9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر
سكتے هیں۔
حفیظ نعمانی
آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے پندرہ سال تک ملک پر حکومت کی ان کو پہلا جھٹکا 1962 ء میں اس وقت لگا جب چین نے ملک پر حملہ کیا اور ہندوستان پسپا ہوکر دنیا کے سامنے شرمندہ ہوگیا۔ یہ شاید اسی کا اثر تھا کہ ایک سال کے بعد جب تین ضمنی الیکشن ہوئے جو شخصیت کے اعتبار سے اس لئے اہم تھے کہ پنڈت جی نے اپنی حکومت کے زمانہ میں ان میں سے کسی کو آسانی سے پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا یعنی آچاریہ کرپلانی، ڈاکٹر لوہیا اور مینو مسانی وہ تینوں آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے کانگریس کے وزیروں کو ہراکر پارلیمنٹ میں آگئے۔ یہ دوسرا جھٹکا تھا جس کے بعد انہوں نے دنیا چھوڑ دی۔
ملک کی اہم وزیراعظم ان کی بیٹی اندرا گاندھی نے بھی اتنی ہی مدت تک حکومت کی 1977 ء میں زبردست جھٹکا بھی برداشت کیا اور وہ اپنے ہی ایک غلط فیصلہ کے انتقام کا شکار ہوکر 1984 ء میں چلی گئیں۔
ان کے بعد سے ایسے دبدبہ کے ساتھ کوئی وزیراعظم نہیں آیا حالانکہ دس سال حکومت کرنے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی ہیں لیکن انہوں نے پورے دس سال ایسے گذارے کہ وہ نہ مسئلہ بنے اور نہ انہوں نے کوئی مسئلہ کھڑا کیا۔ آخری دو برسوں میں ان کی حکومت کو سازش کے تحت بدنام کیا گیا جس میں حزب مخالف بی جے پی کے ساتھ حکومت کے چند افسر بھی شریک ہوئے اور ماحول کو اتنا بگاڑا کہ پوری حکومت اتنی بدنام ہوئی کہ عام آدمی کو گھن آنے لگی۔
اور حکومت سے عام آدمی کی نفرت اتنی بڑھی کہ بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کئے ہوئے نریندر مودی کی ہر بات دل کی بات محسوس ہونے لگی۔ اور یہ تک کہا جانے لگا کہ پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی کے بعد اب تک نریندر مودی کے علاوہ کوئی تیسرا لیڈر نہیں آیا۔ مودی 56 اِنچ کے سینہ کے ساتھ سامنے آئے اور انہوں نے عوام کو جو کچھ دینے کا وعدہ کیا اسے سن کر ہی بدہضمی ہوگئی اور نتیجہ آیا تو وہ کانگریس جو دس سال سے حکومت کررہی تھی اسے 44 سیٹیں ملیں جب نریندر مودی نے حکومت شروع کی تو سارا حزب مخالف سانس روکے بیٹھا تھا۔ لوک سبھا کے اجلاس وقت پر شروع ہوئے اور بغیر شور شرابہ کے ہر بل کو پاس کرکے وقت پر ختم ہوگئے۔
نریندر مودی نے مخالفوں کو رعب میں لینے کیلئے اپنی پارٹی کے سب سے بڑے اور قابل لیڈروں اڈوانی جی اور جوشی جی کے ہاتھ میں مالا دے دی کہ جپتے رہو اور دور سے تماشہ دیکھو کالے بال والے راہل گاندھی کانپ گئے کہ جب وزیراعظم اپنے بزرگوں کے ساتھ یہ سلوک کررہے ہیں تو مخالفوں کے ساتھ نہ جانے کیا کریں گے؟ یہ کسی نے نہیں سوچا کہ بہروپ وقتی چیز ہے اور اصلیت ہر قیمت پر سامنے آجاتی ہے۔ اور پھر وہ بہروپ کا مکھوٹا اُترا پہلا غلط قدم انہوں نے نوٹ بندی کا اُٹھایا۔ بات بگڑی تو چیخ پڑے اور کہا کہ بس مجھے 50 دن دے دو اگر ملک کندن کی طرح نہ چمکے تو جس چوراہے پر چاہو کھڑا کرکے سزا دینا۔ اور ملک کندن کیا بنتا گوبر کا کنڈا بن گیا۔ یہ وہ فیصلہ تھا کہ اسے واپس نہیں لیا جاسکتا تھا تو دوسرا ایک ملک ایک ٹیکس کی آدھی رات کو پارلیمنٹ کے اندر نوٹنکی اس لئے کی کہ ملک جھوم اُٹھے اس نے زخموں پرمرہم کا کام کرنے کے بجائے نمک چھڑک دیا اور سارا کاروباری طبقہ چیخ پڑا کہ سب کے کاروبار چوپٹ ہوگئے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ مودی اور جیٹلی دونوں میں سے نہ کوئی مالیات سے واقف تھا نہ کاروبار سے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس مودی کو ہر آدمی پندرہ برس حکومت کے لئے دے رہا تھا وہی آدمی اب پندرہ دن بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔
2014 ء کے ابتدائی اجلاسوں میں جو راہل گاندھی سر جھکائے بیٹھے رہتے تھے وہی راہل چار برس کے بعد اپنی شعلہ بیانی کے ساتھ وزیراعظم کی کرسی کے سامنے جاتے ہیں اور کہتے ہیں اُٹھ کر گلے ملئے۔ وہی راہل کہتے ہیں کہ پندرہ منٹ مجھ سے آنکھ ملاکر بات کرکے دکھائیں اور وہی راہل کہتے ہیں کہ چوکیدار چور ہے۔ وہی راہل گاندھی مودی کے گھر گجرات میں گھس کر ان کی نیند اُڑا دیتے ہیں اور کرناٹک میں جہاں وزیراعظم اور امت شاہ جشن فتح منانے جاتے ہیں وہاں کانگریس نواز حکومت بناکر شرمسار کردیتے ہیں اور وہی راہل تین صوبوں کی ان کی حکومت حلق میں ہاتھ ڈال کر چھین لیتے ہیں اور انہیں اتنا کمزور کردیتے ہیں کہ وہ رام لیلا میدان سے اپنے کروڑوں ورکروں سے کہتے ہیں کہ اب یہ دماغ سے نکال دو کہ مودی آئے گا چناؤ جتادے گا مودی آئے گا حکومت بنوا دے گا مودی آئے گا سبء کو ہرا دے گا۔ سب کچھ بی جے پی ہے میں بھی اس کا ہوں تم سب کو بھی اس کا بننا ہے۔
وزیراعظم جو چار سال پہلے کانگریس کو موت کی نیند سلانے کی بات کرتے تھے راہل کا مذاق بناتے تھے پنڈت نہرو سے لے کر راجیو گاندھی تک سب پر اعتراض کرتے تھے جب رام لیلا میدان کی جادونگری میں تقریر کرنے کھڑے ہوتے ہیں تو آدھے گھنٹہ تک صرف کانگریس کا رونا روتے ہیں کہ کانگریس کوئی کام نہیں کرنے دے رہی حد یہ کہ جھوٹ پر جھوٹ یہ بھی کہ رام مندر کے مقدمہ کی سماعت میں سپریم کورٹ کی کارروائی نہیں چلنے دے رہے یعنی مودی وزیراعظم ہیں اور بے بس ہیں ان کے 280 ممبر ہیں مگر بیکار ہیں راہل کے 44 ممبر ہیں اور راہل کچھ نہیں ہیں مگر ملک میں وہ ہوتا ہے جو راہل چاہتے ہیں۔
اب 2019 ء کا الیکشن سامنے ہے تو سی بی آئی، آر بی آئی اور ہر ادارے کے اس افسر کو ہٹا رہے ہیں جو اُن کی ہیرا پھیری میں ساتھ نہ دے اور ہر مخالف کو جیل بھیجنے کی فکر ہے انتہا یہ ہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے دلت اور مسلم لڑکوں کو بھی چاہتے ہیں کہ سامنے نہ آئیں۔ لالو یادو کو تو بند کرا ہی چکے ہیں اب ان کی باری ہے جو مقابلہ کرکے نقصان پہونچا سکتے ہیں۔ وہ خود تو کہتے ہیں کہ مودی آیا مودی آیا نہ کرو اور وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ ہم تو مودی کے چہرہ سے الیکشن لڑیں گے امت شاہ کہتے ہیں کہ یوپی میں 74 سیٹیں آئیں گی 72 نہیں راج ناتھ سنگھ کہتے ہیں 72 سیٹیں آئیں گی اور گھیرا بندی اس کی ہورہی ہے کہ 12 سے زیادہ نہ آنے پائیں۔
9984247500