اور وہ سو گئی

0
491

زبید خان
صبح سویرے چڑیوں کی چہچاہٹ کے ساتھ ہی ،امی نے اپنی اکلوتی بیٹی کو جگایا۔۔۔۔۔۔۔”اٹھ جامیری لاڈلی!دیکھ سورج کی روشنی سے ساری دنیا جگمگا اٹھی ہے، چل اب تو بھی اٹھ جا۔”
ارم نے انگڑائی لیتے ہوئے ماں سے کہا۔”ماں! یہ صبح روزانہ مجھے پریشان اور تنگ کرنے کیوں چلی آتی ہے ؟میری نیند میں خلل انداز ہوتی ہے۔یہ میرے خواب کے تسلسل کو توڑ دیتی ہے۔ماں! میں تو ایک خوبصورت خواب دیکھ رہی تھی۔کتنا حسین خواب تھا۔۔۔۔۔۔میں آسمانوں کی سیر کر رہی تھی۔”
پیار سے ماں ارم کو ننھی کے لقب سے پکارتی تھی۔
ماں نے کہا:اچھا!!! تو آگے کیا ہوا؟
ننھی نے بتایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”ماں تم میرے آگے آگے اور میں تمہارے پیچھے پیچھے ،ایک سمندر کے خوبصورت ساحل پر سیر کرنے گئے جہاں ہم نے خوب مزے کئے۔”
امی اپنی لاڈلی کے خواب کو بڑی توجہ کے ساتھ سن رہی تھی۔
“ننھی!تیرے خواب میں ابو نہیں تھے؟”ماں نے پوچھا۔
نہیں امی!وہ تو شہر گئے ہیں نا۔
“آگے کیا دیکھا تم نے؟”ماں نے ممتا بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ننھی سے پوچھا۔
“آگے ؟۔۔۔۔۔۔آگے آپ نے دیکھنے ہی کہاں دیا؟جگا تو دیا مجھے!”
نادان ننھی نے ناراض ہو کر ماں سے کہا تو ماں نے بھی پیار دکھاتے ہوئے ننھی کو گود میں اٹھا لیااور کہا”بیٹی !ہمارے خواب تبھی پورے ہوتے ہیں جب ہم صبح سویرے اٹھ کر اور خدا کا نام لیکر ان پر عمل کریں۔۔۔۔۔۔صبح دیر تک خواب ہی دیکھتی رہوگی تو انہیں پورا کب کروگی؟۔۔۔۔۔۔۔”ماں کی بات کاٹتے ہوئے ننھی ارم نے پوچھا۔”تو ماں!یہ خواب شام کے وقت کیوں نہیں آتے ؟،شام کو آئیں گے تو نہ مجھے تمہاری ۔۔۔۔۔۔۔ بیزار سی لوری سننی پڑے گی اور نہ ہی مجھے اس لوری کے ڈر سے نیند آئے گی۔
ماں زور سے ہنسی اور بولی۔”اچھا!تو تجھے میری لوری بیزار لگتی ہے؟۔۔۔۔۔۔”
ننھی ارم نے شرماتے ہوئے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں بند کر لیں،جیسے وہ ماں سے کہیں چھپنا چاہ رہی ہو۔ماں نے بھی دکھاوے کے غصے سے سیدھے ۔۔۔۔۔۔کان ہی پکڑے۔”شیطانوں کی دادی رک ذرا! تجھے میں بتاتی ہوں۔”
“چل اب جلدی سے منھ ہاتھ دھو باہر آجا، میں تمھارے لئے کھانا بناتی ہوں، اور ذرا جلدی کر مجھے بھی تو پھر کام پر جانا ہے۔”ماں نے رسوئی میں جاتے ہوئے کہا۔
ماں کے جانے کا غم روز سہنا پڑتا تھا،سب سے زیادہ بھوک آخر مجھے ہی تو لگتی تھی۔لیکن پھر بھی میں روز ماں سے پوچھتی۔
“روز مجھے یہاں اکیلے چھوڑ تم کہاں جاتی ہو ماں؟”
اور ماں بھی روز کی طرح بس یہی جواب دیتی۔۔۔۔۔۔”وہیں !جہاں تمہارے اس بڑے سے پیٹ کے لئے کھانا ملتا ہے!”
