افسانہ

0
15011

یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم حاصل کرنے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)

ولایت کاتب لوناروی

امی جان میں کالج جارہی ہوں ۔ یہ کہکر شگفتہ نے چہرے پر نقاب ڈالا اور چل پٹری مین روڈ پر پہوچنے کہ بعدآٹو،، آواز،، سنتے ہی آٹو پاس آیا۔ شگفتہ آٹو میںبیٹھتے ہی آزاد کالج چلو تھوڑی دیر بعد آٹو کالج کے گیٹ کے قریب رکا شگفتہ جیسے ہی کالج کا گیٹ کھول کراندار داخل ہوئی دفعتا ماجد پر نظر پٹری جو اپنی گرل فرینڈ گلنار سے باتوںمیں مشغول تھا شگفتہ اس نظارے کو نظراندازکرتے ہوئے کلاس کی جانب چل دی۔ گلنار ایک خوبصورت لٹرکی ہے مگر بد سیرت ماجدایک بزنس مین کا لٹرکا ہے جن کا اچھا خاصہ شہر میںبزنس ہے۔ ٹھیک انکے بنگلے کے سامنے ہی ایک چھوٹا سامکان ہے۔ جس میںشگفتہ کے والدعمران صاحب رہتے ہیں۔ جو پیشے سے ماسٹر ہیں۔ شگفتہ انکی اکیلی اولادہے جو باصلاحیت ہی نہیں بلکہ ایک صاحب کردار لٹرکی ہے۔اور کیوں نہ ہوایک ماسٹر کی بیٹی جو ٹہری اچھے اخلاق ہی تو عورت کا گہنا ہے اور اس کی بدولت چاچی جان مطلب ماجد کی امی نصرت جان شگفتہ کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتی جب بھی شگفتہ انکے گھر آتی ہے دونوں مل کر آپس میں ڈھیر ساری باتیں کرتیں شگفتہ انہیں بہت اچھی لگتی اسکی سادگی اس کے لہجے کی لطافت کی تو چاچی جیسے قائل ہوگئی۔ ماجد بھی ایک اچھے خاندان کا لٹرکا ہے۔لیکن دیکھئے ماحول انسان کو کس طرح تبدیل کردیتا ہیں۔ ماجد ایک سمجھ دار لٹرکا ہونے کے باوجود بھی گمراہی کرطرف چل پٹرا س کی وجہ یہ ہے کہ گلنار نے اسے اپنے حسن کے جال میںپھانس لیاتھا۔ اور ماجدبھی اس کے حسن میں پاگل ہوگیا تھا۔گلنارنے محبت میں پھاسہ کیوں کہ وہ ایک مالدار باپ کی اولاد تھی۔جوانی کے دہلز پراکثر انسان گمراہ کی طرف مائل ہوجاتا ہیں۔اور گمراہ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔۔۔
صبح کے دس بج رہے تھے شگفتہ گھر کے کام سے فارغ ہوکر کالج جانے کے لیے گلی میں قدم رکھتے ہی ماجد پر نظر پٹری جوپہلے سے ہی موٹر سائیکل پر سوارتھا۔ ارے شگفتہ کالج جارہی ہو۔ّہاں چلو میںبھی کالج ہی جارہاہوں۔ جی نہیں معاف کرنا مجھے راستے میں کچھ کام ہے یہ کہکر شگفتہ نے ماجد کی بات کاٹ دی ماجد چلاگیا شگفتہ دل میں کہنے لگی یہ حق تو گلنار کا ہے۔ مجھے موٹر سائیکل پر دیکھ کر کہیں وہ یہ نہ سمجھ بیٹھے کے میرا ماجد کے ساتھ کچھ افیر ہے جب تھوڑی دیربعدشگفتہ کالج پہونچی تو ماجد لان میں بیٹھا شائد گلنار کا انتظار کررہاتھا۔ آج گلنار نہیں آئی یہ سوچ کرشگفتہ اس کے قریب پہونچی۔۔ماجد ایک اچھا لٹرکا ہے اس لئے شگفتہ بھی اسے چاہتی ہے مگر اپنے پیار کااظہار نہیں کرپاتی کیونکہ اسے یہ بھی احساس ہوتا ہیکہ ماجد ایک بٹرے بزنس مین کا لٹرکا ہے۔ اور میں ایک ماسٹر کی لٹرکی ہوں۔ میں کہاں اور وہ کہاں یہ بات الگ ہے کہ میںاسکی ایک دوست ہوں ایک ہمدرد پٹروسی ہوں ،قریب پہونچ کر،، ارے ماجداکیلے ہی بیٹھے ہو کس کاانتظار ہے ماجد کی دکھتی ناگ پرہاتھ رکھتے ہوئے شگفتہ نے کہا۔ شاید آج گلنار نہیں آئی ۔ایسی کوئی بات نہیں میں جانتی ہوں ماجد میں تمہاری ہمدردہم راز ہونے کے ناطے ایک مشورہ دے رہی ہوں کہ تم گلنار سے دورہی رہو تو اچھا ہے کیونکہ ماجد وہ اچھی لٹرکی نہیںہے۔ دیکھو انسان میںاچھے اخلاق ہونا بہت ضروری ہے جب انسان برائی کے دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ توپھر پھنستاہی چلاجاتاہے۔ آدمی کا کردار اگر خراب ہوجائے تو وہ دنیا کی نظر سے گرجاتاہے چاہے وہ کتنا ہی قدآورکیوں نہ ہو ماجدنے شگفتہ کی بات کانٹتے ہوئے دیکھویہ اپنا پنانظریہ ہے تم اسے جس نظر سے دیکھتی ہو وہ تمہیں ویسی ہی نظر آتی ہے لیکن میںاسے کبھی اس نظر سے نہیں دیکھتا کیونکہ میں اس سے محبت کرتاہوں اور محبت کرنا کوئی گناہ نہیں۔۔
