یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم موصول ہونے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)
ڈاکٹر ترنم منصوری
بات اُن دنوں کی ہے جب صبا معاش کی تلاش میں بناس پہنچی ۔چہرے پر نقاب ،ہاتھوں میں سامان لئے اپنے نئے کرائے کے گھر کی تلاش کررہی تھی۔اسی درمیان صبا کی نظر اُن بزرگ پنڈت سے جاملی جو اُسے بہت دیر سے گھور رہے تھے۔
’’بیٹا کیوں پریشان حال گھوم رہی ہو۔منیں اتنی دیر سے تمہیں ہی دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’صبا نے سہمتے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔۔نہیں داداجی ایسی کوئی بات نہیں ۔بس گھر کا پتا کر رہی ہوں۔‘‘میری بات ختم نا ہوئی کہ وہ بول بڑے۔۔۔۔۔یہ جو سامنے والی گلی دیکھ رہی ہو نا۔اُسی گلی کے آخر میں میرا گھر ہے۔ اگر تم چاہو تو میرے گھر کرائے دار بن کر رہ سکتی ہو،کیو نکہ اتنے بڑے گھر میں صرف منیں اور میری بیوی مایا ہی رہتے ہیں۔
’’صبا کے چہرے پر تبسم بکھرنے لگی۔وہ یہ ہی تو چاہ رہی تھی کہ اپنی دعاوں کے برعکس اللہ اُسے ایک فرشتہ عطا کردے تاکہ اس نئے شہر میں اسکی مشکلات آسان ہوجائے۔‘‘وہ فوراََحامی بھرتے ہوئے اُن کے ساتھ چل دی۔
چلتے چلتے اُن کی گفتگوشروع ہوئی۔’’بیٹا۔۔۔ میرا نام رام پرساد شرما ہے۔اور تم میرے لباس سے پہچان ہی گئی ہونگی کہ منیں ایک پنڈت ہو۔‘‘مُسکراتے ہوئے کہنے لگے۔اچھاتم بتاؤںاتنی دور کس سبب یہاں آئی ہو۔
’’صبا فوراََ بول پڑی۔دادا جی کل میرایہاں کی یونیورسٹی میں انٹرویو ہے۔‘‘اللہ نے چاہا اورآپ کی دعا ہی تو میرا سلیکشن پکا۔
یہ سُن کر رام پرساد جی ہنس دئیں۔اور ہنستے ہوئے کہنے لگے ۔’’اپنی تقدیر کی بھی آزمائش کر لو بیٹا‘‘اُن کی زبان سے نکلا آزمائش کا لفظ صبا کے ذہن میں کھٹکنے لگا۔بہر حال بات ختم ہوئی نا تھی کہ وہ اُن کے گھر کے سامنے آکھڑے ہوئے۔داداجی نے ڈوربیل بجائی۔۔۔۔سامنے سے دروازہ کھولتی ہوئی اُن کی بیوی مایا مُسکراتی ہوئی صبا سے رادھے رادھے کہنے لگی۔۔۔۔صبا نے بھی جواب میں رادھے رادھے کہا،ہاتھ جوڑتے ہوئے۔۔۔۔’’بیٹا منیں اتنے دنوں سے تمہارے دادا جی سے ہربار یہ کہتی رہتی کہ اس خالی گھر میں میرا من نہیں لگتا ۔۔۔۔ ‘‘اور وہ ہمیشہ جواب میں کہتے۔۔۔۔’’ایک دن میں تمہارے لئے ایک دوست لے آونگا۔‘‘اور آج دیکھوں تم میرے سامنے ہو۔
اُن کی یہ باتیں سُن کر صبا کی گھبراہٹ کچھ کم سی ہوئی۔۔۔۔اُسے ایسا محسوس ہورہاتھا کہ وہ اپنے ہی گھر آگئی ہو۔وقت اور باتوں کا پتا ہی نہ چلا۔
