[email protected]
9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر مجاہد الاسلام
اسسٹنٹ پروفیسر
فِلپ گیدلا کا قول ہے۔
’’خود نوشت سوانح نگاری ایسا علاقہ ہے جس کے شمال میں تاریخ، جنوب میں افسانہ طرازی، مشرق میں تعزیت نگاری اور مغرب میں کوفت اور ناگواری کے علاقے پائے جاتے ہیں۔‘‘
اس کے باوجود دیکھا گیا کہ ا کثر خود نوشتیں یک پہلو ہوتی ہیں ،جس میں مصنف کی خود اپنی ذات و صفات کا بکھان ہوتا ہے اس میں کسی اور کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ اس کی تعریف میں بھی کچھ لکھا جا ئے اس طرح سے اپنی آپ بیتی لکھنے والا ایک طرح سے فوق البشر یا سپر مین دکھائی د ینے لگتا ہے جو ہر طرح کی بشری کمزوریوں سے مبرا و منز ہ اور سامنے والا خطا و نسیان کا پلندہ ہوتا ہے۔ اردو میںایسی خود نوشت سوانح عمریوں کی تعداد بہت کم ہے جس میں کہ مصنف نے اپنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنی خامیوں کا بھی تذکرہ کیا ہو۔میں یہاں پر پروفیسر قاضی عبدالستار کے حوالے سے ایک مغربی ادبی نقاد کا قول دہرانا چاہتا ہوں:
’’جھوٹ کی جتنی بھی قسمیں ممکن ہیں وہ سب خود نوشت میں موجود ہوتی ہیں‘‘۔(قاضی عبدالستار :اسرار و گفتار:راشد انور راشد۔عرشیہ پبلیکیشنز۔دہلی سن اشاعت 2014۔ص199)
فی الوقت مجھے پروفیسر آل احمد سرور کی خود نوشت ’’خواب باقی ہیں‘‘ پرکچھ کہنا ہے۔یہ کتاب کم و بیش373 صفحات پر مشتمل ہے اس مختصر سے وقت میںاس پوری کتاب پر تنقید و تبصرہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے پھر بھی چند ایک اہم باتیں جس کا اس کتاب میں تکرار و تواترکے ساتھ ذکر ملتا ہے اس کا میں یہاں پرجائزہ لینا مناسب سمجھتا ہوں۔ اور پھر یہ باتیں اس قابل بھی ہونگی کہ کتاب کی بقیہ باتوں کو اسی پر قیاس کر لیا جائے۔
سرورؔ صاحب کے خاندانی حالات کا بہت کچھ تذکرہ نہ کرکے میں یہاںپر ان کے ماموں جو بعد میں ان کے خسر بھی ہوئے ان کی معاملہ فہمی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ اکیسویں صدی میں ان کی یہ باتیں ان کے خسر کے حق میں جائیں گی یا ان کے خلاف ۔وہ لکھتے ہیں:
’’میرے خسر میرے رشتے کہ ماموں ہوتے تھے ۔رحمٰن بخش قادری صاحب نے سینٹ جانس کالج میں تعلیم پائی تھی ۔بی اے کرنے بعد ڈپٹی کلکٹر ہو گئے تھے نہایت نیک نام اور منتظم افسر تھے ۔جہاں رہے مقبول رہے ۔حکومت کے ایک فرد ہونے کے باوجود وہ حکومت کے پٹھو نہ تھے ۔جب سہارن پور میں ڈپٹی کلکٹر تھے بھگت سنگھ کو پولس نے گرفتار کر لیا ۔جیسا کہ پولس کا قاعدہ ہے اس نے اس کے پاس سے کچھ اسلحے بھی برآمد کئے جو واقعی موجود نہ تھے۔قادری صاحب نے پولس کے بیان کو ماننے سے انکار دیا ۔وہ جیل میںسرکاری وزیٹر بھی تھے ۔جب بھگت سنگھ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے یہ سمجھ کر یہ ہمارے ہمدرد ہیں ان سے ایک خط باہر لے جانے کو کہا ۔خط لے جانے سے انہوں نے انکار کردیا مگر بھگت سنگھ کی شکایت نہ کی ۔‘‘ (خواب باقی ہیں: آل احمد سرورؔ۔ایجو کیشنل بک ہائوس ،علیگڑھ۔سن اشاعت۔2000 ص111)
سرور صاحب کا پیشہ درس تدریس ہے پہلے انہوں نے انگریزی میں ایم اے کیا پھر اردو میںاس طرح سے انہوں نے پہلے کچھ دنوںانگریزی میں تدریسی خدمت انجام دی پھر اردو میں مستقل طور سے آگئے۔اردو میں خاص طور سے لکھنئو ،رام پور، علی گڑھ اور پھرآخر میں کشمیر ان کا میدان کار رہا۔
سرور صاحب نے شاعری بھی کی ، تنقیدیں بھی لکھی اگر وہ چاہتے تو اچھی شاعری بھی کر سکتے تھے مگر انہوں نے تنقید کو ترجیح دی اور یہی چیز ان کی وجہ شہرت بھی بنی۔وہ ادب و تنقید کی تخلیق کے لئے ہمہ جہت مطالعہ کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔اس ذیل میں وہ بار بار ہڈسن کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں:
’’وہ انگریزی ادب کیا جانتا ہے جو صرف انگریزی کو جانتا ہے ‘‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے سرورؔ صاحب آگے مزید لکھتے ہیں ۔’’ اردو ادب کا عرفان حاصل کرنے کے لئے ہمیں اردو کے علاوہ فارسی ادب ،ہندی ادب اور انگریزی ادب کا علم ہونا ہی چاہیے ۔اس کے علاوہ ہندوستانی ادبیات کے جدید میلانات کا بھی ۔ادبی تخلیق ایک خاص فضا میں وجود میں آتی ہے اور یہ فضا اتنی اکہری نہیں جتنی عام طور پر سمجھی جاتی ہے۔ ‘‘ (ایضا ص265)
ان کی ان باتوں کی ان کے مندرجہ دعووں سے بھی تصدیق ہوتی ہے:
’’کالج میں اگر چہ سائنس کا مگر اردو اور انگریزی اد ب کا بھی مطالعہ کرتا رہا اب تک یاد ہے کہ فرسٹ ایر میں میں نے ہارڈی کے کئی ناول پڑھے اور Jude the obscure پڑھ کر تو میں رو دیا تھا ۔مطالعے میں کوئی ترتیب نہ تھی ۔انگریزی فکشن میں ڈکنس،جین آسٹن ،اسکاٹ کالج میں پڑھ چکا تھا ،برناڈشا کے بہت سے ڈرامے بھی۔ایک انگریزی استاد نے ہڈسن کی Green Mansionsبڑی تعریف کے ساتھ عنایت کی کہ اسے پڑھ ڈالو پڑھا تو وادی امیزن کے پر اسرارجنگلوں نے مبہوت کردیا ۔رایڈہیگیزڈکے کئی ناول پڑھ ڈالے ۔فرسٹ ایر میں کالج والے ہر طالب کو عہد نامہ جدید New Teestamentکا ایک نسخہ عطا کرتے تھے وہ اکثر میرے زیر مطالعہ رہتا ۔خصوصاًSermon on the mount تو یاد ہوگیا۔‘‘((خواب باقی ہیں: آل احمد سرورؔ۔ایجو کیشنل بک ہائوس ،علیگڑھ۔سن اشاعت۔2000 ص )
ایک دوسری جگہ مزید لکھتے ہیں:
’’پھر جب کوئی اچھی ناول یا تنقید کی کوئی کتاب آتی تو سب اسے باری باری پڑھتے اور اس پر رائے زنی کرتے۔یاد پڑتا ہے جرمن ناول نگار ایک زمانے میں ہمارے حلقے میں بہت مقبول تھے ،ٹامس مان۔واسر مان سٹیفان ،زویگ۔فخت وانگراس وقت یاد آتے ہیں۔فرانس کے کئی ناول نگاروں کا مطالعہ بھی اسی زمانے میں کیا غرض کئی سال میں یورپی ادب کے ترجموں ،روسی ناول،انگریزی تنقید کا بھی کچھ علم ہو گیا۔ (ایضاً۔ص 108)