ماں نے ننھی ارم کا پیٹ گدگدایا اور روز کی طرح اپنے کام پر چلی گئی۔ماں کے جانے کے بعد ننھی ارم کچھ دیر متفکر رہی۔پھر اس کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں ۔اس نے فضا میں اڑتی ہوئی چڑیوں کو دیکھا جو شاید اپنے اور اپنے بچوں کے رزق تلاشنے جا رہی تھیں۔ انہیں کھلے آسمان میں اڑتا دیکھ میں بہت خوش ہوتی۔
ننھی ارم نے ماں کو کئی مرتبہ آواز لگائی لیکن ماں تو جا چکی تھی۔دیر سے لوٹینگی؟
اس نے بھی انہیں کی طرح کھلے آسمان میں سیر کرنے کی سوچی۔۔۔۔۔۔۔۔پر پھر ماں کی نصیحت یاد آئی،ایک دن ماں نے کہا تھا۔”ننھی! میرے جانے کے بعد کبھی بھی گھر سے باہر نہ نکلنا “۔ماں کی بات، وہ بھلا کیسے ٹال سکتی تھی؟ماں نے کچھ سوچ سمجھ کے ہی کہا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔اب ماں آئے گی ،تو ہی اس کے ساتھ گھر سے باہر سیر کرنے نکلےگی!
سمجھداری کی باتیں کر ننھی ارم نے جیسے آسمان کا دل جیت لیا ہو !آسمان کی طرف آنکھیں بند کر اپنے حسین خواب کو پورا کرنے لگی۔جیسا اس کی ماں نے کہا تھا۔
ننھی کا گھر ،شہر سے دور کسی چوراہے کے پاس تھا جہاں لوگوں کا آنا۔جانا ذرا کم ہی لگا رہتا تھا،گاڑیاں بھی کم ہی چلا کرتی تھیں۔پہلے تو ان گاڑیوں کے ہارن ننھی ارم کو بہت پسند تھے لیکن روز کی پریشانی کسے پسند؟
سورج کی زرد شعاعیں دھوپ بن کر زمین کو رنگین کر رہی تھیں۔چڑیوں کی چہچاہٹ صاف۔صاف بتا رہی تھی کہ اب کچھ ہی دیر میں اس کی ماں بھی آجائے گی۔باہر گھومنے کی چاہت کے بعد تو خواب کیا آنکھیں بھی آنکھ مچولی کھیل رہیں تھی کہ بس ماں آجائے تو گھومنے باہر جائے اور سیر کا مزاہ لے۔۔۔۔۔۔ننھی ارم کے ان خیالات پر تو آسمان بھی ہنسنے لگا۔
سڑک پر ایک گاڑی آکر رکی۔ڈرائیور نے گاڑی کی ڈکی کھولی اور شراب کی ایک بوتل نکالی اور ایک ہی جھٹکے میں ساری گٹک لی!اپنی موچھوں پر تاؤ دیا اور گاڑی کی چابی گھمائی۔
سرکاری نوکر،کس بات کی فکر؟یہ بات اکثر لوگ اس کے پیٹھ پیچھے کہتے،لیکن مجال کوئی سامنے کہہ دے۔چابی گھومتے ہی گاڑی نے زور کی آواز کی،اور تیز رفتار سے چلنے لگی۔جیسے گاڑی کی رفتار پر پیر نے اپنے ہوش ہی کھو دئے ہوں۔لیکن جیسے ہی اس چوراہے پر آئی تو سامنے سے آتی ہوئی گاڑی کی ٹکر سے بچنے کے لئے بریک (break) مارے!لیکن گھبراہٹ اور نشے کے خمار سے پاؤں ریس پر چلا گیا۔دیکھا سامنے موت ہے اور بغل میں پیڑ ۔
جیسے دماغ اپنے آپ ہی اسے بچانے کی کوشش کر رہا ہو،شرابی نے اسٹیئرنگ پیڑ کی طرف کر دی اور ایک زور دار ٹکر کے ساتھ ہی گاڑی بند ہو گئی۔
دوسری گاڑی سے لوگ اتر بھاگے،دیکھا سب ٹھیک ہے تو ان میں سے کسی نے حامد سے پوچھا۔”چوٹ تو نہیں آئی؟”
حامد نے غصے میں، اترتے ہوئے ڈانٹا۔”ہٹ جا پرے،تجھے چوٹ کی پڑی ہے،یہ نقصان نہیں دکھا؟”
