الفاظ و معانی کا شاعر۔۔۔باقی احمد پوری

0
98

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

ڈاکٹر سعید روشن

غزل جو ایک محض صنف سخن ہی نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک طلسم کدئہ الفاظ و معانی ہے ۔ اس طلسم کدہ کا سنگِ بنیاد شاعر کی انفرادی ذات خاص اقدار سے وابستہ ہو کر اپنے اطراف میں بکھری ہوئی اشیاء کے مابین رشتہء اضداد و کشمکش میں ربط و ضبط کی دریافت کے ذریعہ غزل کی کائنات کا مرکزی استعارہ بنتی ہے ۔ پھیر یہی استعارہ دائرہ در دائرہ علامتوں اور پرت در پرت لایعنیت کے اندھیروں میں زندگی کی معنویت کا رنگ و نور تلاش کرتا نظر آتا ہے ۔جو اظہار کا ذریعہ بنتا ہے ۔
باقی احمد پوری بنیادی طور پر غزل کے شاعرہیں اور غزلیں ہی ان کا تخلیقی سرمایہ ہے جن کا تجزیاتی مطالعہ دلچسپ ، توجہ طلب اور حقائق کا انکشاف کرتا ہے ۔ان کے تخیل کے ایک نئے امتزاج سے افکار و جذبات کی نازک شکلیں اور حسّی تجربہ کی متحرک تصویریں بنتی ہیں ۔ ان کے یہاں داخلی کرب ابھر کر سامنے آتا ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے غزل کو آفاقیت بخشی ہے ۔ ان کے یہاں زمین کا حوالہ ان کے فکر و فن کا بنیادی حوالہ ہے ۔ اپنی زمین کی محبت کا جذبہ اس شعر میں بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے۔
ہے وطن کیا چیز تو بے وطن سے پوچھئے
شکر ہے اک گھر ہمارا ہے خدا کا شکر ہے
باقی احمد پوری کی آواز کی بے باکی اور لہجہ کی شدت اور خنکی پہچان کا پہلا پتھر ہے ۔ان کے تجربے اور مشاہدے نے عصر کی اشیاء کے درمیان رشتہ ڈھونڈاہے۔ اور فن کا جداگانہ اور منفرد نمونہ اردو ادب میں پیش کیا ہے ۔
اس شدت کی آگ لگی ہے بستی میں
گیلی لکڑی کو بھی جلنا پڑتا ہے
باقی کے یہاں ان کی ذات ہی ان کا اسلوب ہے ۔ان کی اسلوب کی جلوہ گری ایسے اشعار میں ملتی ہے جہاں انہوں نے عشق و محبت کے چراغ جلائے ہیں ۔غزل کی ایمائی کیفیت ، نازک خیالی ، جذبات کی گرمی کے معیار کی پیش کش میں ان کا انداز منفرد ہے۔ محبت کا پیمان ، غمِ ہجراں ، عاشق کی وفا شعاری ، معشوق کی جفا کاری سوز و گداز اور دیگر لوازمات کے بیان کی کیفیت بالکل انوکھی اور جداگانہ ہے ۔ عشق کی اس نازک خیالی کو دیکھئے کس عمدہ پیرائے میں اپنی بات کہتے نظر آتے ہیں جو دل کو چھو تا ہے ۔
کس کس ادا سے جنبش ابرو کرے ہے تو
باتیں کرے ہے یار کے جادو کرے ہے تو
میں آپ آپ کہہ کے مخاطب کروں تجھے
صد حیف سب کے سامنے تو تو کرے ہے تو
گل آشنائے رنگ ہوئے تیرے رنگ سے
بادِ صبا کو واقفِ خوشبو کرے ہے تو