صبا کو جو روم دیا اُس میں ضرورت کے سارے سامان موجود تھیں،پھر بھی مایا کہنے لگی ۔۔۔۔بیٹا اسے اپنا ہی گھر سمجھوںاورہاںکسی چیزکی ضرورت ہوتو ہمارے نوکر بول دیجئے گا ۔۔۔۔آج تم بہت تھکی سی لگ رہی ہو اسلئے جلدی سے فریش ہوکر کھانا ہمارے ساتھ ہی کھا لیجئے گا۔۔۔۔منیں کھانے پر تمہارا انتظار کرونگی۔۔۔۔
اُن کے یہ لفظ سُن کر صبا کچھ جواب نا دے سکی۔۔۔۔’’بس حامی میں مُسکراتے ہوئے سر ہلا دیا۔‘‘
دادی جی کے چلے جانے کے بعد صبا کے ذہن میں ہزار باتیں گھمنے لگی ۔۔۔۔’’آج تک منیں نے ایسی پاسدار عورت نہیں دیکھی ۔۔۔۔جسے محبت اور اپنے پن کے علاوہ مجھ سے اور کچھ نہیں چاہئے تھا۔۔۔۔یہاں تک کہ میرانام،مذہب،ذات پات۔۔۔۔کچھ بھی مانے نہیں رکھتا،اُن کے لئے۔۔۔۔‘‘انہیں خیالاتوں میں وقت کب گزر گیا،معلوم ہی نا چلا۔
نئی صبح دادی جی کی آرتی سے صبا نیند سے بیدار ہوتی ہے۔سفر کی تھکان سے معلوم ہی نا چلا کہ رات کا پہر کیسے گزر گیا۔اُس کی نظر دیوارپرلگی گھڑی پرپڑی جس میں ابھی چھ بج رہے تھے۔ اور گیارہ بجے اُس کا انٹرویو تھا۔۔۔۔گھر سے یونیورسٹی دس کلومٹر دور تھی۔وہ جلدی سے اُٹھ کر ضروری کام اور نماز سے فارغ ہوکر تیار ہونے لگی۔۔۔۔اپنا لباس اور دوپٹا ٹھیک کرتے ہوئے بیگ میں دستاویزات رکھنے لگی۔۔۔۔آئینے کے پاس رکھے اپنے قلم کو بھی بیگ میں رکھنے لگی تو صباکی نظرآئینے پرٹھہر سی گئی۔۔۔۔آج کچھ الگ سی چمک اُس کے چہرے پر نظر آرہی تھی ۔۔ ۔۔شاید خوشی کی ۔۔۔۔وہ رُک کر پھر سے دوبارہ غور سے اپنے آپ کو دیکھنے لگی۔۔۔ذہن میں پُرانی یادیں تازہ ہوگئی۔۔۔۔گزرے ہوئے وہ دو سال ۔۔۔۔جہاں کورونا نے اچھے اچھے کو پست کر دیا تھا اُنہیں میں سے ایک صبا بھی تھی۔۔۔۔بہر حال صبا نے اپنا قلم بیگ میں رکھ کر ناشتہ کر کے یونیورسٹی کی طرف چل دی۔
ابھی گھڑی میں دس بج رہے تھے۔انٹرویو میں ایک گھنٹہ باقی تھا ۔صباکی طرح سات فرد اور بھی ہندی شعبے میں انٹرویو کے لئے آئے ہوئے تھیں۔سبھی کو شعبے کے پاس والے روم میں بیٹھا یا گیا۔جہاں سبھی اپنا تعارف ایک دوسرے سے کرانے لگے۔جب صبا کی باری آئی تو وہ اپنا تعارف یوں بیان کرنے لگی۔۔۔۔۔
’’میرا نام ڈاکٹر صبا خان ہے۔میں نے ہندی میں NET,SLET,Ph.Dمکمل کر چُکی ہوں۔اور آج اس مقام پر آپ سب کے ساتھ بیٹھی ہوں۔‘‘مُسکراتے ہوئے کہنے لگی۔
صبا کے دائیں میں بیٹھے موہن صاحب تھوڑے سہمتے ہوئے لہجے میں بولے ۔۔۔۔میڈم
