یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم حاصل کرنے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)
انصاری شاہین عبدالحکیم
پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی مجھے خیال آیا کہ یہ کیسا غیر انسانی سلوک ہے؟ابھی تو مجھے ایک طویل سفر طے کرنا ہے، تیس منزلیں یعنی تیس مالے کا سفراوراب میں ان سیڑھیوں کو اپنی کہانی سنانے جارہا ہوں ،آئیے! آپ بھی، اگر ممکن ہوتو کان دھریے۔ سلمان ثروتؔ کے اِس شعر سے اپنی گفتگو کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔
؎ فصیلِ خواب پہ سیڑھی لگانے والا ہوں
میں ایک راز سے پردہ اٹھانے والا ہوں
یہ صرف تیس مالے کا سفر نہیں ہے بلکہ ایک ایسے ظلم کا سفر ہے جو شروع تو ہوگیا ہے، مگراس کے اختتام کا اتاپتا تک نہیں۔ پورے شہر کی لائٹ چلی گئی ہے اور ظلم مجھ پر ہو رہا ہے ۔کیوں؟ کیوں کہ میں ایک مجبور ،بے بس اور ناچار انسان ہوں نا، کوئی بھلاکیسے کسی کی مجبوری کا اتنا فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ مجبوری ،میری بیوی بچوں کی ،میرے ضعیف والدین کی اور مجبوری میری غربت اور مفلسی کی۔ اگر میں اِس ظلم کو برداشت نہ کروں تو پھر اِن تمام کے زندہ رہنے کا انتظام کیسے کرسکوں گا؟ تیس مالے کا سفر طویل تویقینا ہے۔میری سوچ کی لہریں گہری ہوتی چلی جارہی ہیں۔سوچ رہا ہوںکہ پانچ سال پہلے جب میرا اس کمپنی میںAppointment ہواتھا تب پوری کمپنی میں کوئی چپراسی مجھ سے زیادہ qualified نہیں تھا اور پھر میں ایک عربی مدرسے سے آیا تھا۔مجھے کمپنی میں ملازمت کرتے ہوئے پورے پانچ سال ہوا چاہتے ہیں اور اِن پانچ سالوں میں میری تنخواہ بھی بڑھی، جو ابتدا میں پانچ ہزار تھی مگر اب ساڑھے سات ہزار کے قریب ہوگئی ہے۔ اور کام تو ہرحال میں پورا کرنا ہے ۔
یہاں ایک ایسا شخص بھی ہے جس کی حیثیت ہے تو کچھ نہیں، مگر اﷲ کی پناہ!یہی وہ شخص ہے جس کی وجہ سے میںصرف کمپنی کا چپراسی ہوتے ہوئے بھی اس کا بھی ذاتی نوکرہوگیا ہوں۔ ان پانچ سالوں میں ،میں نے اس کے گھر سبزی ترکاری،گوشت اور دودھ غرض کہ اس نے جو بھی کہاحتیٰ کہ گھر کا ہر سامان پہنچانا، اس کا کرنا مجھ پر لازم ہوگیا۔اب تو مجھے اس کی عادت سی ہوگئی ہے ۔ اب ایسالگ رہا ہے جیسے میرااحساس تک مرگہاہو۔آپ کو ایک بات بتائوں؟ آج مجھے یہ محسوس ہورہا ہے کہ جس قوم میں ایسے ظالم موجود ہوں تو بھلا اُس قوم کی ترقی کیسے ممکن ہوسکتی ہے ؟سچ مچ مجھے احساس بھی نہیں ہوتا کہ میں مظلوم ہوں ۔ آج جب پورے شہر کی لائٹ گئی ہوئی ہے ۔مجھے میری کمپنی کے اس نام نہاد بورڈ ممبر نے کہا کہ اس کے گھر کچھ سامان پہنچا دوں ،میں سامان سے لدا پھندا جیسے ہی میں اس کی پینتیس منزلہ بلڈنگ میں داخل ہوا،پتا چلا کہ لائٹ توغائب ہے اور لفٹ بھی بند۔میں تو بہر حال مجبور تھا، حکم بجالایا۔ میں نے سوچا کہ تیس مالا اور لفٹ بھی بند،چڑھنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے میں نے اس شخص کو فون کیا اور کہا کہ سر!میںسامان واچ مین کے پاس رکھ دیتا ہوں، لائٹ آئے گی تو وہ سامان آپ تک پہنچا دے گا۔ جیسے ہی اس نے یہ سنا ، بھڑک گیا اور کہا ’’نہیں !