یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم حاصل کرنے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)
ذاکرہ شبنم
رضیہ کے دونوں بچےخوشی خوشی اپنےگھر میں کھیل رہے تھے- ایک مدّت کے بعد وہ بھی اپنے بچوں کو اِس طرح خوش دیکھکر بہت مطمئن نظر آرہی تھی….
جب سے اُس کے شوہر کا انتقال ہوا تھا- تب سے گھر میں فقر و فاقے ہی تو تھے- وہ بیچاری مُفلس و نادار کیا کرتی اُس کا شوہر ایک گارمنٹ فیکٹری میں ملازم تھا- جو بھی تنخواہ ملتی کسی طرح میاں بیوی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ صبر اور شکر کے ساتھ گذر بسر کر رہے تھے-ایکدن اچانک رضیہ پرغموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اُسکا شوہر جیسے ہی اپنے کام سے فارغ ہوتے ہوئے گھرکی طرف لوٹ ہی رہا تھا ایک ٹرک کی زد میں آتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گیا-اور اُسی وقت جاں بحق ہو گیا…..
پھر کیا تھا رضیہ کی زندگی میں جیسے اندھیرا ہی چھا گیا….ویسے بھی اِس بے درد دنیا کا یہ دستور بن گیا ہے کہ انسان اگرچہ امیر ہو تو اُسے سبھی گھیرے ہوۓ رہتے ہیں- وہ ہنستا ہے- تو سبھی اُس کے ساتھ ہنستے ہیں- اور کسی وجہ سے اُس کی آنکھوں میں آنسو آجائے تو سبھی اُس کے ساتھ مل کر رونے بھی لگتے ہیں….
اِس کے برعکس اگر کسی کی قسمت پر غریبی نےڈیرا ڈال لیا ہو- اور اُس پر غموں کا پہاڑ بھی ٹوٹ پڑے تو ایسے مُفلس و بے بس کا ساتھ دینا تو درکنار لوگ اُس کی خیریت تک پوچھنا گوارہ نہیں کرتے- دامن بچاتے ہوئے ، نظریں چراتے ہوئے نکل جاتے ہیں….
جس کا کوئی پُرسانِ حال نہ ہو رضیہ بھی ایسے ہی بدقسمتوں میں سے تھی….
شوہر کے اچانک گذر جانے کے بعد وہ زیادہ دن اپنے معصوم بچوں کو بھوک سے سِسکتے ہوئے نہیں دیکھ پائی- جب اُسے اپنے بھی پرائے نظر آنے لگے-تو ایسے میں عزتِ نفس کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارہ نہیں ہوا- تھوڑی بہت پڑھی لکھی تو تھی ہی وہ آس پڑوس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ٹیوشن لینے لگی- اُس سے جو بھی آمدنی ہوتی اُسی میں اُسے گھر کے سارے اخراجات اور اپنے دونوں بچوں کی دیکھ بھال اور ضروریات کو پورا کرنا پڑتا….
ایسے میں اُسے بے اِنتہا تکلیف ہوتی جب ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا تو دوسرے وقت بچوں کو بہلا کر پریوں کی کہانی سُنا سُنا کر مجبورًا سُلانا پڑتا- وہ معصوم خواب میں روٹی لیکر آنے والی پری کی اُمید پر سو جاتے……..
یوں بھوکے پیٹ ہی روٹی کی جگہ پانی سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہوئے ماں بچوں کو اکثر سونا پڑتا……
آہ- مفلسی بھی کس قدر جاں سوز ہوتی ہے…..
بچے بھوک سے اُداس اور نڈھال ہوکر سو جاتے- اپنے بچوں کو یوں ادھ مرے سوتے ہو ۓ دیکھ وہ تڑپ اُٹھتی- وہ بارگاہِ الٰہی میں خوب آنسو بہا کر اِلتجا کرتی- یااللہ رحم کر میں سب کچھ برداشت کرسکتی ہوں- پر مجھ سے میرے بچوں کا بھوک سے بِلکنا اور سِسکنا نہیں دیکھا جاتا…..
