اکبر کیا ایک بے سواد بادشاہ تھا؟

0
412

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں

 

(مہدی نقوی(موسیٰ

ریسرچ اسکالر،علیگڑھ مسلم یونیورسٹی

تاریخ ہندوستان میں درج ایک مشہور ‘بات یہ ہے کہ مغلیہ سلطنت کی بنیادیں مضبوط کرنے والا بادشاہ اکبر (۱۵۵۶-۱۶۰۵)ایک نا خواندہ و ان پڑھ شخص تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا ایک جاہل انسان انچاس (۵۹)سال اتنی بڑی سلطنت پر حکومت کر سکتا ہے؟ یہ مضمون معاصر نوشتوں کی روشنی میںاسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی ایک کوشش ہے۔
۱۵۸۰میں اکبر کے دربار میں آئے پہلے پرتغالی عیسایی مشن کی قیادت کر رہے انٹونیو مانزریٹ نے اپنی تفسیر میں سب سے پہلے اس بات کو لکھا۔ان سے نقل ہے”اکبر پڑھ لکھ تو نہیں سکتا لیکن یہ بات بھی سچ ہےکہ اسکو علماء اور دانشور حضرات کی صحبت میں رہنا بہت پسند ہے”۔تیسرے پرتغالی مشن( ۱۵۹۵)میں آئےپادری زیویر بھی مانزرٹ کی تائید کرتے ہیں اور لکھتے ہیں “کیونکہ اکبر کی شروعاتی زندگی سیاسی لرزشوں سے بھری ہوئی تھی لہذا وہ اساسی تعلیم سے محروم رہ گیا”۔وہ جس بھی مقصد سے آئے ہوں لیکن اسکے ناکام ہو جانے کے بعد ان باتوں کو لکھنا اپنے آپ میں الگ بحث ہے۔قرون وسطی کےیوروپ میں ایسی تحریر کا عوام کے درمیان آنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں انگریزی حکومت کے دوران اس کو بڑھا چڑھا کر لکھا جانے لگا۔مثلاً وی ۔اے۔ سمتھ AKBAR THE GREAT MOGUL میں لکھتا ہے کہ “اکبر بچپن سے ہی کتابوں سے دور بھاگتا تھا اور اپنی زندگی کے آخری دن تک خود کا نام نہ پڑھ سکتاتھا اور نہ ہی لکھ سکتا تھا”۔بعد کے تاریخ کے جانکاروں نے اس حد تک تو نہیں لکھا لیکن اکبر کی ناخواندگی کا اعتراف ضرور کیا۔جہانگیر اپنی سوانح عمری تزک جہانگیری میں لکھتا ہے میرے پدر بزرگوار کو مختلف مذاہب کے علماء دانشور اور اہل فہم کی صحبت بہت پسند تھی لیکن پوری محفل میں کوئی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ وہ ایک امّی ہیں کیونکہ انکا طرز گفتگو و بیان اس معیار کا تھا کہ انکا یہ عیب آسانی سے ڈھک جاتا تھا”۔
جب نریندر ناتھ لاء کی کتاب PROMOTION OF LEARNING IN INDIA DURING MUHAMMADAN RULE شایع ہوئی اور اس کتاب کی حمایت میں کچھ مقالے نشر ہوئے تو تاریخ میں دفن اکبر کی ادبی زندگی اور علمی ذوق کے قصے سامنے آئے۔اکبر اور اسکے اجداد فقط علم کے قدر شناس ہی نہیں بلکہ خود خانوادہ تیموریہ میں بیشتر افراد علماء، ادیب اورمصنف رہے ہیں۔ حتی کہ اس خاندان کی خواتین نے بھی ادبی دنیا میں قلم سے اپنا لوہا منوایا ہے جن میں سے ہمایوں نامہ کی مولفہ اکبر کی پھوپھی گل بدن بیگم کا نام تاریخ میں آج بھی درج ہے۔
