آزادی کے بعد اردو میں خواتین رپورتاژنگاری

0
635

[email protected] 

موسی رضا۔ 9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


صالحہ صدیقی

رسرچ اسکالر ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی

اردو ادب کا باقاعدہ رپورتاژ کرشن چندر کا ’’پودے‘‘ ہے ،اس کے بعد ترقی پسندوں نے اس صنف کو آگے بڑھایا ۔آزادی تک چند ادیبوں نے اس صنف کو اپنایا۔ اردو میں خواتین رپورتاژ نگاری کے نمونے آزادی کے بعد نظر آتے ہیںاس سے قبل خواتین نے اس میدان میں قدم نہیں رکھاتھا۔خواتین میں سب سے پہلے رضیہ سجاد ظہیرؔ نے ایک رپورتاژ لکھا اور پھر دیگر خواتین نے اس کے نمونے پیش کئے۔
(۱) رضیہ سجاد ظہیرؔ نے ’’امن کا کارواں(۱۹۵۲ء؁)‘‘کے نام سے رپورتاژ لکھا۔۱۹۵۲ء؁ میں علمی امن کانفرنس کلکتہ سے متعلق اردو میںدو اہم رپورتاژلکھے گئے۔ ایک رضیہ سجاد ظہیرؔ کا امن کا کارواں اور دوسرا پرکاش پنڈت کا ’’کہت کبیرا سنو بھئی سادھو‘‘جس میں رضیہ سجاد ظہیرؔ کا رپورتاژ اردو کا اچھا رپورتاژ مانا گیا۔ اس رپورتاژ میں جیسا کہ نام سے ہی واضح ہو جاتا ہے ،۱۹۵۲ء؁ میں کلکتہ میں ایک عالمی امن کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے شعرا ٔ، ادبأ سیاسی رہنما اور صحافی شریک ہوئے تھے۔ اس کانفرنس کا مقصد مغربی طاقتوں خصوصاً امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور ان کے اتحادیوں کی، روس کی حکومت دور کمیونسٹ بلاک سے مخالفت ( جسے سرد جنگ کا نام دیا گیا تھا) سے پیدا شدہ خطرناک حالات اور تیسری جنگ کے خطرات سے دنیا کو آگاہ کرنا تھا،جو ایٹمی ہتھیاروں سے دنیا کو نیست و نابود کرنے پر تلے تھے ۔ امریکہ اور اسکے حلیفوں نے اس پر اشتراکیت کا لیبل لگا دیا تھا۔ گواسمیں کئی غیر جانب دار لوگ بھی شامل تھے۔ رضیہ سجاد ظہیرؔ نے اپنی روانگی ، حالات سفر، کانفرنس میں شرکت سے لے کر اس کے اختتام تک کے مختلف حالات و کوائف کو ایسے رواں بیانیہ پیش کیا ہے کہ کانفرنس کی ایک چلتی پھرتی فلم سی نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔ مصنفہ کی سحر بیانی، قوت مشاہدہ اور اخذنتائج کی صلاحیت کا اسمیں بھر پور اظہار ہوا ہے۔
(۲) خواتین رپورتاژ نگاروں میں آمنہ ابوالحسن کا نام بھی اہم ہے۔ انھوں نے ’’دودن‘‘ کے عنوان سے ایک چھوٹا سارپورتاژ لکھا ،جو (رسالہ شاعر میںنومبر ۱۹۷۱ء؁)‘‘ میں شائع ہوا۔ یہ ان کی اورنگ آباد ، اجنٹا ایلورا کی سیا حت سے متعلق رپورتاژ ہے۔ جسے سفری رپورتاژ بھی کہہ سکتے ہے۔حالانکہ مطالعہ کے وقت یہ رپورتاژ سے زیادہ ایک سیاحتی مضمون لگتا ہے۔ مصنفہ کے بیانات کا فی جذباتی ہیں وہ تاریخی عمارات کھنڈروں غاروں میں پہنچ کرنا سٹلجیا کا شکار ہوجاتی ہیں خود کو ایک عظیم الشان تہذیب کا حصّہ جان کہ وفورجذبات سے بے قابو ہوجاتی ہیں۔ ان کی جذباتیت کے پیچھے حقائق کہیں گم ہو جاتے ہیں۔
