تک ڈاکٹر صاحب کا چہرہ میری نگاہوں میں گھومتا رہا۔ نیچے آکر میں نے رکشہ کیا اور گھر واپس آگئی۔ تمام رات مجھے نیندنہیں آئی۔
22دسمبر 1996ء دوپہر میں ان کے انتقال کی خبر ملی لیکن جب میں گھر پہنچی تو ذرا سی دیر ہو گئی۔ جنازہ گھر سے نکل کر جا چکا تھا۔ کچھ دیر گھروالوںکے پاس بیٹھ کر میں واپس گھر آگئی لیکن ان کا مسکراتا ہواچہرہ اب بھی میری نگاہوںمیں گھوم رہا تھا اور بہت دنوں تک میں نے کچھ یوں ہی محسوس کیا۔
آج جب ان کے متعلق کچھ لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں ، وہ پہلی باقاعدہ ملاقات کیسے ہوئی تھی ، یاد ہو آئی ہے۔ اگست 1987کی ایک سہ پہر وقت یہی کوئی ساڑھے تین بجے کا رہا ہوگا۔ ایم۔ اے۔ فائنل کا آخری پیریڈ ختم ہوا تو میںکلا س روم سے باہر آئی، جہاںپر بہت سی دوسری لڑکیاں ساتھ چلنے والوں کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ میں اپنی ساتھیوں صالحہ معشوق ، پروین، شگفتہ اور صبیح کے ساتھ گراؤنڈ فلور کے لیے زینے اترنے لگی۔ ’’اپّی‘‘ایک نسوانی آواز نے مجھے پیچھے مڑکر دیکھنے پر مجبور کیا ۔ یہ نسرین تھی، میری کلاس میٹ۔
’’میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی‘‘ اس نے کہا اور میرے ہمراہ چلنے لگی۔ اس کے ساتھ اس کی ایک اور دوست تھی۔ ہنومان مندر والی شاہراہ پر کھڑے ہو کر آئی۔ٹی۔چوراہے کی جانب سے آنے والی ،امین آباد جانے والی ٹیکسی کا انتظار کرنے لگے۔ جیسے ہی ہمیں ہماری گنجائش والی ٹیکسی دکھائی دی۔ ہم سب اس میں لپک کر سوار ہوگئے۔
’’امین آباد میںکچھ خریداری کرنی ہے‘‘ میں نے نسرین سے پوچھا۔
’’ماموںجان سے ملنے کے لیے جا رہی ہوں‘‘ اس نے بتایا۔
’’تمہارے ماموںجان امین آباد میں رہتے ہیں‘‘
’’نہیں رہتے تو گنّے والی گلی میں ہیںلیکن اس وقت ملتے امین آباد میں ہیں‘‘
کہاں؟
’’دانش محل بک ڈپو‘‘
’’کیا نام ہے تمہارے ماموںجان کا؟‘‘
’’ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی‘‘
’’وہ دھان پان سبک سے، گورے چٹّے، ٹوپی اور شروانی والے!!‘‘
’’سگے ماموں ہیں‘‘
’’جی سگے بڑے ماموں ہیں‘‘
پہلے بتایا ہوتا۔
کیوں؟
میںاسپیشل پیپر میں ڈیزرٹیشن بھرتی اور ان پر مقالہ لکھتی۔
’’آفرین بانو، ماموںجان پر ہی تو ڈیزرٹیشن کا مقالہ لکھ رہی ہے۔ ‘‘
نسرین نے اپنی دوست آفرین بانو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
تو کیا اسی سلسلے میں ملنے کے لیے جا رہی ہو؟
جی۔
میں بھی چلوں تمہارے ماموںجان سے ملنے۔
جی بالکل چلئے۔
باتیں کرتے ہوئے پتہ ہی نہیں چلا ، کب ٹیکسی اسٹینڈ امین آباد آگیا۔صالحہ نے میرا اورآفرین نے نسرین کا کرایہ ادا کیا۔ پھر ہم نے دانش محل کا رخ کیا۔ براؤن رنگ کی شیروانی اورا سی رنگ کی ٹوپی میں ملبوس ڈاکٹرصاحب بڑی بنچ کے ایک سرے پر بیٹھے ہوئے تھے۔اپنی بھانجی کو دیکھ کر ہولے سے مسکرائے۔ پہلے نسرین اور آفرین نے سلام کیا۔ پھر اس کے بعد میں نے اور صالحہ معشوق نے سلام عرض کیا۔ تو انتہائی خوش اخلاقی کے ساتھ مسکراکرہمارے سلام کا جواب دیا۔
ماموں جان یہ جہاں آرا اپّی ہیں اور یہ صالحہ معشوق میری کلاس میٹ۔ آپ سے ملنے کی خواہش مند تھیں۔ نسرین نے ہمارا تعارف کرایا۔
کیسی چل رہی ہے پڑھائی؟ ڈاکٹرصاحب نے مشفقانہ انداز میں دریافت کیا۔
’’جی ٹھیک چل رہی ہے۔‘‘
’’کبھی کوئی دقت درپیش ہو تو میں حاضر ہوں۔ نسرین کی طرح آپ بھی ماموں کہہ سکتی ہیں۔‘‘
یہ تھی ہماری ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی صاحب سے باقاعدہ پہلی ملاقات۔ اس کے بعد جب بھی ملاقات ہوئی ۔ میں نے انھیں ماموںجان کہہ کر ہی مخاطب کی۔
ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی کی ولادت 1ستمبر 1916قصبہ سندیلہ میں ہوئی تھی۔ جہاں کے لڈو بہت مشہور ہیں۔ سندیلہ وہ قصبہ ہے جہاں ہر زمانے میں صاحب قلم حضرات موجود رہے۔ جیسے وجاہت علی سندیلوی جو افسانہ نگار بھی تھے ، ادیب بھی اور سرکاری افسر بھی۔صبیحہ انور کا مائیکہ بھی سندیلہ کا ہے۔ آواز کی دنیا کے جادوگر شفاعت علی کا تعلق بھی سندیلہ سے رہا ہے۔ یہ سب صاحب قلم ہی نہیں بلکہ صاحب منصب عہدہ پر فائز ہوکر قصبہ کا نام روشن کیاہے۔ ہاجرہ بیگم شجاعت صاحب کی اکلوتی بہن کا نام ہے۔ نسرین انھیں کی اولاد ہے۔ چھوٹے بھائی کا نام شفاعت علی تھا۔ شجاعت صاحب کے والد کا نام عنایت علی اور والدہ کا نام بتول النساء تھا۔ شجاعت صاحب کا بچپن سندیلہ میں گزرا اور ابتدائی تعلیم بھی زمانے کے رواج کے مطابق مدرسہ خانقاہ میں حاصل کی۔ پہلے بغدادی قاعدہ اس کے بعد قرآن شریف اور ساتھ ہی زبان اردو کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد والد نے ان کا نام وہیں کے ایک اسکول میں لکھوا دیا جہاں پانچویں درجہ تک کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد عنایت علی نے کاکوری میں سکونت اختیار کی۔ ابھی جب شجاعت علی جونیئر ہائی اسکول میں تھے، والد عنایت علی صاحب کا انتقال ہوگیا۔ تب اسکول کی پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ آگے کی تعلیم ہائی اسکول سے ایم۔اے۔ درجات تک پرائیوٹ حاصل کی ۔ شجاعت صاحب نے اپنا پی۔ایچ۔ڈی۔ کا مقالہ ’حالی کی شاعری میں قنوطیت‘ کے موضوع پر لکھنؤ یونیورسٹی سے پروفیسر آل احمد سرور صاحب کی نگرانی میں لکھنا شروع کیا ، لیکن بعد میں اپنا ارادہ بدل دیا اور پروفیسر سید احتشام حسین کی نگرانی میں بعنوان’حالی بحیثیت شاعر‘ کے موضوع پر اپنی تحقیق مکمل کی۔
شجاعت صاحب نے تدریسی تربیت حاصل کرنے کے بعد پہلے علی گنج ، لکھنؤ کے ایک اسکول میں تدریسی فرائض انجام دئے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ کاکوری کے اس اسکول میں تدریسی فرائض انجام دئے جہاں پر انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ 1945میں ان کی تقرری ممتاز جونیئر ہائی اسکول میں ہوگئی۔ 1950میں وہیں پر وائس پرنسپل مقرر ہوئے۔ نومبر 1961میں لکھنؤ یونیورسٹی میں بطور لکچرر ان کا تقرر عمل میں آیا اور لکھنؤ یونیورسٹی ہی سے 1977میں آپ سبکدوش ہوئے۔ لیکن کچھ ہی مہینوں میں یو۔جی۔سی۔ نے انھیں ایمرٹیس فیلو شپ عطا کی تو انھوںنے ایم۔اے۔اردو کے طلبہ کو پڑھانا شروع کردیا۔ اس دوران انھوں نے ایک اور بڑا کام کردکھایا ۔مستعمل محاورات کے موضوع پر بھی تحقیقی کام کرڈالا۔ ڈاکٹر صاحب کی نگرانی میں بہت سے طلبہ نے اپنے تحقیقی کام مکمل کیا اور سند حاصل کی۔
اللہ رب العالمین نے شجاعت صاحب کو چار بیٹے اور دو بیٹیاںنوازیں۔ ڈاکٹر سعادت علی صدیقی ان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ادیب بھی تھے، مبصر بھی ، ناقد بھی، لیکن انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز بچوں کے ادیب کی حیثیت سے کیا تھا۔ ان کا انتقال والد کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا۔ ان کے انتقال سے شجاعت صاحب کے دل کو بڑا دھچکا لگا اور وہ افسردہ رہنے لگے۔ ان کے دوسرے بیٹے ڈاکٹر ظفر اقبال سائنٹسٹ ہیں اور ملک سے باہر رہتے ہیں۔ بہت عرصہ تک امریکہ میں رہے ۔ تیسرے بیٹے کا نام مظہر الاسلام ہے ۔ چوتھے بیٹے ثروت پرویز ہیں ۔ ڈاکٹر پروین شجاعت اور شہلا شجاعت دوبیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹر پروین ماشاء اللہ ممتاز ڈگری کالج میں لکچرر ہیں ۔ ادب سے گہرا تعلق اور لگاؤ ہے۔ ان کے مضامین ادب پر اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ ان کا ایک گراں قدر کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوںنے اپنے والد پر ایک کتاب قلمبند کی جس کا عنوان ہے ’ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی ایک فرد، ایک ادارہ، ایک انجمن‘۔ یہ کتاب لکھ کر انھوںنے حق اولاد اداکرنے کی کوشش کی ہے۔
