یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم حاصل کرنے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)
محررخوشنویس میر مشتاق
بھاٸی ! انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ۔ ساری دنیا بچوں سے لیکر بڑوں تک جیسے باولی ہو رہی ہیں۔ ہر ایک کی زبان پر فیس بک اور وٹس اَپ وغیرہ کا نام زبانِ زد عام ہے۔ ہر کوٸی دجالی انٹرنیٹ کے کارنامے ایسے سنا رہا ہے جیسے برج خلیفہ فتح کیا ہو۔ ایک میں ہوں جو اکیسویں صدی میں بھی گِھسی پِٹی کتابوں سے ہی کام چلا رہا ہے۔ میرے ہمعسر مجھے کتابوں کا کیڑا سمجھ کر روز طعنے دیتے تھے۔ یہاں دودھ پیتے بچوں کو بھی انٹرنیٹ کی لت لگ گٸی ہے۔ ایک میں ہوں جس کا کوٸی پرسانِ حال نہیں ۔ میری سمجھ میں نہیں آتی میں اسی صدی کا انسان ہوں یا پرانے زمانے کا۔ اپنے ہمعسر دوستوں کے ہاتھوں میں مہنگے مہنگے سمارٹ فون دیکھ کر آخر میری بھی غیرت جاگ اٹھی۔ میں نے بھی تھوڑی سی ہمت جٹا کر والد صاحب کو صاف صاف لفظوں میں کہہ ہی ڈالا۔
” ابو مجھے بھی سمارٹ فون چاہیے۔
ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!“
والد صاحب :۔ ” ورنہ کیا ؟ “
” ورنہ میں گھر چھوڑ کے چلا جاٶ گا۔ “
میری بات ابھی پوری بھی نہ ہوٸی والد صاحب نے جٹ سے میرے داٸیں گال پر زور کا ایک عدد تھپڑ ایسے رسید کر دیا جیسے میرے گال پر تازہ تازہ نقاشی ہوٸی ہو۔ تھپڑ کی صورت میں یہ میرا پہلا اعزاز تھا جو والد صاحب نے مجھے دیا۔ تھپڑ ایسے زوروں کا تھا کہ میرے حواس باختہ ہو گٸے۔
شام کو میں گھر دیر سے اس لیٸے آیا تھا کہ میرا کوٸی پرسان حال ہو ۔ لیکن مجال ہے کسی نے یہ کہنے کی زحمت بھی کی ہوگی کہ تم اتنے دیر تک کہاں رہے ہو۔ کسی نے مجھ سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کی ۔جب مجھے بھی لگا میری یہاں کوٸی دال گلنے والی نہیں ہے تو میں نے بھی ٹھان رکھی تھی کہ میں فون لے کر ہی دم لوں گا۔
فون حاصل کرنے کے چکر میں نے گھر کا سارا نظام درہم برہم کرکے رکھا تھا۔ میں روز شام کو گھر آکر ہنگامہ برپا کرتا تھا۔ ضروریات کی ساری چیزیں توڑ ڈالی ۔کھڑکیوں کے کانچ تک نہیں چھوڑے یہاں تک کہ نوبت فاقہ کشی تک بھی پہنچ گٸی۔
یہ میں ہی جانتا ہوں کہ فون حاصل کرنے کے چکر میں نہ جانے میں نے کتنے پاپڑ بیلیں ۔ اتنی توڑ پھوڑ کے باوجود بھی گھر والوں پر جوں تک نہ رینگی۔ میری فون والی بات گھر والوں کو سخت ناگوار گزری۔ یہاں تک کہ والد صاحب نے میرے حق میں شاہی فرمان جاری کردیا کہ کم بخت کا کھانا پینا سب بند کردو تااکہ ان کے ہوش ٹھکانے آجاۓ۔ ایسی صورت میں انسان کرتا بھی تو کیا کرتا۔ میں نے بھی جاری کردہ شاہی فرمان کی پروا کیٸے بغیر ایک ترکیب سوجھی جو فون حاصل کرنے کا واحد راستہ تھا۔
شام کو جب میں تھکا ہارا گھر پہنچا سب گھر والے اس وقت کھانا کھانے میں مصروف تھیں ۔ دسترخواں پر طرح طرح کے پکوان دیکھ کر میرے منہ میں خوب پانی آگیا۔ کھانا کھانے کا میرا بھی جی کر رہا تھا مجال ہے کسی فرد واحد نے مجھ سے کھانے کا بھی پوچھا ہو ۔ میں بھی دیر تک رسوٸی میں منہ پھلاٸے بیٹھا رہا جو کسی کو دکھانے کے قابل نہ رہا۔ آخر ! تھوڑی سی ہمت جمع کرکے میرے منہ سے بے ساختہ چند کلمات نکل ہی پڑیں۔
” ابو ! میں نے بھی ٹھان رکھی ہے اگر اس بار بھی میری فون والی فرماٸش پوری نہ ہوٸی تو میں خود کشی کر لوں گا جس کا خمیازہ تم سب کو بھگتنا پڑے گا۔“