اس کتاب میں جہاں ادب و فن پر خامہ فرسائی ملتی ہے وہیں متعدد ادباء و شعراء کا ذکر بھی ملتا ہے ۔ اچھی شاعری کیا ہے اس ذیل میں موصوف رقمطراز ہیں:
’’اچھی شاعری وہ ہے جو ذہن میں چراغاں کردے،جو مانوس جلووں کا تازگی اور تازگی کو مانوسیت عطا کرے۔جو زبان کے اپنے مخصوص استعمال سے ،اپنی تہ داری سے اپنے ابہام سے اپنی دریا کو کوزے میں سمو دینے کی صلاحیت سے ،ہمیں زندگی کے حسن اور اس کے نیرنگ ،اس کے تضادات اور اس کی پنہائی سے آشنا کردے،وہ ہمیں زیادہ حساس ،زیادہ مہذب بنادے۔وہ ہمیں ہر منظر سے آنکھ چار کرنے جرأت عطا کرے وہ ہمیں بہتر انسان بنا دے ۔شاعر انقلاب نہیں لاتی ،ذہنی انقلاب کے لئے فضا تیار کرتی ہے یہ تلوار نہیں ہے نشتر ہے۔‘‘(ایضاً 334)
اسی طرح وہ انتظار حسین کے افسانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’انتظار حسین ڈبائی کے رہنے والے ہیں ۔میرٹھ میں تعلیم پائی ۔تقسیم بعد پاکستان آگئے یہ اخبار مشرق میں کالم نویش ہیں ۔ناصر کاظمی سے ان کی گہری دوستی تھی ان کے افسانوں میں اکثر ہجرت کو موضوع بنایا گیا ہے یہ ہندوستانی دیو مالا اور واقعات کر بلا دونوں سے متاثر ہیں ۔داستان گوئی کے طرز بیان سے انہوں نے بہت فائدہ اٹھایا ہے ۔کنگا اور فرات کے درمیان پل بنانے کی سعی ان کے یہاں خاصی نمایاں ہے ،زبان کے ٹخلیقی برتائو سے ان کے افسانوں میں بڑی جان آگئی ہے یہ کم گو آدمی ہیں مگر تحریر میں دل کی بات کہہ جاتے ہیں اس دور کے افسانہ نگاروں میں ان کا درجہ بہت بلندہے۔‘‘(ایضا ً~273)
خلیل الرحمٰن اعظمی کا ذکر وہ اس طرح کرتے ہیں:
’’ خلیل الرحمٰن اعظمی نے بی اے کی تعلیم کے زمانے میں آتشؔپر کچھ مضامین لکھے تھے جو نگار میں شائع ہوئے تھے ۔نیاز صاحب سمجھتے تھے کہ یہ کوئی پختہ کار ادیب ہونگے ،مگر جب اس نوجوان کو دیکھا تو انہیں بڑی حیرت ہوئی، اس حیرت کا اظہار بعد میں انہوں نے مجھ سے بھی کیا تھا۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کے لئے جو مقالہ لکھا تھا اس میں ترقی پسند تحریک کا تنقیدی جائزہ لیا گیا تھا ۔مجنوں گورکھپوری نے اس مقالے کی بہت تعریف کی تھی ،ان کو خون کینسر ہو گیا تھا ۔انتقال کے وقت ان کی عمر پچاس سال سے کچھ زیادہ رہی ہوگی انہوں نے نہ صرف کلاسیکی اردوادب کا ہی دقت نظر سے مطالعہ کیا تھا بلکہ ہم عصری ادب کے ہر رنگ پر بھی ان کی گہری نظر تھی ،خصوصاً رسالوں میں جو اہم تخلیقات شائع ہوتی رہتی تھیں ان کے متعلق ان کی معلومات حیرت انگیز تھی۔ میری ادارت کے دور میں ان کے بہت سے فکر انگیز مضامین ’’ہماری زبان ‘‘میں شائع ہوئے تھے ۔نئی شاعری کا سفر کے نام سے انہوں نے اردو شاعری کا ایک بہت اچھا انتخاب بھی کیا تھا جو مکتبہ جامعہ نے شائع کیا تھا ان کی نظمیں اور غزلیں دونوں ہماری جدید شاعری کے ایک اہم رنگ کی ترجمان اور ان کی تنقیدیں ایک فن کار کی تنقیدی بصیرت کا بڑا قابل قدر نمونہ کہی جا سکتی ہیں۔‘‘ (ایضاً۔ص 257)
مگر جب اپنے لکھنئو یونیورسٹی کے رفیق کا ر مسعود حسن رضوی ادیب اور احتشام کا ذکر کرتے ہیں تو اس طرح:
مسعود حسین رضوی صاحب تو یونیورسٹی کے جلسوں میں کم جاتے تھے استادوں کی انجمن اور طلباء کی یونین سے انہیں دلچسپی نہ تھی ۔احتشام طلباء کی علمی و ادبی سرگرمیوں میں ضرور معاون رہتے اور بس۔‘‘ (ایضاً۔ـص 126)
’’کچھ عرصے بعد جب میں نے یہ تجویز پیش کی کہ بی اے میں اردو کا نام اردو مع فارسی غلط ہے یہ صرف اردو ہونا چاہیے اور فارسی کے پرچے کو لازمی رکھنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس میں پاس ہونے کی شرط کو مضمون میں پاس ہونے کی شرط قرار دینا غلط ہے تو احتشام گو اس کے حق میں تھے مگر مسعود صاحب کی وجہ سے خاموش رہے اور میری تائید نہ کی (ایضاً۔ ‘‘ص 148)
علی گڑھ کے وائس چانسلرڈاکٹر ضیاء الدین کے بارے یوں رقمطراز ہیں:
’’ڈاکٹر ضیاء الدین علی گڑھ کے بہت سے اشخاص کے ہیرو رہے مگر ان کے علمی ریکارڈاور علی گڑھ سے ان کی محبت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی میں ان کا معتقد نہ ہو سکا ڈاکٹر ضیاء الدین بہت ان تھک آدمی تھے مگر اصولوں کے زیادہ قائل نہ تھے اور شعر و ادب کی ان کے نزدیک صرف یہی اہمیت تھی کہ معزز مہمانوں کے سپاسنامے اور قصیدے اردو میں ضروری سمجھے جاتے۔۔۔۔اپنے ماتحتوں سے مکمل وفاداری چاہتے تھے۔‘‘(ایضاً۔ ص 301)
۔ کلیم الدین احمد نے ساٹھ کی دہائی میں سرورؔ صاحبب کے بارے میں لکھا تھا :
’’فراق کی ’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘پر ریویو کرتے ہوئے میں نے کہا تھا’فراق اچھے غزل گو شاعر ہیں لیکن اس کتاب میں اگر وہ اپنے اشعار نقل نہ کرتے تو اچھا ہوتا ،ہر جگہ میرا شعر ہے ،مجھے اپنا ہی شعر یاد آیا ،میں نے اپنے شعر میں کہا ہے ،راقم الحروف،اپنے کچھ شعر حاضر کرتا ہوں یا پھر میرے ہی یہ اشعار وغیرہ دیکھ کر ذوق لطیف مکدر ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ خود نمائی اچھی بات نہیں اور فراق ؔ جیسے پڑھے لکھے اور سمجھدار آدمی کو یہ خود نمائی بہت بڑی لگتی ہے۔اس قسم کی خود نمائی اور خود ستائی نو جوان لکھنے والوں میں عام ہے ۔مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سرور صاحب بھی جو فراقؔ سے زیادہ سنجیدہ ہیں اس قسم کی باتیں کرتے ہیں اور ایک دفعہ نہیں بار باراس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔‘‘(اردو تنقید پر ایک نظر:کلیم الدین۔بک امپوریم،سبزی باغ ،پٹنہ۔ص200)