ہماری قابلیت توآپ سے تھوڑی کم ہے۔۔۔۔ایم.اے .کرتے ہی تحقیقی مقالے پر کام شروع تھا۔ اب کچھ ہی دنوں میں یہ تحقیقی مقالہ جمع کرواہی دونگا۔۔۔۔ہلکی سی چمک چہرے پر لاتے ہوئے کہتے ہے۔انہیں کے پاس بیٹھی عالیہ بھی دبی دبی آواز میں کچھ اسی طرح کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہے کہ۔۔۔۔’’موہن صاحب NETنہیں ہے مگر منیں نے NETکا امتحان اسی سال پاس کیا ہے۔لیکن ہم دونوں تین سال سے اسی شعبے میں مہمانِ شعبہ کام کر رہے ہیں۔۔۔۔اب سوچ رہی ہوں کہ Ph.D.میں داخلہ لے ہی لو۔‘‘ہماری گفتگومکمل ہی نہ ہوئی کہ ایک پیون آکر کہتا ہے کہ سُمن میرٹ میں پہلے نمبر پر ہے۔۔۔۔اس لئے سُمن میڈم کو انٹرویو کے لئے شعبے میں بُلایا ہے۔۔۔۔’’یہ سُن کر صبا کی سانسیں اوربھی تیز ہونے لگتی ہے، کیونکہ پہلی دفعہ انٹرویوکے لئے آئی تھی۔اُپر سے موہن صاحب اور عالیہ کو تین سال اس شعبے میں کام کرتے ہوئے۔۔۔۔‘‘اُس کے ذہن نے طے کر لیا تھا کہ یہاں اپنی دال گلنے والی نہیں ۔۔۔کیونکہ وہ یونیورسٹی کے حالات سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔۔
’’انٹرویو بھی بڑی عجیب چیز ہے،جو صرف نام کے لئے۔۔۔
رکھنا اُنہیں ہی ہوتا ہے جنھیں صدر شعبے نے نصب کر رکھا ہوتا ہے۔۔۔۔۔‘‘
انہیں خیالاتوں میں گم صبا اپنے دستاویز نکالنے کے بجائے اُنھیں پھر سے بیگ میں رکھنے لگتی ہے۔کہ دوبارہ سے وہی پیون کاغذلئے ہوئے آتا ہے اور کہتا ہے کہ۔۔۔۔
آپ میں سے صبا کون ہے؟۔۔۔
انٹرویومیں دوسرا نمبر آپ کا ہے۔۔۔۔
یہ سُن کر صبا اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔اور اپنے دستاویزوں کو دُرست کر کے شعبے کی طرف
چل دی۔۔۔۔
’’انٹرویو میں ہر سوال کا جواب صحیح دینے پر وہ اس بات پر اطمنان کرتی ہے کہ میرا سلیکشن ہوہی جائے گا۔۔۔۔خوش ہوتے ہوئے وہ شعبے سے نکلتی ہے۔۔۔۔اور دل ہی دل میں خدا کا شکر بھی ادا کرنے لگتی ہے۔
قریباََ چار دن گزرنے کے بعد صبا کے موبائل پر ایک کال آتا ہے۔۔۔۔
’’ہیلو !۔۔۔۔صبا میڈم بول رہی ہے؟‘‘
صبا حامی میں جواب دیتے ہوئے کہتی ہے۔۔۔۔یس۔۔۔۔
آگے سے جواب ملتا ہے۔۔۔ــ’’منیں یونیورسٹی کے آفس سے بول رہی ہوں۔
آپنے شعبے ہندی کا انٹرویو دیا تھا۔۔۔اُس میں آپ کا سلیکشن ہوگیا ہے۔۔۔۔آپ کل ہی آکر جوئن کر لیجئے۔۔۔۔‘‘
یہ جواب سُن کر صبا خوشی سے اوکے کہتے ہوئے کالا آف کرتی ہے ۔۔۔۔
صبا کے چہرے کی خوشی دیکھ کر رام پرسادجی اور مایا سمجھ جاتے ہیں ۔دونوں صبا کے سرپر ہاتھ رکھتے ہوئے کامیابی کی بہت ساری دعائیں دیتے ہیں۔
