انوار احمد سے انور جلال پوری تک

0
224

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر مسیح الدین خان

میری بستی کے لوگو! اب نہ روکو راستہ میرا
میں سب کچھ چھوڑ کر جاتا ہوں دیکھو حوصلہ میرا
میں جارہا ہوں میرا انتظار مت کرنا
میرے لئے کبھی دل سوگوار مت کرنا
ان اشعار کے خالق محترم انور جلال پوری صاحب جو آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں،اچانک ۲/جنوری۲۰۱۸ء؁ کو ایک ایسی دنیا میں چلے گئے،جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آپایا ہے،انہوں نے جب اس دار فانی کو لبیک کہا تو مجھے ان کا یہ شعر بہت یاد آیا۔
موت سے بچنے کی ایک ترکیب ہے
دوسروں کے ذہنوں میں زندہ رہو
یہ چراغ ۶/جولائی ۱۹۴۷ء؁ کو روشن ہوا ،اور دن بدن اس کی روشنی اور لَو بہت تیز ہوتی گئی، اور اپنی روشنی سے اندھیرے کو اجالے میں بدلتے گئے۔
جلائے ہیں دئے تو پھر ہواؤں پر نظر رکھو
یہ جھونکے ایک پَل میں سب چراغوں کو بجھا دیں گے
رفتہ رفتہ انوار احمد کے حیات کا یہ سفر شروع ہوا، اور بچپن کی تعلیم شروع ہوئی پہلے گھر کے پاس ایک مدرسہ میں اس کے بعد گھر کے قریب میں نرینددیوانٹر کالج سے ہوئی،آگے مزید اردواور انگریزی سے ایم اے کیا، اور اس میں کافی مہارت حاصل کی، ساتھ ہی ساتھ دیگر زبانوں میں بھی عبور حاصل کیا، بقول پروفیسر ڈاکٹر عباس رضا نیر جلال پوری’’اردو انور جلال پوری کی مادری زبان تھی، ہندی ان کی قومی زبان تھی،انگریزی کے وہ لکچرر تھے، عربی سے انہوں نے تیسویں پارے کا منظوم ترجمہ کیا تھا، سنسکرت سے بھگوت گیتا، فارسی سے رباعیات خیام کا، اور بنگلہ سے رویندر ناتھ ٹیگور کی گیتا انجلی کا‘‘گویا اس طرح سے براہ راست انور جلال پوری کا تعلق بہت ساری زبانوں سے تھا۔
انور جلال پوری کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے، وہ ایک نمایاں ادیب،بین الاقوامی شہرت یافتہ اردو شاعرو ناظم مشاعرہ مقرر، ٹی وی سیریل رائٹر، دانشور، نغمہ نگار ماہر تعلیم اورمشاعرے کے بے تاج بادشاہ تھے۔
انہوں نے بچپن سے ہی شاعری شروع کردی تھی خود ایک جگہ رقم طراز ہیںکہ’’میں نے شاعری تو چودہ برس کی عمر میں شروع کر دی تھی‘‘ ان کی شاعری بالکل منفرد اور عام فہم زبان میں تھی، اس میں ثقل بالکل بھی نہیں تھی،اور ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اسمیں قومی یک جہتی بھی موجود تھی۔انکا نام ہی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت تھی۔ انہوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعے ایک پیغام دیا ہے ،انہوں نے ہمیشہ دیانت داری سے کام لیا۔ایک بہت ہی متاثر کرنے والی بات انور صاحب نے اپنی کتاب میں تحریر کی ہے وہ یہ کہ ’’بہت سے لوگ تو پیدائشی سید اور خاندانی زمیندار ہی رہتے ہیں مگر میں نے اپنے نسب اور گھریلو غربت پر کوئی پردہ نہیں ڈالا‘‘۔