(۳)خدیجہ مستور نے بھی’’ پوپھٹے‘‘ کے عنوان سے رپورتاژ لکھا۔ جو شاہ راہ۔افسانہ نمبر۱۹۵۳ء؁ میں شائع ہوا۔خدیجہ مستور نے آزادی کے حالات اور ہجرت وغیرہ کے واقعات پر رپورتاژ’’پوپھٹے‘‘ لکھا ۔جسے فکری و فنی لحاظ سے کافی اہم سمجھا گیا۔یوں تو اردو میں آزادی ، ہجرت اور فسادات وغیرہ کے بارے میں کئی رپورتاژ لکھے گئے۔ لیکن اس موضوع پر ایک خاتون کے ذاتی تجربات، حالات و تاثرات پر مبنی یہ رپورتاژ انتہائی اہم ہے۔اس رپورتاژ میں کانپور میں ہوئے فساد کا ذکر کیا گیا ہیں ۔ ہندو مسلمانوں اورسکھوں کے درمیان نفرت کا بیج بویا جا چکا تھا۔ جگہ جگہ فسادات کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ ۱۵ اگست کو آزادی کااعلان ہوا تو فتنہ و فساد کا یہ بند ٹوٹ گیا۔
لکھنؤ میں خدیجہ مستور اور ان کے اہل خاندان نے یہ خبر سنی ، شہر میں سناٹا سا طاری ہوگیا۔ جگہ جگہ شر پسندچھرے لے کر گھومنے لگے۔ مسلمان خوفزدہ، ٹرینوں میں لدلد کر بھاگنے لگے۔ خدیجہ ، ان کی والدہ اوربہنوں کا دل کانپنے لگا۔ آخر کار انہوں نے اپنے گھر کا سامان کباڑی کو فروخت کرگھر با رچھوڑ کر مع اہل خاندان پاکستان جانے کا ارادہ کرلیا۔ خدیجہ کو اپنے افسانوں کے مسودوں کا خیال آتا ۔ ان کو اپنی کتابیں چھوڑ جانے کا بے حد صدمہ تھا۔پاکستان پہنچنے پر وہاں کے حالات و کوائف اور مستقبل کی فکریں انہیں پریشان کردیتی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اپنی سرزمین سے ،اپنی جڑوں سے اکھڑے پودے کی طرح محسوس کرتی ہیں۔ اجنبی سرزمین میں نہ جانے وہ کیسے پنپیں گی۔ خدیجہ نے اس رپورتاژ میں اپنی زندگی ، ذہنی حالات ، جذبات و خیالات اور اس وقت کے حالات کی عکاسی جس فنکارانہ انداز میں کی ہے۔ اس نے اس رپورتاژ کو ایک فن پارہ بنا دیا ہے۔ اس پورے رپورتاژ پر المیہ فضا چھائی ہوئی ہے۔
(۴)ریاست خانم نے ’’کولہاپور میوزک کانفرنس‘‘ کے عنوان سے رپورتاژ لکھا ۔ریاست خانم کوئی معروف ادیبہ نہیں، اور نہ ان کے حالات کا علم حاصل ہوسکا ۔ انہوں نے ۱۹۶۱ء؁ میں ریاست مہاراشٹر کے مشہور شہر کولہاپور میں ایک میوزک کانفرنس میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جو غالباً میوزک کے طلبا ء و طالبات تھے شرکت کے لئے سفر کیا تھا۔ وہاں کی روداد مذکورہ عنوان سے لکھی تھی۔ جو حیدرآباد کے ماہ نامہ صبا میں جولائی ۱۹۶۱ء؁ میں شائع ہوئی تھی۔ کانفرنس کی تفصیلی رپورٹنگ کے بجائے مصنفہ نے سفر کی کیفیات پر ہی زیادہ زور دیا ہے۔مصنفہ نے اپنے بیان میں مزاح و شوخ و بیانی سے بھی کام لیا ہے۔ مثلاً شیواجی کے قلعے کی سیر کا بیان اچھے شگفتہ انداز میں ہوا ہے۔ مصنفہ اگرچہ ادیبہ نہیں لیکن طرز تحریر صاف سادہ رواں اور دلکش ہے۔
