ناظم الدین فاروقی
دنیا میں جب آفات سماوی سے ممالک کے ممالک اوراقوام کے اقوام تباہ و تاراج ہوجاتے ہیں یا نا عاقبت مصائب و مشکلات سے دوچار ہو جاتے ہیں تو ایسے موقع پر شہریوں کیلےء بین الاقوامی اور قومی حکومت کی امداد بھی نا کافی ہونے لگتی ہے۔اور بڑی بڑی طاقتور حکومتیں بھی اپنی بے بسی اور لاچاری کا اظہار کرنے لگتی ہیں ہر طرف افراتفری غیر یقینی صورت حال اور الزامات در الزامات اور کنفیوژن میں حکومت کی مشنری ٹھپ پڑ جاتی ہے۔کرونا وائرس کی ہلاکت خیز وباء نے عالمی سطح پر دنیا کے G-7 ممالکی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ایسے وقت میں حکومت کی طبّی و ما یحتاجیات کی امداد بمشکل 60%شہری آبادی Urban Population تک ہی پہنچنے پاتی ہے ، مال دار طبقہ اور اعلی و درمیانی طبقہ Upper Middle Class کسی طرح سے اپنے لئیے اور زندگی کو محفوظ رکھنے کے انتظامات کرلیتا ہے ۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ آبادی کے اس طبقے کیلےء پیدا ہوجاتاہے جو سطح غربت Poverty line پر زندگی بسر کرتے ہیں، محنت مزدوری کرنے والے ، دھوبی ،نائی، صنعتی مزدور، رکشاراں، آٹو رکشا ڈرائیورس ، حمال ، اور اسطرح کے چھوٹے روزانہ مزدوری پر کام کرکے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کیلےء سب سے بڑا مسئلہ روز مرّہ کی دو وقت کی روٹی اور صاف پانی اور صحت کے مسائل میں بہت بری طرح گہرجاتے ہیں۔ حالیہ ہندوستان کے 21 دن کے لاکڈاؤن میں دنیا نے دیکھا کہ کسطرح 8 تا 10 کروڑ آبادی سڑکوں اور جنگلوں میں بری طرح سے فاقہ کشی کا شکار ہے ،عورتیں ، بچّے ، بوڑھے ، بھوک سے تڑپ رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن تک کسی حکومتی ادارے یا کسی بھی NGO کی امداد نہیں پہنچ سکی ۔ لاکڈاؤن میں ویسے تو 40 کروڑ عوام نان و شبینہ کیلےء پریشان ہیں ۔ باوجود مرکزی و ریاستی حکومتوں کے امدادی اعلانات کے ، ایک ایک ہفتہ راشن کیلےء قطار میں صج 4 بجے سے کھڑے رہیں تو کئی کئی دن تک نمبر لگنے نہیں پاتا ۔ کئی کمزور بھوک سے نڈھال مردو خواتین قطاریں چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ سماج میں بعض ایسے طبقات ہیں جو بظاہر خوشحال نظر آتے ہیں لیکن انکے یہاں بھی کئی کئی دنوں سے چولھا نہیں جل پایا ہے۔فیملی بیاگراؤنڈ کی وجہ سے کبھی ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ کسی سے بھی اپنی فاقہ کشی کا ذکر کرنے کو عار و شرمندگی محسوس کرتے ہیں تو انہیں پہچان کر ان تک غذائی امداد پہنچانا بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ایسے حالات میں ہمارے ملّی ، سماجی، فلاحی و رفاہی اداروں کا بہت بڑا اہم رول ہوتا ہے۔ یہ بڑی ہی خوش آئیند بات ہیکہ چند بڑی جماعتوں کے علاوہ شہر کے مسلم علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ، MVO’s ،( Muslim Voluntary Organizations )گروپس اور گروہ غذاء وFood Kits کی سپلائی کا منظم و غیر منظم پیمانے پر زبردست خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پورے جذبے ، حوصلے اور عزم کے ساتھ ضرورت مند خاندانوں کے درمیان اور مذہبی ، ملّي و سیاسی قائدین نے بھی حتی المقدور پیمانے پر بلاء تفریق مذہب و ملّت ملک میں سینکڑوں ٹن اناج کی تقسیم عمل میں لارہے ہیں۔ ساری مسلم کمیونٹی کا احساس ہیکہ مضبوط بے لوث بڑے ملّی فلاحی و رفاہی منظم اداروں کی شدید کمی ہے۔ ہر بات پر حکومت پر تکیہ کرنا یا پھر صرف تنقید کا نشانہ بناکر اپنی ذمّہ داریوں سے پہلو تہی نہیں کیا جا سکتا۔بحیثیت ملک کی ایک بڑی اقلیت کے ہم پر بھی بھاری ذمہ داری ہیکہ ایمرجنسی کے موقعوں پر اپنے کمیونٹی کی ہم خود اپنے وسائل ، صلاحتیوں اورذرائع کو بہتر انداز میںمجتمع کر کے بھر پور استعمال کرتے ہوئے ، ان غریب مصیبت زدہ مسکین فاقہ کشی کا شکار لوگوں تک پہنچ کر انکی انسانی بنیادی ضرورتوں کو پورا کریں۔بڑے ہی افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہیکہ بعض بڑی بڑی دینی جماعتیں حقوق اللہ و حقوق العباد کی تفہیم و تشریح میں غلطی کرجاتے ہیں۔یہ حضرات انکی اکثریت Islamic Concept of Social Service
خدمت خلق کا نظریہ اسلامی کا واضح تصور نہیں ہونے کی وجہ سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ رضائے الہی کیلیےصرف تعلق باللہ کو مضبوط کرتے رہنا اور خدمت خلق کو اسلام کا لازمی حصّہ نہیں ہے قرار دینا ایک ناقص قابل اصلاح تصور ہے۔قرآنی آیات کریمہ اور نبی کریم ۖکےمتعدداحادیثاورپھرخلفائےراشدین اور تاریخ اسلام میں خدمت خلق اور وقف الی اللہ کی ایک زبردست تاریخ کا سنہری باب ہے اور اس درخشاں پہلو کا مطالعہ کر کے دنیا کے بڑے بڑے فلاسفر اور دانشوران حیرت زدہ رہتے ہیں۔ فقراء ، مساکین ، مہاجرین، محرومین کو کھانا کھلانے کی ترغیب ، مسافر ، قیدی ، کی مدد اور گناہوں کے کفارہ کے طور پر طعام المسکین کا حکم اور غرباء کو کھانا نہ کھلانے پر سخت وعید، قرآن کریم میں اس طرح کے احکامات واضح انداز میں ہمیں ملتے ہیں ۔ اسکے علاوہ نبی کریم ۖ کے متعدد احادیث بتا رہے ہیں کہ غریب مسکین کو کھانا کھلانے ، مصیبت زدہ ، مسلمان کے کام آنے ، ننکے کو لباس پہنانے ، پیاسے کو پانی پلانے، مریض کے علاج ، غریبوں کی خبر گیری ، مظلوم کی مدد ، غلاموں و لونڈیوں کو آزاد کرانے ، بغیر کسی کی صلاحیت ، صالحیت ، دیکھے اس کی مدد کرنے کا ہر امّتی کو حکم فرمایا ہے۔ یہی اسلامی نظریہ خدمت خلق ہے۔
یہ موضوع بڑی تفصیلات کا متقاضی ہے ۔ ہم اختصار کے ساتھ یہاں چند باتیں حسب ذیل درج کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔
Islamic Social Service اسلامی خدمت خلق کا مطلب ایمان و احتساب کے ساتھ بلا کسی نجی، خاندانی،جماعتی ، گروہی مفادات کے رب کی رضا اور فلاح آخرت کیلےء مصیبت زدہ مسکین ، فقیر ، بیواؤں، بوڑھوں ، مریضوں ، قیدیوں ، آفات سماوی، زلزلہ ، طوفان، وباءؤں ، سونامی ، قحط یا فرقہ وارانہ فسادات سے متاثر اور وطن سے ہجرت کرنے والے پناہ گزینوں کی دامے ، درہمے، سخنے، اعانت کرنا انکے لیےء غذاء پانی کے علاوہ ریلیف و بار آباد کاری کا کام انجام دینا ہے ۔ جسمیں لازمی طور پر طعام المسکین، جو شہری ، بجلی، موسم کے اعتبار سے کپڑے ، ایندھن ، طبّی ، تعلیمی ، قانونی امداد خود روزگار اسکیم ، بوڑھوں کو ماہانہ وضائف جاری کرنا اور ایسے لوگوں کو معہد سے لیکر لحد تک تعاون فراہم کرنا شامل ہے۔اگر ہم دوسرے بڑے مذہب عیسائیت اور ہندو مت کے Charities کا تقابلی مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ عیسائیوں کے بڑے بڑے چارٹیز نے کامیابی سے دنیا کے ہر ملک میں ایسے مشنری کے کام کو صرف Social Service کے ذریعہ پروان چڑھایا ہے۔فلاح وبہبود Social Welfare کیلے کرسچین مشنریز کے پاس جو انفرا اسٹرکچر ہے وہ دنیا کے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے پاس نہیں ہے۔ یہ مشنریز دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں ، میڈیا ہاؤس، TV چانلس، بنکنگ ، اور Auto کی کمپنی کے مالک ہیں ، غریب ملکوں میں بڑے بڑے جزائر خرید لیتے ہیں حال ہی میں ایک کرسچین مشنری نے انڈونیشیاء میں کئی جزائر خرید لیےء ہیں۔ جہاں بھی آفات سماوی یا وارزون War Zone ہوتے ہیں وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں اور ایک مخصوص انداز میں فلاحی و رفاہی کام کرتے ہیں ، غذائی ، طبّی و تعلیمی سرگرمیوں میں انکا کوئی ثانی نہیں ہے۔
Creflo Augustus Dollar اٹلانٹا کا ایک televangelist اور ایک rap artist ہے وہ جٹ پیلن 650G- Streamکا مالک ہے جسکی قیمت 70 ملین ڈالر ہے اور اسکی ذاتی دولت 27 ملین ڈالر ہے ۔ اور دو رولز رائز کاروں کا مالک بھی ہے وہ کہتا ہے کہ خدا کے بندوں کی خدمت کے لیےء یہ حقیر سی سواری ہے۔جہاں تک مسلمانوں کی خدمت خلق کا معاملہ ہے حالیہ دور میں خلیجی ممالک کے اہل خیر شیوخ نے دنیا کے کونے کونے میں رفاہ عام اور خدمت خلق کے کامیاب پروجیکٹس قائم کئے تھے۔سعودی حکومت بھی 2000 تک سالانہ 50 بلین ڈالر دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کے رفاہی و فلاحی اسکمات میں صر ف کرتی تھی۔ بش کے آنے کے بعد سے ساری دنیا میں زکواۃ و صدقات کے تمام مشہور فنڈز کو ضبط کرلیا گیا یہ لغوء الزام لگا کر کہ یہ پیسہ دھشت گردی کیلےء استعمال ہوتا ہےاور مسلمانوں پر پابندیاں عائد کردی گئیں ۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ اہل خیر شیوخ نے یہ تصور کرکے کہ امریکہ کے قانون زیادہ محفوظ ہیں ، وہاں ایک گلوبل سوشیل آرگنائزیشن بناکر اسمیں 500 بلین ڈالر کے فنڈر جمع کئے تھے۔ بش نے عراق پر اپنا تسلّط قائم کرتے وقت مسلمانوں کی تمام رقومات سوقط کرلئیے۔ ڈائریکٹرس نے سپریم کورٹ تک مقدمہ لڑا اور اس میں یہ ثابت کیا گیا کہ یہ عامّۃ الناس سے جمع کی گئ امانت ہے سوائے فلاحی و رفاہی کاموں کے کسی بھی دھشت گرد کاروائیوں میں نہیں استعمال کی جاتی۔فرقہ پرستی جب سر چڑھ کر بولتی ہے تو بڑی بڑی اقوام اندھی ہوجاتی ہیں ۔ بحر حال مسلمانوں کو امریکہ کے سپریم کورٹ میں شکست ہوئی۔ ساری امّت اسلامیہ کا پیسہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت نے بلا وجہ لوٹ لیا۔