مگر جب سے کورونا وائرس نامی وَبا نازل ہوئی اور لاک ڈاؤن نافذ ہوا- لاک ڈاون کے باعث متاثرین کے لئے راشن اور غذائی اَجناس تقسیم کئے جا رہے تھے- حکومتِ اِنتظامیہ اور مِلی ادارے و تنظیمیں اور بھی بہت سے صاحبِ استطاعت اور اہلِ خیر حضرات غریب و نادار ضرورت مندوں کی امداد اور خدمت میں پیش پیش نظر آنے لگے تھے- یہ سب دیکھ کر رضیہ کو ایسا لگ رہا تھا- جیسے غفلت میں سوئی ہوئی انسانیت ایکدم سے جاگ اُٹھی ہو……ایک” نادیدہ کوروناواؤرس” نے آ کر سب کو یہ احساس دِلا دیا ہو کہ اِس دنیا میں ایک ایسا وائرس بھی موجود ہے جو صرف غریبوں اور مفلسوں میں ہوتا ہے اور اُس وائرس کا نام ہے “بھوک” اور اِس کی (ویکسین ) دوا بھی میسّر ہے- وہ ہے دو وقت کی روٹی جو کہ ہر جگہ موجود بھی ہے- مگرغریبوں کو آسانی سے دستیاب نہیں ہو پاتی…..
اور نہ جانے روزانہ کتنے لوگ بھوکے سوتے ہیں اور کتنے ہی بھوک مری کی موت مرتے ہیں….. مگر نظر آنے والے اِس بھوک کے وائرس کی فکر شاٸد ہی کسی نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ کی ہو……
لیکن اِس وَبا کے چھائے ہوئے قہر کی وجہ سے آج جو دولت مند گھمنڈی لوگ تکبر کی گمراہیوں میں مست اِن بے بس مفلسوں کی بھوک کے احساس سے عاری, اُنہیں حقارت کی نظروں سے دیکھنے والوں کے چہروں پر بھی ایک عجیب سی دہشت نمایاں تھی- کورونا واٸرس نے سب کے دلوں کو دہلا کے رکھ دیا تھا- سبھی خوفِ الٰہی سے کانپ اُٹھے تھے- ایسا لگنے لگا تھا گویا سارے انسان اُس روزِ جزا کے مالکِ حقیقی کو منانے میں کوشاں خدمتِ خلق میں جی جان سے جُٹ گۓ ہوں ……
جو رشتوں کو نظر انداز کر بیٹھے تھے جو دِلوں میں کینہ وبغض لۓ اپنوں سے دوری بناۓ ہوۓ تھے- اِس کورونا واٸرس نامی قہر نے جیسے انسان کو انسانیت کا سبق یاد دلا دیا ہو…..
رضیہ یہ بھی محسوس کر رہی تھی جو محبت اور خلوص ہمدردی اور مدد کے جذبہ سے پرے اپنی ہی دُھن میں جۓ جارہے تھے-اُن کے سوۓ ہوۓ ضمیر کو اللہ ربّ العزت نے بیدار کر دیا ہے-
اِسطرح یہ خدمتِ خلق کا سلسلہ چلتا رہا…….
ایسے میں، رضیہ کو بھی گھر بیٹھے ڈھیر سارا راشن وغیرہ نصیب ہو گیا- تقریباً دو ماہ سے وہ روزانہ اچھے اچھے پکوان بنا کر اپنے بچوں کو کھلِلا رہی تھی- اُس غریب کےگھر سے بھی لذت دار پکوانوں کی خوشبو آنے لگی تھی- روزانہ بھوک کی آگ میں جلتے، بھوک کے احساس میں پلتے ہوۓ بچوں کے لۓ انواع واقسام کے پکوان کو پا کر ہر دن جیسے عید کا سا لگنے لگا تھا…….
یہی وجہ تھی رضیہ کے بچّے آجکل بے اِنتہا خوش تھے….رضیہ کی چھوٹی سی بیٹی معصومہ اور معصومہ کا بڑا بھاٸی عبداللہ یہ دونوں بچّے ہی تو اب رضیہ کا سب کچھ تھے شوہر کے گذر جانے کے بعد اِنہیں کے لۓ تو وہ جی رہی تھی- اِن دونوں میں اُس کی جان بسی ہوٸی تھی- اُنہیں ہنستے کھیلتے ہوۓ وہ بڑی حسرت سے دیکھ رہی تھی- نہار رہی تھی- تبھی چھوٹی سی”معصومہ” دوڑتے ہوۓ آٸی اور اُس کے گلے میں باہیں ڈالے پوچھنے لگی امّی آج کیا پکا رہی ہیں آپ؟….