اگلی صبح روز کے معمول کی طرح آج بھی صبا جلدی اُٹھ کر نمازپڑھ کر اپنے حق میں دعائیں مانگنے لگی۔۔۔۔
’’آج سے صباکی زندگی کاایک نیاسفرشروع ہونے والا تھا۔خوشی کے مارے کب گھر سے یونیورسٹی کا سفر طے کر لی،اُسے معلوم ہی نہیں چلا۔۔۔۔ذہن میں ہزار خواہشاتیں سمندر میں غوطے لگا رہی تھی۔۔۔۔ ہر حال میں اپنا بیسٹ اس یونیورسٹی اور بچوں کو دنگی۔‘‘یہ سوچتے ہوئے اُس کی رفتار اور تیز ہوگئی۔۔۔۔اور یہ رفتار اپنے شعبے کے دروازے کے قریب آکر ہی پست ہوئی۔۔۔۔
روم میں شنکر نارائن سر جو کہ اس شعبے کے صدر ہے۔۔۔۔اُن کی نظر باہر کھڑی صبا پر پڑی۔۔۔۔تواُنہیں دیکھ کر صبا نے گوڈ مارننگ کہا۔۔۔۔
گوڈمارننگ کا جواب دیتے ہوئے صبا کو روم میں آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
وہ بھی سر کے اسی جواب کے انتظار میں تھی۔۔۔اور اندر آکر روم میں لگے صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔۔جہاں صبا کے علاوہ چار اور فیکلٹی میمبر بھی بیٹھے ہوئے تھیں۔۔۔اُن کے سامنے کی ٹیبل پر ایک رجیسٹر،کچھ بکھرے ہوئے کاغذ اور کتابوں کے علاوہ قلم رکھی ہوئی تھی۔۔۔۔
ؔ شنکر نارائن سر ٹائم ٹیبل اور رجیسٹر سامنے کرتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔۔۔
’’آج سے آپ سبھی اسی ٹائم ٹیبل کی ترتیب سے اپنی کلاسیز لینگے۔۔۔۔‘‘
سبھی دستخت کرکے ٹائم ٹیبل لے کر اپنے روم میں چلے گئیں۔۔۔۔صبا اپنے روم میں آکر ٹیبل پر بیگ رکھ کر،کُرسی پر بیٹھتے ہوئے ٹائم ٹیبل غور سے دیکھنے لگی۔۔۔۔’’یا اللہ ! ۔۔۔۔مجھ سے کم تر کو اتنی زیادہ کلاسیز اور مجھ کو اتنی کم۔۔۔۔اُف۔ف۔۔۔۔یہ کیا۔۔۔۔ترتیب میں بھی منیں نیچے ۔۔۔۔یااللہ !۔۔۔۔ یہ ماجرہ آخر ہے کیا۔۔۔۔‘‘ آنسوں کو دل میں ہی دفن کرتے ہوئے صبر کا گھونٹ پی گئی۔۔۔۔جیسے اُس کے ساتھ کچھ نا ہوا ہو۔۔۔۔اور ایم .اے.کی آن لائن کلاسیز لینا شروع کر دیتی۔۔۔۔
اسی معمول میں چار مہنے کب گزر گئے۔پتا ہی نہیں چلا۔اور آنے والے کچھ روز میں ایم. اے.کے امتحان شروع ہونے والے تھے۔
صبا روزانہ کی طرح آج بھی اُنہیں کو آنلائن پڑا رہی تھی۔۔۔۔جب کہ ایم.اے.کا سیشن پُرا ہوچکا تھا۔اور یہ وقت ان کے امتحانات کی تیاریوں کا تھا۔۔۔۔مگر اس کی خبر صبا کو نا تھی۔۔۔۔اور نا ہی دی گئی تھی شعبے سے۔۔۔۔یہ ماہ بھی قریباََ پورا ہونے کے آخری حصے کے عروج پر تھا۔اسی درمیان ایک روز کلاس ختم ہونے کے بعد عالیہ ،صبا کے روم میں آکر ایک کاغذ ہاتھوں میں تھماکر کہتی ہے۔۔۔۔
