انور جلالپوری:لسانی یکجہتی کے علمبردار

0
414

محمد شہزاد

فنون لطیفہ کی دیگر انواع و اقسام کی طرح ہی شعر ادب کی حدبندی بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ باد صبا کا ایسا جھونکا ہے جو سنگلاخ چٹانو ں اور دشوار گزار راہوں کو بھی عبور کرتا ہواایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ اسی لئے اسے سرحدوں کا پابند نہیں بنا یا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ مختلف مذاہب، ممالک اور قوموں کوایک دوسرے کے قریب لانے میں معاون ہوتا ہے۔بس شرط یہ کہ مختلف زبان و ادب میں موجود بیش بہا خزانہ کا بذریعہ ترجمہ تبادلہ کیا جائے ۔محترم انور جلالپوری نے آج کے اس پر آشوب دور میں انسان کو انسان سے جوڑنے کے اس طریقہ ©’ لسانی یکجہتی ©’کو اپنا مشن بنا لیا تھا اور بڑی خاموشی سے اپنے اس فریضہ کورہتی زندگی انجام دیتے رہے۔
دراصل انور جلالپوری کی ہمہ گیر شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ انہیں جس نقطہ نظر اور زاویہ سے دیکھا جائے ایک نئی پرت کھلتی ہے اور اس کے الگ الگ گوشے وا ہوتے ہیں۔وہ عالمی شہرت یافتہ ناظم مشاعرہ، کہنہ مشق شاعر، پائے کے نژنگار،مترجم، ماہر تعلیم اور مسلح قوم جیسی کثیر الجہات صفات کے مالک تھے۔ البتہ ان سب سے بڑھ کر وہ بہترین انسان تھے اور آپسی اتحاد و بھائی چارہ کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے فن کو بھی بروئے کار لاتے ہوئے انہوںنے لسانی یکجہتی کے ذریعہ بین مذاہب اور بین عقائدمفاہمت کو ہمیشہ فروغ دینے کی کوشش کی۔
انیکتا میں جہاں ایکتا ملی انور
ہم اس دیار کو ہندوستاں کہنے لگے
مشاعروںکو ہماری اردو تہذیب کی سب سے خوشنماں یادگار مانا جاتا ہے۔گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ اس نے کئی رنگ اور ڈھب بدلے۔ شعر گوئی کی یہ عوامی محفل جب اردو کی منھ بولی بہن ہندی کے بغل گیر ہوئی تو مشاعروں اور کوی سمیلنوں کا چلن بڑھا۔ بطو ر ناظم انور جلالپور ی نے ہماری اس گنگا جمنی تہذیب کی خوب آبیاری کی۔ ان کی نظامت میں غالب اور میر کا ذکر تھا تو میر ا اور کبیر کا بھی جابجا تصور تھا۔ وہ ہندی کویوں کو دعوت سخن دیتے ہوئے ناگارجن اور دشینت جیسے شعرا کے اشعار سے محفل کو آشنا کرتے تھے۔ اس طرح وہ سامعین کو یہ باور کراتے تھے کہ گنگا جمنا محض ندیوں کے دو دھاروں کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ہماری مشترکہ تہذیب کی علامت بھی ہے۔ یہ ان کی ہندی دانی کی غماز ہے جو شری مد بھگوت گیتا کے منظوم ترجمے میں اپنی معراج کو پہنچتی نظر آتی ہے۔
اب نام نہیں کام کا قائل ہے زمانہ
اب کسی کا نام راون نہ ملے گا
مشاعرہ و کوی سمیلنوں کو مصروفیت اور تھکن کے باوجود انور جلالپوری کا تخلیقی سفر بھی پورے آب و تاب کے ساتھ رواں دواں رہا۔ اس دوران ان کے کئی شعری مجموعے اور نثری تصانیف منظر عام پر آئیں۔ البتہ ان میں ان کا سب سے نمایاں کام مختلف زبان و ادب میں موجود شہرہ آفاق سرمائے کا منظوم ترجمہ نظر آتا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے دنیا کی کئی عظیم اور قدیم زبانوں پر طبع آزمائی کی۔ عربی میں ظاہر ہے کلام الٰہی سے بہتر لٹریچر کسی کے نزدیک بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔ زہد و تقویٰ کا معاملہ تو اللہ اور بندے کے درمیان کا ہے لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ دین اسلام پر ان کا عقیدہ بامصمم تھا۔ وحدةالوجودپر یقین پیہم اور اس میں تصوف کا رنگ غالب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کے تیسویں پارہ ”عم” کا منظوم ترجمہ کیا۔ ”توشہ آخرت” کے نام سے شائع ان کی اس تخلیق کو بلاشبہ اردو کا گراں قدر سرمایہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سورةالاخلاص کا منظوم مفہوم پیش ہے۔