وہ اپنی بیٹی کو باہوں میں بھرتے ہوۓ کہنے لگی-آج میں اپنی معصومہ کے لۓ بناٶں گی پراٹھا اور سوجی کا حلوہ تمہیں بہت پسند ہے نہ- کھاٶ گی نہ تم؟……
معصومہ جلدی سے اپنی نازک سی گردن ہلاتے ہوۓ بول پڑی ہاں ہاں میں کھاٶنگی اور بھیّا بھی کھاٸیں گے…..
عبداللہ بھی ماں کے پہلو میں آکے بیٹھتے ہوۓ ماں سے پوچھنے لگا- امّی یہ کیا ہو گیا ہے- یہ کورونا واٸرس کیا ہے جس کی وجہ سے اِسکول ،دوکانیں ،مسجدیں سب کچھ بند ہیں، راستوں میں کوٸی نظر نہیں آتا ہر جگہ پولیس والے کھڑے ہوتے ہیں- کسی کو بھی کہیں جانے کی اجازت نہیں ہے- سب اپنے اپنے گھروں میں ہی بیٹھے ہوۓ ہیں…..
اور دُور دُور سے لوگ ہمیں کھانے کی چیزیں لا کر فری میں بانٹ رہے ہیں…..
پہلے جب ہمیں بھوک لگتی تھی- تو ہمیں کوٸی بھی نہیں پوچھتا تھا- ایک وقت ہم روٹی کھاتے تو دوسرے وقت ایسے ہی بھوکے پیٹ سو جاتے- ہمیں بھوکا سُلاتے ہوۓ آپ کتنا رویا کرتیں- ابّو کے جانے کے بعد ہم بھوک سے تڑپتے ہی رہے ہیں- مگر کسی نے ہمیں نہیں پوچھا اور اِسطرح کا سامان ہمیں کبھی کسی نے نہیں دیا اب اچانک یہ سب کیسے ہو گیا امّی ؟…….
رضیہ پیار سے اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ سمجھانے لگی بیٹا اِس وقت پوری دنیا میں کورونا واٸرس نامی بیماری پھیلی ہوٸی ہے- جسکی وجہ سے کوٸی بھی کہیں جا نہیں سکتا باہر گھومنے پھرنے سے اِس واٸرس کے لگنے کا خطرہ ہے- اِسی لۓ یہ تالا بندی کی گٸ ہے- سب اِسی وجہہ سے اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں- یہی وجہ ہے کہ لوگ ایکدوسرے کی مدد کر رہے ہیں….. ہم تک راشن وغیرہ پہنچا رہے ہیں….. اللہ اُنہیں اِسکا اجرِ عظیم عطا فرماۓ…… پھر عبداللہ جھٹ سے بول پڑا امّی تو اِس واٸرس کو بھی اللہُ تعالیٰ نے ہی بھیجا ہےنا؟..
ہاں- بیٹا سب کچھ اللہُ تعالیٰ ہی توکرتے ہیں اللہ کے سوا اور کون کرنے والا ہے….. کسی کو ایسی قدرت کہاں….یہ بیماری بھی اللہ ہی کی طرف سےآٸی ہے- پتہ نہیں اِس میں اللہُ تعالیٰ کی کیا مصلحت ہے،اللہ کے سوا کوٸی نہیں جانتا- وہی رَبّ العالمین بہتر جانے…..
کچھ دیر سے ماں اور بھاٸی کی باتوں کو گُم سُم سی سُنتی ہوٸی معصومہ ایکدم سے بول پڑی بھیا اللہُ تعالٰی کتنے اچھے ہیں نہ- امّی کہا کرتی ہیں نہ ہم سے- کہ- جو بھی چاہیۓ تم اللہُ تعالیٰ سے مانگو اللہُ تعالیٰ ضرور دینگے- تو اللہُ تعالیٰ سے میں یہی مانگا کرتی تھی- کہ ہم سے بھوک برداشت نہیں ہوتی اللہُ تعالیٰ ہمیں اچھا سا کھانا دے دیجۓ – دیکھو نہ اللہُ تعالیٰ سے ہماری بھوک دیکھی نہ گٸ اور اللہُ تعالیٰ نے ہماری سُن لی- یہ کہتے ہوۓ وہ خوشی سے جھوم اُٹھی تھی….!!!