لوگوں کو شراب کی بدبو سے پتا چل گیا کہ یہ شراب پی کر گاڑی چلا رہا تھا،لیکن ہمت کس میں تھی کہنے کی؟جو دوسری گاڑی والے تھے انہیں پیدل چلنے والوں نے بتا دیا۔۔۔۔۔۔۔شرابی ہے۔سرکاری نوکر ہے،بہت سے لوگوں نے شکایت کی۔۔۔۔۔۔۔کچھ ہوتا ہی نہیں،اوپر بیٹھے افسروں کی غلامی سے ایسے افراد ہماری سرکاری خامیوں کی جیتی جاگتی تصاویر ہیں،پر کہے کون؟
جب سب چلے گئے تو حامد نے دوبارا گاڑی میں بیٹھ،چابی گھمائی ،گاڑی گھوں گھوں کر اسٹارٹ ہو گئی۔پھر پیچھے لے،آگے کا گیئر لگا،ہارن بجاتا ہوا نکل گیا۔
نیم کا پیڑ کراہ رہا تھا !لیکن اس کی سننے والا وہاں کون تھا؟نہ وہ سرکاری تھا اور نہ ہی شرابی ،لیکن اس چوراہے پر کب؟کیسے؟نیم کا وہ پیڑ اگ گیا۔یہ خود اسے بھی پتا نہ چلا،لیکن آج جیسے اسے اس غلطی کا احساس ہو رہا ہو کہ آخر وہ یہاں کیوں بڑا ہوا؟
ننھی ارم یہ سب نظارہ اپنے گھر سے ہی دیکھ رہی تھی۔جب دیکھا کہ اب کوئی نہیں ہے تو اپنے ننھے ننھے قدموں سے پیڑ کے پاس آئی،وہ آج پہلی دفعہ اپنے گھر سے باہر نکلی تھی۔اسے ڈر بھی تھا کہ ماں سے کیا کہے گی؟اس کے دل میں یہ خیال آہی رہے تھے کہ تبھی ایک شخص کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا،ننھی ارم نیم کے پیڑ کی اوٹ میں چھپ گئی۔ماں نے کہا تھا ۔”لوگوں سے دور ہی رہنا “۔پر ایسا کیوں کہا تھا ماں نے ؟یہ تو نہیں پتا،لیکن اب وہ واپس کیسے جائے؟
کتوں کے ایک جھنڈ جو بھونکتے ہوئے وہاں سے نکلے ،تو ننھی گھبرا گئی، اور کہنے لگی”ماں تم کب لوٹوگی؟،مجھے بچالو ماں!”روتی،ٹھٹھرتی،خوفزدہ ننھی ارم کی جان میں جان تب آئی جب ان کتوں کا شور سنائی دینا بند ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
سڑک پر اب خاموشی طاری تھی!دور دور تک اب کوئی نظر نہیں آرہا تھا، جیسے لوگوں کا آنا جانا ہی رک گیا ہو۔
اس سڑک کے دوسری جانب سے نکلنے والی گلی ایک اسکول کے لئے جاتی تھی اور اس اسکول میں پڑھنے والی لڑکی، آنیہ ہمیشہ کی طرح اپنی ماں کے ساتھ انگلی پکڑے اس چوراہے سے نکلتی۔اس دن بھی وہ اپنی ماں کا ہاتھ پکڑے کھیلتی،کودتی اسکول سے لوٹ رہی تھی۔
چوراہے سے نکلی تو یکایک اس کی نظر ننھی ارم پر پڑی !وہ ماں کا ہاتھ چھڑا اس کے پاس گئی اور ماں سے بولی “ماں!میں اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لےچلوں؟”
آنیہ کی امی ننھی ارم کو وہاں اکیلے دیکھ حیرت زدہ تھی ،اور اس سے اکیلے ہونے کا سبب دریافت کیا۔ڈری اور سہمی ننھی کچھ نہ بول سکی۔
آنیہ کی امی نے دیکھا کہ۔۔۔۔۔۔۔آنیہ کی آنکھوں میں اس ننھی کے لئے بے تحاشا پیار امڑ رہا تھا۔آنیہ کی امی نے ننھی ارم کو اپنی گود میں اٹھا لیا۔ننھی کو ایسا لگا جیسے وہ گود اس کی اپنی ماں کی ہو۔ننھی ارم بھی جیسے ماں کی گود میں آکر آرام سے سونا چاہ رہی ہو،سینے سے لپٹےننھی ارم ڈر،گھر اور سب کچھ بھول بس ماں سے کہہ رہی ہو،”ماں مجھے اب اکیلے چھوڑ کر مت جانا”۔جیسے سچ میں وہ اس کی اپنی ماں ہو۔
