اپنے ستم بھی تو کم نہیں ہیں !

0
181

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 


 

ڈاکٹر مشاق احمد

اس وقت جب پوری عالمِ انسانیت نفسا نفسی کے عالم میں ہے اور کورونا جیسی مہلک وباء سے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے کہ قدرت کے سامنے تمام تر انسانی تحقیقات وایجادات بے معنی ہوگئے ہیں۔ بالخصوص ان ممالک کے لئے اس قدرتی وباء نے یہ پیغام دیا ہے جو دنیا میں ظلم وستم کا بازار گرم کئے ہوئے تھے اور حقوق انسانی کی پامالی ان کا وطیرہ بن گیا تھا۔واضح ہو کہ جب کبھی اس سرزمین پر ایک انسان دوسرے کے لئے مضر بن جاتا ہے تو پھر قدرت اسی طرح کی مشکلات میں پورے انسانی معاشرے کو مبتلا کر دیتی ہے تاکہ انسان یہ سبق سیکھ سکے کہ انسانی ہمدردی اور اس کے حقوق کی ا دائیگی کے بغیر دنیا نہیں رہ سکتی ۔ آج امریکہ ، اسپین، فرانس، جرمنی ، اٹلی جیسا ملک جو ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے اور خصوصی طورپر امریکہ جو پوری دنیا میں سوپر پاور کہلاتا ہے وہ اس کورونا کی سب سے زیادہ مار جھیل رہاہے ۔ لیکن باوجوداب بھی اس انسانی معاشرے میں زہر گھولنے والوں نے سبق نہیں لیا ہے ۔خاص کر اپنے وطن عزیز ہندوستان میں اس کورونا کی وباء کی آمد کے ساتھ ہی جو فرقہ وارانہ سازشیں شروع ہوئیںوہ ہنوز جاری ہیں۔ملک کے بیشتر ٹی وی چینلوں پر اس قدرتی وباء کی مشکلات کو حل کرنے میں حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جانے لگا ۔ تبلیغی جماعت کے تعلق سے جس طرح کی افواہیں پھیلائی گئی ہیں وہ نہ صرف ایک خاص جماعت کی شبیہ کو مسخ کرنے کی سازش ہے بلکہ پورے مسلم معاشرے کی تباہی کا سامان پیدا کردیا گیاہے اور نتیجہ سامنے آنے بھی لگا ہے کہ شہر سے لے کر دیہی علاقوں تک فرقہ واریت کا زہر پھیل گیا ہے ۔دہلی میں ایک سبزی فروخت کرنے والے کا نام پوچھ کر اس کی پٹائی کی جاتی ہے کہ وہ نوجوان ایک مسلمان ہے۔ کئی جگہوں سے خبریں آرہی ہیں کہ دیہی علاقوں میں مسلم مزدوروں کو کام نہیں دیا جا رہاہے۔ یہ موسم فصل کی کٹائی کا ہے اور فصل کاٹنے والے مزدوروں کی زندگی بھی دو بھر ہوگئی ہے کہ اکثر جگہوں پر بڑے مالکان مسلم مزدوروں کو کام دینے سے پرہیز کر رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اب بھی کئی ٹی وی چینلوںپر دن رات یہ افواہ جاری ہے کہ ملک میں کورونا کو پھیلانے میں مسلمانوں کا ہاتھ ہے بلکہ اب تو ایک سازش بھی قرار دی جارہی ہے ۔ اگرچہ جمیعت العلماء کی جانب سے عدالتِ عظمیٰ میں رِٹ داخل کی گئی تھی لیکن عدالتِ عظمیٰ نے اس طرح کے زعفرانی ٹی وی چینلوںپر فوراً روک لگانے سے انکار کردیا ہے اور آئندہ سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ نتیجہ ہے کہ تمام تر زعفرانی ذہنیت کے ٹی وی چینلز دن رات مسلمانوں کے خلاف زہر اُگل رہے ہیں ۔ بعض جگہوں پر پولیس نے نکیل کسنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کا اثر محدو دہے ۔ اگر واقعی تبلیغی جماعت سے کوئی چوک ہوئی ہے تو اس کی جانچ چل رہی ہے اور اس جماعت کے خلاف قانون اپنا کام کرے گا ۔ لیکن جس طرح کورونا جیسی وباء پر قابو پانے کے اقدامات پر تبصرہ کرنے یاحقیقی تصویر پیش کرنے کی ضرورت تھی اس سے زیادہ مسلم طبقے کو اس قدرتی وباء کے لئے موردِ الزام ٹھہرایا جا رہاہے جواس ملک کی سا لمیت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے ۔
افسوس صد افسوس کہ کسی بھی ریاست یا مرکزی حکومت کی طرف سے اس طرح کی افواہوں پر روک لگانے کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے ۔ گذشتہ کل ممبئی کے باندرہ میں ہزاروں مزدور محض اس لئے سڑکوں پر نکل پڑے کہ انہیں اپنے گھر لوٹنا تھا اور شاید یہ خبر پھیل گئی تھی کہ لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد ان مزدوروں کو اپنے اپنے گھر لوٹنے کی اجازت دی جائے گی ۔اگرچہ صبح دس بجے ہی وزیر اعظم نریندر مودی کے خطاب کے ساتھ یہ واضح ہو گیا تھا کہ لاک ڈائون کی مدت میں توسیع کردی گئی ہے اور اب آئندہ تین مئی تک یہ جاری رہے گا لیکن وہ مزدور جو بیس دنوں سے طرح طرح کی مشکلوں کا سامنا کر رہے ہیں انہیں ان کی بھوک پیاس نے سڑکوںپر نکلنے کے لئے مجبور کردیا ۔ لیکن جس طرح اس واقعے کو بھی مسلمانوں سے جوڑنے کی سازش کی گئی اور افواہ پھیلائی گئی اس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ملک میں ایک طرف حکومت کی جانب سے کورونا پر قابو پانے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور عوام الناس اس وباء سے نجات پانے کے لئے لاک ڈائون کی حمایت میں ہے تو دوسری طرف ایک خاص ایجنڈے کے تحت مسلمانوں کے خلاف ملک میں نفرت کی فضا قائم کرنے کی سازش چل رہی ہے ۔ ملک کے اکّا دُکاّٹی وی چینل یا پھر سوشل میڈیا کے جو انصاف پسند سائٹ ہیں وہ اس فرقہ واریت کی مذمت کر رہے ہیں اور ملک کے سامنے حقیقی تصویر پیش کر رہے ہیں کہ کس طرح دہلی، ممبئی اور احمد آباد جیسے بڑے شہروں میں یومیہ مزدوروں کی زندگی پریشان کن ہے ۔ گجرات کے احمد آباد میں بھی ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے ۔ ظاہر ہے کہ بھوک اور پیاس انسان کو نہ صرف خود کشی کرنے پر مجبور کرتی ہے بلکہ اس کے اندر کا غم وغصہ کسی قانون اور پابندی سے لا پرواہ بھی بنا دیتی ہے اور آج ملک میں یہی تصویر دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ اس پر حکومت قابو پانے کی کوشش کس طرح کر رہی ہے وہ بھی عیاں ہے کہ اگر رضا کار تنظیموں کے ذریعہ مختلف شہروں میں مزدوروں کو کھانے پینے کے سامان مہیا نہیں کرائے جاتے تو کورونا سے زیادہ بھوک مری سے مزدور مر چکے ہوتے۔
بہر کیف! اس قدرتی آفات میںہرشخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی جان کی حفاظت کے ساتھ دوسروں کے لئے بھی معاون بنیں اور بالخصوص یومیہ مزدور جس کی زندگی اس وقت سب سے زیادہ مشکل میں ہے اس کے لئے آسانیاں پیداکریں۔ مسلمانوں پر تو یہ فرض پہلے سے عائد ہے کہ اگر اس کاپڑوسی بھوکا ہے تو اس پر کھانا حرام ہے اوریہاں پڑوسی کا کوئی مذہب واضح نہیں ہے ۔ غرض کہ اسلام مذہبِ انسانیت کا پیغام دے رہا ہے ۔ مگرافسوس ہے کہ مسلم معاشرے سے جو تصویر سامنے آرہی ہے وہ بہت ہی تکلیف دہ ہے ۔ پہلی تصویر ممبئی سے آئی تھی کہ وہاں ایک مسلم نعش کو ایک قبرستان انتظامیہ نے دفن کرنے نہیں دیا اور مجبوراً اسے نذرِآتش کیا گیا۔ دوسری تصویر ریاست جھارکھنڈ کے رانچی سے آئی ہے کہ وہاں بھی ایک نعش کو دفنانے میں کس طرح کی مشکلیں پیش آئیں اورکئی قبرستانو ں میں میت کو دفن کرنے نہیں دیا گیا ۔ بڑی مشکلوں کے بعد انتظامیہ کی مداخلت کے بعد ایک قبرستان میں دفن کیا گیا ۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ ایک طرف پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی فضا قائم کی جا رہی ہے تو دوسری طرف مسلم معاشرہ خود بھی کئی طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہے اور اب بھی مسلکی اور طبقاتی ذہنی تعصبات وتحفظات سے باہر نہیں آیا ہے ۔ جب کہ یہ قدرتی وباء ہمارے لئے ایک امتحان اور اپنے اعمال کے محاسبہ کا وقت ہے۔ یاد رکھئے کہ آج خود ہم نے ایک نعش کو قبرستان میں دفن نہیں کرنے دیا اور اسے نذر آتش کیا گیا ہے ، کل دوسرے لوگ یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ جب آپ خود قبرستانوں میں مسلم نعش کو دفن نہیں کرنے دیتے اور نذر آتش کرتے ہیں تو ملک میں ہزاروں ایسی متنازعہ قبرستانوں کو کیوں نہ ختم کردیا جائے۔ایسی صورت میں ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟ ۔یہ لمحۂ فکریہ ہے اور اس پرتمام مسلک کے لوگوں کو غوروفکر کرناہے کہ اب ہندوستان میں جس طرح کی فضا تیار ہوگئی ہے اس میںہمیںکس طرح سانس لینا ہے اس کا نسخہ خود ہی تیار کرنا ہوگا اوراس کے لئے جد وجہد بھی کرنی ہوگی ۔ ہم پرغیروں کے ستم کا سلسلہ تو جاری ہی ہے لیکن یہ اپنوں کے ستم بھی کم نہیں ہیں کہ یہ صرف حال کی دردناک تصویر نہیں ہے بلکہ مستقبل کا بھیانک نقشہ بھی ہے۔علامہ اقبالؔ نے کیا خوب کہا تھا ؎
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اورنہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
موبائل: 9431414586

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here