یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم موصول ہونے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)
از:سیدہ تزئین فاطمہ بنت سید نورالغوث نقشبندی
ڈاکٹر صاحب ہمارے ابّا کو بچا لیجیے! خدا کے لیے انھیں بچا لیجئے۔۔۔!
دیکھیے ہم پوری کوشش کریں گے۔۔۔ باقی سب خدا کے ہاتھ میں ہے ۔ آپ پہلے ایڈوانس جمع کرادیجیے پھر ہم ان کا علاج شروع کرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے ڈاکٹر آگے بڑھ گیا۔
میم یہ فارم بھر دیجیے اور30 ہزار روپے جمع کرا دیجیے۔۔۔ ا تیس ہزار۔۔۔!ہمارے پاس تو پیسے نہیں ہے ۔آپ۔۔ آپ ہمارا یہ زیور رکھ لیجیے۔ اصلی سونا ہے یہ! آپ بس ہمارے ابّا کو بچا لیجیے۔ دیکھیے میم یہ اسپتال ہے ،یہاں یہ سب نہیں چلتا۔ پہلے پیسے جمع کرائیں تب ہی علاج شروع کیا جائے گا۔
خدا کے لیے علاج کردیں ،ہم کہاں سے لائیں اتنے سارے پیسے۔
نرس کے سامنے التجاء کرتی عروسی لباس میں پور پور سجی، چہرے پرافسردگی کے نقوش، آنکھوں میںدرد کے آنسو ںلیے انیس بیس سال کی لڑکی پر اُسے بے تحاشا ترس آیا۔۔۔
Excuse me nurse آپ اِن کے Father کا علاج شروع کیجیے۔ پیسے میں جمع کرا دیتا ہوں۔۔۔نرس سے مخاطب وہ شخص اُسے فرشتہ لگا۔
پیشنٹ کا نام؟
مرتضیٰ احمد۔ اس نے بھرائی آواز جواب دیا۔۔۔
مرتضیٰ احمد!نام سن کر وہ اجنبی شخص چونک پڑا۔۔۔اور زیر لب نام دہرانے لگا۔
آپ کا بہت شکریہ! آپ نے ہماری مدد کی۔ آپ ہمارا یہ زیور رکھ لیں۔۔۔ اس اجنبی شخص کو مخاطب کرکے لڑکی نے کہا۔
نہیں بیٹی !اس کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ آپ بس اپنے Father کے لیے دعا کیجیے۔۔۔ میں اب چلتا ہوں۔۔۔
روپئے جمع کرانے پر علاج شروع کردیا گیا تھا۔۔۔
اسپتال کی راہداری میں موت کا سناٹا چھایاہوا تھا۔۔۔ مریضوں کی کراہنے کی آواز سے ماحول میں تھوڑی ہلچل پیدا ہوتی پھر وہی خاموشی۔۔۔
وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔اور پھر اُس کی سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔۔۔
ابّا جی کتنے خوش تھے آج۔۔۔! اپنوں کی بے رخی بھلائے وہ خوشیاں منا رہے تھے۔
سرخ دوپٹہ اوڑھے وہ آئینہ کے سامنے کھڑی تھی تبھی پیچھے سے شمی آکر اُسے لپٹ گئی اور کہنے لگی۔۔۔
حُرمین باجی! میری بہت خواہش تھی کہ آپ کی شادی میں شرکت کروں! شہر کی شادی دیکھنے کومیرا بڑا دل کرتا ہے۔۔۔
شمی تم بھی چلو نا ہمارے ساتھ۔۔۔ اُس نے کہا۔
نہیں باجی، ابّا نہیں مانیں گے۔ سب گھر والے خفا ہے کہ چاچا آپ کی شادی برادری سے باہر کر رہے ہیں اور حویلی میں شادی کرنے کی بجائے شہر میں شادی کر رہے ہیں۔