“یہ لڑکی اکیلی یہاں کیا کر رہی ہے؟اور اس کی ماں کہاں گئی ؟”آنیہ نے اپنی امی سے سوال کیا۔کیا میں اسے اپنے گھر لے چلوں؟
“نہیں بیٹا!ہمیں دیر ہو رہی ہے،چلو ہم اسے اس کے گھر اس کی ماں کے پاس چھوڑ دیں”۔
آنیہ چھوڑنے کا لفظ سنتے ہی رو پڑی!بولی “نہیں”!
تو ماں نے پیار سے سمجھایا۔”دیکھ بیٹا!جیسے میں تمہاری ماں ہوں ویسے ہی اس کی بھی ماں ہوگی،اور اگر اسے اس کی بیٹی نہیں ملی تو وہ کتنا دکھی ہوگی؟”آنیہ میں بچپنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔آخر وہ بھی تو ننھی ارم کی طرح ہی ایک بچی تھی اس لئے ماں کی باتیں نہ سمجھتی کہتی”نہیں ماں!میں اسے اپنے ساتھ ہی لے چلوں گی!”
ماں آنیہ سے پھر بولی ۔”پھر تو ہی سوچ آنیہ بیٹی!تو اسے اس کی ماں سے الگ کریگی تو اس کی ماں کو کیسا لگے گا؟”
ماں کی یہ بات آنیہ کے دل میں اتر گئی اسے لگا کہ وہ اس کی ماں کے ساتھ ٹھیک نہیں کر رہی ہے!
آنیہ نے اپنی ماں سے پوچھا۔”ماں کیا یہ مجھ سے ملنے ہمارے گھر آیا کریگی؟”
ہاں میری بیٹی!۔۔۔۔۔۔۔پر پہلے اسے اس کے گھر اس کی ماں کے پاس تو پہنچا دیں،اس کی ماں اس کا انتظار کر رہی ہوگی”۔
آنیہ کی امی نے ننھی ارم کو گود میں اٹھایا اور اس کے گھر کی طرف چل دی۔لیکن آنیہ یہ سب نظارہ وہیں سے کھڑی دیکھتی رہی۔آنیہ کی امی نے ننھی ارم کو اس کے گھر کے دروازے کے پاس چھوڑا۔ننھی ارم اب بہت خوش تھی۔اس کا گھر جو آگیا تھا۔لیکن بار بار وہ آنیہ کی طرف دیکھے جا رہی تھی،جیسے وہ کہہ رہی ہو آنیہ !تم بھی میرے پاس میرے گھر آجاؤ۔
چلو بیٹی!ہمیں دیر ہو رہی ہے۔”لیکن ماں !ابھی وہ اپنے گھر نہیں پہنچی”۔آنیہ نے دکھی دل سے کہا آنیہ کی نظر اب بھی اس پر تھی اس کا دل پھٹا جا رہا تھا،اسے چھوڑنے کا غم جیسے اس سے برداشت ہی نہ ہو رہا ہو،اب وہ اس گلی سے ننھی ارم کو دیکھ ،اداس ہو ماں کے ساتھ بس چلی جا رہی تھی۔ننھی ارم بھی جیسے اسے روکنا چاہ رہی ہو۔
نیم کا پیڑ اس نظارے کو دیکھ ،اپنا سارا درد و غم بھول گیا،اسے لگا جیسے پھر کوئی انہونی ہوئی۔
سڑک پر سامنے سے ایک تیز رفتار گاڑی آرہی ہے،ننھی ارم ماں کے انتظار میں دروازے پر ہی کھڑی گلی کی طرف دیکھ ماں کا انتظار کر رہی ہے۔سینے سے لگائے اس پل کی یاد میں کھونے سے پہلے،رونے سے پہلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تیز رفتار گاڑی ننھی کے اوپر سے ہوکر اور بھی تیز ہو گئی۔ننھی ارم ماں کے بنائے بچھونے پر سونے کے بجائے سڑک پر وہیں سو گئی اور کسی کو خبر تک نہیں ہوئی۔
گاڑی کے نیچے آنے سے ننھی ارم کے چتھڑے اڑ گئے تھے شاید!