کسی نے سچ کہا محبت اندھی ہوتی ہے۔ میں تو بس انتی ہی کہوںگی ماجد۔۔۔
،، یہ مانا کے یقینا تم کسی سے رابطہ رکھو
زیاد ہ بھی ضرورت سے نہ لیکن سلسلہ رکھو
سمٹ جائے سبھی دوری ملو نہ ٹوٹ کر اتنا
محبت میں بھی اے ماجد ذرا سا فاصلہ رکھو ،،،
یہ کہہ کر شگفتہ اپنی کلاس کی طرف چل دی پھر ماجد اپنی خیالی دینامیں پہونچ گیا کتنی افسوس کی بات ہے کہ انتی نیک لٹرکی نظر کے قریب ہوتے ہوئے بھی دل سے دور ہے۔ وقت گزرتا گیااتفاق کی بات ہے کہ ایک دن ماجد اپنے والد کے ساتھ بزنس کے سللے میںکچھ دن کے لئے ممبئی چلاگیا۔ کچھ دن بعد جب گھر واپس آیا تو دوسرے دن یعنی سنڈے کو اچانک ایک قریبی دوست سے ملاقات ہوئی عقیل نے داستان عشق سناتے ہوئے کہا کہ تمہاری جان من جان جگر جان وفا اس امیر زاد ے زبیر کے ساتھ گل چھرے اڑارہی ہے اگر یہ نظار تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ ہاں اگر تمہیں دیکھنا ہی ہے تو ہوٹل تاج پہونچ جاو حضور کیونکہ وہاں پر آج زبیر کی جانب سے ایک بہت بٹری پارٹی دی جارہی ہے یہ سنتے ہی ماجد کے دل پر تو ایک برق سے کوند گئی اور شگفتہ کی بات اس کے دل کو جھنجھوڑ نے لگی اسی وقت ماجد موٹر سائیکل پر سوار ہوکر ہوٹل تاج پہونچا جب وہاں کا نظارہ دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گیا۔
دوسرے دن بٹری بے چینی سے کالج کے گراونڈ میں بیٹھا گلناز کا انتطار کررہاتھا۔ کہ اچانک گلناز سامنے سے آتی دیکھائی دی پاس آتے ہی گلناز نے کہاارے ماجد کب آئے بس سمجھ لوآج ہی آگے بات بٹرھاتے ہوئے ماجد نے کہا کل سنڈے کیسے گزار کچھ خاص نہیں بس یونہی اچھا پارٹی کیسے رہی تمہیں کس نے کہا مری بات کا جواب دوارے وہ زبیر ہے زبردستی لے گیا اسکی باہوں میں باہیں ڈال کر ڈانس کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیںآئی ۔ یہ کہہ کر ایک طماچہ ماجد نے گلناز کے گال پر مارا۔۔۔۔چلی جائو میری نظروں کے سامنے سے (غصے میں) گلنار کیاسمجھتے ہو اپنے آپ کو میںکیاتمہاری رکھیل ہوں جو اتنا رعب جمارہے ہو مجھ پر تم نے مجھے سے کنارہ کیا تو کیا ہوا تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی کہکر گلنارچلی گئی۔ ماجد کالج سے سیدھے گھر آکراپنے کمرے میں لیٹ گیا ماں نے کہا ارے کیا بات ہے بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے (جی امی) تو پھر اتنے جلدگھر کیسے آگئے (ایسے ہی) ماجد نے بات کاٹتے ہوئے کہا اس دن شگفتہ اپنے امی کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے کالج نہ جاسکی۔ جب دوسرے دن کالج پہونچی تو سب کی زباںپر ایک ہی پرچا تھا۔
ِ،، تب کہیں معلوم پٹرا کے دونوں میں کچھ ان بن ہوگئی ہے شگفتہ کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔۔۔