انور صاحب سے ملاقاتوں کے کافی تجربات حاصل ہوئے ہیں۔میری ملاقات ڈاکٹر انور جلال پوری سے ایک پروگرام کے موقع پر ہوئی تھی، ہوایوں کہ ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر وجہہ القمرکی کتاب ’’خلیل الرحمن اعظمی‘‘کی کتاب کا اجراء کا ذمہ میرے اوپر تھا، اور میں پروگرام کا کنوینر تھا، ایک دن انور صاحب کی کال آئی کہ ’’مجھے اخباروں کے ذریعے سے معلوم ہواکہ کچھ پروگرام ہے، اور وجہہ القمر کی کتاب کا اجرا ہے،لہٰذا میں اس پروگرام میں شریک ہونا چاہتا ہوں، وہ میرے عزیز ہیں اور دیرینہ تعلقات بھی ہیں‘‘میرے لئے اس سے بڑھ کر سعادت اور خوش نصیبی کیا ہو سکتی تھی کہ اتنی بڑی شخصیت انور صاحب کی جو ہمارے درمیان بغیر کسی محنت ومشقت کے حاضر تھی، بہر حال اس پروگرام میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد، پروفیسر آصفہ زمانی، ڈاکٹر شیمہ رضوی،چودھری شرف الدین سمیت درجنوں اہل علم وحضرات نے نہ صرف شرکت کی بلکہ بہت تفصیل کے ساتھ’’خلیل الرحمن اعظمی کی شخصیت- فکروفن سے متعلق جامع گفتگو اور سیر بحث کی۔
اس طرح رفتہ رفتہ انور جلال پوری صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا،اس سے بڑھ کر ہمارے لئے اور کیا سند ہوسکتی تھی کہ متعدد بار پروگراموں میں انور صاحب کی موجودگی میں مجھے نظامت کرنے شرف حاصل ہوا، میری ادب وشاعری سے دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کئی بار انور صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ شاعری کیوں نہیں کرتے؟آپ کو تو شاعری ضرور کرنا چاہئے جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہر موضوع پر کھل کر گفتگو بھی ہوتی اور ہماری رہنمائی کرتے لیکن آج ہم لوگ آپ کی سرپرستی سے محروم ہوگئے،اوران کا یہ شعر بہت یاد آرہا ہے۔
اگر تم آسماں پر جارہے ہو، شوق سے جاؤ
میرے نقش وقدم آگے کی منزل کا پتا دیں گے
بار ہا ایسا ہوا کہ جب جب میں نے انور صاحب کو فون کیا تو انہوں نے مجھ سے یہی کہا کہ ابھی کچھ دیر قبل آپ کے بارے میں بات ہو رہی تھی، اور ایسے لوگوں کی حیات بہت لمبی ہوتی ہیں، جن کا ذکر ہوا کرتا ہے، کئی بار تو خصوصی طور پر فون کرکے مجھ سے کہا کہ نئی نسل میں ہمارے نظروں کے سامنے ایک آپ کا نام نمایاں ہو کر آتا ہے، اور دکھائی بھی دیتا ہے، جو کہ سر گرم عمل ہے۔اور ادبی وسماجی خدمات انجام دے رہے ہیں،اکثر وبیشتر ایک چیز وہ کہا کرتے تھے کہ بغیروسائل وذرائع کے آپ اتنا کام کرتے ہو، اسلئے اس چیز کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ایک بار ان کی دو کتابیں ’’راہرو سے رہنماتک‘‘ اور’’ توشہ آخرت‘‘کا اجراء ہونا تھا، لہٰذا انہوں نے کچھ کام ہمارے سپرد کیا،جسکو بخوبی میں نے انجام دیا،اور صاحب کتاب نے یہ دونوں کتابیںمجھے بھی عنایت کیں۔
وہ مجھ سے کئی بار ذکر کرچکے تھے کہ میں پی،ایچ،ڈی کرنا چاہتا ہوں،کیا طریقہ کار ہے آپ مجھے مطلع کیجئے گا،اُس وقت انہوںنے ایک انکشاف یہ بھی کیا کہ ویسے کئی پی، ایچ،ڈیاں خود ہمارے اوپر بھی ہورہی ہیں جس طرح اردو کے نمایاں ممتاز شعراء وادباء جنہوں نے Ph.Dتو نہیں کی لیکن سیکڑوں،اور ہزاروں پی، ایچ،ڈیاں آج ان کے اوپر ہورہی ہیں، شاید کچھ ایسا ہی ہوا انورصاحب کے ساتھ۔
