افسانہ

1
8122

یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم موصول ہونے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)

اِبن آدم، مالیگاؤں

’’حشمت انجینئر کا مکان کون سا ہے؟‘‘ مَیںنے پوچھا۔
نوجوان دُکاندار نے میری طرف دیکھااورپھر دُکان سے باہرنکل آیا۔گلی میں ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے کہنےلگا،’’ وہ!! وہ ہرے رنگ کی ٹانکی دکھ رہی ہے نا۔ وہی مکان ہےمگر اُن کا توچھ مہینے پہلے انتقال ہوگیا!آپ کوکس سے ملناہےانکل؟‘‘
مَیں نے گردن اُٹھاکر عینک کے شیشوں سے گلی میں سبزٹنکی کوبغوردیکھتے ہوئے کہا،’’اچھّا! وہ مکان ہے، شکریہ۔‘‘
میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔آخر مَیں نے اُسے ڈھونڈہی لیاتھا۔بیس برس سات مہینے اور بارہ دن بعد اُس سے دوبارہ سامنا ہوگا۔ یہ سوچ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ جسم کی ساری طاقت جیسے پیروں میں سمٹ آئی۔ مَیںنے تیزی سے قدم بڑھائے۔ اس کے بھرے بھرے گال ،پتلی خمداربھویں اوران کے نیچے چمکتی ہوئی سیاہ آنکھیں، کاندھوں پر بکھری زلفیں اور اُس کے وہ سُرخ گداز ہونٹ۔ میری سانسیں تیز ہو گئیںاور لرزاساطاری ہونے لگا۔ مَیں نے مسکرا کر اپنے ڈگمگاتے قدم کوسنبھالا۔
گیارہویں جماعت میں جب مَیںنے اُسے دیکھاتو سمجھ گیا تھاکہ میری تمام خواہشوں کا محوریہی ہے۔ اس کا نام ’نوربانو‘ تھا۔ بے شک وہ سرسے پاؤں تک نور ہی نورتھی۔ سال بھر اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوںسے مَیںاُسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتارہا۔ آخر میرےخداکومجھ پر رحم آہی گیا اور ایک روزجب اس کے قریب سے گزرتے ہوئے مَیںچکنے فرش پر پھسل کر گراتووہ کھلکھلاکر ہنس پڑی۔ مَیں بے خودسا ہوگیااور اس بے خودی میں مَیں نے اس کامخملی ہاتھ اپنےہاتھوں میںلے لیا۔پھر کیا تھا،اس نے جھٹکےسے اپنا ہاتھ چھڑایااورمجھےتھپّڑماردیا۔ حالات کااندازہ ہوتے ہی وہاں موجود لڑکوںنے میری پٹائی شروع کر دی۔ مجھ پر تونشہ طاری تھا۔ بدن پر پڑنے والی ہرضرب اور ہرچوٹ ، سرور پیداکررہی تھی۔ میرے دوستوں نےمجھے بچایا اور مرہم پٹّی کراکرگھر پہنچایا۔یہ واقعہ مجھے آج بھی ویسے ہی یاد ہےجیسے ابھی کل ہی کی تو بات ہو۔مَیںاس سرورکو آج بھی اپنی رگوں میں دوڑتا ہوا محسوس کررہاتھا۔
آہستہ آہستہ چلتے ہوئےمَیں سبزٹنکی والے مکان کےدروازے پر پہنچ گیا۔ دروازہ بندتھا۔ مَیں سوچنے لگاکہ اب کیا کروں؟ کیا اُسے پکاروں؟ نور !اے نور!!اےمیرے خداکی تجلّی !!!میری نوری۔ میرادل تیزی سے دھڑکنے لگا۔نہیں نہیں۔ ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ اپنی گناہ گار زبان سے مَیں اُس کا نام کیسےلوں؟ اس کے گھروالے کیا سوچیں گے ؟ ارے گھر والوں کا کیا ہے؟ مگر یہ بھی توہےکہ وہ کیا سوچے گی؟پھر!! پھر کیا کروں؟ مَیں سوچتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔دوستوں سے معلوم ہوا تھا کہ میری اس حرکت سے اس کی بڑی بدنامی ہوئی تھی۔ کالج میں اس کی سہیلیاں اور گھر پر رشتہ دار اس کا مذاق اُڑانے لگےتھے۔ جس کے سبب وہ اور اس کے والدین کسی سے نظریں نہیں ملاپاتےتھے۔ اپنی اُس جرات پر مَیں آج بھی اپنے آپ کو کوستاہوں ۔ کاش ! کہ ایسا نہ ہوا ہوتا۔