شجاعت صاحب کو کتب بینی کا بڑا شوق تھا۔ ان کی ادبی و تدریسی تصانیف کی فہرست طویل ہے۔ جرائد میں شائع شدہ منتخب مضامین پر مشتمل چار مجموعے ’’ادبی تاثرات، حرف ادب، عطر آگہی اور فہم وبصیرت ‘‘شائع ہو چکے ہیں۔ میں نے باقاعدہ تو ان سے تعلیم حاصل نہیں کی ہے لیکن جب جب جن موضوعات پر ان سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی ، محسوس یہ ہوا کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے، ان کی فکر میں گہرائی و گیرائی ہے۔ ادب پاروں پر ان کی نظر دقیق ہے۔ شجاعت صاحب نے بہت سی ادبی شخصیات پر مضامین لکھ کر اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ میں نے ان کے کچھ مضامین کا مطالعہ کیا ہے۔ مثلاً باغ وبہار کی اہمیت، مولانا محمد علی جوہر ؔ بحیثیت شاعر، نشور واحدی بحیثیت نثر نگار، فرقت کاکوری پیکر طنز و ظرافت، علی عباس حسینی کا نظریۂ فن، عبدالماجد دریاآبادی کے ادبی معرکے، غالب اور احساس غم، فسانۂ آزاد ایک مطالعہ، بہادر شاہ ظفر قومی یکجہتی و حب الوطنی کا سرچشمہ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے پایا وہ جو بھی لکھتے تھے سوچ سمجھ کر لکھتے تھے۔ ان کی تنقید بے لاگ ہوتی تھی۔ انھوں نے ہمیشہ بے جا تنقید اور تقریظ سے بچنے کی کوشش کی اور اپنی رائے کے سلسلہ میں ہمیشہ محتاط رہے۔ ان کے پاروں میں ان کی فکر کی ضیا پاشیاں اور اسلوب ادا کی رعنائیاں صاف نظر آتی ہیں۔ وہ طویل مضامین لکھنا قطعی پسند نہیں کرتے تھے۔ اپنے ایسے ہی گراں قدر مضامین کے ذریعہ اردو ادب کے ذخیرے میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔
شجاعت صاحب کو اردو زبان سے بے پناہ محبت تھی۔ زبان کے ابتدائی تقاضوں کو ذہن نشین کرادینے پر انھیں عبور حاصل تھا۔ اردو زبان سیکھنے کے لیے انھوںنے بہت سی کتابیں لکھیں ۔ جیسے آسان اردو، تاریخ اردو، آسان قواعد وغیرہ۔ڈاکٹر شجاعت صاحب کو اخبار بینی کا بھی بے حد شوق تھا۔ اپنے شوق کے چلتے انھوں نے ادارۂ فروغ اردو کی ادارت کے فرائض بھی انجام دئے ۔ اس کے اڈیٹر کی حیثیت سے اس کا اداریہ بھی باقاعدگی سے بعنوان ’اپنی باتیں‘ سپرد قلم کرتے رہے۔ ان کے ادبی ، تحقیقی و تنقیدی مضامین نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک کے معیاری رسائل میں شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ وہ ’جریدۂ اصلاح‘ کے بھی اڈیٹر تھے۔
ان ادبی وعلمی باتوں میں مقبولیت حاصل کرنے کے علاوہ ان کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ میں نے انھیں کبھی غصہ کرتے یا اونچی آواز میں بولتے یا کبھی کسی کو براکہتے نہیں سُنا۔ وہ نرم رو، خوش مزاج انسان تھے۔ سادہ لوح تھے، رحم دل تھے۔ سہیل کاکوروی نے ان کے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے ’’شجاعت صاحب تا زندگی اطمینان قلب کی دولت سے مالا مال رہے۔ نہ کسی کو مرعوب کیا ، نہ کسی سے مرعوب ہوئے۔ اس لیے ان کا مطلع حیات آلودگی سے پاک رہا۔‘‘
وکٹوریہ گنج، پوسٹ آفس بلڈنگ لکھنؤ۔ 3
موبائل: 8423626663

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here