(۵)زہرہ جمال نے اسرار الحق مجازؔ کی وفات پر ایک رپورتاژ’’ ۵، دسمبر کی رات‘‘ لکھا ہے۔ جو اردو میں رپورتاژ نگاری از عبدالعزیز شامل ہے۔زہرہ جمال کے اس رپورتاژ کا حرف حرف دردو کرب میں ڈوبا ہوا ہے۔ زہرہ جمال اس رپورتاژ کا آغاز ۵ ، دسمبر سے ایک سال قبل کی یاد سے کیا ہے۔ وہ لکھنو ٔایک جلسہ میں شرکت کے لئے جاتی ہیں۔جہاں وہ سجاد ظہیر اور صوفیہ اختر سے ملتی ہیں۔ وہ مجاز کی بھتیجی صوفیہ کے گھر جاتی ہیںتو ان کا بھائی خبر دیتا ہے کہ مجازؔ بلرام پورکے اسپتال میں بے ہوشی کی حالت میں داخل کئے گئے ہیں۔ وہ شراب کے نشے میں سڑک پر بے ہوش پائے گئے تھے۔ صوفیہ اور زہرہ جمال مجازؔ کو دیکھنے اسپتال جاتے ہیں۔ وہ بے ہوش ہیں۔ شراب منھ سے نکل رہی ہے۔انہیں آکسیجن دی جارہی ہے۔ لیکن افاقہ نہیں ہوتا ۔ بنے بھائی ، باقر مہدی ، نیاز حیدر، ساحرلدھیانویؔ وغیرہ ان کی عیادت کے لئے آتے ہیں۔ رات کے ۵ بجے مجاز کا انتقال ہوجاتا ہے۔ ان کو وہاں دفن کیا جاتا ہے۔ ان کی یاد میں تعزیتی جلسہ ہوتا ہے۔زہرہ جمال نے مجازؔ کی موت کا المیہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھاانھوںنے ان تمام حالات کوائف اور تاثرات کو المیہ تحریر میں بیان کیا ۔ چونکہ یہ ایک سال قبل یاد سے لکھا گیا ہے اس لیے اس میں انہوں نے مجازؔ سے ملاقات ان سے گفتگو ان کے عادات و اطوار ۔ ان کے بارے میں عصمت کے خیالات کو بیان کیا ہے۔ پہلی ملاقات میں انہیں مجاز اتنے معصوم لگے کہ انھوں نے کہاجیسے فرشتوں نے بھی معصومیت مجازؔ سے پائی ہے۔انھیں مجاز متانت ، وقار ، لکھنؤ کی تہذیب کا با تکلف سراپا نظر آتے تھے۔ مجازؔ کو دوستوں نے شراب کی لت لگا دی تھی۔ مجازؔ نے عمر بھر شادی نہیں کی تھی۔ زہرہ جمال نے مجازؔ کی موت پر واقع ہوئے تمام حالا ت و واقعات کو نہایت جاندارانداز میں بیان کیا ہیں۔
(۶)سلمیٰ صدیقی نے ’’نقاب اور چہرے‘‘ کے عنوان سے رپورتاژ لکھا جو رسالہ گفتگو، بمبئی ، شمارہ ۲۔۱۹۶۷ء؁ میں شائع ہوا۔سلمٰی صدیقی رشید احمد صدیقی کی بیٹی اورکرشن چندر کی ( دوسری بیوی) تھی۔ کرشن چندر کے یہاں ادیبوں شاعروں افسانہ نویسوں ناول نگاروں ، صحافیوں ، فلمی ہستیوں سے ملاقاتیں ،ملنا جلنا لگا رہتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر سلمیٰ اور کرشن چندر کے گھر پر کچھ ادیب اکٹھے ہوئے تھے۔ جن میں دھرم ویر بھارتی(ہندی دھرم یک مدیر) پشپا بھارتی، مہتہ جی، مجروحؔ سلطان پوری، بیگم فردوس، علی سردار جعفری، ساحرؔ لدھیانوی، عصمت، قرۃالعین حیدر ، راجندر سنگھ بیدی، مہندرناتھ وغیرہ شامل تھے۔ سلمیٰ نے اس محفل کا رپورتاژلکھا ۔