تم ابھی آئو اور فورا ً اوپر آ کرسامان دے جائو ۔ یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ۔ میں نے کہا صاحب!میں تیس مالے کیسے چڑھوں گا؟اس نے میری ایک نہ سنی اور بالآخر مجھ پر حکم صادرکردیا ۔لہٰذا مجھ پر تیس مالا چڑھنا لازم ہوگیا۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔اب مجھے تیس مالے چڑھنے ہیں۔ اور چڑھ رہا ہوں۔ دھڑکنیں راجد دھانی ایکسپرس کی طرح تیز اور آواز ٹیک آف کرتے ہوئے ہوائی جہاز کی طرح چل رہی ہیں۔ پسینے میں ڈوب رہا ہوں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اب میں سانس کسی اور سے مستعار لے کر چلارہا ہوں۔ پیر بھی جواب دے رہے ہیں۔ اب توجسم کی رگ رگ کہہ رہی ہے کہ میں ان پر اس طرح ظلم کر رہا ہوں ۔جیسے کولہو کا بیل ، جِسے بس چلتے جانا ہے،چلتے جانا ہے۔ لیکن وہ تو جانور ہے نا اور میں شاید جانور نہیں ہوں۔ کیا مجھ میں اور جانور میں کوئی فرق ہے؟اب مجھے اپنے آپ پر ترس آنے لگا ہے۔ آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ۔ میرے اﷲ میری دل کی آواز سن رہے ہیں ، میرے آنسوئوں کو دیکھ رہے ہیں۔ کیا اس شخص کو’’ مکافاتِ عمل‘‘کے متعلق معلوم نہیں ہے؟ شاید نہیں ! شاید یہ اس گمان میں مبتلا ہے کہ اس کی پکڑ نہیں ہوگئی اور یقینا وہ اس غرور میں مبتلا ہے کہ اسے خدا کو منہ نہیں دیکھانا ہے۔ لیکن وہ یہ بھول رہا ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں میں ہم سب جواب دے ہیں اور دونوں جہان میں ہمیں اپنے اعمال کا نتیجہ بھی ملنا ہے۔ قرآن میں آتا ہے۔ جس کا ترجمہ اس طرح ہے:
’’ اُولٰئِکَ جَذَاؤُ ھُمْ اَنَّ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃَ اﷲِ وَ الْمَلٰئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۔‘‘ (سورۃ آل عمران۔ ۸۷)
ترجمہ : ان کے ظلم کا صحیح بدلہ یہی ہے کہ ان پر اﷲ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی پھٹکار ہے۔ (سورۃ آل عمران ۔ ۸۷)
اور مزید کہا گیا ہے کہ:
’’ اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَ یَبْغُوْنَ فیِ الْاِرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ اُولٰئِکَ لَھُمْ عَذَابُٗ اَلِیْمُٗ۔‘‘ (سورۃ الشوری۔۴۲)
ترجمہ : ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں نا حق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (سورۃ الشوری۔ ۴۲)
بہرحال گرتے پڑتے ، ہانپتے کانپتے میںتیسویں مالے پرپہنچ ہی گیا۔تیس مالے چڑھنا کیا معمولی بات ہے ؟ لوگ تو سات مالے چڑھ کر ہی بستر پر پڑ جاتے ہیں۔ اِن امیروں کے لیے تو دو مالے چڑھنا بھی مشکل ہے اور اس نے مجھے تیس مالے چڑھا دیے ،اس نے یہ تک نہ سوچا کہ میرا کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر دھڑکنیں تیز ہونے کی وجہ سے میرا ہارٹ فیل ہوجاتا تو؟ میں تو مر ہی جاتا نا ،مگر اسے کیا فرق پڑسکتا ہے؟میں نہیں بچتا تودوسراکوئی مجبور اس کی خدمت میں حاضر ہوجاتا۔اب اﷲ اﷲ کر کے پہنچ گیا۔ مگر ۸ ؍۱۰ منٹ میں ا س کے دروازے پر بیٹھا رہا۔ جب میں نے محسوس کیاکہ میں زندہ ہوں تو ڈرتے ڈرتے پھر میں نے اس کی ڈور بیل بجائی۔ سنیے! ابھی آپ میرے ساتھ ہیں نا ، آپ رُکے رہیں پلیز ،جانا نہیں، آگے بتاتا ہوں نا۔ آپ کو پتا ہے ، اس کے بعد اس نے مجھے دیکھا اور پھر اپنی اوقات پر آگیا۔ اور مجھے ڈانٹنے لگا۔ ’’تم کو اوپر آنے میں کیا پرابلم تھا، ہاں؟ میں نے اپنی سانسیں درست کرتے ہوئے روندھی ہوئی آواز میں کہا،’’سر!لفٹ بند ہے نا! پھر مجھے لگا کسی پر ظلم کرنے کے لیے جواز کی ضرورت نہیں ہوتی، کیوں پتا ہے ؟ کیوں کہ اس نے مجھے پانی کا تک کے لیے نہیں پوچھا اور کہافوراً جائو کمپنی میں تمہاری ضرورت ہے۔ میں الٹے پیر پلٹا، مگر آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگا۔ کمپنی نزدیک تھی اس کے باوجود میں نے رکشا کرناضروری سمجھا۔ اب میرے حواس جواب دے رہے ہیں وہ میرا ساتھی میری طرف آرہا ہے۔ میرے ساتھی مجھے دیکھتے ہی میری طرف دوڑے اور کہا، ہوا کیا؟ میں زار وقطار رونے لگا انھوں نے مجھے بیٹھایا، پانی دیا، تفصیل پوچھی، میں زمین پرہی لیٹ گیا۔مجھے نہیں معلوم کہ رکشا والے کے پیسے کس نے دیے۔ البتہ کانوں میں ہلکی ہلکی آوازضرور آئی کہ رہنے دیجیے ، یہ بے چارہ پہلے ہی مررہا ہے۔ اور غالباً یہ آواز رکشا والے کی تھی۔ وہ میری تیمارداری کررہے ہیں، کیوں کہ یہ بہت امیر نہیں ہیں اب میں دھیرے دھیرے ان سب کو وہ سنا رہا ہوں جو کچھ مجھ پر بیتی۔میں نے کہا ۔آج میرے ساتھ ’’غیر انسانی سلوک‘‘ ہوا ہے۔ اور انھیںآہستہ آہستہ سب کچھ بتا دیا۔ سنتے ہی ان کے رونگتے کھڑے ہوگئے اور ان میں جن کے دل تھوڑے سخت تھے وہ بھی رو پڑے اور مجھے پنکھا جھلنے لگے ۔ ان میں سے ایک نے کہا میرا گھر چوتھی منزل پر ہے اور اس بلڈنگ میں لفٹ نہیں ہے ۔میں صرف ایک مرتبہ ہی چار منزلیں چڑھتا ہوں اور وہ بھی ہر منزل پر دس دس منٹ رکتا ہوں ۔ اس نے تو تمہیں جانور سے بد تر سمجھ رکھا ہے یار۔ جو تیس منزلہ بلڈنگ پر چڑھنے پر مجبور کردیا۔ ارے اگر کوئی کتا بھی ہوتا ہے نا تو اس کامالک اسے دس منزلیں بھی نہیں چڑھنے دیتا ، اور یہ کس طرح کاذلیل انسان ہے؟ جانور بھی ایساسلوک نہ کرے ،یہ تو انسان نما شیطان ہے یار، ایک نے کہا اس کو شیطان کہہ کہ شیطان کیInsultمت کرویار! بعد ازاں سب نے تسلی دینے کا سلسلہ شروع کردیا، جتنے منہ اتنی باتیں ۔ مجھے ایک تجربے کار شاعر کلیم ضیاؔ کا ایک شعر یاد آرہا ہے، آپ بھی سنیے اور غور کیجیے۔ وہ کہتا ہے:
؎ مدد کے واسطے حسنِ عمل کی بھی ضرورت ہے
دلاسوں سے پریشاں کی پریشانی نہیں جاتی
یہ منظر ان لوگوں نے بھی دیکھا جو اس ظالم کے عہدے کے برابر کے تھے اور انھوں نے بھی جو اس غیر انسانی سلوک پر بولنے کی طاقت رکھتے تھے اور پورا حق رکھتے تھے کہ اس کے خلاف آواز اُٹھائی جا سکے لیکن انھیں مجھ سے بے انتہا ہمدردی تو تھی مگر کسی نے اس غیر انسانی سلوک کی مخالفت میں اُس ظالم کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ میں نے سوچا کہ کیا اختیارات ہوتے ہوئے بھی خاموش رہنے والوں کی پکڑ نہیں ہوگی؟ ناطق ؔ لکھنوی کا ایک شعرطنز کی صورت سن لیجیے اور مجھے اجازت دیجیے کہ میں ایک چپراسی ہوں اور ابھی بہت سارے کام کرنے باقی ہیں:
؎ کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے