9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
اردو نصاب اورمدارس : ایک مشاہداتی اورتجزیاتی مطالعہ
خان محمد رضوان
ماضی میںمدارس اسلامیہ کا کردار بہت تاب ناک اورناقابل فراموش رہا ہے اورکسی قدر آج بھی ہے۔ مدارس کے فارغین نے ہر میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں، خواہ سیاست کا میدان ہو یا قیادت کا میدان ، تعلیم وتعلم کا میدان ہو یا تقریر وتحریر کا ہو۔ آج بھی دانش گاہوں میں صالح، باکردار اور اچھے مدرس مدارس کے فارغین ہی ہوتے ہیں۔
یوں توہندوستان میں مدارس ومکاتب کا جال بچھا ہوا ہے ، ان میں زیادہ تر وہ ہیں جوگھر کی چھتوں اوربند کمروں میں چلائے جاتے ہیں ، جن میں طلبہ کی تعداد سو اورپچاس کے آس پاس ہوتی ہے اور مدرس بھی ایک سے پانچ کی تعداد میں ہوتے ہیں اوران کا باضابطہ کوئی نصاب بھی نہیں ہوتا۔ بس ان میں قرآن ، حفظ، ناظرہ اورقاعدہ کی تعلیم ہوتی ہے ۔ آج بھی پورے ملک میں قابلِ قدر اوربڑے مدارس کی کمی ہے ۔ مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے مدارس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے ۔ ان میں کچھ ہی مدارس ایسے ہیں جن کے نصاب کومعیاری اور بہتر کہا جاسکتا ہے ، ورنہ زیادہ تر مدارس میں محض روایتی تعلیم ہی ہوتی ہے ۔ اب چوںکہ سائنس اور ٹکنالوجی کا زمانہ ہے، اس اعتبار سے تقریباً ہربڑے مدرسے میں عربی ، فارسی کے علاوہ انگریز ی ، ہندی اورکمپیوٹر کی بھی تعلیم دی جانے لگی ہے ۔ باوجود اس کے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مدارس کے نصاب میںتبدیلی کی جائے اورزیادہ سے زیادہ مدارس کا یونی ورسٹیوں سے الحاق بھی کیا جائے، تاکہ فارغین مدراس عملی زندگی میں کام ران ہوسکیں۔جہاں تک مدارس میں اردو نصاب کی بات ہے تو سبھی جگہوں پر اردو کی اچھی تعلیم دی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مدارس کے طلبہ کا لجز، اور یونی ورسٹیز کے طلباکے مقابلے میں اچھی اردو بولتے اور لکھتے ہیں۔
زیر نظر کتاب جناب توقیر راہی کی تحقیقی کتاب ہے ۔ یہ کتاب مدارس کے تعلق سے اب تک لکھی گئی کتابوں سے مختلف اورنئے زاویے کی حامل ہے ۔ کیوں کہ مدارس پر معروضیت کے ساتھ اب تک کوئی قابل ذکر تحقیقی کام نہیں ہوا ہے ۔ یہ کتاب اپنے موضوع اورمواد کے اعتبار سے جدّت وندرت لیے ہوئے ہے ۔ اس کتاب کو معیاری تحقیق کی عمدہ مثال کہا جاسکتا ہے ۔ فاضل مصنف نےتحقیق کے دوران میں اصولِ تحقیق کی باریکیوں اور فن وتحقیق کے ضوابط کا پورا پورا خیال رکھا ہے ۔ کتاب کا بالا ستیاب مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ محقق نے بے حد عرق ریزی ، جاں فشانی اوردیدہ وری کے ساتھ اس کام کو انجام دیا ہے۔یہ کتاب پانچ ابواب میںمنقسم ہے ۔ باب اوّل کا عنوان ہے ’ ہندوستان میں مدارس کا تعلیمی نظام: عام خصوصیات ‘ ۔اس میںتاریخی طورپر مدارس کی اہمیت ، ان کا ابتدائی نظام، پھر مدارس کے لغوی و اصطلاحی معنیٰ اورتاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے ۔ ساتھ ہی سلاطین کے عہد میں نظام تعلیم کا جوتصوّر تھا اس پربھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس باب میں ہندوستان میں چلنے والے کئی طرح کے مدارس کا مفصل تعارف کرایا گیا ہے،جیسے وہ مدارس جہاں صرف قرآنِ کریم کے حفظ وتجوید کا انتظام ہے ، درسِ نظامی کےتحت چلنے والے مدارس، وہ مدارس جو رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں ، وہ مدارس جن کا الحاق مدرسہ بورڈ سے ہے ۔ وہ مدارس جن کا یکساں نظام تعلیم اورنصاب ہے ۔ پھر نصاب تعلیم ، طریقۂ تدریس ، طریقۂ امتحان، اساتذہ، آمدنی وغیرہ پر جامع اورمدلل گفتگو کی گئی ہے۔
باب دوم ’اردو نصاب اورملحقہ وامدادی مدارس،کے عنوان سے ہے ۔ اس میں مختلف ماہرین تعلیم کے ذریعہ کی گئی نصاب کی تعریف کو ذکر کیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ نصاب کی تشکیل تعلیمی مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے ۔ ساتھ ہی ہندوستان کے مختلف صوبوں میں پڑ ھائے جارہے اردو نصاب کا مفصل ذکر صوبوں کے حوالے سے کیا گیا ہے اور ہر صوبے کے نصاب کو جزئیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
باب سوم میں ملحقہ مدارس میںاردو نصاب کے تعلق سے تفصیلی ذکر ہے کہ کس مدرسہ کا نصاب کیا ہے ؟ اس ضمن میں کچھ مدارس کا ذکر چھوٹ گیا ہے ، جیسے جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ، جوکہ ہندوستان میں دینی و عصری علوم کا بڑا مرکز ہے ، اس کا ذکر نہیں ہے ۔ ہر مدرسے کے ضمن میں یہ بھی ذکر کرنا چاہیے تھا کہ یہ مدرسہ کب قائم ہوا؟ باب چہارم ’ مدارس میںا ردو طریقۂ تدریس ‘ پر ہے ۔ اس میں مدارس میں رائج طریقۂ تدریس کے تعلق سے اچھی گفتگو کی گئی ہے ،جیسے پڑھنا سکھانا ، لکھنا لکھانا ، سمجھنا سکھانا ، اور مڈل منزل ، ثانوی منزل، اعلیٰ اورثانوی درجات وغیرہ کے تعلق سے تفصیلی ذکر ہے ۔
کتاب کے آخر میں ’ماحصل‘ کے عنوان سے ’قومی وبین الاقوامی سطح پر فروغِ اردو کی موجودہ صورت حال اورامکانات ‘ پر مصنف نے اچھی گفتگو کی ہے ۔ اس کا آغاز انہوںنے عہد نبویؐ سے کیا ہے اور ہر بار عہد کی تعلیمی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے دور حاضر میں کالجوں اوریونی ورسٹیوں کی صورت حال کا تجزیہ کیا ہے ۔ یہ اپنی نوعیت کی اہم کتاب ہے۔ امید کہ علمی حلقوں میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
مصنف: توقیر راہی
زیر اہتمام: براؤن بک پبلی کیشنز ، نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۷ء
صفحات :۲۴۴، قیمت:۳۹۹؍روپے
(خان محمد رضوان)
Mob:9810862283
Email:[email protected]
Also read