سلمیٰ کہتی ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہر فردکے چہرے پر ایک نقاب ہوتا ہے۔ جوبے تکلف محفلوں میں انجانے طریقے سے اتر جاتا ہے اس محفل میں بھی یہی ہوا۔ اس لئے اس کا عنوان سلمٰی نے ’’نقاب اور چہرے ‘‘ رکھا۔ سلمیٰ نے ادیبوںکے بے تکلف انداز ، انکی قلمی دنیا اورحقیقی دنیا کے فرق ، ان کا لباس، ان کا آپسی ہنسی مذاق، آمد پر ہنگامہ آرائی، وغیرہ کا دلچسپ نقشہ کھینچا ہے۔مثال کے طور پر مجروحؔ سلطانپور ی کی بیوی فردوس کے بارے میں لکھتی ہے کہ فردوس کی ہنسی میں ایک سادگی ،بے ساختگی ،معصومیت اور اپنائیت ہوتی ہے جو عام طور پر آج کل کی پر تصنع خواتین میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔‘‘ اسی طرح ادیبوں کے بے تکلفانہ باتوں اور ان کے حرکات و سکنات کا دلچسپ پہلوںبیان کیا ۔ مثلاً علی سردار جعفری کا بار بار غیرارادی طور پر بالوں کو سنوارنا۔راجند سنگھ بیدی کا یہ جملہ کہ کباب بہت اچھے بنے ہیں اور سچی بات تو وہی ہے جو میں کہتا ہوں کہ گوشت تو مسلمان کا ہی اچھا ہوتا ہے۔حالانکہ ان کے فقرے کی ادیبوں نے داد دی لیکن بعد میں عام لوگوں نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح سلمیٰ نے ادیبوں اور شاعروں کی شخصیت سے جو تاثرات اخذ کیے اسے بھی بیان کیا مثلاساحرؔ کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ شخص اپنی شخصیت میں کئی شخصیت چھپائے ہے۔ یہ لوگ نہ جانے روز کتنے چولے بدلتے ہیں۔ اس طرح سلمٰی نے اپنے اس رپورتاژ میں انسانوں کے پوشیدہ پہلوئوں کو بیان کرنے کی سعی کی اور لکھا ہے کہ ادیب کی ادبی زندگی کچھ اور ہوتی ہے۔ حقیقی یانجی زندگی کچھ اور…….کسی ادیب کے باطن کو جاننا ہو تو اسے نجی محفلوں میں دیکھنا چائیے۔ جہاں اس کا ادبی نقاب اتر جاتا ہے۔
(۷)صفیہ اختر اردو ادب کی ایک مشہور شخصیت ہوئیں ،یہ مجازؔ کی ہمشیرہ اور جاں نثار اختر کی بیوی تھیں۔ ان کا ایک چھوٹا سارپورتاژایک ہنگامہ اردو رپورتاژ نگاری میں یاد گار ہے۔ یہ ۱۹۵۲ء؁ میں بھوپال میں منعقدہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کی روداد ہے۔ اسی پلے عصمت چغتائی کا رپورتاژ بمبئی سے بھوپال بھی ہے۔ ارباب انجمن ترقی پسند مصنفین نے آزادی کے بعد ۱۹۵۲ء؁ میں بھوپال میں کانفرنس کے انعقاد کا تہیہ کیا اور اس کی انتظامی ذمہ داریاں جاں نثار اختر اور صفیہ اختر پر ڈالیں۔ صفیہ اختر نے بطور میزبان و منتظم کانفرنس کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھائی اور اس کی روداد کو اس رپورتاژ میں محفوظ کر لیا۔ کانفرنس کے انعقاد میں دشواریوں ، مہمانوں کے قیام طعام کے بندوبست اور کانفرنس کی سرگرمیاں اجلاس، تقاریراور شرکا کے حالات ، تاثرات سبھی کا دلکش اوررواں انداز میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے رومانوی طرز کے بجائے صحافتی طرز نگار ش کو اپنایا ہے اور کانفرنس کی تصاویر ، مقالوں ، افسانوی، ڈراموں ، نظموں ، ریزولیشنوں وغیرہ کی تفصیلات بھی بیان کی ہے۔ رپورتاژ کافی معلوماتی ہے۔