’’اس مہنے کا بیل نئے ٹائم ٹیبل کی ترتیب سے بنائے۔۔۔۔تنخواہ اسی طرز میں ملے گی۔۔۔۔‘‘یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔
صبا اس نئے ٹائم ٹیبل سے اپنی کلاسیز کا حساب ذہن میں لگانے لگی۔۔۔۔لیکن حساب میں کمی ہونے کی وجہ سے اُس کا ذہن پریشان حال ہواُٹھا۔۔۔۔جو کہ اُس کے چہرے پر صاف ظاہر ہو رہا تھا۔۔۔۔پریشان حال میں وہ روم میں اس سمت سے اُس سمت گھمتے ہوئے اپنی پریشانی کا جواب تلاش کرنے لگی۔۔۔۔دو قدم ہی نا چلی کہ ایک ٹوٹی ہوئی الماری سے پیر جاٹکرایا۔۔۔۔جس سبب ذہن میںپریشانی کی جگہ غصے سے چہرہ سُرخ ہوگیا۔۔۔۔اُف ۔۔۔۔کسمساتی ہوئی اپنے آپ کو کوستے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔یہ ہے میری قابلیت ۔۔ ۔۔ میری جگہ۔۔۔۔جہاں روم میں ٹیبل اور تین کُرسیاں ہی صحیح ۔۔۔۔باقی دیگر کباڑ خانہ اسی روم میں جمع کر دیا گیا ہو۔۔۔۔ اُس کے غصے کی انتہاں تب اور تیز ہوگئی،جب زمین پر بیٹھے ہوئے اُس کی نظر باہر لگی اُس تختی پر پڑی جہاں ہندی شعبے کی جگہ اردو کا شعبہ لکھا ہواتھا۔۔۔۔حالانکہ روز یہ تختی دیکھ کر بھی وہ درکنارہ کر دیتی۔۔۔۔مگر آج یہ تختی بھی اُس کے دل میں خنجر کی طرح لگ رہی تھی۔۔۔۔اس خنجر کے درد میں پیر کا درد کہا غائب ہوگیا،پتا ہی نہیںچلا۔۔۔۔مگر خنجر سے لگے دل کی آہ سُننے والا کوئی نہیں۔۔۔۔یہ ساری تکالیف اندرہی اندر آبلہ کی طرح پُھنٹتی ہی جا رہی تھی۔۔۔۔صرف اور صر ف درد کا احساس ۔۔۔۔مرحم لگانے والا کوئی نہیں۔۔۔۔اس درد کو دل میں دفن کرکے ہمت سے اُٹھ کر روم کے باہر سُکون تلاش کرنے کے لئے آتی ہے۔۔۔۔مگر سُکون یہاں بھی نہیں۔۔۔۔سُکون کی جگہ سناٹا تھا۔۔۔۔کیونکہ وقت ہو گیا تھا گھر جانے کا۔۔۔۔قریباََ آس پاس کی دیگر فیکلٹی میمبر بھی جا چُکے تھیں۔۔۔۔صبا بھی یہ ہی سوچ رہی تھی کہ اپنا بیگ اُٹھاؤں اور چلی جاؤںاُسی درمیان عالیہ کو شنکر سر کے روم میں جاتے ہوئے دیکھ ۔۔۔۔صبا نے بھی سوچا کے اس وقت سر فری ہونگے تو منیں بھی اُن سے اس معاملے میں بات کرکے دیکھتی ہوں۔۔۔۔شاید سر میری پریشانی کا حل نکال دیں۔۔۔۔یہ سوچتے ہوئے وہ دوبارہ اپنے روم میں گئی۔۔۔۔اپنا بیگ اور نیا ٹائم ٹیبل ہاتھ میں لئے شعبے کی طرف چل دی۔۔۔۔شعبے کے اندر جانے کے بجائے اُس کے قدم باہر ہی رُک سے گئے۔۔۔۔کیونکہ آج شعبے کے دروازے پر پردہ لگا ہواتھا۔۔۔۔ہالانکہ پردہ روز لگا ہوا ہوتا۔۔۔۔مگر آج سلوٹوں کی سطح زیادہ بکھری ہوئی تھی۔۔۔۔مانوں آج پردہ صبا کو کہہ رہا ہو کے یہیں روک جاؤں۔۔۔۔مگر وہ دل کو سمجھاتے ہوئے سوچنے لگی کہ۔۔۔۔