بابائے اردو مولوی عبدالحق “حیات اور ادبی خدمات”

0
4970

سکندر علی

نہ فکر معیشت نہ عشق بتاں ہے
مگر جاگتے رات کٹتی ہے ساری۔
یہ شعر اس عظیم انسان کا ہے جسے دنیائے ادب بابائے اردو مولوی عبدالحق کے نام سے پہچانتی ہے ۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق ہاپوڑ ضلع غازی آباد میں 20 اگست 1870میں پیدا ہوئے۔
مولوی عبدالحق نے ابتدائی تعلیم ہاپوڑ میں حاصل کی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی۔اے ۔پاس کیا ۔
وہ نہایت ذہین اور جدت طبع اور محنتی تھے حصول تعلیم کے بعد پنجاب اور کچھ دن تک حیدرآباد میں رہے اور مختلف نوکریاں کی ، بعد ازاں عثمانیہ کالج اورنگ آباد کے پرنسپل ہو گئے ۔ مولوی صاحب حیدرآباد میں انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی اور تاحیات اس انجمن کے سکریٹری رہے ۔ اسی انجمن سے آپ نے سہ ماہی رسالہ ”اردو ” نکلا ۔بعد ازاں الہ آباد یونیورسٹی نے مولوی عبدالحق کو ایل ۔ایل ۔ڈی ۔ کی اعزازی ڈگری عطا کی ۔،
مولوی عبدالحق صاحب کو عربی ، فارسی زبان پر خاصی عبوریت حاصل تھی ، انکے تصنیفات میں اس لئے عربی ،فارسی زبان کے الفاظ زیادہ ملتے ہیں ۔
مولوی صاحب کامیاب محقق ،بے لاگ نقاد ،بے مثل ادیب اور خاکہ نگار تھے ۔ آپکی تصنیف “چند ہمعصر ” خاکہ نگاری کا نمائندہ شاہکار ہے ۔ یہ تصنیف تنقیدی کارناموں میں نہایت کامیاب اور مشہور تصنیف ہے ،اس تصنیف میں انہوں نے چند مشاہیر ادب کے خاکہ پیش کئے ہیں ۔
مولوی عبدالحق تنقید و تحقیق کے مرد میداں تھے اور ایک نامور ادیب بھی ۔ ان کا انداز تحریر ،طرزِ بیان نہایت صاف ،سلیس،سادہ اور آسان ہے ۔ عبارت میں زور آور رنگینی و دلکشی ہے ، دیگر زبانوں کے الفاظ بھی عبدالحق کے ہاں خوب ملتے ہیں ۔ ہندی ، انگریزی الفاظ کی حسین آمیزش بھی انکے تصنیف میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ آپ اپنے مطلب کو سادہ و سلیس الفاظ میں بیان کرنا مناسب تسلیم کر تے ہیں ۔
مولوی صاحب کی تصانیف “مقدمات عبدالحق ” ، ”انتخاب کلام میر ؔ ” اردو ادب میں اعلیٰ مقام رکھتی ہیں ۔
اردو زبان کے اس نایاب ہستی یعنی بابائے اردو مولوی عبدالحق کا کراچی میں 16 اگست 1961میں انتقال ہو گیا ۔
مولوی صاحب دم آخر تک اردو زبان کی خدمت کر تے رہے انکی خدمتوں كو کوئی بھی اہل اردو فراموش نہیں کر سکتا ہے ۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق اردو زبان و ادب کی وہ عظیم ہستی ہیں جن کا نام اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی کل زندگی علم و آدب کو نذر کردیا ،لوگوں کے تذکرے لکھتے رہے ،خاکے قلم بند کر تے رہے ، لوگوں کے افکار و حالات پر قلم اٹھایا مگر انہیں اپنی مربوط اور منظم آپ بیتی لکھنے کی فرصت شاید نہیں ملی اس لئے لوگوں کو بابائے اردو مولوی عبدالحق کی ذاتی حیات کا مفصل علم نہیں ہے ۔
یہاں تک کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے تاریخ پیدائش میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب نےجب ہوش سنبھالا اس وقت ہندوستان میں انگریزوں اور ان کے گماشتوں کے خلاف بغاوتوں کا دور تھا رجواڑے مغربی سامراج کی پناہ گاہیں تھیں جہاں کے عوام روایتی ظلم و ستم کا شکار تھے شہزادوں، ولی عہدوں اور نوابوں میں باہم جنگ تخت نشینی رہتی تھی اور دربار میں سازشیں پروان چڑھتی تھیں، مولوی صاحب مزکورہ حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کرتے رہے اس مقصد میں وہ کامیاب بھی ہوئے انہوں نے صحافت کے ذریعے عوام میں بیداری لانے کی تمام کوششیں کی ۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اردو کی خدمت گاری کے ساتھ ساتھ صحافت کے ذریعے سماجی برائیوں کو دور کرنے کا کام بھی انجام دیا ۔ اس دنیائے فانی میں نہ جانے کتنے لوگ روزانہ پیدا ہوتے اور مرتے ہیں مگر کچھ لوگوں کو دنیا انکے کارناموں کے سبب یاد رکھتی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح بابائے اردو مولوی عبدالحق کے تصانیف اور انکے ادبی کارکردگی کے سبب دنیائے ادب انہیں مستقبل میں بھی یاد رکھے گی ۔۔
رابطہ نمبر ۔۔ 9519902612
qq

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here