یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم حاصل کرنے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)
اختر خان رضا
شام کا وقت تھا۔ آسمانوں میں کلی گٹیاں چھائے ہوئی تھی۔ ایک عجیب سا منظر دیکھائی دے رہاتھا۔نہ جانے وہ کونسی چیز کو بادلوں کے بیچ دیکھنے کی کوشش کررہاتھا، کچھد دیر بعد آسمانوں پرستاروں کالشکر دیکھائی دیا۔ اور ساتھ ہی چاند اندھیروں سے بغاوت کرنے لگا۔احسان نہ جانے کیوں اس طرح بادلوں کو دیکھ رہا تھا۔احسان کی امی نے آواز دی ،بیٹے احسان رات ہوگئی ہے اب جار کر سوجاوَ۔ صبح تمہیںکالج جانا ہے! امی ان ستاروں کے ہجوم میںاپنے محبوبہ کو دیکھ رہاہوں ۔ شاید وہ بھی ان سے زیادہ خوبصورت ہوگا۔ بیٹے تم کیا کہہ رہے ہو۔ او ر کس سے کہہ رہے ہو۔کچھ پتہ ہے معاف کرنہ امی میں زیادہ ہی بول گیا۔ بہت خوشگوار ماحول تھا۔ احسان کے گھر کا دوبہین ایک وہ خود ماںباپ اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ جمیل صاحب اسکول کے پرنسپل تھے۔گھر کا خرچ انہیں سے چلتاتھا۔ احسان جوانی کی دہلیز پر تھا۔اس کے والد صاحب کی خواہش تھی کہ احسان کو اعلٰی تعلیم حاصل کراکر ہم اسے پروفیسر بنائیں گے۔ مگر وہ پٹرھائی میںکمزورتھا۔ جمیل صاحب ہر دم اس کی حوصلہ افزائی کرتے شاید اس کے اندر پٹر ھائی کی امنگ پیداہوں۔۔۔ یہ تونہیںہوا!کچھ اور ہوا۔دونوں بہینے دسویں بارہویں جماعت میں تھی۔ ماں نے پٹرھائی کے بعدشادی بیاہ کرنے کی سوچ رکھی تھی۔ احسان بی ۔اے فائنل میںتھا۔مگر اب زندگی نے نئے موڑ لیا ۔ایسے موڑ جو کسی کو خوشی یاغم دے۔ آرابیگم اورجمیل صاحب اس بات سے واقف تھے کہ احسان پر عشق کا بھوت سوار ہے۔ انہیں ایسے لگاکہ وقت کے ساتھ ساتھ احسان بدل جائے گا۔ اور یہی نظر انداز انھیں بھاری پٹرگیا۔ صبح ناشتہ کے لیے وآرابیگم نے گھر کے ممبران کو آوازدی سب نے مل جل کر ناشتہ کیا۔ احسان چپ تھا،خاموشی صاف اس کے چہرے سے نظر آرہی تھی،آرابیگم نے خاموشی کی وجہ پوچھی،نہیں امی بس ایسی ہی دماغی الجھنوںمیںہوں۔پٹرھائی کی کوئی پریشانی ہے بیٹھا نہیں امتحان قریب آگیااس لیے بے چین ہوں۔ارے تو اس میںٖڈرنے کی کیا بات ہے، امتحان پریشانی کا نام نہیں بلکہ ہم نے اسے پریشانی بنایا ہے۔ وہ کچھ بولنا چاہتاتھا۔ مگر بول نہیں پایااب دیکھونہ نشاط کے بھی امتحان قریب ہے اس کے چہرے پر تو کھبی میں پریشانی نہیں دیکھی اور تم ہوکہ پریشان ہوئے جارہے ہو۔ناشتہ کرنے کے بعد احسان اپنے روم میں چلاگیا۔ اس کی زبان میں وہ الفاظ نہیں تھے۔ جو وہ ان سے کہتے،وہ دل ہی دل میںکہہ رہاتھا پریشانی امتحان کی نہیں بلکہ کسی اور چیز کی ہے۔ جو بتانا مناسب نہیں۔۔
