افسانہ

0
15703

یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم حاصل کرنے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)

فہیم انسا مہوش

معصوم سی نظر ،اجلا چہرہ کچھ میلاکچیلا اور شکن آلود کپڑے۔بکھرے بال وہ مجھے بڑی حیرت اور خوشی سے دیکھتا رہتا۔کبھی دیکھتا کبھی چھپ جاتا،گویا آنکھ مچولی کھیلنا ۔میں نے کءی بار اسے بلایا لیکن وہ چھپ جاتا ۔
نماز فجر کے بعد جیسے ہی میں نے کھڑکی کھولی وہ سیڑھیوں پر بیٹھا نظر آیا۔مجھے آج یوم اطفال کے پروگرام کے پیش نظر اسکول جلدی جانا تھا۔جب واپس ہوی تو وہ گویا میرا ہی منتظر تھا۔جیسے وہ کچھ کہنا چاہ رہا ہو۔کچھ محرومی کا احساس اسکی معصومیت پر غالب نظر آیا۔کیونکے بچے تو بہت معصوم ہوتے ہیں ۔اپنی کمی کو یا محرومی کو کسی خوبی کے لبادے میں چھپا نہیں سکتے۔انکی خوبیاں اور توانیاں تو ہمیشہ چینختی رہتی ہیں۔
میں نے ملنے کا اراے سے اسکے گھر کا رخ کیا۔وہ مجھ سے پہلے دوڑ کر گھر گیا ۔مین میں نے دیکھا کہ ایک ٢٥سالا خاتون بوسیدہ لباس میں روٹیاں سینک رہی تھی ۔ج
مجھے دیکھتے ہی سلام کیا ۔میں نے دیکھا وہ زمین پر کویلے سے لکیریں بنارہا تھا۔مجھے دیکھ کر پہلی بار مسکرایا۔
یہ اسکول کیوں نہیں جاتا؟میرے سوال پر وہ اور اسکی ماں دونوں مایوس ہوگیے۔کیا بتاوں میڈم جی اسکول والے کہتے ہیں ک یہ توجہ نہیں دیتا۔یہ کہتا ہے مجھے ٹیچر نہیں پڑھاتے۔
ہم نے تو پڑھا نہیں سوچا اسکو کو محنت مزدوری کرکے پڑھایں گے۔میں نے اسکےداخلے کا ذمے لیا۔اور قریب کے اسکول میں داخلہ کروادیا۔اسکی خوشی کی انتہا نہ رہی۔وہ مجھے روزآنہ ملنے آتا اسکول کی باتیں سناتا۔ناخواندہ ماں باپ کا سب سے بڑا ارمان ہوتا ہے ک انکے بچے اعلی تعلیم حاصل کر یں۔
شام کے چھ بج رہے ٹھے میڈیم میڈم نوراں چیختی ہوی میرے پاس آءی۔اسکے ہاتھ میں کوی پرچی تھی۔اسکھی بھی آنکھوں سے ناکامی اور مایوسی کا سوالیہ نشان مجھ تک پہنچ رہا تھا۔۔نوراں نے پیپر مجھے دیا۔میں نے پڑھ کر اسکو خوشی سے اسے گلے لگالیا اور اسکی پیٹھ تھپتھپا کر کہا۔واہ کتنی خوشی کی بات ہے اس میں لکھا ہے ک “تم بہت قابل ہو اور تمہیں ایک بہت بڑے اسکول میں داخلہ دلانا چاہیے۔ ہمارا اسکول تو بہت چھوٹا ہے ۔”میں نے چھوٹے اور بڑ ے کی اصطلاح انکی سمجھ کے لیے کی ۔اسکی نھنھی نھنھی آنکھیں چمک اٹھیں ۔تو اب تم میرے اسکول چلوگے۔اب وہ پابندی سے میرے ساتھ اسکول آتا۔میں اسے انفرادی طور پر توجہ دیتی اس کے اندر توجہ اور انہماک کی کمی تھی۔۔دس سال میں اس اسکول سے وابستہ رہی جب میرا تبادلہ ہوا تو وہ اعلی کامیابی کے ساتھ نکل چکا تھا۔ایک دن میرے ملازم نے کہا
میڈیم ایک بڑے صاحب آپ سے ملنے آیے ہیں ۔بڑےھصاحب کون ہوتے ہیں ۔۔؟میں نے مسکراکر پوچھا اور باہر آءی۔
میں نے بہت ہی بارعب باوقار بہت ہی وجیہہ چہرہ میرے سامنے تھا۔لیکن نظروں کی شناسائی نے مجھے بہت متاثر کیا۔وہ یکلخت میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے تشکر آمیز نظروں سے دیکھتے ہوے صوفے پر بٹھادیا۔بے ساختہ اسکی نظروں نے اسکے ہاتھوں کے لمس نے مجھے یاد ڈلادیا۔اور میں پھر کھڑے ہوگی۔تم انوار ہو نا؟میرے بچے ۔میں خوشی سے اسکے شانوں کو پکڑ ا۔۔جی بالکل اپکا قابل ہونہار کلکٹر انوارالدین۔۔اسکی آنکھیں خوشی کے آنسوں سے ڈبڈبا گیں۔پھر اس نے ایک مجھے دیا جس میں لکھا تھا ۔
“آپ کا بچہ ذہنی مساءیل کا شکار ہے لہذا ہم اسے نہیں پڑھا سکتے براے مہربانی اسے کسی مخصوص اسکول میں داخلہ دلایں۔”
مقدر اللہ لکھتا ہے لیکن تدبیر کے مواقع اس نے بندوں کو سونپ دیے۔آپ نے تدبیر سے میری تقدیرکو اجالوں میں کھیینچ لاءی ہیں ۔ماں نے بڑی خوشی اسے سنبھال کر رکھا تھا گویا ی یہ میری کامیابی کا رپورٹ کارڈ ہو۔۔اسے میں نے جیسے ہی پڑھا آپ کو تلاش کرتا ہوا یہاں آیا۔اسکے میرے ہاتھوں پر گرتے آنسو اور میری خوشی کی انتہا اس ادراک کی ممنون ہوگیں ۔جو مثبت بھی تھیں اور خوش گمان بھی۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here