بلاعنوان

0
82

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔ 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

افسانہ نگار: ابن رشید مصباحی

چند روحیں عام دنوں کی طرح گشت میں تھیں۔ لیکن دوران ِ گشت وہ یہ دیکھ کر حیران تھیں کہ آج شہروں سے انسان غائب ہیں، بازار مکمل طور سے بند ہیں۔ عشرت کدوںمیں سجنے والی وہ محفلیںآج دیکھنے کو نہیں مل رہی ہیں۔ لعوولعب کے وہ حسیں میدان جو ہمیشہ دعوت ِ نظارہ پیش کرتے تھے آج اپنی ویرانی کا نوحہ کررہے ہیں ۔ تعلیم وتعلم کے کارخانے اسکول ،کالج یونیورسٹیوں میں تالے چڑھے ہیں ۔ شہر کے وہ پارک جو روزجہاں بعض لوگوں کو فرحت و سکون میسر کرتے اور عاشقوں کی عشقِ ناتمام کی گواہی پیش کرتے تھے آج پوری طرح سے سُونے ُسونے پڑے ہیں ۔
روحوں کو یہ سب مناظر دیکھ بڑی حیرانی ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ آپس میں فیصلہ کرتی ہیں کہ سب لوگ مختلف سمتوں کا جائزہ لیں پھر ایک جگہ جمع ہوکر اپنے اپنے مشاہدات پیش کریںگی۔تھوڑی دیر کے بعد وہ روحیں پھر جمع ہوتی ہیں۔ اب بھی کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ آخر ماجرا کیا ہے ۔ ان میں سے ایک روح کہتی ہے ”سارے انسان اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں”
دوسری اپنا جائزہ یہ پیش کرتی ہے کہ”تمام مذاہب کی عبادت گاہیں بھی بند پڑی ہیں”
ایک روح اپنی رپورٹ یوں پیش کرتی ہے کہ ”یہ لوگ ایک دوسرے کو چھوتے نہیں ہیں، سب لوگ دور دور بیٹھتے ہیں۔ضرور کوئی بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے”
”لیکن جانور تو کھلے عام گھوم رہے ہیں” ایک روح اپنا جائزہ بتاتی ہے۔
ان سب کے درمیان ایک روح یہ سنسنی خیز دعویٰ کرتی ہے کہ شہرکے شفا خانوں میں ایمرجنسی جیسے حالات بنے ہوئے ہیں ۔شفا خانوںمیں ہجوم زیادہ ہے اور وہاں کے حالات بھی بہت عجیب وغریب ہیں ۔
” کیا عجیب وغریب ہے وہاں کے حالات” دوسری تمام روحیں ایک ہی آواز میں چیخ پڑتی ہیں۔
” کوئی وہاں لیٹے ہوئے مریض کو چھوتا نہیں ہے، جو لوگ دیکھ بال کررہے ہیں وہ بھی بڑے عجیب قسم کے لباس میں ملبوس ہیں ۔ہر کسی نے سر سے پائوں تک خود کو ڈھک لیا ہے ‘‘
ایک روح پوچھتی ہے ــ’’باتیں کیا ہورہی تھیںوہاں ‘‘
’’میںاُن کی باتیں تو زیادہ سن نہ سکی بس اتنا سنا کہ‘‘ ’’سب لوگ تیار رہو حالات پر نظر رکھو‘‘شفاخانوںکے باہر جے ۔سی۔ بی مشینیں اور خالی ٹرالیاں رکھی ہوئی ہیں شفاخانوں کا جائزہ لینے والی روح جواب دیتی ہے۔سب روحیں سوچ بچار میں پڑ گئیں۔ آخر میں ایک بزرگ روح کہتی ہے کہ ”شایدہماری موت کے بعد یہ لوگ بدل گئے ہوں۔اور یہ سب اسی بڑے بدلائو کا نتیجہ ہو۔یہ دنیا بدلائو چاہتی تھی۔لگتا ہے اب بدلائو ہوا ہے۔‘‘
’’آپ کیا کہہ رہی ہیں ہماری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا ہے۔تھوڑا وضاحت کریں۔‘‘دوسری تمام روحیں یک زباں اور حیرت آنگیز لہجے میں میں کہتی ہیں۔
وہ بزرگ روح تھوڑے توقف کے بعد پھر گویا ہوتی ہے ۔’’انہوں نے دھرم کے جھگڑے ترک کئے ہیں اسی لیے عبادت گاہیں خالی ہیں شاید اب کوئی بھی دھرم نہ رہا ہو یہاں، عشرت کدے، کھیل کود کے میدان و پارک اس لئے بند پڑے ہیں کہ انہیں حقیقت سمجھ میں آئی ہو کہ یہ سب فائدے کی چیزیں نہیں۔ گاڑیاں و بازار اس لئے بند ہیں کہ انہیں دنیامیں بڑھ رہے گلوبل وارمنگ کا اندازہ ٹھیک سے ہوا ہو، جانور اس لیے آزاد ہیں کہ اب انسان سمجھ گئے ہوں کہ یہ ہماری بقاء کے لیے کتنے مفید ہیں، لیکن تعلیمی ادارے بند اور شفا خانوں میں بھیڑ کیوں ہے یہ تو مجھے بھی سمجھ میںنہیں آرہا ہے۔”
”ایسا اس لئے ہوا ہوگا کہ تعلیم حاصل کرنے والوں نے کچھ اچھے کام نہیں کئے ناصرف دنیا کو مٹانے کے بڑے بڑے ہتھیاربنانے کے، اور شفاخانے اس لیے آباد ہوں گے کہ جنہوں نے ان مذکورہ تبدیلیوں کو ماننے سے انکار کیا ہو انہیں قرنطینہ میں رکھا جارہا ہو، تاکہ وہاں سے ان کو سمجھا بجھا کر ٹھیک اور نیک بنایا جاتا ہو”ایک روح اس نتیجے میں پہنچی تھی۔
”چلو پھر تو بہت ٹھیک ہوا یہ لوگ کم از کم سدھر تو گئے”بزرگ روح آخر میں پھر گویا ہوئی۔
پھر تمام روحیں وہاں سے عالم ارواح کو واپس چلی جاتی ہیں۔ جب یہ روحیں عالم ارواح میں واپس جاکر اپنی ساتھی روحوں کو اس کی خبر دیتی ہیں ،اپنے نئے مشاہدات کو اُن کے سامنے پیش کرتی ہیں تو وہاں کا منظر قابل ِدید ہوتا ہے۔ روحوں میں آپس میںقسم قسم کی باتیں ہوتی ہیں ۔ تمام روحوں میں اس نئی دنیا کے مشاہدے کی اشتیاق پیدا ہوتاہے ۔ لیکن ہر کسی کو جانے کی اجازت نہیں ملتی ہے ۔ لیکن اس معمہ کا حل یہ بھی نہیں ڈھونڈ پاتی ہیں کہ یہ انسان ایک دوسرے کوچھوتے کیوں نہیں ہیں ؟اور یہ لوگ ایک دوسرے سے اتنی دور رہ کر باتیں کیوں کرتے ہیں ؟وہیں دوسری طرف انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آتا ہے کہ آخر یہ لوگ گھروں میں کیوں قید ہیں ؟
دراس کرگل لداخ ،[email protected]
8082713692

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here