جہاں تک ہندؤں کی فلاحی و رفاہی اداروں کا معاملہ ہے وہ بالکل مختلف ہے مندروں کے ٹرسٹوں میں لاکھوں کروڑوں فنڈز ہوتے ہیں اور خود RSS کے تحت کئی تنظیموں کے پاس بھی کئی بلین کے فنڈس ہیں۔ لیکن انکی خدمات اور رفاہی سرگرمیاں بڑی ہی محدود اور عجیب مقاصد کے ساتھ ہوتی نظر آتی ہیں۔حالیہ عرصہ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے غریب Migrant Labor مہاجر مزدور طبقہ ہے کروڑوں کی تعداد میں بھوک اور فاقہ کشی کا شکار ہوکر ہزاروں ، سیکڑوں کیلومیٹر شاہ راہوں اور قومی شاہ راہوں پر بچّوں او ر عورتوں کے ساتھ پیدل چلتے نظر آرہے ہیں۔ دنیا کے تمام میڈیا نے اسے کور کیا ہے لیکن RSS جو ہندوستان کی حکومت شاہ کلید اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے اور بار بار کہتی ہے کہ ہم ایک کلچرل اور سوشیل آرگنائزیشن ہیں ۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ اتنے غریب مزدوروں کو کیوں سڑکوں پر ایسےہی بھوک اور افلاس سے تڑپنے کیلےء چھوڑدیا گیا ہے۔ RSS چاہتی تو جگہ جگہ شیڈس و خیمہ لگاتی غریبوں کو اس میں ٹہرنے کھانے ، پینے اور آرام کرنے کے مواقع فراہم کرتی ۔ ایسا لگتا ہیکہ دنیا کے سب سے بڑ ی سوشیل تنظیم RSS کو غریب ، دلت اور اقلیتوں کے مصائب و مشکلات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بلکہ انہیں ایسے ہی مرنے دینے کو وہ ترجیح دیتے نظر آرہے ہیں۔RSS کا قبیح چہرہ دنیا کے سامنے عیاں ہو گیا۔
ہمارے بڑے فلاحی و رفاہی ادارے ایسے بھی موجود ہیں جن کے یہاں مال و دولت کی کمی نہیں ہے بلکہ بعض اداروں کے پاس 10،10 کروڑ اکاؤنٹس میں جمع ہیں کہتے ہیں کہ یہ پیسہ ان کاموں میں اڑانے کیلے نہیں ہے ۔ بے توجہی اور بے حسی کی وجہ سے عدم فعالیت کا شکار ہیں۔جہاں اموال المسلمیں جمع ہیں وہ امّت کا حق ہے مصیبت ، آفات سماوی ، طوفان، متعدی امراض کے پھیلنے اور پھوٹ پڑنے قیدیوں کی مدد ، غریبوں و مسکینوں ، بیماروں کی امداد ، فساد سے متاثرہ خاندانوں ، بوڑھوں ، پناہ گزینوں ، کمزوروں ، مزدوروں کو روزگار اور تعلیم کے قرضے دینا اوّلین ذمّہ داری ہے۔
حالات و چالنجس کے اعتبار سے نئے نئے مزید مظبوط ملّی ، سماجی، فلاحی و رفاہی اداروں کے قیام کی شدید ضرورت ہے۔ جو جماعتوں ، مسلکی ، طبقاتی، علاقائی ، لسانی حد بندیوں سے نکل کر خالص ، انسانی ق ملّي بنیادوں پر مجبور و بے کس غریب مسکین لوگوں کی مدد کرتے ہوئے انہیں غربت و جہالت سے نکالنے کی بھر پور کوشش جاری رکھیں اسکے فقید المثال دور رس اثرات مرتب ہونگے اور ادارہ جاتی کام آئندہ آنے والی نسلوںمیں آسانی سے منتقل کیا جا سکے گا۔٭
( اسکالر، سینئر تجزیہ نگار، اوپینین لیڈر، کالمنویس اور سماجی جہد کار)