’’ارے انکل! آپ ابھی تک کھڑے ہیں ؟آوازبھی دی تھی یانہیں۔‘‘ مَیں نے گردن گھماکردیکھاتو گلی کے کونے والادکاندار میرے قریب کھڑاتھا۔مجھے تذبذب میں مبتلا دیکھ کر وہ میری مدد کے لیے دوڑاآیاتھا۔مَیںنےجواب سوچتے ہوئے کہا، ’’مَیں!! مَیں!!‘‘
’’ٹھہریے ،مَیں ہی بُلادیتاہوں۔‘‘اس نے کہااور آوازیں دینے لگا۔ ’شفیق! اوشفیق!! کوئی گھر میں ہے؟‘‘
فوراً ہی دروازہ کھلااور ایک لڑکی سرپرڈپٹّہ درست کرتی ہوئی باہر آئی۔
دکاندار نے میرے کاندھے پرہلکاہاتھ رکھتے ہوئے کہا،’’یہ انکل! حشمت باباکےبارے میں پوچھ رہے تھے۔‘‘
لڑکی نے کہا،’’اچھّا،آیئے چاچا، اندرآجائیے۔‘‘
مَیں آہستہ آہستہ چلتاہوامکان میں داخل ہوا۔ لڑکی مجھے ایک بڑے کمرے میں لے آئی جس کے درمیان میں ڈائنگ ٹیبل رکھاہواتھا اور اس کے گرد کرسیاں ۔ ٹیبل پر گلدان بھی تھاجس میں نقلی پھول سجے ہوئے تھے۔ لڑکی نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،’’تشریف رکھیے۔میرانام دلکش ہے۔ ‘‘
مَیں کرسی پر بیٹھنے لگاتو وہ کہنے لگی،’’شفیق بھیّا ورکشاپ پر گئے ہیں ۔ مَیں ابھی کال کردیتی ہوں، پندرہ بیس منٹ میں آجائیں گے۔ آپ کا کیا نام ہے چاچا؟‘‘
’’جم !!جمشید۔‘‘ مَیں نے ادھر اُدھر دیکھتےہوئے کہا۔دلکش چلی گئی اور مَیں سوچنے لگاکہ کیسے اُس تک پہنچوں۔کچھ دیر بعد جب دلکش لَوٹی تو کہنے لگی،’’ مَیں نے شفیق بھیّا کو فون کردیاہے ، وہ ہاتھ کا کام نبٹاکرآرہے ہیں ۔ آپ چائے لیں گے یاشربت ؟‘‘
مَیں نے کہا،’’ بیٹی!میرے لیےپریشان مت ہو۔مجھے حشمت کے انتقال کی خبر کل ہی ملی ۔ حشمت میرا دوست تھا ۔ سوچا تم لوگوں سے ملاقا ت کرلوں اس لیے چلاآیا۔‘‘
دلکش نے افسردہ ہوکر سرجھکالیا۔ مَیں نے بات آگےبڑھانے کے لیے سوال کیا،’’حشمت کو کوئی بیماری تو نہ تھی پھرآخر ایسا کیسے ہوگیا!!‘‘
دلکش نے غمزدہ لہجے میں کہا،’’ دوپہر کےکھانے کے کچھ دیر بعدہی اُنھیں دل کا دورہ پڑاتھا۔ شفیق بھیّا گھر پر تھے نہیں ۔ مَیں پڑھائی کررہی تھی ،امّی اوربھابھی کچن میں تھے۔ ہمیں خبر ہونےاوراسپتال پہنچنے تک بہت دیرہوچکی تھی۔ ‘‘
مجھ سے رہا نہیں جارہاتھا۔ اپنے دل کے ہاتھوں مجبورہوکرمَیں نےکانپتی آواز میں اپنا آخری سوال درمیان ہی میں پوچھ لیا،’’تمھاری وا!والدہ تو! ٹھیک ہیںنا؟‘‘
دلکش نے کہا،’’ عدّت گزارنے کے بعد بھی وہ گھر سے نہیں نکلیں۔ بس بسترپر پڑی رہتی ہیں۔ ‘‘
نورکے بارے میں سن کر میرا دل کانپ گیا۔ میری بے چینی بڑھ گئی۔ آنکھیں اُسے دیکھنے کو ترس رہی تھیں۔ تصوّر میں مَیں نے اُس کےشفاف گالوں پر آنسوؤں کے قطرے دیکھے۔ ایسا معلوم ہورہاتھاجیسے گلاب کی پتیوں پر شبنم آٹھہر ی ہو۔

