انتظار حسین اور رثائی ادب

0
336

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

قاضی اسد

+91 8081509094

کہاں افسانہ کہاں مرثیہ۔ایک تو نظم و نثر کا فرق دوسرے ،موضوع کا افتراق۔بہت کم ادیب ایسے ہیں جو دو متضاد مضمون و صنف کے خصوصیات کو اپنے ایک قلم میں ضم کر لیتا ہے۔انتظار حسین ،ایسے ہی ایک صاحب قلم ’ہیں۔ ‘’تھے‘لکھنا مناسب نہیں ۔ جس کے تخلیقات اپنے تمام کمال و جمال کے ساتھ افقِ ادب پہ ضو فشاں ’ہیں،‘ اس کے لیے ’تھے‘ کیوں لکھییے؟
فکشن نگاروں نے داستانوں، ناولوں، افسانوں، ناولٹوں اورایک ایک دو دو چار چار سطروںکے مختصر افسانوں کے علاوہ نثری ادب میں کافی کچھ قابلِ قدر تحریر کیا ہے لیکن زیادہ تر ان صاحبانِ قلم نے فکشن کی ہی تخلیق و تنقید و تاریخ کو اپنا موضوع بنایا جو ان کا میدانِ عمل ہے ، جو بجا ہے، مناسب ہے اور ان کے قلم پر سجتا بھی ہے۔لیکن چند ایسے بھی ہیں جنہوں نے فکشن کے ساتھ نظم میں بھی طبع آزمائی کی اور نثر کے دوسرے میدانوںمیں بھی کوشش کی۔ ایسے ہی ایک صاحب قلم انتظار حسین صاحب بھی ہیں جنہوں نے دوسرے صنف و موضوع میںبھی ادب تخلیق کیا لیکن ، لہو لگا کے شہیدوں میں شامل نہیں ہوئے بلکہ باقاعدہ جہاد کیا اور اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔
ان کی تخلیق کا حسنِ تضاد دیکھیے۔انگریزی میں صحافت، اردو میں شاعری اور فکشن نگاری کے ساتھ ساتھ تنقید نگاری بھی۔ اور پھر قلم بھی وہ جس کو سنسکرت کی قدیم کتب نے قط دیا اور فارسی کی ما فوق الفطرت داستانوں نے روشنائی بخشی۔
انتظار حسین کی طبیعت کی تشکیل میں قدیم کتابوں خصوصاً داستانوی ادب و نفسیاتِ انسانی کے مطالعے ،تہذیبی روایات سے دلچسپی اور صوفیت کی طرف جھکائو نے اہم کردار ادا کیے۔اودھ کے جس علاقے سے پاکستان کے جس خطے میں جا بسے وہاں ان تمام دلبستگیوں کی بارات ان کے ساتھ چلی،رہی اور مسلسل ان کے ذہن و دل کو متاثر کرتی رہی۔ بھارت کی تمام مقامی ،مذہبی،دیہی، شہری رسمیں اوررواج، ادب و آداب، اندازِ تمدن کہیں کچھ کم کہیں کچھ زیادہ، پڑوسی ملک میں بھی انہیں میسر آئیں جن کو تقسیم کے زخموں اور وطن کی یادوں نے طبیعت میں رچا بسا دیا۔
انہیں تہذیبی عناصر میں محرم کی عزادارئی امامِ حسینؑ کے رسوم اور یادِ حسینیؑ منانے کے طریقوںکا اہم اور بنیادی جز ’’مرثیہ‘‘ ہے جس کے بغیر اس وقت بھی عزاداری کاتصور نہیں کیا جا سکتا۔ سوز خوانی اور تحت اللفظ خوانی اس کی مشہور و مقبول شکلیں ہیں جو ہر لمحہ ارتقا و تجدد پذیر ہیں۔انتظار صاحب کی اس صنفِ شعر و ادب سے گہری وابستگی ،ماضی کو حال میں دیکھنے کے شوق، شعورِ احساس و تفکر اور افسانوی طرزِ تحریرنے انہیں رثائی ادب پر قوتِ قلم صرف کرنے پہ راغب کیا اور ایک اردو افسانہ نویس ،انگریزی زبان کے صحافی نے مرثیے جیسے موضوع پر خوب دلچسپی سے اور کھل کر لکھنا شروع کیا۔