افسوس کہ کلیم الدین احمد کی ان باتوں سے سرور نے2000عیسوی میں بھی اپنی خود نوشت تحریر کرتے وقت کچھ بھی نہیں سیکھا۔کہا جاتا ہے کہ غالب کی جب تنقید ہوئی تو انہوں نے اپنے کلام کے ایک حصے کو ہی القط کر ڈلا،سرور صاحب یہاں پر ہم کو ہٹھ دھرم اور ضدی سے نظر آتے ہیں ہیں۔
اس طرح کے اقتباسات و جملوں سے تواتر کے ساتھ ہمارا سابقہ پڑتا ہے :
1936 ء سے ریڈیو پر میری تقریں نشر ہونے لگی تھیںاور عام طور پر ادبی حلقوں میں انھیں پسند کیا گیا تھا ۔میں نے 1942چند منتخب تقریروں کا مجموعہ ’’تنقیدی اشارے ‘‘کے نام سے شائع کیا تھا۔مولوی عبد الحق نے رسالہ اردو میں اس پر بہت اچھا ریویو کیا ۔علی گڑھ ہی میں تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ ’’ نئے اور پرانے چراغ ‘‘کے نام سے مرتب کرکے شاہ برادرس آگرے کو دے دیا تھا یہ 1946میں شائع ہوا ۔مولوی عبدالحق نے عزیر احمد کا نئی اردو شاعری کا انتخاب’’ انتخاب جدید‘‘ کے نام سے میری رائے کے لئے بھیجا تھا جب میں نے اس کچھ اور اضافے کی تجویز کی تو مولوی صاحب نے پورے انتخاب پر نظر ثانی کرنے کے لئے مجھ سے کہا اور میں 1944میں یہ انتخاب انجمن سے عزیر احمداور میرے نام سے شائع ہوااس میں 1914سے جوتھی دہائی تک کی شاعری کا انتخاب آگیا تھا۔‘‘(خواب باقی ہیں: آل احمد سرورؔ۔ایجو کیشنل بک ہائوس ،علیگڑھ۔سن اشاعت۔2000 ص 257)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے ریڈیو اسٹیشن پہنچنے میں دیر ہوگئی دروازے پر پہنچا تو رشید احمد اسٹیشن دائرکٹر نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم لوگ تقریباًدوڑتے ہوئے ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوئے تو میرا نام اورتقریر کا عنوان نشر ہو رہا تھا ۔میں بری طرح ہانپ رہا تھا ۔رشید احمد نے اشارے سے دم لینے کو کہا چند سکنڈ کی خاموشی کے بعد میں نے بہت آہستہ تقریر شروع کی ۔دو ایک منٹ بعدعام رفتار سے بولنے لگا ۔شکر ہے کسی کو اس کا احساس نہیں ہوا ۔‘‘(ایضاً ص 115)
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’چند ماہ بعد جامعہ کی جوبلی ہوئی ۔اس میں لکھنئو سے ڈاکٹر عبد العلیم نور الحسن ہاشمی اور میں نے شرکت کی تھی ۔میں نے ’تنقید کیا ہے‘؟ کے عنوان سے مجلس مقالات میں ایک مقالہ بھی پڑھا تھا ۔جوبلی بڑی شاندار ہوئی تھی ۔اس میں جواہر لال نہرو ،محمد علی جناح ،مولانا ابوالکلام آزاد ،راج گوپال اچاری نے بھی شرکت کی تھی نواب بھوپال صدر جلسہ تھے۔‘‘ (ایضاً۔ ص117)
اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’جگرصاحب کے کلام کا دوسرا مجموعہ ’’آتش گل ‘‘ کے نام سے اسی زمانے میں چھپا تھا اس پر رشید صاحب کا پیش لفظ اور میرا دیباچہ تھا ۔‘‘ (ایضاً۔ ص133)
یہاں پریہ اقتباس بھی دیکھا جا سکتا ہے:
’’مولانا عبدالماجد شذرات بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے ۔ایک دفعہ ان کی کتاب ’محمد علی ایک ذاتی ڈایری ‘پر ریڈیو کے لئے میں نے ایک ریویو لکھا ،پہلا جملہ یہ تھا’مولانا پرستار ہیں پارکھ نہیں ‘دائرکٹر نے اس پر اعتراض کیا ۔مولانا ماجد اس وقت ریڈیو کی مشاورتی کمیٹی کے ممبر تھے اور ڈائرکٹر انہیں ناراض نہ کرنا چاہتا تھا ۔میں نے کہا یہ ایک ادبی تبصرہ ہے یہ رہے گا ورنہ تقریر نہ ہوگی۔بہرحال جملہ رہا اور تقریر بھی ہوئی۔‘‘ (ایضاً۔ ص134)
’’مسعود حسن رضوی کبھی کبھار لکھنئو کے شعراء کا ذکر بڑے لطف سے کرتے تھے ایک دفعہ انہوں نے بڑی تعریف کے ساتھ ثاقب ؔلکھنوی کا یہ شعر شنایا :
آپ کا تھا گناہ گار ،میں ،نہ برق و باد کا
جس پر مزار تھا مرا ،اب وہ زمین صاف ہے
مجھے اس شعر میں روایتی رنگ نظر آیا۔میں نے اس زمین میں غزل کہی اور انہیں سنائی اس غزل کا مطلع اور ایک شعر لکھتا ہوں۔
مجھ کو گلا نہیں اگر سارا جہاں خلاف ہے
آپ تو مہربان ہیں ،آپ کا دل تو صاف ہے
سود و زیاں کا ذکر کیا جب ہو جنوں کا کاروبار
آج ہیں سب کو الجھنیں ،میرا حساب صاف ہے
مسعود صاحب نے بھی ان اشعار کی تعریف کی تھی
انیس کا ایک شعر مجھے بہت پسند ہے اور اکثر پڑھتا ہوں ؎
انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جائو
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
پھر میں نے اس کا پہلا ،مصرع بدل دیااور دوسرے میں ایک لفظ میرا شعر یہ ہے(مجھے پسند بھی ہے)
جنوں کا سارا خدائی سے معرکہ ٹھہرا
چراغ لے کے مگر سامنے ہوا کے چلے۔‘‘ (ایضاً۔ ص147)
ایک Established تنقید نگار کو اپنے حق میں اس طرح کے تقریظی جملے زیب نہیں دیتے ہیں۔
یہی نہیں مولانا آزاد کے بارے میں ہر کوئی جانتا کہ ان کے جوش و طنطنہ کے آگے کسی کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں تھی ۔گاندھی جی سے بھی بے وقت ملنا گورا نہیں کرتے تھے۔ سرورؔ صاحب یہاں بھی خودستائی سے بعض نہیں آتے:
ساہتیہ اکیڈمی اس زمانے میں بھارتی کویتا کے نام سے ہر سال ہندوستانی زبانوں کی نظموں کا ایک انتخاب شائع کیا کرتی تھی اس کے لئے اردو میں دس بہترین نظموں اور غزلوں کا انتخاب میرے سپرد کیا گیا تھا میں نے جو انتخاب پیش کیا اس میں ایک نظم اختر الایمان کی بھی تھی ۔مولانا نے اس پر کہا کہ ان کی نظم کیسے شامل کریں ان کا تو نام ہی غلط ہے ان کا مطلب یہ تھا کہ اختر فارسی لفظ ہے اور ایمان عربی۔ان دونوں کو عربی طریقے سے نہیں ملایا جا سکتا میں نے جوب دیا کہ اس نام میں وہی غلطی ہے جو خورشید الاسلام کے نام میں ہے ۔مولانا خورشید الاسلام کے شبلی پر ایک مضمون کی تعریف کر چکے تھے میں نے ان کی طرف اشارہ کیا تھا مولانا خاموش ہو گئے۔‘‘(ایضاً۔ ص161)