ننھی کی ماں جسے آج آنے میں کچھ زیادہ ہی دیر ہو گئی تھی،سوچ کر پریشان تھی کہ آج اسے بڑی دیر ہوگئی،ننھی بھوکی ہوگی؟روتی ہوگی؟کیا کر رہی ہوگی؟ کیا کہوں گی اسے؟کیوں دیر ہوگئی؟جیسے خیالات لئے جلدی جلدی گھر پہنچی۔لیکن ننھی کہیں نظر نہیں آئی۔ننھی کی ماں گھبرا گئی۔تھیلا بھی ہاتھ سے چھوٹ گیا۔جس میں وہ آج ننھی کے لئے کچھ نئے نئے کھلونے لائی تھی۔ننھی کی ماں کو صاف ۔صاف دکھ رہا تھا کہ کچھ تو ہواہے،آخر ننھی کہاں گئی؟
رونے چلانے کی صدائیں فضا میں گونجنے لگیں۔وہ کس سے پوچھتی کہ اس کی ننھی کہاں گئی؟آس پاس تو کوئی تھا بھی نہیں جس سے وہ کچھ پوچھتی۔
وہ نیم کا پیڑ بھی چپ چاپ یہ سب دیکھ رہا تھا جیسے اسے کچھ پتا ہی نہ ہو!لگ رہا تھا جیسے وہ اندر ہی اندر ٹوٹ رہا ہو۔کچھ کر نہ سکنے کی دہائی دیتا رہا اس قدرت سے جو خود بھی خاموش تھی!
دوپہر ہو چلی تھی۔اسکول کی چھٹی ہوئی تو آنیہ اپنی امی کے ساتھ تیز تیز قدموں سے چلی آرہی تھی۔اس کی آنکھیں ادھر ادھر ننھی ارم کو نظر کر رہی تھی،لیکن ننھی ارم اسے کہیں نظر نہیں آئی۔دور کہیں اسے ننھی کا پھٹا ہوا فراک خون سے لت پت نظر آیا جسے اس کے ابو شہر سے خاص اپنی لاڈلی کے لئے لائے تھے اور جسے اس کی ماں ننھی کے ابو کی نشانی سمجھ کر اسے پہناتی تھی۔اسے اٹھاتے ہوئے آنیہ نے اپنی ماں سے پوچھا۔”امی یہ تو اس لڑکی کا فراک ہے،امی!اسے کیا ہوا ہوگا؟”
آنیہ کی امی کیا جواب دیتی! اس نے تو اسے واپس مڑ کر بھی نہیں دیکھا تھا،اپنی اس غلطی کا احساس اسے بیٹی سے آنکھ تک ملانے نہیں دے رہا تھا۔
“امی چلو ہم اس کے گھر چلتے ہیں،شاید وہ وہاں ہو”۔
اس بےچاری کو کیا معلوم کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے،وہ تو اس دنیا میں چلی گئی جہاں اسے،اس کی ماں اور ہم سبھی کو ایک نہ ایک دن ضرور حاضری دینے جانا ہے۔۔۔۔۔
918875350095

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here