انور صاحب کی نظامت کا تو جواب نہیں، ایک بار انہوں نے نظامت کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیج پر جو لوگ بیٹھے ہیں، انہیں تو مبارکباد دیتا ہوں لیکن اس سے زیادہ مبارکبادان لوگوں کودیتاہوں جو لوگ نیچے بیٹھے ہیں،یوں تو بظاہر اسٹیج کے حضرات اوپر ہیں اور سامعین نیچے ہیں، لیکن یاد رکھئے ترازو کا وہ پلرا زیادہ بھاری مانا جاتا ہے جو نیچے کی طرف جھکا ہوتا ہے، اسکی اہمیت زیادہ ہوتی ہے،ٹھیک اسی طرح یہاں پر نیچے بیٹھے سامعین کی اہمیت زیادہ ہے، انور صاحب کی شخصیت کو نکھارنے میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد جیسے استاذکی سرپرستی رہی ہے، اور استاذ کا عکس شاگرد میں مکمل نمایاں ہے۔
انور جلال پوری صاحب کی اتنی مصروفیت کے باوجود بہت ساری کتابیں منظر عام پر ہیں،آخر وہ لکھنے پڑھنے کے لئے کب وقت نکالتے تھے؟ یہ بہت اہم بات تھی۔کیونکہ ایک شخص جو مشاعرے کی دنیا میں راتوں رات جگا کرتا ہے، وہ شخص کب لکھتااور پڑھتا ہے؟یہ چیز میرے سمجھ سے دور تھی،کیونکہ ایک ایک مضمون لکھنے اور ایک ایک شعر کہنے میں ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ویسے تو انور صاحب نے مختلف موضوعات کو بہت خوبصورتی کے ساتھ قلم بند کیا ہے،ان کی کئی مشہور کتابیں ہیں جو درج ذیل ہیں، راہرو سے رہنما تک(منظوم سیرت خلفا ئے راشدین)،اردوشاعری میں رباعیات خیام،اردو شاعری میں گیتا،تو شہ آخرت(منظوم مفہوم )پارہ عم)بعد از خدا (نعتیہ مجموعہ)کھارے پانیوں کا سلسلہ(مجموہ غزلیات)خوشبو کی رشتے داری(مجموعہ غزلیات)جاگتی آنکھیں (دیوناگری رسم الخط)(مجموعہ غزلیات)روشنائی کے سفیر(مجموعہ مضامین)اپنی دھرتی اپنے لوگ (مجموعہ مضامین)ضرب لا الہ(نعتیہ مجموعہ)جمال محمد (نعتیہ مجموعہ)سفیر ان ادب ،قلم کا سفر، انور جلال پوری ادب کے آئینے میں، انورجلال پوری شخصیت اورادبی جہات وغیرہ وغیرہ۔
انور صاحب یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے چیر مین تھے اور آپ کئی جگہ ممبر رہ چکے ہیں،جیسے کہ ممبر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، ممبر خواجہ معین الدین چشتی اردو ،عربی،فارسی یونیورسٹی، ممبررکن مجلس انتظامیہ یو پی اردو اکیڈمی،ممبر ریاستی اتر پردیش حج کمیٹی ،ممبر رکن ضلع لوک عدالت امبیڈ کر نگرلکھنؤ۔
ان کی مجموعی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں مختلف انعامات واعزازات سے نوازا گیا جیسے یش بھارتی سمان،قومی یک جہتی ایوارڈ یو پی اردو اکیڈمی فراق سمان،ارم قومی یکجہتی ایوارڈ میر ایوارڈ وغیرہ وغیرہ جیسے درجنوں انعامات سے آپ کو سر فراز کیا جا چکا ہے۔اور ایک بڑا انعام بھارت سر کار کی جانب سے (پدم شری ایوارڈ) انتقال کے بعد (بعدازمرگ) دیا گیا ،افسوس! ان کی زندگی نے وفا نہیں کی اور وہ دوسری دنیا میں چلے گئے۔آخر میں انہیں کے اس شعر کے ساتھ اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔
کوئی پوچھے گا جس دن واقعی یہ زندگی کیا ہے؟
زمیں سے ایک مٹھی خاک لے کر ہم اڑادیں گے
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی لکھنؤ
Mb. 9307690748

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here