ایک دوسرے موقع پر سروؔر صاحب فرماتے ہیں:
’’مولانا کی مخالفت کی جرات لوگوں کو کم ہی ہوتی تھی جب یہ طے ہوا کہ ہر سال ساہتیہ اکیڈمی ہر ہندوستانی زبان میںسال کی بہترین کتا ب پرپانچ ہزار کا انعام دیا کرے تو اردو میں پہلے انعام کے لئے مولانا ظفر حسن خان کی چھوٹی سی کتاب ’مآل اور مشیت ‘تجویز کی قاضی عبدالغفار اور ڈاکٹر زور تو خاموش رہے۔مگر میں نے عرض کیا کہ کچھ اور بھی اہم کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
اس طرح کے جملے اس کتاب میںسرور صاحب کی زبان سے ناگوار ہی نہیں بلکہ مضحک معلوم ہوتے ہیں۔وہ اپنی توصیفی انا کی تسکین کے لئے رشید صاحب کو بھی نہیں بخشتے ہیں:
’’1945میں جے پور میں پی این کانفرنس تھی میں پی ای این کا ممبر تھا کانفرنس میں اردو ادب کے نئے میلانات پر مقالہ پڑھنے کے لئے مجھ سے اور رشید صاحب سے علاحدہ فرمائش کی گئی انہوں نے اپنی منظوری بھیج دی اور مجھے لکھا کہ مقالہ آپ لکھ دیں تو میں جے پور میں پڑھ دوں ،چنانچہ میں نے جے پور میں ان کے لئے مقالہ لکھا اور کانفرنس سے ایک دن پہلے جے پور کے لئے روانہ ہو گیا ۔دہلی اسٹیشن پر رشید صاحب ملے اور کہنے لگے کہ اگر آپ مقالہ لکھ کر نہ لاتے تو میں دہلی سے ہی علی گڑھ واپس چلا جاتا میں نے کہا جب میں نے آپ سے وعدہ کر لیا تھا تو پھر نہ لکھنے کا سوال ہی نہ تھا کانفرنس بڑی شاندار تھی اس میں پنڈت جواہر لال نہرو جو چند ماہ پہلے احمد نگر چیل سے رہا ہوئے تھے شریک تھے ۔داکٹر رادھا کرشنن بھی موجود تھے اور مسز نائڈو بھی موجود تھیں۔انگلستان سے انگریزی کے مشہور ناول نگار ای ایم فاسٹر بھی تشریف لائے تھے۔ ‘‘(ایضاً۔ ص 118)
سرور کی تنقید کے بارے میںمسعود حسین خان نے بھی اپنی خود نوشت ’’ورود مسعود‘‘میں رشید احمد صدیقی اور خودآل حمد سرور کی تنقید کا موازنہ کرتے ہوئے بہت ہی وقیع اور جامع تبصرہ کیاہے جس سے دونوں ہی بزرگوار کی تنقید کا فرق سامنے آجاتا ہے۔ مسعود حسین خان لکھتے ہیں :
’’طالب علموں میں اکثر دو استادوں کا موازنہ کیا جاتا تھا سب لوگ اس بات پر متفق تھے کہ رشید صاحب کی بات اپنی بات ہوتی ہے جب کہ سرور صاحب کی پرائی دوسرے الفاظ میں سرورؔ صاحب کا علم کتابی اور اکتسابی تھا رشید صاحب اس کے برعکس غالبؔ ہو کہ اصغرؔ ان پر ذاتی تاثرات بیان کرتے اس لئے ان کا ایک ایک جملہ بصیرت کا نگینہ بن جاتا تھا سرور صاحب کا علم قاموسی تھا ۔رشید صاحب کا وجدانی۔‘‘(خواب باقی ہیں: آل احمد سرورؔ۔ایجو کیشنل بک ہائوس ،علیگڑھ۔سن اشاعت۔2000 ص83 )
مسعود صاحب سرور ؔ صاحب کے بارے میں آگے مزید لکھتے ہیں:
’’ سرور صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ’توازن ‘ کا شکار ہیں اس لئے ادب میں کچھ بھی نہیں تول پاتے ہیں ان کی تنقید پر یہ مصرع چسپاں کیا کیا جاتا تھا ؎
جناب شیخ کے نقش قدم یوں بھی ہیں اور یوں بھی
کبھی ترقی پسندوں کے ہم سفر رہے اور کبھی جدیدیوں کے رہبر بنے ؎
معشوق ما بہ شیوۂ ہرکس برابرست۔‘‘ 82
خواب باقی ہیں میں ایک اور چیز جو تکرار و تواتر کے ساتھ ہمیں دیکھنے ملتی ہے وہ ہے ان کی تعلیم اور بحیثیت استاد تقرری کا معاملہ ۔ ہم سب سے پہلے ان کی تعلیم کو لیتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہرکس و ناکس ان کو یہ مشورہ ہی د ے رہا ہو کہ یہ کرلو تو وہ کرلو:
’’جولائی میں میرے والد کا تبادلہ علی گڑھ ہو گیا ۔چنانچہ ہم علی گڑھ آگئے ۔یونیورسٹی اس زمانے میں جولائی میں بند ہوتی تھی اور یکم اکتوبر کو کھلتی تھی ۔سینٹ جانس کالج والے چاہتے تھے کہ میں وہیں آجائوں ۔مجھے مہاجن نے انگریزی میں ایم اے کرنے کے لئے کہا اور تیس روپے کا ایک اسکالر شپ بھی دینے کا وعدہ کیا مکرجی نے بوٹنی میں اور ماتھر نے زوالوجی میں ایم سی کرنے پر اصرار کیا مگر میں طے کر چکا تھا کہ علی گڑھ میں پڑھوں گا۔‘‘ (خواب باقی ہیں: آل احمد سرورؔ۔ایجو کیشنل بک ہائوس ،علیگڑھ۔سن اشاعت۔2000 ص 45)
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’میں نے اپریل1936ذاکر صاحب کے مشورے سے اردو میں ایم اے کر لیا تھا ۔پہلے اردہ انگریزی آنرس کرنے کیمبرج جانے کا تھا ۔۔۔۔۔مگر ایک تو شادی ہوگئی ۔پھر جولائی میں شعبہ اردو کی ایک جگہ پر میرا تقر ر ہو گیا ۔یہ جگہ جلیل قدوائی کے جانے سے خالی ہو گئی تھی چنانچہ انگلستان جانے کا خیال ترک کرنا پڑااب سوچتا ہوں چلا جاتا تو اچھا ہی رہتا مگر ذاکر صاحب نے کہا تھا کہ سدھانت اور بخاری نے انگلستان جاکر کون سا تیر مار لیا تم نے انگریزی میںایم اے کیا ہے اس مطالعہ سے فائدہ اٹھا کر اپنی زبان میں کچھ کام کرویہ بات میرے دل کو لگ گئی ۔‘‘(ایضاً۔ ص69)
جہاں تک رہی بات سرورؔ صاحب کی بہ حیثیت استاد تقرری کا معاملہ انہوں نے اس ذیل میں کبھی بھی کسی طرح کی جدو جہد کی ضرورت نہیں محسوس کی ہے ۔کتاب کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہر کوئی انہیں تھال میںبھر کر یہ عہدہ پیش کر رہا ہو۔اس ذیل میں بھی اس کتاب سے چند اقتباس ملاحظہ ہوں۔
’’اس سفر میں لکھنئو سے گذرا تو اسٹیشن پر نورالحسن ہاشمی ملنے آئے انہوں نے مجھے بتایا کہ لکھنئو یونیورسٹی میں اردو کے ایک ریڈر کی جگہ نکلی ہے وہ چاہتے تھے کہ میں اس کے لئے درخواست دوں۔کچھ دنوں بعد مولوی عبدالحق صاحب کا فون آیا کہ دہلی آکر مجھ سے مل لو میں گیا تو انہوں نے کہا کہ لکھنئو یونیورسٹی میں اردو کے ریڈر کے لئے درخواست دے دو ۔وہاں فارسی اور اردو کا مشترک شعبہ ہے میں چاہتا ہوں کہ اردو کا شعبہ الگ ہو جائے۔لکھنئو اردو کا مرکز رہا ہے تم وہاں پہنچ جائو تو بہت کچھ کر سکتے ہو‘‘۔(ایضاً۔ ص 119)