ان سب باتوںسے وہ واقف تھی لیکن شمی کی زبان سے سن کر اسے بہت دکھ ہوا اور اپنے والد پر بے تحاشہ پیار آیا جنھوں نے اس کی خاطر سب سے مخالفت مول لی تھی۔
اچھا باجی اب میں چلتی ہوں۔۔۔
وہ اپنی سوچوں میں اتنی ڈوبی ہوئی تھی کے نہ اُسے شمی کے جانے کا احساس ہوانا ابّا کے آنے کا۔۔۔
ماشاء اللہ! میری گڑیابیٹی کتنی پیاری لگ رہی ہے۔۔۔شرماکر وہ اپنے ابا کے سینے سے لگ گئی۔
کیا سوچ رہی تھی گڑیا۔۔۔؟
ابّا۔۔۔! آپ چاچا کی بات مان لیجیے نا،میری وجہ سے سب آپ کے خلاف ہوگئے ہیں۔بولتے ہوئے اُس کی آواز بھرا گئی۔۔۔
اُن کی کونسی بات مان لوں گڑیا ؟ بس اس لیے کے ذات سے باہر شادی نہیں کرسکتے۔ایک شرابی جواری کو جس کی پہلے سے بیوی موجود ہے اُس کو اپنی ہیروں سے قیمتی بیٹی دے دوں؟تھکے تھکے لہجے میں بولتے ہوئے ابّا کی آنکھیں نم ہوگئی۔۔۔
ابّاکا ہاتھ تھام کر وہ کہنے لگی۔۔کیا ضروری ہے شادی کرنا ؟اور کرنا ہی ہے تو شہر میں جاکر کیوں؟ ہم گاؤں میں بھی کر سکتے ہے نا۔۔۔؟
اس کی بات سن کر وہ بے ساختہ مسکرائے ۔۔۔بیٹیاں اپنے گھروں میں اچھی لگتی ہے گڑیا اور رہی بات شہر جاکر شادی کرنے کی تو مجھے یقین ہے اگر گاؤں میں شادی کروںگا تو یہ سب لوگ کچھ نہ کچھ تماشہ ضرور کریں گے اور میں نہیں چاہتا کہ تمہاری شادی میں کوئی مسئلہ ہو۔
لیکن ابّا۔۔۔
بس گڑیا تو فکر نا کر، تیرا ابّا سب سنبھال لے گا۔۔۔
وقت پر لگا کر اُڑتا گیا اور شادی میں محض دس دن رہ گئے۔ اس دوران مرتضیٰ احمد سب کو منانے کی کوشش کرتے رہے لیکن کسی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ بھائیوں کی بے حسی نے مرتضیٰ احمد اندر سے توڑکررکھ دیا تھا لیکن اپنی بچی کی خوشی کی خاطر سب کو بالائے طاق رکھ کر وہ شادی کی تیاریوںمیںلگے رہے ۔ شادی سے پانچ روز قبل حرمین کو لے کر شہر آگئے۔دیکھتے ہی دیکھتے شادی کا دن بھی آپہنچا۔۔۔
ماشاء اللہ !بہت روپ چڑھا ہے میری شہزادی پر۔۔نجانے میری چھوٹی سی گڑیا کب اتنی بڑی ہوگئی۔ اب وہ مجھے چھوڑ کر اپنے سسرال جانے والی ہے۔۔۔
مرتضیٰ احمد کی نم آنکھیں دیکھ کر وہ بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکی۔۔۔
چلو گڑیا اب رونا بند کرو، میں ذرا انتظامات دیکھ لوں۔اُسے خود سے الگ کرتے ہوئے انھوں نے کہا اور باہر چلے گئے۔۔۔
مرتضیٰ احمد کی وہ اکلوتی اولاد تھی اس لیے وہ اپنے سارے ارمان پورے کر رہے تھے۔ضرورت کی ہر شے اُنہوں نے جہیز میں رکھ دی تھی۔داماد کے لیے موٹر سائیکل اور دولہے کے رشتے داروں کے لئے قیمتی تحائف اور شہر کے مہنگے ہال میں شادی کی تقریب۔ غرض دل کھول کر مرتضیٰ احمد نے اپنی بیٹی کی شادی پر خرچ کیا تھا۔ دو روز قبل ہی سارا سامان دولہے کے گھر پہنچا دیا گیا۔ ہال میں پردے کا انتظام کرکے نکاح کی تقریب رکھی گئی تھی۔ نکاح کا وقت ہوگیا۔
ابھی مولوی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع ہی کیا تھا کہ وہاں بے رنگ ڈوپٹہ اوڑھے ایک کمزور سے عورت آگئی ۔اُس کی گود میں چھوٹی سی بچی تھی وہ آتے ہی دولہے کے باپ کے قدموں پر گر پڑی اور کہنے لگی چاچا مُجھ پر یہ ظلم نا کریں۔۔۔ چاچا میری بچی کے سر سے باپ کا سایہ نہ چھینے۔۔۔
مولوی صاحب آپ نکاح پڑھایئے دولہے کے باپ نے کہا ۔
نہیں چاچا آپ کو اللہ اور اُس کے رسول کا واسطہ !مُجھ پر یہ ظلم نا کریں۔کون ہے یہ لڑکی؟
مرتضیٰ احمد نے ایک نظر دولہے اور اس کے باپ کے گھبرائے ہوئے چہرے پر ڈالی اور پوچھا؟
ہم نہیں جانتے سمدھی صاحب ،پاگل ہے شاید۔۔۔اور مولوی صاحب آپ نکاح کی کاروائی شروع کیجیے۔۔۔
ٹھرجائیے! بیٹی اِدھر آئو۔۔۔! مجھے بتاو کیا مسئلہ ہے۔مرتضیٰ احمد نے اس لڑکی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔
صاب جی! یہ میرا شوہر ہے، میری معصوم بچی کا باپ۔۔۔! اس نے دولہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
مرتضیٰ احمد کواچانک گھٹن کا احساس ہونے لگا۔بے ساختہ اُنہوں نے اپنا سینہ پکڑلیا۔
اُن کی حالت سے بے خبر وہ لڑکی اپنی ببتا سنائے جا رہی تھی۔
ابّا کے انتقال کے بعد میری امّاں نے ہمارا گھر چاچا کو دے دیا تھا۔اس شرط پر کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی مُجھ سے کردیں۔میرا مکان بھی لے لیا اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ مطالبہ کرتے رہے۔ میری بیوہ ماں کسی نہ کسی طرح اُن کے ساری فرمائشوں کو پورا کرتی رہیں۔ دن رات مجھ سے کام لیتے رہتے ۔۔۔اور تو اور صاحب جی بیٹی کی پیدائش پر مجھے گھر سے نکال دیا۔ ایک مہینے سے مَیں، میری بچی اور بوڑھی ماں دربدر پھر رہے ہیں اور اب تو ظلم کی انتہا ہوگئی صاب جی جہیز کی لالچ میں آپ کی بیٹی سے میرے شوہر کی شادی کرارہے ہیں۔۔مُجھ پر یہ ظلم ہونے سے روک لیں صاحب جی۔۔۔
بکواس کر رہی ہے یہ لڑکی، ہم اسے پہچانتے تک نہیں۔۔۔
غلط یہ نہیں آپ کر رہے۔۔۔ برائے مہربانی آپ یہاں سے چلے جائیے۔سمدھی صاحب۔۔۔چلے جائیے یہاں سے اب کے اُنہوں نے سختی سے کہا۔
آپ ہماری بات تو سنیے ہمارا بیٹا اُسے طلاق۔۔۔
نکل جایے یہاں سے ۔۔۔مرتضیٰ احمد نے اُن کی بات مکمل بھی نہ ہونے دی اور غصے سے کہا۔۔۔
لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔۔۔اب کون کرے گا اس لڑکی سے شادی۔۔۔