میری اس گیدڑ بھبکی سے والد صاحب کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا ۔ ان کے چہرے سے بے بسی کے آثار خوب نمایاں ہوگٸے ۔ میں اپنے والد کا واحد سہارا تھا آخر ! والد صاحب کو میری ضد کے آگے ناکوں چنے چبانے ہی پڑے۔
والد صاحب :۔ ” بیٹا کچھ دنوں کی مہلت تو دو میں کچھ نہ کچھ بندوبست کر لوں گا۔ مجھے پتہ ہے کتے کی دم کبھی بھی سیدھی نہیں ہوتی۔ میں کچھ نہ کچھ فروخت کرکے تمہارے فون کا ضرور انتظام کرلوں گا۔ “
تقریبا ایک ہفتہ گزر گیا میں دسترخواں بچھاٸے کھانا نوش فرما رہا تھا کہ اچانک والد صاحب کی آواز کمرے میں گونجی۔ انھوں نے اپنی شاہی جیب سے کچھ رقم نکال کر میرے ناتجربہ کار ہاتھوں میں بالآخر تھما ہی دی۔ نامعلوم رقم ہاتھ میں لیتے ہی میں جنگی بندر کی طرح اچھلتے ، کودتے والد صاحب کو نیک دعاٸیں دیتے ہوٸے کمرے سے باہر آگیا۔
میری خوشیوں کا ٹھکانہ نہ رہا ۔ جیسے تیسے بازار سے فون خرید ہی لایا ۔ میرے ہاتھ میں فون کیا آگیا جیسے میری لاٹری لگ گٸی تھی۔ ادھر اُدھر سے چند پیسے منت سماجت کرکے =/199 روپے کا پہلا ” ازی ریچارج “ ڈال ہی دیا تھا۔ میں نے سب سے پہلے فیس بک اکاونٹ کھول کر چار پانچ جاننے والوں کو فرینڈ ریکوسٹ بھیج دی۔ میں روز سلفی اٹھا کر فیس بک پہ اَپ لوڈ کرتا تھا ۔ پہلی ہی پوسٹ پر تقریبا سو سے زیادہ لاٸکس اور دس پندرہ کمنٹس آ ہی گٸے تھے۔ میں روز اٹھتے بیٹھتے ، جاگتے سوتے اور کھاتے پیتے منہ کو ٹیڑھا میڑھا کرکے سلفی ضرور کھینچ لیتا تھا شیر کے منہ کو جیسے خون لگ گیا تھا۔
ایک دن ” الیشا “ نامی ایک لڑکی کو فرینڈ ریکسوٸٹ بھیجنے کی حماقت بھی کی تھی جو کہی دنوں تک ویٹنگ لسٹ میں جوں کی توں پڑی رہی ۔ ایک روز کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے محترمہ کو مجھ جیسے مسکین شکل کے انسان پر پیار آہی گیا کہ میری فرینڈ ریکسوٸٹ قبول ہوٸی۔ میرے جیسے بھاگ ہی کھل گٸے۔ کچھ دنوں تک فیس بک جیسی ماواراٸی دینا پر میں محترمہ کے ساتھ دوستی جیسے تقدس مآب رشتے کے تقاضے پورا کرتا رہا۔ ایک روز میں نے نہ جانے کون سی ایسی پوسٹ اَپ لوڈ کی تھی جو سیدھے محترمہ کے دل کو جا لگی ۔ اس نے بھی آٶ دیکھی نہ تاٶ فورا ہی ” مسینجر“ پر اردو والی” ہاٸے “نہیں بلکہ انگریزی والی ” hi “ لکھ کر جیسے میرے دل کے تار چھیڑ دیٸے ۔ رات دن مسینجر پر محترمہ سے چیٹ ہوتا رہا ۔ پیار و محبت کی باتیں ہوتیں رہی ۔شکوے شکایتیں ہوتیں رہی ۔ کٸی روز تک ایک دوسرے کو روٹھنے منانے کا سلسلہ کلاسیکل محبت کی طرح چلتا رہا۔
بالآخر ایک دن میں نے تھوڑی سی جسارت کرکے محترمہ کو ویڈیو کال کی پیشکش کی جو بے سود نکلی ۔ محترمہ بھی روز کوٸی نہ کوٸی نیا بہانہ کرکے کل پرسوں کا کہہ کر ٹال دیتی تھی۔ میں محترمہ کا پری رو چہرہ دیکھنے کیلٸے بڑا بے تاب تھا ۔ میں بھی اپنی ضد پر اڑا رہا ویڈیو کال کی پیشکش مسلسل کرتا رہا ۔ میرے لگاتار اصرار پر بالآخر محترمہ نے شام کے وقت ویڈیو کال کرنے کا عہد و پیماں باندھ ہی لیا تھا ۔ یہ سن کر جیسے مجھے اپنے کانوں پہ یقین ہی نہ ہوا ہو کہ محترمہ واقعی آج شام مجھے ویڈیو کال کرے گی۔ وقت جیسے تھم سا گیا تھا ۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں تھی۔ شام کے وقت کا بڑی بے صبری سے انتظار تھا۔
آخر وہ گھڑی آہی گٸی تھی ۔ فون کی گھنٹی بجتے ہی میں نے جٹ سے کال اٹھاٸی اور بڑے ہی شریفانہ اور معصومانہ انداز میں جب ”ہیلو “ کیا تو میں ایسے شکل و صورت والے انسان سے روبرو ہوا جس کا لہجہ مردوں جیسا دم خم رکھتا تھا اور وہ شکل و صورت کے اعتبار سے بھی جیتا جاگتا مرد ہی نکلا جسے میں حور سمجھتا تھا وہ آخر میں لنگور نکلا۔
جموں و کشمیر۔