مَیں کھویاہواتھاکہ دلکش نے کہا،’’ چلئے ، آپ اُن سے مل لیجئے۔ آپ کی باتوں سے شاید اُنھیں کچھ تسلّی ملے۔ مَیں نے اُنھیں بتادیا ہے کہ ابـّوکے دوست آئے ہیں۔ ‘‘
مَیں اسی موقع کی تلاش میں توتھا۔ اندھاکیا چاہے دوآنکھیں۔ نہیں نہیں صرف آنکھوں سے کیا ہوگا۔نوربھی تو چاہیے۔ورنہ ہر اندھا میری طرح بھٹکتارہ جائے۔ دلکش مجھے ایک طرف لے چلی۔ میرا دل جھوم رہا تھا۔ وہی نشّہ وہی سرور میری رگوں میں دوبارہ دوڑنے لگا۔ دلکش مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئی جس کے کنارے ایک مسہری تھی۔ اس پر ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ مَیں مسہری تک پہنچتا دلکش نے ایک کرسی لاکررکھ دی۔ مَیںنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے سلام کیا۔ ’وعلیکم السلام‘ کی ترنم خیز آواز میرے کانوں میں رس گھول گئی۔جیسےدُور مندر کی مقدّس گھنٹیاں بج اُٹھی ہوں۔ عینک کے پیچھے سے میری پیاسی آنکھوں نے اُسے دیکھا۔اس کے رخسارکسی مرجھائے ہوئے کنول کی طرح نظر آرہے تھے۔ ہونٹ، پیلے خشک پتّوں کی طرح لرز رہے تھے۔ اس کی کمانی داربھویں کچھ موٹی ہوکر ڈھلک گئی تھیں جب کہ پُتلیوں کی سیاہی آنسوؤں سے دُھل کر پھیکی پڑگئی تھی۔ اس کی ایسی حالت دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا۔ یاالٰہی !یہ مَیں کیا دیکھ رہا ہوں!مَیں یہ دیکھنے تو نہیں آیاتھا۔
دلکش نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کرکہا،’’چچا، آپ بیٹھیے، مَیںکچھ لے آتی ہوں۔‘‘
مَیںنے اُسے روکنے کےلیے داہناہاتھ بلندکیا مگر وہ رُکی نہیں۔ اس چھوٹے سے کمرے میںہم دونوںتنہا رہ گئے۔مَیں نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اورآہستہ آہستہ سوچےسمجھے جملے دہرانے لگا،’’ مجھے حشمت کے انتقال کی خبر کل ہی ملی ۔ حشمت میرا دوست تھا ۔ سوچاآپ لوگوں سے ملاقات کرلوں اس لیے چلاآیا۔‘‘
اس کے بعد مَیں انتظارکرنےلگاکہ ’نُور‘کچھ کہے تو اسی مناسبت سے بات آگے بڑھاؤں مگر وہ نظریں جھکائے بیٹھی رہی۔ مَیںنے زور سے کھنکھار ا تو اس نے میری جانب دیکھا۔
مَیں نے کہا،’’ حشمت کے بارے میں جان کرمجھے بڑا افسوس ہوا۔ ‘‘ اُس نےپوچھا،’’آپ اُنھیں کب سے جانتے ہیں۔‘‘
’’وہ انجینئرتھانا!‘‘مَیںنے کہا۔نورنے اثبات میں سرہلایاتو مَیں نےبات آگے بڑھائی،’’ پونہ میں انجینئرنگ کے تعلق سے تین روزہ ٹریڈ فیئر لگا تھا۔ وہیں حشمت سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ ہم دونوں کے خیالات بہت ملتے تھے۔اسی لیے ہم جلد ہی دوست بن گئے تھے۔‘‘
’’وہ بہت ملنسارتھے اور سبھی سے گھل مل جایاکرتے تھے۔‘‘ نورنے مسکراتے ہوئےکہا۔
’’آپ نے سچ کہا۔وہ بہت ہی ہنس مکھ تھےاورکسی کو اُداس نہیں دیکھ سکتے تھے۔‘‘ مَیں نے کہا۔ نور کومسکراتے دیکھ کر میراذہن بھی روشن ہو اُٹھاتھا۔
مَیں نے کہا،’’ بھلاسوچیے کہ آپ کو اداس دیکھ کراُس کی روح پر کیا گزرتی ہوگی!!‘‘
وہ کچھ نہ بولی ۔ اس نے پھر نظریں جھکالیں ۔