صرف ضیافتِ طبعِ خود کے لیے ہی نہیںلکھا بلکہ مختلف ادبی رسالوں کے لیے بھی لکھا،جن میں علامہ ضمیر اختر نقوی کا مایۂ ناز سہ ماہی رسالہ ’’القلم‘‘ اور ڈاکٹر ہلال نقوی کا گراں قدر سہ ماہی پرچہ ’’رثائی ادب‘‘ سرِ فہرست ہیں۔آخر الذکر رسالہ ’’شب خون‘‘کی طرح نام پیدا کر کے، اعلان کر کے بند ہو گیا۔ جب کہ اول الذکر رسالہ اب بھی علامہ ضمیر اختر نقوی صاحب کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود پا بندی سے شائع ہو رہا ہے،رثائی ادبیات کے خزانے کو بیش بہا جواہر سے مالامال کر رہا ہے ،کہ یہ علمی، ادبی، تہذیبی رسالہ ہونے کے باوجود رثائی ادب سے متعلق نگارشات کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
اگر چہ انتظار صاحب نے محرم،عزاداری،امام حسینؑ،مرثیہ،مرثیہ خوانی وغیرہ موضوعات پر ان دو رسالوںکے علاوہ اور پرچوں میں خوب خوب لکھا ،یہاں تک کہ پاکستان کے انگریزی روزنامے ’’دی ڈان‘‘ میں اپنے مستقل کالم میں بھی رثائی فنون و ادب وروایات سے متعلق موضوعات پر بے تکلف لکھتے رہے جن ،میں یہ مضامین بہت زیادہ مشہور و مقبول ہوئے:
۱۔ Hindu Contribution to Marsiya
۲۔Brahmans in Karbala
۳۔The Language of Colour
۴۔The Art of Marsiya Khwani
۵۔An Interaction with Ammy Bard the American Research Scholar working on Urdu Marsiya
انتظار صاحب کے مندرجہ بالا چند مضامین کے علاوہ اس نہج کے دیگر مضمونوں کے اردو ترجمے کا کام میں نے شروع کر دیا ہے، جو انتظار حسین صاحب کی ادبی حیثیت میں ایک نئے باب کی دریافت تو نہیں لیکن تشہیر ضرور کہا جائے گا۔کراچی میں مقیم ہمارے ادبی دوست ارتضیٰ عباس نے ڈ اکٹر ہلال نقوی کے حوالے سے ایک خبر دی جوافسوس اور خوشی کا امتزاج تھی کہ مرحوم انتظار صاحب اپنے ان رثائی مضامین کو یکجا کرنا چاپتے تھے۔بہر حال میں نے یہ کام شروع کر دیا ہے اور انگریزی کے علاوہ اردو میں لکھے ہوئے ان کے کچھ مضمون بڑی کوشش و کد سے ہاتھ آئے ہیں،باقی کی بھی نشان دہی اورحصول کی کوشش جاری ہے۔ان میں سے چند اہم ودلچسپ مضامین یہ ہیں:
۱۔انیسؔ کے مرثیوں میں شہر
۲۔شبلیؔ کے موازنے کی رد میں انیسؔ پر ایک اعلیٰ تنقید
۳۔اردو مرثیے کے میرؔ ومرزاؔ
۴۔رزمیہ میں ایک نئی جہت وغیرہ
آخر الذکر مضمون انتظارحسین صاحب کے بہترین مضامین میں شامل کرنے کا سزاوار ہے ۔جس میں رزمیے کو واقعی ایک نہیں کئی جہات سے دیکھا گیا اور ایسے رخ پیش کئے گئے جن پر پہلے باقاعدہ روشنی نہیں ڈالی گئی تھی یا وہ فکری پہلو سامنے نہیں لائے گئے تھے جو اس تحریر سے روشن ہوتے ہیں۔مہابھارت اور کربلا کا موازنہ تو ظاہر ہے،نہیں ہو سکتا ،نہ ہی اس مضمون میں کیا گیا ہے لیکن پھر بھی رزمیہ اور خصوصاً میرانیسؔ کی رزمیہ نگاری کے حوالے سے بات کی جائے تو انیسؔ کا رزمیہ ہندوستانی تہذیب سے زیادہ متاثر نظر آتا ہے۔اسی لئے مہابھارت کی مدد سے انتظار صاحب نے میر انیسؔکی رزمیہ نگاری میں گھریلو رشتے،خاندانی رکھ رکھائو،میل جول،حفظِ مراتب اور صنفِ نسواں کی عظمت کے پہلوکی طرف متوجہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