باقی احمد پوری کے کلام میں فرد کی ذات ، ذات کا کرب اور کرب کی شدت کا احساس ملتا ہے ،قدم قدم پر شکست و ریخت کا ایک سلسلہ ہے ۔جو آج کے انسان کی بے بسی و بے چارگی ، شکست خوردگی اور مایوسی کے احساس کو واضع کرتا ہے ۔ماحول کے انتشار ، فرد کی ذات کا المیہ اور معاشرے کی تلخیوں کی آئینہ دار ہے
کسی میں دم نہیں اتنا سرِ شہرِ ستم نکلے
ضمیروں کی صدا پر بھی نہ تم نکلے نہ ہم نکلے
یہاں تو بغض و نفرت کے علمبردار ہیں سارے
یہاں کیسے کوئی لے کر محبت کا علم نکلے
اُدھر پھیلے ہوئے تھے دور تک لشکر یزیدوں کے
اِدھر دو چار ہم جیسے ہمارے ہم قدم نکلے
عصری تقاضوں کو محسوس کرنے ، ان کو اپنے شعور میں جذب کرنے اور خارجی و داخلی ردّ عمل کا اظہار کرنے کا طریقہ باقی کے یہاں یہاں جدا گانہ ہے ۔اس کرب ذات میں وہ تنہاں ہیں اور اس کا احساس اس طرح بیان کرتے ہیں۔
لوگوں کو ایک دوجے کا احساس نہیں
اپنی اپنی آگ میں جلنا پڑتا ہے
سیر کرتے ہیں شش جہات میں ہم
جھانکتے ہیں اپنی ذات میں ہم
نازک احساسات و جذبہ اور خصوصاً جذبئہ محبت ان کی شاعری میں ایک نمایاں ہیں۔ بلکہ ان کے افکار کی بنیاد ہی عشق ہے ۔عشق ہی انہیں حیات و کائنات کی پُر اسراریت میں جھانکنے پر اکساتی ہے۔عشق ہی ہے جو ذات کا رشتہ کائنات سے جوڑتی ہے ۔ باقی نے عشق و محبت کو اپنے اشعار میں بلندی ہی نہیں بخشی بلکہ ایک نمایاں مقام دیاہے ۔
ہزار اس کے معانی ہزار تعبیریں
کسی سے ہو نہی پائی مگر وضاحتِ عشق
عشق میں ہاں سے ہاں ملاتے ہیں
عشق میں ایں و آں نہیں ہوتی
عشق ِ حقیقی یعنی معرفت میں ڈوبے ہوئے تصوف کے کچھ اشعار دیکھئے۔
عشق سے ماورا نہیں ہے عشق
یعنی خود ہے خدا نہیں ہے عشق
معرفت کے طریق اور بھی ہیں
صرف ایک راستہ نہیں ہے عشق
جلنے والوں سے پوچھ کر دیکھو
روشنی ہے دیا نہیں ہے عشق
عشق اور صنفِ نازک کی جمالیاتی عنصر کی خوبصورت عکاسی کرتا ہوا یہ شعر بھی دیکھئے ۔
طرزِ حیا ہے زینت و زیبائش ِ جمال
ناپید ہو یہ وصف تو عورت میں کیا رہے
باقی احمد پوری نے اپنی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے عہد اور ماحول کی ترجمانی کی ہے ۔ اپنے ماضی کی روایتوں کو بھی برتا ہے لیکن بدلتے ہوئے حالات کی پہلو دار عکاسی کی ہے۔ساتھ ہی معاشرے کے انتشار کو نمایاں کیا ہے حقوق یافتہ طبقات کی خود غرضی اور قوم پرستانہ مفادات کی کشمکش بھی ان کے اشعار میں دیکھی جاسکتی ہے۔باقی احمد پوری کا انداز بیان میں لہجہ دھیما اور آواز اور زبان اپنے پیشرو سے قدرے مختلف ہے اس لئے جذبے کی آفاقیت فکر بن کر سامنے آتی ہے ۔جن میں زندگی اور حقائق کے ادراک میں تہہ داری ہے۔
باقی کی غزلوں میں سلاست ، روانی، نغمگی اور الفاظ کے دروبست سے تاثراتی امواج کی پیدائش شاعری کی کامیابی کی علامتیں ہیں ۔٭٭٭
(بانسوارہ ، راجستھان)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here