(۸)عصمت چغتائی کارپورتاژ ’’بمبئی سے بھوپال تک ‘‘ہے ۔انہوں نے ۱۹۵۲ء؁ میں بھوپال میں منعقدہ ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں شرکت کے لئے بمبئی سے بھوپال تک کا بذریعہ ریل سفر کیا تھا۔انھوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی جس کی روداد اس رپورتاژ میں پیش کیں۔ یہ رپورتاژ کئی جگہ شائع ہوا اور اسے اردو کے اچھے رپورتاژوں میں جگہ دی جاتی ہے۔ یہ عصمتؔ کے فکر و فن ، ادبی صلاحیت اور فن کا عمدہ نمونہ ہے۔عصمت نے مردانہ میں ترقی پسند مصنفین کی پرائیوٹ گفتگو، جنسی میلانات کی شعرو ادب میں شمولیت وغیرہ پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔
(۹)قرۃالعین حیدرنے کئی رپورتاژ لکھے ہیں۔ اگر چہ ان کے رپورتاژ وں میں سفر ی عناصر کی کثرت انہیں سفر ناموں سے قریب کر دیتی ہے اور انہیں سفری رپورتاژ کی حیثیت عطا کردیتی ہے۔ ان کے اہم رپورتاژ وں میں ستمبر کا چاند (۱۹۵۳ء؁) چھپئے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔ کوہ دماوند( ۱۹۷۰ء؁ ) گل گشت(۱۹۷۸ء؁) خضر سوچتا ہے دولر کے کنارے (۱۹۷۹ء؁) دکن سا نہیں تھارسنسار میں(۱۹۸۲ء؁) لندن لیڑ، قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے شامل ہیں۔ یہ رپورتاژمختلف رسائل و کتب میں شائع ہوئے ہیں۔ جن میںکچھ مختصر ہیں اور کچھ طویل ۔
٭چھپئے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔ان کے رپورتاژ کے مجموعہ کوہ دماوند میں شامل ہے،جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی۔۲۰۰۰ء؁)یہ تقریباً ۴۰ صفحات پر مشتمل رپورتاژ قرہ العین حیدر نے یادوں کے سہارے مرتب کیا ہے اور یہ ان کے بچپن کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے اسے اولیت دی گئی ہے۔ یہ ان کے بچپن کے دور میں جزائر انڈمان میں صدر مقام پورٹ بلیئر کے مقام کی روداد ہے۔ ان کے والد سید سجاد حیدر یلدرم کو انگریزی سرکار نے جزائر انڈمان و نکوبار کا اسسٹنٹ ریونیوکمشنر مقر ر کیا تھا۔ انہوں نے وہاں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ قیام کیا تھا۔قرۃالعین چھوٹی تھیں یہ لوگ کلکتہ سے مہاراجہ نامی بحری جہاز پر روانہ ہوئے تھے۔ اس زمانے میں ہندوستان میں تحریک عدم تعاون جاری تھی۔ انگریزوں نے کئی ہندوستانی آزادی خواہوں کو کالے پانی (بعبوردریا کے شور) کی سزا دے کہ انڈمان کے پورٹ بلئیر کے مشہور سیلولر جیل میں روانہ کردیا تھا۔ کئی قیدی مدت سزا مکمل کر کے انڈمان نکوبار میں بس گئے تھے۔ شادیاں کر کے گھر بسائے تھے۔ قرۃالعین وہاں جاتی ہیں۔ وہاں مختلف لوگوں سے ان کی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ ان کو ایک استاد پڑھانے کے لئے آتے تھے۔ قرۃالعین نے وہاں کے جزیروں ، سمندری ساحلوں وغیرہ کی خوبصورتی ، مناظر ، اصلی باشندوں وغیرہ کے حالات ، تاریخی باتیںبیان کی ہیں۔ کچھ عرصہ بعد یہ لوگ واپس آجاتے ہیں ۔ بعد میں وہاں کے کچھ قیدیوںسے مصنفہ کی ملاقات ہوتی ہے۔تو ان کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔رپورتاژدلچسپ باتو ں سے پر ہے۔
٭ستمبر کا چاندرسالہ نقوش ،لاہور ،نمبر ۲۔۱۹۵۳ء ؁ میں شائع ہوا ۔قرۃالعین حیدر کا مشہور طویل رپورتاژ جس نے ان کی شناخت بطور ایک رپورتاژ نگار قائم کی۔ یہ ان کے جاپان کے سفراور وہاں ادیبوں کی بین الاقوامی کانگریس کے انتیسویں سالانہ اجلاس کی روداد ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا کے تقریباً ۲۸ ممالک کے کم و بیس دو سو ادیب شریک ہوئے تھے۔ جاپان کے علاوہ آسڑیلیا، برازیل،لبنان، بلغاریہ ، پولینڈ، تھائی لینڈ ، جرمنی، فلپائن، ہنگری، کوریا، ہندوستان ، پاکستان، انگلستان، امریکہ وغیرہ کے ادیبوں نے مختلف ممالک کے معاشرتی حالات، تہذیب روایات ، ادبی میلانات اور عوامی زندگی کے مسائل پر روشنی ڈالی تھی ۔ قرۃالعین نے اپنے تجربات و مشاہدات کی گہرائی سے کانفرنس کی باتوں میں تنوع پیدا کر کے قاری کو اپنے ساتھ ساتھ کانفرنس کی سیر کرادی ہے۔ ہ رپورتاژبے شمار حالات واقعات اشخاص ، اشیاء ، مناظر وغیرہ کے تذکرے سے لبریز ہے۔
٭کوہ دماوند(ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی۔۲۰۰۰ء؁)یہ مصنفہ کے سفر ایران کا رپورتاژہے۔ ایران کے سابق ملکہ فرح دیبا اپنے حالات زندگی پر کتاب لکھوانا چاہتی تھیں۔ ایک جرنلسٹ رمیش سنگھوی نے فرح دیبا کی سوانح عمری لکھنو کے لئے قرۃالعین حیدر سے کہا۔ اس کے مطابق شاہ بانو سے ملتی ہیں۔ وہاں قیام کرتی ہیںاور فرح دیبا ان سے اپنے حالات زندگی سناتی ہیں قرۃالعین حیدر نے یہ حالات لکھے۔ ایران کے مختلف مقامات کی سیر کی۔لیکن ان کی یہ کتاب شائع نہ ہوسکی۔ قرۃالعین نے اس سفر کی یاد میں یہ رپورتاژ لکھا ۔ اس کے پہلے حصّے میں انہوں نے رسم تاج گذاری شہنشاہ آریا مہر رضا شاہ پہلوی و فرح دیبا کے سلسلے میں جو سفر کیا اور حالات و کوائف دیکھے ان کا رپورتاژ لکھا۔ اس طرح سے رپورتاژ دو حصوں میں تقسیم ہے دونوں کا تعلق الگ الگ اوقات سے ہے۔ رپورتاژ کے ایک حصے میں شاہ و ملکہ ایران کے جشن تاج گذاری کی تقاریب میں شرکت کا احوال ہے اور دوسرے میںکتاب تحریر کرنے کے حالات کا۔انہوں نے اپنے سفر،سیاحت، مصروفیات ، اشخاص سے ملاقات، تاثرات کا احوال تفصیل سے بیان کیا ہے۔