وہ لوگ غم وغصہ سے واپس چلے گئے ۔۔۔اور لمحہ بھر میں سارا ہال خالی ہوگیا ۔
اچانک اُن کے سینے میں درد کی شدید لہر اٹھی۔ اُنہوں نے اپنا ہاتھ سینے پر رکھا اور لڑکھڑاگئے۔
پردے کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے حرمین نے دیکھا اور دوڑ کر انہیں سہارا دینے آئی۔
ابّا کی غیر ہوتی حالت نے اس کی سوچ کو مفلوج کردیا تھا۔ابّا آنکھیں کھولیے ۔۔۔ابّا۔۔۔ روتے ہوئے اُس نے اُن کا گال تھپتھپایا۔درد کی شدت سے وہ بیہوش ہوگئے۔انجان شہر میں اس صورتحال سے وہ گھبرا گئی یہ شہر والے کتنے بے حس ہوتے ہیں ۔وہ دوڑ کر باہر نکلی بہ مشکل ٹیکسی روکی اور ڈرائیور کی مدد سے ابّا کو ہسپتال لے آئی۔
مس حرمین! آپ کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے۔نرس کی آواز نے اُسے خیالوں کے بھنور سے باہر نکالا۔۔۔
کیا میں مل سکتی ہوں اپنے ابّا سے؟
ہاں لیکن کچھ دیر کے لیے۔۔۔نرس کی اجازت سے وہ اندر داخل ہُوئی۔۔۔
چند گھنٹوں میں ہی ابّا صدیوں کے بیمار نظر آرہے تھے۔ ابّا۔۔۔! اس کی آواز سن کر اُنہوں نے آنکھیں کھولی۔دونوں ہاتھ جوڑ دیئے اور معافی مانگنے لگے۔۔۔
ابّا۔۔۔اُن کے جڑے ہاتھوں کو کھول کر وہ اُن کے سینے سے لگ گئی۔۔۔ ابّا میں کتنا ڈر گئی تھی، میں اکیلی تھی ابّا۔
گڑیا اپنے ابّا کو معاف کردے ،تیرے لیے صحیح فیصلہ نہ کر پایا۔۔انہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی بمشکل وہ بات کر پا رہے تھے۔
نہیں ابّا آپ معافی مت مانگیے ،اس میں آپ کی کیا غلطی۔۔۔! ابّا جلدی سے اچھے ہوجائیے۔۔۔
پیشنٹ کے پاس زیادہ دیر ٹھہرنا مناسب نہیں۔۔۔ نرس کی بات سن کروہ ابّا کو پرسکون رہنے کی تلقین کرتے ہوئے باہر نکل آئی۔۔۔
اسپتال میں انھیں چار دن ہوگئے تھے ۔رات میںہی اُس کے ابّا کو جنرل وارڈ میں شفٹ کردیا گیا تھا۔
اگلی صبح نامانوس شور سے اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا، ایک خاتون ابّا کا ہاتھ تھامے رو رہی تھی اور ایک شخص اس کی جانب پشت کیے کھڑا تھا۔ وہ اُس کا چہرہ نا دیکھ پائی۔اُس نے جلدی سے اٹھ کر ڈوپٹہ برابر کیا۔۔۔
ابّا۔۔۔
اُس کی آواز سن کر تینوں اس کی جانب متوجہ ہوئے ۔۔۔
یہ شخص ۔۔۔! یہ تو وہی ہے جس نے میری مدد کی تھی ۔۔۔کیا یہ پیسے لینے واپس آگیا ہے۔وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ اس خاتون نے آگے بڑھ کر اُسے لپٹا لیا۔۔۔
میری حور۔۔کتنی بڑی ہوگئی ہے ،میری شہزادی۔۔۔
وہ کچھ سمجھ نہ سکی۔۔۔
اسے تذبذب میں دیکھ کر ابّا نے کہا حرمین گڑیایہ تمہاری پھوپھی جان ہیں۔ حورعین ۔۔۔میری چھوٹی بہن!