مہابھارت میں، خواتین کردارموجود ہیں لیکن، کہیںکہیں اور آدھے ادھورے اور عورت کے جتنے نمایاں کردار ہیں ان سب کا ذکر نہیں ہے،کچھ کا صرف تذکرہ ہے جو اکثر زیبِ داستاں زیادہ محسوس ہوتے ہیں لیکن میر انیسؔ نے مائوں،بہنوں کے ساتھ ساتھ ،پھُپھی،چچا،چچی،ممانی،دادی، نانی ،نواسا، نواسی وغیرہ۔۔ یہاں تک کہ گھر کی خادمہ تک کے کرداروں کو پاکیزگی کے ساتھ پیش کیا ہے جو واقعی ان کی اصل ہے۔اہلیبیتِ محمدﷺ ، ہندوستان کی کنبہ پروری کی درخشندہ روایتیں اور اودھ کی معاشرت میں زندگی کر رہے خود میر انیسؔ کے گھر کی خصوصی تہذب نے مل کر میر صاحب سے وہ رزمیہ کہلوایا جو قدامت،افسوں، اصلیت ، روحانیت، نفسیات،معاشرت اورتہذیب کا ایسا دلپذیر رنگ ہے جو اردو مرثیے میں کسی اور مرثیہ نگار نے اس انداز و خوبی سے اور دیگر زبانوں میں ان جہات سے،کبھی پیش نہیں کیا تھا۔
اس مضمون کے علاوہ انتظار حسین صاحب کے چند اور رثائی مضامین جو سر سری طور پر نظر سے گزرے ان میں کچھ ایسے خاص وصف ہیں جو تاس قسم کے تمام مضامین میںپائے جاتے ہیں،جو ان کے قلم کی قدرت،ذہن کی جودت،فکر کی بلندی،جزب و احساس کی شدت اور سادگی و حقیقت کی غمازی کرتے ہیں جیسے:
۔فکشن کی طرح مضامین بھی جا بجا پرانے قصے کہانیوں سے کمک حاصل کرتے ہیں
۔اردو کے علاوہ کئی اور زبانیں جاننے کے باوجود بے ضرورت ہندی یا انگریزی وغیرہ کے الفاظ استعمال نہیں کرتے
۔موازناتی اندازِ فکر و تحریر
۔سلیس زبان، جو ان کے فکشن کا خاصہ ہے وہی ان رثائی مضامین کا بھی۔اگرچہ افسانے اور تنقید و تحقیق میں بہت فرق ہے، پھر بھی ایسے مضامین میں وہی سہل زبان اور
آسان اندازِ بیان نظر نواز ہوتا ہے۔کہیں کہیں تنقید کی فطری رکھائی آ بھی جائے تو کیا مضائقہ۔
۔موضوع کا حتہ الوسع مطالعہ
۔مشاہدات اور سچے جزبات کا زوروکیف
۔افسانوی فضا۔
معلوم ہوتا ہے کوئی افسانہ پڑھ رہے ہیں۔یہ وہ اوصاف ہیں جو فکشن نگاروں کے دیگر نثر پاروں میں اس طرح نہیں ہیں جس انداز سے انتظار حسین صاحب کے یہاں موجود ہیں۔کیوں نہ ہو،انتظار صاحب کی شخصیت جب جب سامنے آئی،چاہے افسانے کی شکل میں،یا ناول کے روپ میں،دیگر نظم و نثر پاروں کی شکل میںیا تقریر اور ملاقاتوں کے آئینے میں؛ہمیشہ انہیں دیکھنے، سننے، پڑھنے اور سمجھنے والے کو ایک فسوں،ایک عجب روحانی کشش کا احساس ہوا جو شوقِ قربت تو بیدارہی نہیں کرتا، شوخ بھی کر دیتاہے ،لیکن سامنے موجود یا ذہن میں متصور شخصیت کا جمال و جلال ایسے جامے میں دکھائی دیتا ہے کہ احساسِ تقدس، دستِ شوق کو روک ہی لیتا ہے۔انتظار صاحب خود بھی تو کہتے ہیںـ:
“I am a man only of fiction!”
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردولکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here