٭گل گشت(مشمولہ گفتگو ،بمبئی مارچ ستمبر ۱۹۷۳ء؁ ۔و کوہ دماوند۔۲۰۰۰ء؁)گل گشت قرۃ لعین حیدر کا طویل رپورتاژہے۔ اس میںاس قدر کثیر حالات واقعات ، مختلف مناظر ، شخصیات ، معلومات ، تاریخی ، عصری ، سماجی ، معاشرتی، ثقافتی ادبی امورو مسائل (وہ علوم فنون) ادبیات کی باتیں اشارات تلمیحات بھرے ہوئے ہیں کہ ان کا احاطہ اس مختصر جائزے میں ممکن نہیں۔ مصنفہ نے اسے دو حصوں میںتقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں جون ۱۹۷۴ء؁ کی روس کی سیاحت کا احوال ہے۔جو ۱۲ عنوانات کے تحت پیش کی گئی ہیں۔ اور دوسرے حصے میں ۴ عنوانات کے تحت جارجیا وغیرہ کی سیاحت کا احوال ہے۔رپورتاژ کا آغاز جون ۱۹۷۴ء؁ میںماسکو یونیورسٹی کے ایک ہوسٹل کے کمرے سے ہوتا ہے۔ جب مصنفہ روسی حکومت کی دعوت پر کئی روسی کتابوں کے ترجمے کے صلہ میں عطا کردہ سویت لینڈ نہرو ایوارڈ لینے گئی تھیں۔
٭خضر سوچتا ہے ود لر کے کنارے(مشمولہ ۔ کوہ دماوند۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی۔۲۰۰۰ء؁)یہ قرۃ العین حیدر کا کشمیر کی سیاحت کا رپورتاژ ہے۔پہلے ہفتہ واربلٹز بمبئی اگست ستمبر ۱۹۷۹ء؁ میں شائع ہوا تھا بعد میں رپورتاژوں کے مجموعے کو ہ دماوند میںشائع ہوا۔ اس کا عنوان علامہ اقبال کے ایک شعر کے مصرعہ ثانی ہے لیا گیا ہے۔ ہمالہ کے چشمے ابلتے ہیں کب سے خضر سوچتا ہے ودلر کے کنارے۔ ودلر کشمیر کی بے حد خوبصورت جھیل ہے۔ قرۃالعین نے کشمیر کا سفر کیا تو وہاں کے تاریخی تہذیبی ثقافتی سماجی معاشرتی معاشی علمی ادبی حالات و کوائف کا بغور جائزہ لیا۔ اور اپنے تاثرات رواں تبصرے کے ساتھ پیش کیا۔ کشمیر جنت برروئے زمین ہمیشہ دوسری قوموں کے حملوں ، جنگوں ، استحصال ، ظلم و ستم کا شکار رہا ہے وہاں کے بیشتر حکمران ظلم و ستم اور استحصال میں مصروف رہے ہیں۔ مغلوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ سکھوں انگریزوں کے قبضے میں آیا۔ انگریزوں نے اسے گلاب سنگھ ڈوگرانامی ایک فوجی سردار کو محض ۴۰ لاکھ روپے کے عوض فروخت کردیا ۔ مصنفہ نے کشمیر کی طبعی تاریخ، ہندو روایات، تاریخی حالات، وہاں موجود پیغمبروں کی مزاروں کا ذکر کیا۔ سیاست پر گفتگو سے مصنفہ پرہیز کرتی نظر آتی ہیں۔
٭دکن سا نہیں ٹھارسنسار میں(انکار، علی گڑھ۔ جون ،جولائی ۔۱۹۸۲ء؁)یہ قرۃ العین حیدر کادلچسپ اور فکری وفنّی لحاظ سے اہم رپورتاژ ہے۔ یہ ۳۶ صفحات پر مشتمل چھوٹا سا رپورتاژ ہے۔ لیکن ایک جہانِ معانی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ سر زمین دکن برصغیر کا وہ حصہ جو بندھبیاچل کے جنوب میں واقع ہے۔ اور جس میں ۔ گوا ، مہاراشڑ، چھتیس گڑھ۔ کرناٹک ، آندھرا ، تامل ناڈواور کیرالا کی ریاستیں شامل ہیں۔ قرۃالعین نے علاقئہ دکن کا سفر کیا وار اپنے تاثرات رپورتاژ میں لکھے ۔ اس کا عنوان دکن کے مشہور ادیب و شاعر ملاوجہی (مصنف سب رس) کے اس شعر کے مصرعہ سے ماخوذ ہے۔