مَیں نےکہا،’’مَیں جانتاہوں کہ بچھڑنے والوںکی یادیںہمیں غمگین کردیتی ہیں۔ مگر ہم موت کو تو نہیں ٹال سکتے نا۔ یہ تو اللہ کی مرضی ہے۔ سب کو موت کا مزہ چکھناہے۔ایسے وقت میںہمیں صبرکرناچاہیے اور اُن کے لیے دعا کرنی چاہیے۔‘‘
میری باتیں سن کراس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ سسکنے لگی۔ میرے ہاتھ پاؤںبھی پھول گئےکہ ارے مَیں نے یہ کیاکردیا۔آخر مَیںنے خود کو سنبھالااورقریب پڑےاس کے ہاتھ پرتھپکی دیتے ہوئے کہا،’’ صبرکرونوری صبر۔آخرتم کب تک روتی رہوگی ؟‘‘
سسکتے ہوئے وہ مجھے حیرت سے تکنے لگی پھر اس نے کہا،’’ نوری!؟‘‘
انجانے خیال سےمَیں سہم گیا۔اس نے پوچھا،’’ کون ہیں آپ؟‘‘
مَیںنے لجاجت سےکہا،’’شاید تم نے مجھے پہچانانہیں! مَیںجمشید ہوں۔‘‘
اس نے سوچتے ہوئے کہا،’’جمشید!کون جمشید!؟‘‘
اس کی زبان سے اپنا نام سن کرمَیںجھوم اُٹھا۔ مَیں نے کہا،’’ کیا تمھیں یاد نہیں کہ کالج میں ہم دونوں ساتھ تھے۔‘‘
پھر اس نے حیرت سے مجھے تکتے ہوئے کہا،’’ تم!!‘‘اتنے میں اس کی نظراپنے ہاتھ پر گئی۔ میرا ہاتھ اب بھی اس کے ہاتھ پر رکھا ہوا تھا۔اس نے جھٹکے سے اپناہاتھ کھینچ لیا اور ایک تھپّڑ میرے گال پرجڑدیا۔ مجھ پر سکتہ ساطاری ہوگیا۔ اس کی آواز میرے کانوں میں  گونجی ، ’’ کیوںآئے ہوتم یہاں؟ اب کیا چاہتے ہو؟‘‘
مَیںلاجواب رہا۔وہ دپٹّے میں منہ چھپاکرسسکنے لگی اور شرمندگی سےمیرا وجود لرز نے لگا۔پورے جسم میں چیونٹیاں رینگنے لگیں۔ مجھے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی۔کاش !مَیں یہاں نہ آیاہوتا۔
کچھ ہی دیرمیں دلکش میرے پاس آکھڑی ہوئی ۔ اس کے ہاتھ میں چینی کا کپ تھا۔
اس نے کپ میری جانب بڑھاتے ہوئے کہا،’’ چچا ، آپ نے چائے یا شربت کے لیے نہیں کہاتھا۔ اسی لیے مَیں دودھ بنالائی۔ ‘‘
اس نے اپنی ماں کو دیکھاتو کہنے لگی،’’امّی!یہ کیا؟ آپ پھر سے رونے لگیں۔ آپ نے تو وعدہ کیا تھا نا!‘‘
مَیںنےعینک درست کی اوراس کے ہاتھ سے کپ لے کر قریب پڑے ٹیبل پر رکھ دیا ۔ مَیں کھڑاہونے لگاتودلکش نے پوچھا،’’چچا، دودھ!!!‘‘
مَیں نے کہا،’’معاف کرنابیٹی۔‘‘
پھر مَیں مُڑکرآہستہ آہستہ قدم اُٹھاتاہواکمرے سے نکل گیا۔ آج میرے جسم پرضربیں پڑرہی تھیں اور ضربوں سے اُٹھنے والی درد کی لہروں کومَیںمحسوس کر رہا تھا۔ ایک لڑکا’بدتمیز‘ کہہ کہہ کرمیرے چہرے پر گھونسے برسائے جارہاتھا۔ حلق میں خون کی کڑواہٹ تھی۔ ایک لڑکا پشت سےمیری گردن دبوچے ہوئے تھا جس کے سبب سانس لینادشوار ہورہا تھا۔ وہ مجھے باربار’کمینہ ‘ کہہ رہاتھا۔ڈائننگ ہال سےگزرنابڑادُشوارمعلوم ہورہاتھا۔ دو لڑکے میری پنڈھلیوں اور ٹخنوں پر مسلسل ضرب لگارہے تھے۔

جس کی وجہ سے میرے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ان کی آواز میرے کانوںمیں اب بھی پڑرہی تھی۔ وہ مجھے ’بےغیرت ‘ اور’ذلیل‘ کہہ رہے تھے۔آخرکار مَیں دروازے تک آپہنچا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مَیں وہاں ٹھہر کر سانسیں درست کرنے لگا۔اتنے میں دلکش میرے پاس آئی اور کہنے لگی، ’’چاچا،امّی کی باتوںکا بُرا مت مانیے گا۔ وہ اب تک صدمے میںہیں۔ آپ ذرا دیر ٹھہریے شفیق بھیّابس آتے ہی ہوں گے۔‘‘
مَیں نےگلی میں اپنا قدم رکھااورلرزتی ہوئی آوازمیں کہا،’’بیٹی ،تمہاری امّی سے کہنا!کہ جم !!جمشیدچاچا بہت شرمندہ ہیں۔‘‘

Also read

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here