محمد یہ کہ دو خدا ایک ہے
ہدایات کا سلسلہ ایک ہے
حقیقت میں تو ہے وہی بے نیاز
وہی جانے تخلیق کے سارے راز
جنم لیتا ہے اور نہ مرتا ہے وہ
وہ خالق ہے تخلیق کرتا ہے وہ
کسی نے نہیں اس کو پیدا کیا
وہ تب بھی تھا جس وقت کچھ بھی نہ تھا
کوئی اس کا ساجھی و ساتھی نہیں
اسی کی ہے خلقت فلک اور زمیں
اردو سے فارسی کا رشتہ جسم اور جان کا ہے۔ شعر و سخن کے بیش قیمتی خزینہ سے مالامال اس زبان کے طلسم سے اردو کا ہر بڑا شاعر و ادیب متاثر ہوا۔ انور جلالپوری بھلا اپنے منظوم ترجمے کے سلسلہ کو فارسی سے اچھوتا کیسے رکھتے۔ چونکہ اردو اور ہندی کی طرح انہیں عربی اور فارسی زبان پر بھی قدرت حاصل تھی، اس لئے انہوں نے فارسی سے عمر خیام کی رباعیات کے منظوم ترجمے کا مشکل ترین کام کیا۔ اس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
اٹھو اے میرے شاگردو بجھاؤ تشنگی اپنی
ہنسو، چہکو، چہک کر پھر بنا لو زندگی اپنی
وگرنہ جسم کا پیالہ کسی دم ٹوٹ سکتا ہے
کسی کا بھی ہو کیسا ساتھ وہ بھی چھوٹ سکتا ہے
انور جلالپوری پیشہ سے انگریزی کے استاد تھے لیکن اردو کو انہوں نے دل کی بات کہنے کا ذریعہ بنایا۔ اس طرح وہ اردو کے ان شعرا و ادباءکی صف کے نمائندہ ہیں جس میں فراق گھورکھپوری، فیض احمد فیض او ر شمس الرحمٰن فاروقی جیسوں کے اسم گرامی قابل ذکر ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انگریزی لٹریچر سے حصول تعلیم کے دوران ان کے اساتذہ پروفیسر اسلوب انصاری اور پروفیسر زاہدہ زیدی کا ان کی ذہن سازی میں بڑا اثر رہا ۔ اسی کی دین ہے کہ انہوں نے اردو کے متنازعہ نقاد پروفیسر کلیم الدین احمد کی طرح اردو کو انگریزی کے چشمے سے دیکھ کر اس میں خامیاں نہیں تلاش کیں بلکہ اس کے ادب میں موجود وسعت خیالی اور جدید نگاری سے ترجمے کے کام میں استفادہ کیا۔ اسی سبب سے گرو دیو رابیندر ناتھ ٹیگور کی شہرہ آفاق تخلیق گیتانجلی کا منظوم ترجمہ ان کے قلم سے وجود میں آیا۔ دلچسپ بات یہ ہے بنگلہ زبان سے براہ راست انہیں کوئی واقفیت نہیں تھی، اس لئے انہوں نے گیتانجلی کے ترجمے کے لئے ڈبلیوبی ایٹس کے انگریزی نسخے کا سہارا لیا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
سدا کے واسطے اس سے ہمارا ایک رشتہ ہے
ہمیں اس نے محبت کی ہی اک ڈوری میں باندھا ہے
تو اپنے گیان سے اور دھیان سے باہر نکل کر آ
تو پوجا پاٹ کے ابھیمان سے باہر نکل کر آ
نہ کر کچھ فکر جو کپڑے پھٹے ہیں اور پرانے ہیں
یہ محنت کش ترے اپنے ہییں تجھ کو خوب جانے ہیں
انہیں میں آ کے مل جا اور پسینہ پوچھ ماتھے سے
تجھے مکتی ملے گی صرف ان لوگوں میں رہنے سے
حکومت ہند کی وزارت ثقافت نے گرودیو ٹیگور کے نوبل انعام سے نوازے جانے کی صد سالہ تقریبات کے دوران”ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم”کے تحت ان کی تخلیقات کے اردو ترجمے کا کام جامعہ ملیہ اسلامیہ سے کروایا۔ اس وقت احساس ہوا کہ ہائے تنگ نظری کہ حکومت انور جلالپوری کی خوبیوں سے لاعلم رہی ورنہ جس کام کے لئے اس نے کروڑوں روپے صرف کئے، موصوف نے اس کی ابتدا بلامعاوضہ کر دی تھی۔