ابّا کی چھوٹی بہن۔۔۔! جسے سب کے خلاف جا کر ابّا نے پڑھایا تھا اوربعد میں انہوں نے اپنی پسند کی شادی کر لی تھی۔ جس پر سب اُن سے ناراض تھے اور اُن کا ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔۔۔
اور یہ تمہارے پھوپھا حمادصاحب ہیں۔۔۔ابّا کی آواز پر وہ ماضی سے حال میں لوٹ آئی۔۔۔
ابّا اِنہوں نے ہی میری مدد کی تھی۔۔۔ آپ کے علاج کے لیے پیسے بھی انکل نے ہی دیئے تھے۔۔۔آپ کا بہت بہت شکریہ انکل ۔۔۔آپ کا بہت بڑا احسان ہے ہم پر۔۔۔
نہیں بیٹا !احسان کی بات نہیں ۔۔۔یہ میرا فرض تھا ۔۔۔میں اُس دن نام سن کر چونک گیا تھا۔۔۔ تمہاری پھپھوی دن بھر میں اتنی بار ذکر کرتی ہے مرتضیٰ بھائی کا۔۔۔اور آج دیکھو اللہ نے ان دونوں بہن بھائی کو ملا ہی دیا۔۔۔
اگلی روز ابّا کو ڈسچارج کیا جانا تھا۔۔۔ پھوپھی !زبردستی اُسے گھر لے گئیں۔۔۔ اتنے دن کی بے خوابی کے بعد وہ سکون سے سو پائی تھی۔سو کر اٹھی تو پھوپھا ابّا کو لیکر گھر آگئے تھے۔۔۔
ابّا۔۔۔ وہ بھاگ کر اُن کے سینے سے لگ گئی۔۔۔
میری گڑیا! اسے دیکھ کر مرتضیٰ احمد کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔۔۔
کیا ہوا بھائی صاحب۔۔۔؟ آپ کیوں رونے لگے ۔۔۔دیکھیے آپ کے رونے سے حرمین کتنا پریشان ہورہی ہے۔۔۔
میری گڑیا کے لیے میں صحیح فیصلہ نہیں کر پایا۔۔۔ حورعین! میں نے تو کبھی کسی کا برا نہیں چاہا لیکن میری بیٹی کے ساتھ ایسا کیوں ہوگیا؟کیا جہیز کا لالچ اس حد تک انسان کو گرا دیتا ہے۔۔۔! اب مَیںگاؤں میں سب کو کیا منہ دکھائوںگا؟ پہلے ہی وہ لوگ برادری سے باہر شادی کے خلاف تھے۔ اب یہ سنیں گے تو زبردستی اُسی شرابی، جواری سے میری بیٹی کی شادی کرنے پر مجبور کر دیںگے۔۔۔
مسلسل بولنے سے اُن کی سانس پھولنے لگی۔
بھائی صاحب لیجیے ۔۔۔پانی پی لیں۔۔۔ دیکھے حرمین کتنا پریشان ہورہی ہے۔۔۔ہماری گڑیا کے لئے ضرور اللہ نے کچھ بہت اچھا لکھا ہوگا۔۔۔ آپ آرام کریں۔۔۔
حماد پھوپھا نے دوا دے کر بمشکل انھیں سلادیا۔۔۔
اُسی شام ابّا اور وہ گاؤں جانا چاہتے تھے کہ لیکن پھوپھی نے ضد کرکے انہیں اپنے گھر روک لیا تھا۔۔۔
پھوپھی کے گھر رہتے ہوئے انہیں کئی دن ہوگئے تھے ۔
اُس روز وہ روم میں داخل ہوئی تو پھوپھی کے ساتھ بیٹھے دو اجنبی نوجوانوں کو دیکھ کر وہ جھجھک گئی۔۔۔
حرمین۔۔۔! اندر آئو بیٹا۔۔۔! یہ دونوں میرے بیٹے ہے حیدر اور وحید! پچھلے ایک مہینے سے یہ لوگ تفریح کے لیے ملک سے باہر گئے ہوئے تھے اور بچوں یہ تمہارے ماموں کی بیٹی حرمین ہے۔۔۔!
اس نے آہستہ سے سلام کیا اور ابّا کے روم میں چلی گئی۔ابّا! ہم کل گاؤں واپس چلتے ہیں۔کب تک یہاں رہیں گے۔۔۔!
کیا ہوا حرمین کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟
نہیں ابّا کسی نے کچھ نہیں کہا۔۔۔ بس گاؤں اور ہمارا گھر یاد آرہا ہے۔۔۔وہ سوچنے لگی نجانے پھو پھی کے بچوں کو اُن کا یہاں رہنا پسند آئے نہ آئے ۔۔۔اسی بات نے اُسے واپسی کا سوچنے پر مجبور کردیا تھا لیکن وہ یہ بات اپنے ابّا کو بتا کرپریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
وہ ابّا کو کھانا کھلا رہی تھی کہ پھوپھی وہاں آگئی۔۔۔بھائی صاحب مُجھ سے کچھ غلطی ہوگئی ہے کیا ۔۔۔؟ یوں اچانک آپ واپس جانے کا کہہ رہے ہیں۔
ارے! نہیں حورعین ایسی بات نہیں ہے لیکن میں کب تک یہاں رہ سکتا ہوں واپس تو جانا ہی ہوگا نا!
نہیں بھائی صاحب !میں ابھی آپ کو جانے نہیں دے سکتی ابھی تو ہمیں ہماری گڑیا کی شادی کرنا ہے۔۔۔
حرمین کی شادی۔۔۔! مرتضیٰ احمد نے چونک کر کہا۔
ہاں بھائی صاحب ۔۔۔میںاپنے بڑے بیٹے حیدر کے لیے آپ کی شہزادی کا ہاتھ مانگنا چاہتی ہوں۔۔۔
لیکن حورعین۔۔۔۔
میں کوئی انکار نہیں سنوں گی۔ بھائی صاحب آپ حرمین کو میرے گھر کی رونق بنا دیں۔پھپھو نے ساتھ بیٹھی حرمین کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔
حرمین اٹھ کر باہر چلی گئی۔۔۔
اگلے ہفتہ ہم نکاح رکھ لیتے ہیں۔۔۔ اور رہی بات جہیز کی۔۔۔
مرتضیٰ احمد یکدم پریشان ہوگئے۔۔۔
جہیز کا سارا سامان تو اُن لوگوں نے لوٹایا نہیں تھا ساری رقم بھی وہ خرچ کرچکے تھے اب اُن کے پاس کچھ نہیں تھا دینے کے لئے۔۔۔
جہیز مجھے نہیں چاہیے بھائی صاحب۔۔۔ صرف اپنی چاند سی گڑیا مجھے دے دیجیے۔ اگلے ہفتہ ہم نکاح کی تقریب رکھ لیتے ہیں۔۔۔
وقت پرلگا کر اُڑ گیا اوروہ ابّا کی دعاؤں کے سائے میں رخصت ہوکر ہمیشہ کے لیے پھوپھی کے گھر آگئی۔۔۔
پھوپھی اور حیدر کی مدد سے اُس نے اپنی تعلیم مکمل کی اورپھوپھی کے قائم کردہ اسکول میں پڑھانے لگی۔۔۔
دن ہفتوں میں ،ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بیس سال کا عرصہ گزر گیا۔
پچھلے سالوں میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔۔۔پھوپھی کا چند سال پہلے ہی انتقال ہوگیا تھا۔۔۔ ابّا کو وہ اپنے ساتھ شہر لے آئی تھی اوراُس کے آنگن میں ارسل اور مریم کی صورت میں دو پھول کھل چکے تھے۔ اُس کے اسکول کا شمار اب شہر کے معروف اورمعیاری اسکولوں میں ہوتا تھا۔۔۔۔کل ہی اُس نے اپنے بیٹے ارسل کی شادی طے کردی تھی۔۔۔ حرمین اور حیدر جہیز کے سخت خلاف تھے۔ اُنہوں نے لڑکی والوں کوجہیز دینے سے سختی سے منع کردیا تھا۔ ابّا اس اقدام سے بہت خوش ہوئے تھے۔۔۔
کیا ہوا حرمین۔۔۔؟ میری بیٹی ۔۔میری شہزادی ۔۔کیوں ایسے بیٹھی ہے؟
ابّا جی آج اسکول میں انٹرویو کے لیے اسلم صاحب آئے تھے ۔۔۔ابّا۔۔۔! میں نے یا آپ نے تو انہیں کوئی بد دعا نہیں دی تھی۔۔۔ ابا پھر بھی انہیں لگ رہا تھا کہ ہم نے انہیں بد دعا دی ہے ۔ابّا وہ بہت برے حال میں ہیں۔ انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا ہے۔ چپراسی کے عہدہ کے لیے انٹرویو دینے آئے تھے ۔مجھے دیکھ کر رونے لگے مُجھ سے معافی مانگ رہے تھے ۔کہہ رہے تھے کے تم اور تمہارے ابّا مجھے معاف کر دیں گے تو اُن کی سزا کچھ کم ہو جائے گی۔۔۔جہیز کی لالچ میں اُنہوں نے ہمیں دھوکہ دیا تھا۔۔۔ اب وہ کہہ رہے تھے کہ اُن کی بڑی بیٹی کو سسرال والوں نے جہیز نا دینے پر اُسے جلا کر خود کشی کا نام دے دیاہے اور چھوٹی بیٹی کو سسرال والوں نے یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا ہے کہ پچاس لاکھ روپے لائے تب ہی اُسے گھر آنے دیں گے۔۔۔
ابّا وہ رو رو کر معافی مانگ رہے تھے تو میں نے انہیں معاف کردیا۔۔۔ابّا میں نے انہیں بد دعا نہیں دی تھی۔۔۔
ہاں میں جانتا ہوں میری گڑیا۔۔۔!میری بیٹی کبھی کسی کا برا نہیں چاسکتی لیکن بیٹا وہ ہمارا رب ہے نا وہ سب حساب رکھتا ہے ۔۔۔ہم بھلے ہے کمزور ہو ںلیکن ہمارا رب کمزور نہیں ہے۔۔۔وہ بندے کی گناہوں کی سزا اس دنیا میں ہی دے دیتا ہے۔تاکہ آخرت کو بوجھ کچھ کم ہوجائے۔انسان جو کچھ بوتا ہے وہی وہ پاتا ہے ۔جو کوئی دوسروں کا برا چاہتا ہے اُس کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے ۔جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اُس گڑھے میں جاگرتا ہے۔ اب مزید سوچ سوچ کر ہلکان مت ہو۔۔۔اٹھو ،اپنے رب کا شکریہ ادا کرواور جا کر نماز ادا کر و۔۔۔قت ختم ہو رہا ہے۔۔۔ابّا باہر چل دیئے اور حرمین بھی وضو کرنے اٹھ گئی۔۔۔
شعبہ اُردو،ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی،اورنگ آباد
✨Dil ko chhu lene wala Afsana hai.Jahez lene walo ko milne wali qudrati saza ko bahot acche se bayan kiya gya hai.bayanya tariqa itna behtreen hai k manzar tasawwur me dikahai de raha hai.👍