ماجد کو بہت دیکھا مگر کہیں نظر نہیں آیا شام ۵، بجے شگفتہ گھر پہونچتے ہی امی سے اجازت لیکر چاچی کے گھر پہونچی دروازے پر دستک دی چاچی جان(کون ہے ) میں شگفتہ دروازہ کھولتے ہی ارے آؤبیٹی اندرآؤ چاچی ماجد آج کالج نہیں آئے ہاںبیٹا وہ کل سے کچھ سہماسہما سا ہے اللہ جانے کیا بات ہے تب کہیں شگفتہ نے ساری داستان درددل بیان کردی تب کہیں جاکر بات چاچی کے دماغ میں آئی اس وقت باہر سے آوازآئی (شگفتہ) آئی امی جان کہہ کر شگفتہ چلی گئی ۔ ماجد کمرے کے اندر گم سم بیٹھا امی کو آتے دیکھ بے تکلف کہنے لگا کیابات ہے امی بیٹا ہی تومیں تم سے پوچھ رہی ہوں کہ حقیقت کیا ہے ،،
نصرت جان نے بیٹے کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔ (ماجد) امی جان بات کچھ بھی نہیں ہے دیکھو بیٹا میں سب کچھ جان چکی ہوں بیٹا برائی کی منزل نہیں ہوتی تو اسکے پیچھے دوڑنا کہاں عقل مندی ہے۔۔
ہرچمکنے والی شئے ہیرہ نہیں ہوتی اس لئے ہر فیصلہ سونچ سجمھ کر نا چاہیے آدمی کیسا بھی ہوا سکا کردار اچھا ہونا چاہئے کیونکہ انسان صورت سے نہیںسیرت سے جانہ جاتاہے بیٹا میری مانوں تو اس حادثے کو ایک برا خواب سمجھ کر بھول جاؤ اور ایک نئی زندگی کا آغاز کرو۔
(ماجد) مجھے تو زندگی سے جیسے نفرت سی ہوگئی ہے ۔۔ ۔ (نصرت جان) بیٹا ایسا نہیں کہتے۔۔
احساس کمتری تو کفر ہے اگر میری مانو تو تمہاری لائق ہمسفر ایک لٹرکی ہے (ماجد کون سی لٹرکی) شگفتہ ۔شگفتہ ہاں ہاںشگفتہ میں نے اس کے چہرے کو پٹرھ لیا ہے ۔ ہو شاہد تمہیںچاہتی ہے مگر اپنی شاہت کا اظہار نہیں کرپاتی کیونکہ وہ اک باوقار لٹرکی ہے اسی وقت دروازے کی گھنٹی بچتی ہیں۔ شاید تمہارے ابوجان آئے یہ کہہ کر نصرت جان دروازے کی جانب بٹرھی،ماجدکو ایسے لگا جیسے کسی نے اسکی آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹا دیا اور وہ تل ملا کر رہ گیا۔ کاش میں گلناز کے بجائے شگفتہ سے پیار کرتا۔ جیسے ہی نصرت جاں نے دروازہ کھولا۔۔ شگفتہ سامنے نظر آئی ارے آؤ اندر آؤ (چاچی میں) ہچکچاتے ہوئے ماجد کیسے ہیں نصرت جاں ٹھیک ہے تم اندر کے کمرے میں جاؤ میں ابھی چائے لیکر آئی۔ ماجد شگفتہ کے خیالوں میں کھویا ہواتھا یک بیک اسے کے کانوں میں ایک میٹھی سی آوازگونجی(ماجدکیسے ہو) ماجد نے پیچھے مٹرکر دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گیا کیوں کہ سامنے جو شگفتہ کھٹری تھی۔ اتنا غور سے کیا دیکھ رہے ہو ماجد کیا مجھے کھبی دیکھا نہیں ہاں یہی تو ایک بھول ہوگئی مجھ سے آج جی بھردیکھنے دو شگفتہ کی آنکھیں شرم سے جھک گئی ہاتھ پکٹرکرپاس بیٹھا تے ہوئے ماجدنے کہا شگفتہ میں بہت ٹوٹ چکاہوں ماجد جوبھی ہوتا ہے وہ اچھے کے لئے ہوتا ہے۔۔ ،،آپ دیر آئے پردرست آئے،،،
اتنا کہناتھا کہ ماجد کی آنکھیں اشک بار ہوگئی ۔ اور وہ بچے کی طرح سسک سسک کر رونے لگا۔ شگفتہ نے اسے حوصلہ دیااور کہا دیکھو جب ایک راستہ بند ہوجاتاہے۔ تو اللہ تعالی دوسرا راستہ کھول دیتا ہے۔ بے ساختہ ماجد کی زباں سے یہ جملہ نکل گیا۔۔۔ شگفتہ کیاتم مجھ سے شادی کروگی۔۔
بس اتنا کہنے کی دیرتھی کہ شگفتہ شرم کے مارے ایک مجسمہ بن کررہ گئی۔۔زبان خاموش تھی لب تھرتھر ارہے تھے مگر آنکھوں نے چپکے چپکے اقرار کرلیا۔۔۔۔ماجدشگفتہ کو اپنی باہوں میں لیتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔
،، ہوتے ہوئے بھی ہم سفر ایک قابل شناس
راہی بھٹک رہا تھا یہ منزل کے آس پاس

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here