اسکے باوجود بھی کیا ایسا ممکن ہے کہ اکبر کو اس کی بنیادی تعلیم سے محروم رکھا گیا ہو؟ابوالفضل اکبر نامہ میں لکھتے ہیں کہ جب بادشاہ چار سال چار مہینے چار دن کے ہوئے تو انکی بسم اللہ خوانی کی رسم ادا ہوئی اور عربی کے مشہور و معروف استاد ملّا احسان الدین ابراہیم کی شاگردی میں اکبر کو بھیج دیا گیا۔درس صرف و نحو کے بعد ہمایوں نے دیگر قواعد سکھانے کیلئے ملّا عبدالقادر کو مقرر کیا۔ابوالفضل لکھتے ہیں کہ کچھ سال درس دینے کے بعد وہ مکہ واپس لوٹ گئے۔جب بیرم خان اکبر کے اتالیق بنے تو انہوں نے میر عبداللطیف قزوینی کی شاگردی میں اکبر کو دے دیا۔تاریخ میں ملتا ہے بادشاہ انکی صحبت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور صلح کل جیسی فکر کا سامنے آنا انکے ہی درس کا نتیجہ تھا۔البتہ بدایونی اور ابولفضل دونوں لکھتے ہیں اکبر نے انکے حضور مثنوی اور دیوان کا مطالعہ کرنا سیکھا۔دھیرے دھیرے بادشاہ کا دل تصوف کی جانب مائل ہو گیا۔کچھ معاصر مطبوعات جیسے تاریخ فرشتہ،عبد الباقی نہوندوی کی معاصر الامراء اور نظام الدین احمد کی طبقات اکبری میں ملّا پیر محمد،حاجی محمد خان،اور مولانا علاالدین جیسے اکبر کے اساتذہ کے نام ملتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جہانگیر نے اپنے پدر بزرگوار کو کس معنی میں امّی لکھا؟اگر لغوی معنی لیا جائے تو اکبر ظاہرا بے سواد تو نہیں معلوم ہوتا۔ممکن ہے دوسرے بچوں کی طرح اس کو مدارسی تربیت نہیں مل پائی یایہ کہ سولہویں صدی کے آتے آتے فارسی مقامی اور عربی اشرفیہ زبان ہو چکی تھی ،اور اشرفی زبان بولنے سے معذور لوگوں کو امّی کہا جاتا ہو؟اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایسے کئی چھوٹے چھوٹے واقعات ملتے ہیں جن سے ہمیں اکبر کے علمی ذوق کا پتہ چلتا ہے۔ابوالفضل لکھتے ہیں کہ بادشاہ سونے سے قبل کچھ دیر کتابوں کا مطالعہ کرنا پسند کرتے تھے اور خوابگاہ میں جانے سے پہلے کتاب کے اس آخری صفحہ پر دن تاریخ لکھکر نشان لگا دیا کرتے تھے۔تاریخ میں روشن ہے کہ اکبر کو خطاطی اور خوش نویسی کا بے حد شوق تھا۔بادشاہ کی سرپرستی میں اس کا ایک دفتر تھا جس میں ہندوستان بھر کے مشہور و معروف فنکاروخطاط ملازم تھے۔عبد الحق،محمد حسین، ادریس اور منشی جیسے مقبول نام تاریخ نے لکھے۔محمد حسین کے کام کو دیکھ کر انکو ‘ـ’زرین قلم‘ کے لقب سے نوازا گیا۔عبد الباقی نہوندوی لکھتے ہیں کہ جب عبد الرحیم کو گجرات صوبے کا حاکم بنایا گیا اور خان خانان کا لقب دیکر سرفراز کیا تو اسی فرمان پر بادشاہ نے خط طغرا میں دستخط کیے۔اس سے ظاہر ہوتا ہےکہ اکبر صرف لکھنا ہی نہیں جانتا تھا بلکہ مختلف خط سے بھی وابستہ تھا۔یہی نہیں،اکبر کے زیر نگرانی و سرپرستی میں چل رہے عظیم دفتر ترجمہ خانہ کو دیکھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ مختلف علوم کا کتنا بڑا قدر شناس تھا۔جب مہابھارت کا فارسی میں رزم نامہ کے عنوان سے ترجمہ ہوا تو بادشاہ نے خود بعض حصّوں کی اصلاح فرمائی۔
مذکورہ بالا بیانات سے ظاہر ہے کہ اکبر کو بے سواد بادشاہ نہیں کہا جا سکتا۔تاریخ پر پڑے سینما کے کالے پردے اورسیاست کی کرسی کےنیچےدبی تاریخی کتابیں اگر ہٹا دی جائے تو ایسی کتنی سچائیوں سے معاشرہ کو آگاہ کیاجا سکتا ہے۔
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here