احسان کے تمام افراد اس کے اوپر جان ودل نچھارو کرتے تھے۔ احسان ہر ایک کے دل میں بساہوا تھا۔ اس کے دل پرکسی نے دستک دی۔مگر وہ جسے چاہتاتھا۔ شاید ہی وہ اسے اتنا چاہے۔ احسان الفت نام کی لٹرکی سے محبت کرتاتھا۔ ایسی محبت جو شاید کسی نے کی نہ ہوں۔ احسان ہر گھٹری انہی گلیوں سے گزرتاتھا۔ جس گلی میں الفت کا گھرتھا۔ الفت حسن کی ملکہ تھی۔ جو احسان کی محبت اور اس کے زندگی کی ہمسفر تھی۔ فرق دونوں میں یہ آگیا کہ احسان اچھے گھرانے کا تھا۔ اور الفت غریبی کی امید ۔احسان کے دل میںالفت کی محبت اس قدربس گئی کہ سوتے جگتے کھاتے پیتے ہر طرف اسی کا خیال رہتاتھا۔ جمیل صاحب کو احسان پر شک ہونے لگا ایک روز جمیل صاحب نے پوچھا بیٹھا احسان آج کل تم بہت اداس رہتے ہو،کچھ پریشانی تو نہیں ہے نہیں ابو بس اپنے ہی کام میں مصروف ہوں۔ بی۔اے فائنل میںاچھے نمبرات لے کرآؤگے بیٹے میں تمھیں ایک تحفہ دوںگاجوتم نے کھبی سوچا نہیں ہوگا۔ ٹھیک ہے ابو!صبح کالج جاتے وقت الفت سے محبت کا اظہار کروںگا۔الفت کے دل میںبھی احسان کی محبت تھی۔لیکن وہ اسے ہردم چھپاتی رہی۔اسے اپنے خوبصورت حسن وجمال پر بٹرافخر تھا۔آج احسان نے ہمت کرکے محبت کی بات الفت سے کردی۔ الفت میںتم سے بے پباہ محبت کرتاہوں شاید کسی نے کسی سے کیا نہ ہو،تم ہرروز میرے خوابوں میںآکرمجھے جگاتی ہو جسے تم کوئی شہزادی ہو۔ْ تمہارے چہراہر گھٹری میری نظروں کے سامنے جھلکتا ہے،جدھر بھی دکھاتاہوں بس تم ہی دیکھائی دیتی ہوں۔پاگل ہوگیا ہوں تمہاری محبت میںتم میری محبت کوقبول کرو الفت،میں تم سے محبت نہیںکرتی احسان میںتمھیںایک اچھا لٹرکا سمجھتی تھی۔مگرتم اس حدتک آؤگے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔میں تم سے محبت نہیں کرتی خدا کے لیے مجھے بھول جاؤ ۔خدا حافظ تم جھوٹ بولتی ہو۔ سچ تویہ کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہواس سے تم انکارنہیں کرسکتی۔احسان محبت میںدونوں کی رضا مندی چاہیے اچھا انداز ہے تمہارا محبت کرکے مکر جانا۔ مکرنامیری فطرت نہیںاحسان الفت اپنے گھر کی طرف چلی گئی۔ احسان اسے حسرت بھری نظروں سے دیکھتا ہی رہ گیا۔دل میں جو پیار کی شمع تھی۔ آج جسے وہ بجھ گئی ہو۔۔الفت مفلسی کی امید تھی۔ گھر کی معاشی حالت بہت خستہ تھی۔گھر کی ذمہداری اسی پر تھی۔DataComputer میںکام کرتی تھی۔جس سے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ لیکن احسان کا دیوانہ پن دن بہ دن بٹرھتا ہی جارہاتھا۔اس کو الفت کے سوا کوئی اور نظر نہیں آتا۔ محبت تو شمع ہے جل جائے تو پھر بجھنا ہے مشکل ۔احسان کے گھر والوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ احسان کے عاشقی کا بھوت دن بہ دن بٹرھتا ہی جارہا تھا،،احسان جب کالج سے گھر آیا تو اس کے والد دروازے پر اس کی راہ دیکھ رہے تھے۔ آج تم اتنے لیٹ کیسے ہوگیا۔ احسان کچھ نہیں ابو راستہ میںذرا کام تھا۔ مجھے آج تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ کہوں،تمہاری خاموشی کی وجہ کیا ہے۔ میںہر روز تمھیں دیکھ رہاہوں کہ تم کسی سے بات چیت بھی بہت کمررہے ہو۔ اگر کوئی پریشانی ہوتو بتاؤاحسان میںاسے حل کیے دیتا ہوںنہیں میں ٹھیک ہوں۔ یہ کہہ کر اندر چلاگیا۔ جمیل صاحب اسے دیکھتے رہ گئے۔ صبح جب کالج کے لیے احسان جانے لگا تو اس کے والد نے اس کا پچھاکیا۔احسان ان راہوں سے گزرتاتھا۔ جس گلی میں الفت کا گھر تھا۔ الفت کام پہ جانے کی تیاری میں تھی۔ اس کاگھر سے باہر نکلنا اور احسان کا اس کے گھر پر پہچنا بالکل ایک ہوگیا۔ احسان کہہ رہا تھا۔ الفت تم مجھ سے محبت کرتی ہو یا نہیں۔ میں تم سے محبت نہیں کرتی احسان مجھے اکیلا چھوڑ دو لیکن میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ احسان تم مجھ سے کرتے ہو میں نہیں محبت میں دونوں کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ تم جھوٹ بولتی ہو۔۔ الفت تم بھی مجھ سے پیارکرتی ہو۔ لیکن تم مجھے تٹرپنا چاہتی ہو۔ یہ تمہارا پاگل پن ہے احسان،اگر تم مجھ سے محبت نہیں کرتی تومیں خودکشی کرلوں گا۔ احسان سمجھنے کی کوشش کرو۔ میرے اوپر گھر ذمہ داری ہے۔ میرے علاوہ اور کوئی کمانے والا نہیں۔میرے والد دونوں آنکھوںسے آندھے ہیں ۔ میری ماں اپاہچ ہے۔ میںاپنے کام سے گزاراکرتی ہوں۔۔ خدا کے لیے مجھے اپنی محبت میں گرفتار مت کرو میں اپنی محبت کے لیے ان کاساتھ نہیں چھوڑ سکتی۔ خدا کے لیے مجھے پریشان نہ کرو۔۔ جمیل صاحب تمام منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔انھیں اس بات کا پتہ معلوم ہوا کہ احسان کی پریشانی پٹرھائی اور امتحان نہیں بلکہ محبت ہے جو وہ ایک غریب لٹرکی سے کرتا ہے۔۔۔۔
جمیل صاحب احسان کا راستہ بے صبری سے دیکھنے لگے۔ ابھی تک احسان کالج سے گھر پرنہیں آیا۔فون کیا مگر بندآرہاتھا۔ دل میں طرح طرح کے خیال آنے لگے پتہ نہیں احسان ابھی تک گھر کیوںنہیں آیا۔ آرابیگم نے جمیل صاحب بے چینی اور پریشانی کی وجہ پوچھی۔پتہ نہیںبیگم کافی ڈر لگ رہا ہے۔ احسان ابھی تک کالج سے گھر پرنہیں آیا۔ تو اس میںڈرنے کی کیابات ہے آرابیگم آج میںنے اپنی آنکھوں سے احسان کو ایک لٹرکی سے بات کرتے دیکھا تو اس میںگھبرانے کی کیا بات ہے کالج کے اندرلٹرکا لٹرکی بات چیت کرتے رہتے ہیں۔بات چیت اگر محبت کی ہوتوڈرلگتا ہے۔ اب اس میں محبت کی کونسی بات ہے!۔۔ بیگم وہ ایک لٹرکی کوپریشان کررہاتھا۔مجھے ڈر ہے کہ ایسے ویسے کرنہ بیٹھے رات کے 10 بج رہے ہیں۔مگر احسان کا کوئی بھی پتہ نہیں تھا۔ جمیل صاحب فون لگالگاکر پریشان تھے۔ مگر فون بند بتارہاتھا۔۔آرابیگم کوبھی فکر ستانے لگی۔انہیں بھی جمیل صاحب کی باتوں پربھروسہ ہونے لگا۔دونوں میاں بیوی اداس چہرا لیے بیٹھے تھے۔اچانک فون کی گھنٹی سنائی دی۔ دونوں ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھنے لگے، احسان کی امی نے فون اٹھایا۔۔۔۔۔،،ہیلو،کون ہیلو میں پرساد انسکپٹر پولیس اسٹشین سے بات کررہاہوں۔ یہ نمبر جمیل صاحب کا ہے نہ ہا ں مگر آپ کو کون چاہیے ، ہمیںایک لاش ملی ہے۔ اور لاش کے پاس ہمیں ایڈمیٹ کارڈ ملا ہے۔ اس کارڈ پر جمیل صاحب کا فون نمبر تھا۔ آپ لوگ جلدی پولیس اسٹیشن آجائے ہمیںلاش کو پوسٹ ماتم کے لیے بھیجانا ہے۔ آراء بیگم کے پاؤں تلے سے زمین سارک گئی ہوں،،آنکھوں سے آنسوکے سیلاب بہنے لگے۔ یا اللہ یہ کیا ہوگیا۔،،کیا ہوا بیگم ہمیں بھی تو کچھ بتاؤ تم کیوں رورہی ہوں۔کس کا فون تھا۔اور کیاکہہ رہاتھا۔پولیس اسٹشین سے فون تھا۔ ان لوگوں کو ہمارے بیٹے کی لاش ملی ہے۔۔کیایہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ ایسانہیں ہوسکتا ایسا نہیں ہوسکتا۔۔احسان اتنابٹرا قدم نہیں اٹھا سکتاضرور کوئی بات ہے۔ چیخ چیخ کر رونے لگے۔ دونوں ایک دوسرے کو لپٹ کرزاروقطاررونے لگے۔ اور جلدی سے پولیس اسٹشین پہنچے۔ ان کے قدم ڈگمگانے لگے۔ جمیل صاحب کے آنسوں روکنے کا نام نہیں لے رہاتھے۔ اندرکمرے میں لاش پٹری ہے۔ جاکردیکھو یہ تمہارا ہی لٹرکا ہے یا نہیں۔اس کے پاس سے ہمیں یہ کارڈ ملا ہے۔ اس کارڈ پر جمیل صاحب نام اور نمبرہے۔ پرسادانسپکٹر نے جمیل صاحب کو لاش دیکھنے کے لیے کہا۔ جمیل صاحب کا جسم کانپ رہاتھا۔چادر سرکاکردیکھا تو یقین وہ لاش کوئی اور نہیں بلکہ احسان کی لاش تھی۔چہرا دیکھ کر جمیل صاحب کو چکر آگیا۔ اور گشت کھاکر زمین پر گرپٹرے آراء بیگم یہ منظر آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔،، یہ کیا کر ڈالا بیٹا احسان تونے۔۔۔۔انسپکٹر صاحب نے کچھ پانی کی پوندے جمیل صاحب کے چہرے پر چھٹرک کر جمیل صاحب نے آنکھ کھولی تو آنسو آناہوگیا۔دونوں ایک کمرے میںبٹھایا ۔ یہ کیسے ہوا انسپکٹر صاحب پتہ نہیں جانچ شروع ہے۔ پوسٹ ماتم کی رپوٹ سے پتہ چلے گاہمیں لاش کے پاس کچھ چیزیں ملی ہے۔ کارڈ موبائیل اور ایک خط ملا ہے۔ آراء بیگم نے اس خط کو پٹرھا تو وہ اس طرح تحریرتھا۔۔۔
،،۔۔۔میرے خوابوں کی شہزادی الفت۔۔۔۔۔۔۔
میں تمہارے پیار میں اس قدر پاگل ہوگیا ہوں کہ مجھے زندگی بھی چھوٹی لگ رہی ہے۔ کچھ سمجھ میںنہیں آتا کہ کیاکروں اس بات سے میرے گھر والے بے خبر ہے۔ میںاپنی وجہ سے گھر والوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ان کی بہت عزت ہے۔ میں اپنی وجہ سے ان کی عزت کو داغ نہیں لگاسکتا۔میرے مرنے کے بعد میری حقیقت سے واقف ہوجائیں گے الفت میںنے تم سے محبت کی تھی۔ لیکن تم نے مجھے کبھی اپنایا نہیں یہ غم نے آخر میری جان لے لی۔ زندہ رہتاتو مجھے اور تکلیف ہوتی۔ اس لیے میںنے راستہ اپنایا۔ اگر وقت ملے تومیری قبر پرچلے آنا میں تمہیں وہیں ملوں گا۔۔۔۔۔تمہارا عاشق احسان۔۔۔۔
انسپکٹر نے لاش جمیل صاحب کے حوالے کردی ۔ایمبولینس کے ذریعے لاش کو گھر پر لے گیا۔ پورے گھر میں ماتم تھا۔ ہر ایک کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ شاید الفت بھی احسان کو پسند کرتی تھی۔ مگر وہ اس کو اجاگر نہیں کرپائی۔ آفس آنے کے بعد الفت اپنے کمپیوٹر پر بیٹھی تو اسے کمپیوٹر کے پاس ایک خط میلا۔ الفت نے اسے نظر انداز کیا اور کمپیوٹر شروع کرنے لگی۔ پاس بیٹھی میڈم نے الفت سے کہا ارے الفت ایک لٹرکا آیا تھا۔ اور اس نے ایک خط تیرے کمپیوٹر کے پاس رکھی ہے اس نے کہاتھا کہ الفت کے آنے کے بعد اس خط کو پٹرھنے کے لیے کہنا۔ الفت نے اس خط کو نظر انداز کیا اور اپنے کام میںمصروف ہوگئی۔وقفے کے بعد جب اس نے خط کو کھولا تووہ اس طرح تحریر تھا۔۔
میری شہزادی الفت اگر تم اس وقت مجھے ملنے نہیںآئی۔تو میں خودکشی کرلوں گا۔ میں تم سے محبت کا اظہارکرچکاہوں۔ بس آخری باراپنے محبونہ کودیکھناچاہتاہوں۔الفت کوگھبراہٹ ہونے لگی ایسا لگنے لگاکہ وہ ایسے ویسے نہ کربیٹھے۔ وہ جلدی جلدی باہر کی طرف جانے لگی۔ مگر اب بہت درہوچکتی۔ اب میت کو سوارا گیا۔اورجنازے میں لپٹ دیاگیا۔آرابیگم ایک زندہ لاش کی طرح احسان کو بار بار دیکھنے لگی۔ ایسا لگ رہاتھا۔ جیسے احسان سویاہو۔مگر یہ سونا آخرکاسونا تھا۔جوشاید کبھی اٹھٹے نہ ۔کسی نے کہاکہ وقت ہوگیاہے عشاء کو نماز کے بعدجنازے کو اٹھایاجایاگا۔ جنازا اٹھادیکھکر آرابیگم نے چیخ ماری بیٹے احسان اپنی ماں کوچھوڑکرکہاجارہاہے۔ لوگ جناز ے کو کندے دینے لگے دونوںبہن منہ سوکھائے ماںکو سہارا دینے لگی۔ جنازابھی اس گلی سے گزارا جس گلی میں الفت کا گھر تھا۔ جنازہ آگے جاکے کہہ رہاتھا۔۔۔۔
،،، دیکھ لے ان ہی گلیوں سے گزری ہے میت میری بات مرنے کے بھی میں نے راستہ نہ بدلانہ تھا،،،
میت کوسپردخاک کرکے جب لوگ گھر لوٹنے لگے تو الفت نے گھر سے باہر نکل کردیکھا پوچھنے لگی۔ کہ آج گلی میںاتنا ہجوم کیسے کسی عاشق کا انتقال ہوگیاہے یہ اسی کی بارات ہے۔۔۔
،،، وہ پوچھتے پھرتے ہیںمرنے والا کون تھا
آگیا لوگ جس کی موت دفنانے کے بعد،،،
الفت کو گھبراہٹ ہونے لگی کہیں یہ احسان تو نہیں جس کی محبت کومیں نے ٹھوکرا دیا تھا۔ آج ہی تو اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ مگر وہ اس حدتک آجائیگا۔مجھ بے وفا کو بھروسہ نہیں۔ میں نے دھوکانہیںدیا۔ بلکہ اس کی زندگی اچھے سے سنوارجائے وہ صحیح راستہ پر آجائے۔مگر اسیے نہ ہوں۔ مجھ مفلس کوتو دونوں کی خدمت کرتے کرتے ہی مرناہے۔ مجھے معا ف کرو نہ احسان ایک طرفہ محبت کو محبت نہیں کہتے لیکن تم نہ سمجھے آخرتم نے اپنی جان دے دی۔ شہر خموشاں سے آنے کے بعد جمیل صاحب اداس چہرہ لئے بیٹھ گئے۔ ان کی زبان سے بے ساختہ نکال گیا۔۔۔ جانے والوں سے دل کا رشتہ نہیں جاتا،، جانے والوں کی یاد رہ جاتی ہے،،
دونوں آرابیگم آپس میں مل کر رونے لگے۔ لوگ سمجھانے لگے۔ جوخدا کومنطور تھا۔ وہ ہوگیا۔ آنسو کے بہنے سے احسان نہیں آئے گا۔ایک بارتو ہم سے پوچھ لیا ہوتا عشق کا جنون جب بٹرھ جائے تو پھر کچھ نہیں دیکھائی دیتا۔ احسان کی روح جنت میں رہے جنت کے باغوں میں کھلیے اسے اعلی دردجہ عطاہوں۔(آمین)
الفت اپنے غم کابوجھ احسان کی قبر پر جاکر سنانے لگی۔ جسے احسان اس کی باتوں کو سن رہا ہو۔ وہ بار بار یہ ہی کہتی میں بے وفانہیں تھی۔۔میںبے وفا نہیں تھی۔۔
دیولگاوَں ماہی، ضلع،بلڈانہ،مہاراشٹر