لسانی یکجہتی کے علمبردار انور جلالپوری کا خیال تھا کہ گیتا، اپنشد اور قرآن جیسی مقدس کتابیں انسانی وراثت ہیں اور ہر حال میں ان کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ بقول انور” گیتا آدمی کو انسان بنانے کی بے انتہا کامیاب کوشش ہے، یہ انسانی بھلائی کا عالمی دستاویز ہے۔ گیتا شاعری بھی ہے، دانشوری بھی اور روحانی صحیفہ بھی۔”
ان کا خیال تھا کہ گیتا کے آفاقی پیغام کو بلاتفریق مذہب و ملت تمام انسانوں تک پہنچانا چاہیے۔ اسی غرض سے انہوں نے گیتا کے تمام 701 شلوکوں کا منظوم ترجمہ کیا جس کی ہر حلقہ میں خوب پذیرائی ہوئی۔
ہمیشہ رہے جو وہ ہے آتما
اسی سے تو ملتا ہے پرماتما
ہے معلوم بس گیانیوں کو یہ راز
وہی اس کی تعلیم کے ہیں مجاز
وہ اک ذات جو خالق کائنات
وہ اک ذات جو مالک شش جہات
اسی کے تو جلوے ہیں چاروں طرف
اسی کے کرشمے ہیں چاروں طرف
اردو شاعری میں گیتا کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ میر انیس اور دبیر منظر کشی کا جو کام اپنے مرثیوں میں لیتے ہیں، اس کی جھلک انور جلالپوری کی گیتا میں بھی نظر آتی ہے۔ بالخصوص رزمیہ مہابھارت کا وہ پہلو بالکل عیاں اور واضح ہو جاتا ہے جس میں بھگوان کرشن کشمکش میں مبتلا ارجن کو زندگی کا حوصلہ دیتے نظر آتے ہیں۔
ادھر کرشن ارجن سے ہیں ہم کلام
سناتے ہیں روحانیت کا پیام
وہ کہتے ہیں ارجن سے اے سوگوار
تو غم اوڑ ھ لیتا ہے کیوں بار بار
تری بات کو گیان والی نہیں
کہیں سے یہ سمان والی نہیں
جو گیانی ہیں جینے پر مرتے نہیں
کبھی موت سے بھی وہ ڈرتے نہیں
اردو شاعری میں گیتا کی مقبولیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سابق چیف جسٹس آف انڈیا ٹی ایس ٹھاکر بھی اس کی افادیت کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔ ان کی پہلی زبان اردو تھی اور شعر و شاعری سے انہیں شغف تھا، اس لئے ‘اردو شاعری میں گیتا’ کا انہوں نے بغور مطالعہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انور جلالپور ی کی گیتا ہماری ساجھی وراثت کی امین ہے جسے سنجوئے رکھنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح بودھ مت کے پیشوا گوتم بدھ کے آفاقی پیغام اہنسا اور ان کے فلسفہ سے بھی انور جلالپوری متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے ۔ انتقال سے قبل بدھ اور ان کی تعلیمات کے منظوم ترجمے کا کام جار ی تھا لیکن زندگی دغا دے گئی۔ اس کی طباعت اور اشاعت کی ذمہ داری اب ان کے وارثین پر آپڑی ہے جسے منظر عام پر لانے کے لئے وہ کوشاں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے ان تمام تراجم کو انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ دیوناگری رسم الخط میں بھی شائع کرایا۔ ان کی زبان بہت شستہ، سادہ اور سلیس ہے۔ وہ مرقع و مسجع زبان سے پرہیز کرتے ہیں تاکہ عوام الناس کو اسے سمجھنے میں آسانی ہو۔ لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں تسلسل، روانی، اثر آفرینی اور زور بیان نہ ہو۔ طرز ادا ستھری اور دلنشیں ہے۔ اس کے ذریعہ ان کی کوشش تھی کہ عام لوگ بھی دنیائے ادب میں موجود ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت کو سمجھیں اور افہام وتفہیم کی فضا سازگار رہے۔
Mohammad Shahzad
(Hindusthan Samachar- a multilingual news agency)
Mob no.9899356615
B-27/13, First Floor
Thokar no.07
Abul Fazal Enclave-2
Shaheen Bagh, Okhla
New Delhi
110025

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here