دکن سا نہیں ٹھار سنسار میں
بنج فا ضلاں کا ہے اس ٹھار میں
رپورتاژ کا آغاز واپسی کے سفر سے ہوتا ہے۔ وہ بذریعہ ٹرین کوچین سے روانہ ہوتی ہیں۔ تامل ناڈو، کرناٹک سے گزر رہی ہے۔ کمپارٹمنٹ میں ایک گوانی ادیبہ بھی ہے۔ راستہ میں عظیم الجثہ چٹانیں دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ایک بھیک مانگنے والی عورت کا نام چاند بی بی ہے راستہ میں سری رنگاپٹم ، گلبرگہ، بیجاپور آتے ہیں۔ پھر حیدرآباد کا سفر شروع ہوتا ہے۔ مصنفہ حیدرآباد کی تاریخ عہد قطب شاہی سے لے کر عہد آصفیہ تک دہراتی ہیں۔حیدرآباد میں وہ حیدرآباد یونیورسٹی ، عثمانیہ یونیورسٹی ، انجمن ترقی اردو، ادارہ ادبیات اردو وغیرہ کی سیر کرتی ہیں۔ قدیم عمارات مقامات، سالار جنگ میوزیم ، ایوان اردو ، اردو ہال جاتی ہیں۔ ایک کانفرنس میں شرکت کرتی ہیں۔ حیدرآباد کے کئی نامور ادیبوں ، خواتین سے ملاقاتوں کا ذکر کرتی ہیں۔پورا رپورتاژ تاریخی ، سماجی، ثقافتی ، ادبی ، معاشرتی کوائف و معلومات سے بھرا ہے۔ اس میں زبان و اسلوب کی دلکشی اور مصنفہ کا مخصوص طرز تحریرنمایا ں ہیں۔
٭لندن لیڑ قرۃ العین حیدر کی رپورتاژجیسی ایک تحریر جو مشہور نہ ہوسکی ۔ لیڑ دیکھے بھالے حالات و واقعات کو ہلکے پھلکے انداز میں بطور کالم تحریر کر کے اخبار میں شائع کرنے کا نام ہے۔ یہ غپ شپ قسم کی چیز ہے۔ اس میں رپورٹنگ حقیقت ، افسانہ، انشائیہ، مزاح کا امتزاج ہوتا ہے۔ تفریح طبع کے ساتھ حالات و واقعات کی سر سر ی معلومات اس کا مقصد اس صنف کو (Absolute Gossipto Peport) بھی کہاگیاہے۔ قرۃالعین جب لندن میں تھیں تو انہوں نے لندن لیڑ لکھا تھا۔ یہ نقوش ستمبر اکتوبر ۱۹۵۲ء؁ میں ص ۱۵۷ پر شائع ہوا تھا۔ لیکن ان کا کہیں اور ذکر نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس خط کے ذریعے مصنفہ انگریز قوم کے حالات کوائف تہذیب و معاشرت و سیاسی سماجی مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں نمایاں کرنے کی سعی کی ہے۔ اس کا انداز رپورتاژ ہونے کی وجہ سے اس کا ذکر کیا گیاہے۔ اس کا ذکر ڈاکڑ طلعتؔ گل نے اپنی کتاب اردو رپورتاژ میں کیا ہے۔
اس طرح آزادی کے بعد خواتین قلمکاروں نے رپورتاژ میں بھی دست آزمائی کیں اور بہترین رپوتاژ لکھے ۔یقینا ان کی یہ خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔اس مختصر مقالے میںتمام خواتین کے رپورتاژ کا احاطہ کرنا یا ان پر تفصیلی گفتگویا کرنا ممکن نہیں ۔پھر بھی اس مختصر مقالے میں زیادہ سے زیادہ گوشوں کو سمیٹنے کی سعی کی گئی ہیں۔
Email: [email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here