اور ایک موقع سے کراچی یونیورسٹی کی پروفیسری کے لئے مولوی عبدالحق نے انہیں لکھا تھا۔ اس ذیل میں سرورؔصاحب لکھتے ہیں:
’’دراصل یہ آفر مولوی عبدالحق صاحب نے بھجوایا تھا ۔وہ میری بڑی قدر کرتے تھے ۔انہوں نے ہی لکھنئو یونیورسٹی میں مجھے ریڈر بنوایا تھا اور عثمانیہ یونیورسٹی کی ۔پروفیسری کے لئے ڈاکٹر ولی محمد سے جو وہاں کے وائس چانسلر ہو گئے تھے میری سفارش کی تھی ۔کراچی یونیورسٹی میں جب اردو کی پروفیسری نکلی تو مولوی صاحب سے مشورہ کیا گیا انہوں نے میرا نام تجویز کیا اور مجھے بھی خط لکھا ۔خط میں یہ بات بھی تھی کہ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے بعد انجمن ترقی اردو پاکستان کا کام سنبھالو اس لئے تمہیں یہ آفر بھجوایا ہے بہرحال میں نہ گیا‘‘ ۔ (ایضاً۔ ص 156)
اسی طرح ذاکر صاحب نے انہیں علی گڑھ میںریسرچ پروفیسر کی پیش کش کی اور پھر رشید احمد صدیقی کی سبکدوشی کے بعد ان کی جگہ پروفیسر شپ کی یقین دہانی کرائی۔سرورؔ لکھتے ہیں:
’’جولائی میں ذاکر صاحب لکھنؤآئے توانہوں نے کہا کہ ان کے ایک دوست عطاء اللہ درانی نے جوامریکہ میں ہیںایک عطیہ اس لئے دیا ہے کہ غالبؔکے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے اور نول کشور پر ایک کتاب لکھی جائے ۔اس غرض سے سید حسین ریسرچ پروفیسر کی ایک جگہ علی گڑھ میں جلد قائم ہوگی آپ اس جگہ پر آجایے۔دو ڈھائی برس کے بعد رشید صاحب ریٹائر ہونے والے ہیں اس کے بعد آپ پروفیسر اور صدر شعبہ ہو جائیں گے میں نے ان سے فورا ً کہا کہ غالباًرشید صاحب کو آپ توسیع ضرور دیں گے۔آپ کی تو ان سے پرانی دوستی ہے ۔میرے بھی عرصے سے بہت گہرے مراسم ہیں میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے انہیں توسیع نہ ملے۔ذاکر صاحب نے کہا کہ ان کی توسیع کا کوئی سوال نہیں ہے ۔میں تو عام طور پر توسیع کے خلاف ہوں۔ (ایضاً ۔ص 157)
اس واقعے پر مسعود حسین خاں نے یوں روشنی ڈالی ہے:
’’ذاکر صاحب اور رشید صاحب دونوں ایک دوسرے کی دوستی کا دم بھرتے تھے ۔رشید صاحب کے لئے ذاکر صاحب ’مرشد‘تھے ۔’مضامین رشید میں ‘اس نسبت اعلان ملتا ہے۔ذاکرصاحب جب بھی علیگڑھ آتے رشیدصاحب کے یہاں قیام کرتے ۔لیکن ذاکر صاحب کو رشید صاحب کی شعبہ اردو سے متعلق نا کردگی سے شکایت رہی اس لئے وہ 1955میں لکھنئو سے آل احمد سروور کو اپنے امریکی دوست عطاء اللہ صاحب کی قائم کردہ غالب چیئر پر لے آئے اور ان سے یہ وعدہ لیا کہ وہ خود کو صرف علمی کاموں میںمصروف رکھیں گے اور یونیورسٹی کی انتظامیہ سے بالکل الگ رہیں گے لیکن 1956میں کرنل بشیر زیدی کے وائس چانسلر بنتے ہی انہوں نے ایک ہال کی پرووسٹی قبول کرلی۔یونیورسٹی کی سیاست اور دوسری مصروفیت کی بناپر وہ تفویض کردہ غالب کے اردو دیوان کا ترجمہ بھی نہیں کر سکے جس کی وجہ سے ذاکر صاحب آخری وقت تک ان سے شاکی رہے اور عطاء اللہ صاحب نے تو نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے قانونی کارروائی کی دھمکی تک دی‘‘۔(ورود مسعود: مسعود حسین خاں۔ خدا بخش اورنٹیل پبلک لائبریری ،پٹنہ ۔سن تاریخ اشاعت ندارد ۔ص171)
دوران ملازمت ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ جب کہ سرورؔصاحب درخواست بھی نہیں دیتے ہیں اور ان کو ترقی خود بخودمل جاتی ہے۔ایک جگہ اور وہ لکھتے ہیں:
’’30اپریل 1958کو رشید صاحب سبکدوش ہوگئے اور میںنے شعبے کے صدر کی حیثیت سے پہلی مئی کو چارج لے لیا ۔رشید صاحب کی حیثیت کا اشتہار ہوا۔میں نے درخواست نہیں دی ۔پھر جب انٹرویو میں بلایا گیا تو نہ گیا ۔سلیکشن کمیٹی جس میں سید مسعود حسن رضوی ادیب اور ڈاکٹر عابد حسین شامل تھے میرا تقرر کیا اور مجھے دو انکریمنٹ دینے کی بھی سفارش کی۔غرض پہلی اگست 1958 سے میں پروفیسر ہو گیا‘‘۔ (خواب باقی ہیں: آل احمد سرورؔ۔ایجو کیشنل بک ہائوس ،علیگڑھ۔سن اشاعت۔2000 ص 195 )
یہ تو رہا ان کا اپنامعاملہ دوسری طرف کتاب کی ورق گردانی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب دوسروں کی تقرری کے لئے ان کے نزدیک کچھ اصول و ضوابط ہیں۔اسی کتاب میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ہمارے یہاں استادوں کے تقرر کے طریقوں میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے ۔صرف کام کی بناپر جو مطبوعہ ہو تقرر ہونا چاہیے۔چند منٹ کے انٹرویو میں کسی کی صلاحیت کا امتحان نہیں ہو سکتا ۔ہاں مستند اور غیر جانبدار ماہرین سے رائے لی جا سکتی ہے اگر موقع دینے کے بعد بھی اہلیت ظاہر نہ ہو تو ملازمت کو ختم کر دینی چاہیے مگر ہمارے یہاں مروج کا راج ہے اس لئے یہاں یہ طریقہ شاید اختیار نہ کیا جا سکے‘‘۔(ایضاً۔ص240)
’’شکاگو یونیورسٹی کے علمی ماحول سے میں متاثر ہوا ۔وہاں استادوں میں کام کی لگن دیکھی ۔اس کا یہ نعرہ ہے کہ لوگ کام کریں اور اسے چھپوائیں ورنہ دفان ہوں ۔بہرحال استادوں کے لئے یہ تو ظاہر کرتا ہے کہ وہ برابر کچھ کرتے رہیں یہ دوسری بات ہے کہ یورپی اسکالروں کے نزدیک ان لوگوں کے کام کی گہرائی کم ہوتی ہے اور اعداد وشمار اور ان کی درجہ بندی پر زور زیادہ‘‘۔(ایضاً ۔ص238)
سرورؔ صاحب اساتذہ کے لئے بالکل یہ پسند نہیں کرتے ہیں وہ غیر درسی کاموں میں اپنا وقت ضائع کریں۔ڈاکٹر ضیاء الدین کی اس طرح کی پالیسی کی سخت مخالفت کرتے ہیں:
’’میں نے اپنی تقریر میں ڈاکٹر ضیاء الدین کے تشریف لانے پر مسرت کا اظہار کرنے بعد ان سے شکوہ کیا کہ اگرچہ وہ ایک استاد رہے ہیں مگر استادوں کے خلاف وہی کچھ نہ کچھ فرماتے رہتے ہیں ۔پھر میں نے منصور حلاج کا قصہ بیان کیا کہ جب ان کو سولی دینے کے لئے لے جایاجا رہا تھا تو مجمع میں سے کچھ لوگ انہیں پتھر مار رہے تھے مگر وہ ہر چوٹ پر ہنس دیتے تھے ۔آگے حضرت شبلی ؒ کھڑے ہوئے تھے ان کے ہاتھ میں ایک پھول تھا انہوں نے از راہ مزاح وہ منصور پر پھینکا۔منصور اس پر چیخ مار کر رونے لگے ۔لوگوں نے پوچھا آپ عجب آدمی ہیں ،پتھر کھار کر ہنستے ہیں اور پھول کی مار سے روتے ہیں۔منصور نے کہا کہ جو پتھر پھینک رہے تھے وہ تو انجان ہیںمگر پھول پھیکنے والے تو محرم راز کہے جا سکتے ہیںاس لئے ان کی مار میرے لئے پتھر سے زیادہ سخت ہے۔یہ کہہ کر میں نے شکوہ کیا کہ اساتذہ کو تو قوم کے بہت سے لوگ برا بھلا کہتے رہتے ہیںاور چونکہ وہ ناواقف ہیں اس لئے ہم ان کے اعتراضات کی پروا نہیں کرتے مگر آپ تو خود استاد رہے ہیں ۔آپ کا اعتراض ہمارے لئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ۔اس کے بعد میں نے کہا کہ اساتذہ کا اصل کام تدریس اور تحقیق ہے ان سے یہ مطالبہ کہ وہ چندہ کرنے کے لئے ملک میں مارے مارے پھریں غلط ہے ۔یونیورسٹی کے منصوبوں میں تعاون ہمارا فرض ضرور ہے مگر ہمارا بنیادی کام درس و تدریس ،تحقیق،تدقیق اور طلبا کی تعلیم تربیت ہے‘‘۔(ایضاً ۔ص83 (
علاوہ ازیں چاہے معاملہ لکھنئو یونیورسٹی میں تقری کا ہو یا علیگڑھ میں۔ الٰہ آباد کا یونیورسٹی ہو یا۔۔۔۔سرورؔ صاحب اس میںضرور شامل ہوتے ہیں اس کے علاوہ امید واروں کے ساتھان کا رحم و کرم شامل ہوتا ہے۔اس کی بھی چند مثالیں اس کتاب سے دیکھیں۔
’’ذاکر صاحب کی آمد کی خبر سن کرنورالحسن مجھ سے ملے علی گڑھ میں تاریخ کے شعبے میں ریڈر کی ایک جگہ خالی ہوئی تھی نورالحسن چاہتے تھے اس کے لئے ذاکر صاحب سے میں ان کی سفارش کردوں ۔عام طور پر میں سفارش کا قائل نہیں مگر جب یہ دیکھتا ہوں کہ کوئی با صلاحیت آدمی کسی ایسی جگہ کا امیدوار ہے جس کے لئے وہ ہر طرح موزوں ہے تو میں کلمہ خیر ضرور کہہ دیتا ہوں ،چنانچہ ذاکر صاحب کو میں نے ان کا Bio-Dataدے دیا ۔ذاکر صاحب نے کہا کہ وہ اچھے نوجوان کی ضرور ہمت افزائی کرتے ہیںاور حبیب صاحب سے مشورہ کرکے مناسب کارروائی کریں گے ،بہرحال تھوڑے دن بعد نورالحسن صاحب کا ریڈر کی حیثیت سے علی گڑھ میں تقرر ہو گیا اور 1950میں وہ یہاں آگئے‘‘۔(ایضاً ۔ص 221 )
مسعود حسین خان کی بھی پروفیسر کی حیثیت سے علی گڑھ میں تقرر ی سرور صاحب اپنی ہی کوششوں کا ثمرہ قرار دیتے ہیں انہیں اس بات کی تکلیف بھی ہے کہ مسعود حسین خان نے اپنی خودنوشت ’ورود مسعود‘ میں اس بات کا اعتراف نہیں کیا ۔ اقتباس دیکھیں:
’’ میں نے کمیٹی میں اس بات پر زور دیا کہ لسانیات کے لئے ایسے پروفیسر کا انتخاب ہو نا چاہیے جو اردو لسانیات ،فارسی لسانیات اور عربی لسانیات پر بھی کام کر سکے ۔میرے نزدیک ان زبانوں کے ایم اے کے نصاب میں لسانیات کا ایک پرچہ اور زبان کی تدریس کے سلسلے میں لسانیات کا علم ضروری تھا۔اس لئے میں مسعود حسین کا نام پیش کیا مگر کمیٹی اس کے لئے تیار نہ ہوئی اور علی یاور جنگ نے انتخاب ملتوی کر دیا ۔1968 میں نے پروفیسر سنیتی کمار چٹرجی سے بات کی جو ہندوستان میں لسانیات کے سب سے بڑے استاد تھے ۔ساہتیہ اکیڈمی کے سلسلے میں ان سے اکثر ملاقات ہوتی تھی ۔شملے میں اکتوبر 1969میں ایک سیمینار کے سلسلے میں ہم لوگ ساتھ رہے تھے ۔جب میں نے ان کے ساتھ تجویز رکھی کہ وہ علی گڑھ میں لسانیات کی پروفیسری کے لئے اکسپرٹ کی حیثیت سے آئیں تو انہوں نے میری بات منظور کرلی ۔مسعود صاحب کو ترجیح دینے کا میرا جو مقصد تھا اس سے بھی انہیں اتفاق تھا ۔بہرحال ان کے آنے سے یہ مرحلہ آسان ہو گیا ۔اس وقت علیم صاحب وائس چانسلر تھے اور ڈاکٹر نورالحسن ڈین میں نے دونوں سے پہلے ہی بات کرلی تھے۔اگست 1968میں مسعود صاحب آگئے۔اپنی خود نوشت ’ورود مسعود‘ میں انہوں نے اپنے آنے کے لئے صرف علیم صاحب کی عنایت کا ذکر کیا ہے‘‘۔(خواب باقی ہیں: آل احمد سرورؔ۔ایجو کیشنل بک ہائوس ،علیگڑھ۔سن اشاعت۔2000 ص 227 )
آل احمد سروراحتشام حسین صاحب کی الٰہ اباد یونیورسٹی میں تقرری میںاپنا پورا اثر رسوخ استعمال کرتے ہیں۔
’’پھر جب اعجاز حسین کے سبکدوش ہونے پر الہ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر کی جگہ شعبہ اردو میں خالی ہوئی تو میں ایک اکسپرٹ تھا ۔دوسرے محی الدین قادری زور اور تیسرے عبد القادر سروری تھے ۔میں نے احتشام کا نام پیش کیا اور سروری نے میری تائید کی ۔زور کسی وجہ سے احتشام کو پسند نہ کرتے تھے ۔بہرحال اکثریت سے احتشام پروفیسر ہو گئے‘‘۔(ایضاً ۔ص 149 )
اگر اتفاق سے اپنی اس مہم میں کبھی ناکام ہوتے ہیں تو انہیں اس پر افسوس بھی ہوتا ہے۔خلیل الرحمٰن اعظمی کی علی گڑھ میں پروفیسر کی حیثیت سے تقرری میں ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے:
’’خلیل الرحمٰن اعظمی بہت اچھے استاد تھے ۔ان کے تنقیدی مضامین کے دو مجموعے شائع ہو چکے تھے ۔ناصر کاظمی،ابن انشا،اور خلیل الرحمٰن اعظمی تینوں کی شاعری کی میرؔ کے اثرات کی وجہ سے جدید غزل میں اہمیت بھی مسلم ہو چکی تھی مگر جب شعبہ اردو میں پروفیسر کی ایک جگہ نکلی تو ان کا تقرر نہ ہوسکا حالانکہ میں نے ان کی پر زور سفارش کی تھی کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا یونیورسٹی نے انھیں مرنے کے بعد پروفیسر بنایا۔‘‘)(خواب باقی ہیں: آل احمد سرورؔ۔ایجو کیشنل بک ہائوس ،علیگڑھ۔سن اشاعت۔2000 ص)
یہاں پر اب بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یونیورسٹی کی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اپنی نوکری میں خواطرخواہ اضافہ نہ ہونے کا سرورؔصاحب بہت زیادہ افسوس ہے جب کہ اس طرح کے موقع پر وہ اپنے محسن رشید احمد صدیقی صاحب کے بارے میں ایسا کچھ بھی نہیں سوچتے ہیں بلکہ اس کا الزام وہ کبھی ذاکر صاحب تو کبھی کرنل بشیر احمد زیدی کے سر مڑھتے ہیں۔اپنی سبکدوسی پر بڑی حسرت سے لکھتے ہیں:
’’1972میں مجھے ایک سال کی توسیع ملی تھی میں نے کسی سے کچھ نہ کہا تھا ۔میں اپنی جگہ یہ سمجھے ہوا تھا کہ علیم صاحب مجھے عرصہ دراز سے جانتے ہیں اور میرے کام سے بھی اچھی طرح واقف ہیںاس لئے یہ سلسلہ ابھی چلے گا مگر ہوامجھے دوبارہ توسیع نہیں دی گئی اور میں نے 7 اکتوبر 1973کو ڈاکٹر خورشید الاسلام کو جو اس وقت سینئر ریڈر تھے جارج دے دیا تھا‘‘۔(ایضاً ۔ص254 )
رشید احمد صدیقی کی سبکدوشی اور ملازمت میں توسیع نہ ہونا ایک ایسامعاملہ ہے جس پر اکثر لوگوں نے خامہ فرسائی کی ہے۔مسعود حسین خاں اپنی آپ بیتی ’’ورود مسعود‘‘ میں رقمطراز ہیں :
’’افسوس اس بات کا ہے کہ دونوں استادوں میں آخر آخر میں اختلاف پیدا ہو گیا ۔رشید صاحب کا خیال تھا کی سرور صاحب کی وجہ سے انہیں ملازمت میں توسیع نہیں مل سکی اس پر علی گڑھ کے حلقوں میں بہت دنوں تک چہ می گوئیاں بھی رہیں ۔لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ جو اس قدر قریب رہے ہوں وہ اس قدر دور بھی جا سکتے ہیں سرور صاحب نے ایک دو بار رشید صاحب دولت خانے پر حاضری دے کر معاملہ کو سلجھانا بھی چاہا لیکن رشید صاحب کے دل کی گرہ نہ کھلی۔‘‘(ورود مسعود: مسعود حسین خاں۔ خدا بخش اورنٹیل پبلک لائبریری ،پٹنہ ۔سن تاریخ اشاعت ندارد ۔ص83 )
جب قاضی عبدالستار بھی رشید احمد صدیقی کی ملازمت میں توسیع نہ ہونے دینے کاقصور وار آل احمد سرور ہی کو ہی ٹھہراتے ہیں:
’’رشید صاحب ریٹائر ہو چکے تھے ۔سرور صاحب شعبہ اردو کی صدارت ہتھیا چکے تھے،سرور صاحب نے پروفیسر رشید احمد صدیقی کو ایک دن کا بھی Extensionنہیں ملنے دیا ۔رشید صاحب جو سرور صاحب کو اردو ڈیپارٹمنٹ میں لائے تھے ،ان کی پرورش کی تھی ان کو اس قابل بنایا تھا کہ ان کے مقابلے میں کھڑے ہوں۔انہوں نے کرنل بشیر احمد زیدی جو وائس چانسلر تھے اور سرور صاحب کی مٹھی میں تھے ،انھیں شیشے میں اتار کر رشید صاحب کو ایک دن کا بھی Extension نہیں ملنے دیا ۔۔۔۔۔۔اس یونیورسٹی کی تاریخ میں رشید صاحب پہلے پروفیسر تھے جو ایک طرح سے جبراً ریٹائر کر دیے گئے تھے۔‘‘(قاضی عبدالستار :اسرار و گفتار:راشد انور راشد۔عرشیہ پبلیکیشنز۔دہلی سن اشاعت 2014۔ص175)
سروؔر صاحب کوتقرری کا آفر علی گڑھ سے سبکدوشی کے بعد بھی ملک کے مختلف حصوں سے ہنوز جاری رہا ۔
’’میں لکھنئو میں تھا ایک دن ذاکر صاحب کا تار آیا مجھ سے فوراً آکر ملو چنانچہ دوسرے دن علیگڑھ پہنچا تو انہوں نے بتایا کہ کشمیر میں ڈائریکٹر ایجوکیشن کی جگہ خالی ہونے والی ہے اسداللہ کاظمی صاحب کا ٹرم ختم ہو رہا ہے شیخ صاحب نے اس سلسلے میں مجھے کوئی مناسب نام تجویز کرنے کے لئے کہا ہے فی الحال تو ایک نئے کالج کی پرنسپلی کا سوال ہے لیکن بعد میں ڈائرکٹر ایجوکیشن کی جگہ بھی خالی ہوگی تم فوراً کشمیر جاکر شیخ صاحب سے مل لو، چنانچہ میں دہلی جاکر ان سے ملا اس وقت شاہ میری صاحب ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔شیخ صاحب سے کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دنیا جہان کی باتیں ہوئیں اور انہوں نے پرنسپلی کی جگہ قبول کر لینے کے لئے مجھ سے اِصرار کیا میں نے کہا میں غور کرکے چند روز میں جواب دونگا ۔چند روز مدحت کامل قدوائی چیف سکریٹری کی طرف سے باقاعدہ تقرر کا خط آیا مگر میں نے ہر پہلو پر غور کرکے معذرت کرلی ۔یونیورسٹی سے کالج کی پرنسپلی پر جانا مجھے اچھا نہ لگا ۔‘‘(خواب باقی ہیں: آل احمد سرورؔ۔ایجو کیشنل بک ہائوس ،علیگڑھ۔سن اشاعت۔2000 ص 282 )
اس طرح سے سرور صاحب گھما پھرا کر سرورجموں یونیورسٹی کی پیش کش کو قبول کر لیتے ہیں:
ّّ’’تیس جولائی1976میں شملے کے قیام کے زمانے میں ڈاکٹر گیان چند کا خط ملا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ میرا تقرر الٰہ آباد میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے ہو گیا ہے اور میں نے وائس چانسلر کو یہ مشورہ دیا ہے کہ سرور صاحب کو دو یا تین سال کے لئے اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے بلا لے ۔انہوں یہ بھی لکھا کہ وائس چانسلرایک مٹینگ کے سلسلے میں شملے جا رہے ہیںآپ سے ملنے کے خواہش مند ہیںآپ ضرور ان سے مل لیں ۔میری عمر اس 64 برس کی ہونے والی تھی دو یا تین سال کے لئے یہ آفر دلکش معلوم ہوا۔شملے میں تو زیادہ قیام کا سوال ہی نہ تھا ۔چنانچہ جب وائس چانسلر آئے تو میں ان سے ملا ۔انہوں نے مجھے اصرار کیا کہ میں جموں آجائوں اور میں نے سب پہلوئوں پر غور کرکے انہیں جواب دینے کا وعدہ بھی کرلیا ۔جب ان کا باقاعدہ تقررکا پروانہ آیا تو ہامی بھر لی،مگر چند روز بعد سید رضی الحسن چشتی وائس چانسلر کشمیر یونیورسٹی کا ٹیلیفون آیا کہ کشمیر یونیورسٹی میں ایک اقبال چیئر قائم ہو رہی ہے اور وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ سرورؔصاحب کشمیر آجائیں ۔انہوں نے ذاتی طور پر بھی مجھ سے اس پیشکش کو قبول کرنے کے لئے اصرار کیا ۔چشتی میرے سینٹ کالج کے پرانے ساتھی اور دوست تھے ۔میں نے ان سے جموں یونیورسٹی کی پیشکش کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ شرما صاحب کو میرے کشمیر جانے پر راضی کرلیں گے۔تقرر 1977کے نئے تعلیمی سال تھا میں حسب معمول شروع دسمبر میں علی گڑھ آگیا ۔اور یہیں مجھے کشمیر کے تقرر کا پروانہ بھی ملا ۔۔۔۔۔بہرحال کشمیر کی کشش جموں پر غالب آئی۔‘‘(ایضاً۔ ص266)
مگر افسوس کہ نو سال تک’اقبال چیئر‘ پر براجمان رہنے کے باوجود بھی انہوں نے ،وہ نہیں جس کی اہل کشمیر کو امید تھی۔دیکھئے مسعود حسین خان اس ذیل کیا فرماتے ہیں:
’’دراصل پتّہ مار کام سرور صاحب کے بس کا کبھی نہیں رہا ایک ذہین انسان ہونے کے ناتے وہ طلاقت لسانی اور تنقیدی اشارات و متفرقات کے مرد میدان ہیں ۔چونکہ ان کا مطالعہ وسیع ہے اس لئے وہ ہر موضوع پر تیزی کے ساتھ کچھ کچھ لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ان کے ذہن میں عرصے سے اقبال پر تصنیف کا ایک خاکہ ہے جس کی تکمیل کشمیر کے دس سالہ قیام میں بھی جب اقبال ان کا اوڑھنا اور بچھونا تھا نہ کر سکے‘‘ ۔(ورود مسعود: مسعود حسین خاں۔ خدا بخش اورنٹیل پبلک لائبریری ،پٹنہ ۔سن تاریخ اشاعت ندارد ۔ص171)
آخر میں،میں ایک اور بات کا ذکر کرتا چلوں اگرچہ اسکا ذکر ہونا تو چاہیے تھا سب سے پہلے ۔غالب ؔ قصیدے کی تشبیب کا مشہور شعر ہے :
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگرحسن نہ ہوتا کود بین
عشق ومحبت ایک فطری جذبہ ہے دنیا کے ادب میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ،ہندوستانی ادب بھی اس سے خالی نہیں ہے ۔جوش ملیح آبادی نے اپنی خود نوشت’ یادوں کی برات‘میںاپنے سترہ معاشقوں کا ذکر کیا ہے جس میں چند ایک ’عطار کے لونڈے‘ بھی شامل ہیں ،مسعود حسین خاں جو پہلی نظر میں ہم کو صوفی صافی نظر آتے ہیں ۔ان کی خودنوشت’ورود مسعود‘میں ہم کو اس طرح کی عباتیں بھی نظر آجاتی ہیں:
’’یورپ میں ہندوستانی نوجوانوں کو سب سے زیادہ خیرہ کرنے والا وہاں حسن نسوانی ہے خاص طور پر نسوانی حسن کے وہ ڈھلے ہوئے پیکر جو لاطینی ممالک (فرانس،اٹلی ،اسپین وغیرہ)میں ملتے نظر آتے ہیں ،ان کے لئے بے حد جنسی کشش رکھتے ہیں ۔ان کے جسم کے کمبخت دلاآویزخطوط،یقینا مشرقی حسن کے پیکروں سے زیادہ حسین ہوتے ہیں ۔ان کو قیام بھی زیادہ رہتا ہے ’بیسی اور کھیسی‘کی مثل ان پر صادق نہیں آتی ۔ان کی جانب منفی اور مثبت دوقسم کے ردعمل ہوتے ہیں لیکن دونوں کی یکتائی سے ان کا اثبات ملتا ہے ‘‘۔(ورود مسعود: مسعود حسین خاں۔ خدا بخش اورنٹیل پبلک لائبریری ،پٹنہ ۔سن۔ تاریخ اشاعت ندارد ۔ص153)
ایک اور جگہ علی گڑھ کی نمائش کے بارے میں اس طرح رقمطراز ہیں:
’’ایک غلط انداز کے ساتھ گھنٹوں یار دوستوں کے ساتھ ،نمائش گاہ میں تیز برقی قمقموں کی روشنی میں چکر پر چکر لگاتے اپنی یا کسی دوست کی جیب میں پیسے ہوئے تو کباب پراٹھوں کی دکان کی جانب جا نکلے اور خورجہ کے شلجم کے اچار کے ساتھ ،گرما گرم بحث میں لقمۂ گرم نوش کیا ۔یہ معمول تقریباً دس بارہ روز رہتا ۔سیاہ برقعوں میں ملبوس (بقول شخصے کالی ناگنیں )جب سرسراتی نمائش گاہ میں داخل ہوتیں تو دلوں کی دھڑکنیں بڑھ جاتیں۔لیکن اسلامی سماج کی :
ہائے ری!مجبوریاں ،محرومیاں،ناکامیاں‘‘۔(ایضاً۔ص94)
سرورؔ صاحب کہتے تو ہیں:
ؔ ’’اقبالؔ کی طرح میرے لئے بھی حسن نسوانی بجلی ہے ‘‘۔((خواب باقی ہیں: آل احمد سرورؔ۔ایجو کیشنل بک ہائوس ،علیگڑھ۔سن اشاعت۔2000 ص9)
پوری کتاب آپ سرمہ بنا لیجئے مگر ایسا کچھ بھی آپ نظر نہیں آئے گا ۔تلاش بسیار کے بعدایک جگہ کچھ اس طرح سے نظر آتا ہے:
’’میں سولن میں رشید صاحب سے ملنے کے لئے اتر گیا ۔۔۔۔پہاڑوں کا سفر مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔فطرت کے بو قلموں مناظر نظر کے سامنے رہتے ہیں ۔کہیں پرُشور نالے ،کہیں سر فلک چوٹیاں کہیں گھنے اور پُر اسرار دیو دار جنگل کہیں دور تک سبزہ کہیں پتھروں کے ڈھیر ۔رات کو تارے ایسے چمکتے ہوئے جیسے انہیں ابھی نئی روشنی ملی ہے ۔تندرست عورتیں جو سر پر بڑے گٹھے اٹھائے لچکتی چلی جاتی ہیں ۔ان کے اعضاء سڈول اور آنکھیںہَرنوں کی سی۔بچے میلے کچیلے مگر ان کے چہرے چاند سے چمکتے ہوئے ‘‘۔(خواب باقی ہیں: آل احمد سرورؔ۔ایجو کیشنل بک ہائوس ،علیگڑھ۔سن اشاعت۔2000 ص67 )
اس لئے مشہور صحافی خوشونت سنگھ نے اس کتاب کے بارے میں یہاں تک لکھ دیا:
’’ اس کتاب میںعشق کا کوئی تذکرہ ہی نہیںاس لئے اس میںکوئی چاشنی بھی نہیں ہے۔‘‘(یضاً۔ ص364 )
اور سرور صاحب کو بتایا ’’ تم زندگی کو ذرا سنجیدگی (Seriously) سےلیتے ہو ’’میں تو پھولوں سے ،اچھی صورتوں سے اور اچھی شراب سے دل بہلاتا ہوں۔‘‘(ایضاًص334)
اس ذیل میںسرورؔ صاحب کا ذاکر صاحب سے بھی تبادلہ خیالات ہوا ۔ ذاکر صاحب نے انہیں بتایا :
ناساز گار حالات کے لئے تین مجرب نسخے ہیں ایک تصوف،دوسرا شراب ،تیسرا کام ۔میں نے تیسرا نسخہ آزمایا ہے۔‘‘(یضاً۔ص350)
سرور ؔ صاحب کو تیسرا نسخہ ہی پسند آیا۔
ہر شخص آل احمد سرور کی خدمات کا معترف ہے ان کی بلندی کو کوئی چھو نہیں سکتا ۔ ان کی شخصیت با وقار ہے مگر وہ ایورسٹ کی چوٹی پر چڑھتے چڑھتے رہ گئے۔ سب کے دل میں ان کی محبت کی وجہ سے ہم چاہتے تھے کہ ان کو فاتح ایورسٹ لکھیں ۔ جو شخص اقبال چیر کا ’پرسن ‘ہو جو اقبال کے ارد گرد جئے اس کے باوجود اس میں اقبال کی فکر نہ جاگے، اس میں اقبال کی تحریک نہ جاگے اس کا مطلب کچھ اور ہے ۔سوچنے والا ذہن یہاں آکر رک جاتا ہے ۔رشید صاحب کے شاگرد ،علی گڑھ کے مایہ ناز سپوت اقبال چیر کے’ چیرپرسن ‘ اس کے بعد جو شخصیت بنتی ہے وہ یہ ہے نوکری مل جائے، ایکسٹنشن مل جائے ،پینشن مل جائے۔پورا سانچہ نوکری کا لگ رہا ہے شروع زندگی سے آخر تک اردو کے طالب علم اور ادیب ہی رہے ۔مفکر نہ بن سکے مکمل انسان نہ بن سکے۔ ہماری خواہش تھی کہ پروفیسر مجیب بنتے، ڈاکٹر عابد حسین بنتے،خواجہ غلام سیدین بنتے،ڈاکٹر ذاکٹر ذاکر حسین بنتے، مگر افسوس کے ان کی خود نوشت کو پڑھ کر ایسا کچھ بھی سامنے نہیں آتا ہے ۔(ختم شد)
موبائل:9628845713
ای میل::: [email protected]