سر شاید کسی خاص کام میں مصروف ہونگے اسی لیے پردے کی سطح آج بکھیر دی ہونگی۔۔۔۔بحر حال پردے کی سطح سے زیادہ اُس کے ذہن میں پریشانی کے خیالات اُسے پریشان کر رہے تھے۔۔۔کہ کس طرح سے سر سے سوال کیا جائے۔۔۔۔اپنے حق کی بات کس طرح سے سمجھائی جائے۔۔۔۔اگر سر کا جواب نامیں ہواتو۔۔۔۔وغیرہ رغیرہ۔۔۔۔یہ ساری باتیں اُسے پریشان کر رہی تھی۔۔۔۔ کشمکش میں ہونے کی وجہ سے یکایک اندر جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔
اسی درمیان پنکھے کی ہوا سے دروازے سے لگا پردہ آگے پیچھے ہونے لگا۔۔۔۔توصبا دو قدم اورپیچھے ہوگئی۔۔۔۔یہ سوچ کرکہ۔۔۔۔سر کی نظر کہیں مجھ پر نہ پڑ جائے۔۔۔۔لیکن پردے کے لہرانے سے ماجرہ کچھ اور ہی نظرآنے لگا۔۔۔۔جس وجہ سے ذہن میں عصمتؔ کے لحاف کے ہاتھی کی تصویر گھمنے لگی۔۔۔۔صبا گھبرا کر وہاں سے چل دی۔۔۔۔پورے راستے وہی تصویر اُسے پریشان کرنے لگی۔۔۔بھولنے کے بجائے اور زیادہ۔۔۔۔
اب سارا ماجرہ صبا کو اچھے سے سمجھ میں آنے لگا۔کیوں عالیہ سر کی اتنی خاص ۔۔۔۔کیو ں میرٹ میں منیںآخر اور وہ اوّل۔۔۔۔ہزار سوالات اُس کے ذہن میں جو الجھن پیدا کئے ہوئے تھے۔۔۔۔آج سطح در سطح کھول رہے تھے۔۔۔۔اس واقعات کے بعد صبا نے سر سے اور دوری بنا لی۔۔۔۔
آج ماہ کا آخری دن تھا۔صبا کے علاوہ سبھی کے بیل پاس کروانے کے لیے سر کے ٹیبل پر پہنچ گئے تھیں۔۔۔۔
ایک پیون صبا کے روم میں آکر کہتا ہے۔۔۔۔میڈم آپ ہی کا بیل رہ گیا ہے ،تو سر منگوا رہے ہے۔۔۔۔
صبا اُسے منع کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ۔۔۔۔۔’’منیں خود ہی ابھی کلاس سے فارغ ہوکر سر کو دے دونگی۔۔۔۔‘‘یہی بات پیون سر کو جاکر کہہ دیتا ہے۔
کچھ دیر بعد صبا پُرانے ٹائم ٹیبل کی ترتیب سے اپنا بیل بنا کر سر کے روم میں حاضر ہوتی ہے۔۔۔۔
’’سر یہ لیجئے میرا بیل۔۔۔۔‘‘
حالانکہ اُسے معلوم تھا سر کا جواب۔۔۔۔پھر بھی وہ بڑی معصوم بن کر سر کے جواب کے انتظار میں تھی۔۔۔۔اور جواب وہی تھا۔۔۔۔
’’میڈم ۔۔۔۔آپنے بیل غلط بنایا ہے۔۔۔۔اسے نئے ٹائم ٹیبل کی طرز سے دوبارہ بنا کر مجھے۔۔۔۔۔‘‘
سر کی بات ختم نا ہوئی کہ صبا فوراََ بول پڑی۔۔۔۔شاید وہ سر کے اسی جواب کے انتظار میں تھی۔۔۔
سر!۔۔۔۔اس نئے ٹائم ٹیبل سے تو میری ساری تنخواہ کٹ جائے گی۔۔۔۔جبکہ منیں نے پورے ماہ پڑھایا ہے۔
اورا گر ایسا ہی تھا ۔۔۔۔تو مجھے ماہ کے شروع میں خبر کرنے کے بجائے آخر میں ۔۔۔۔
میڈم آپ زیادہ بول رہی ہے۔۔۔۔جیسا کہا ہے ویسا کر ئیے ۔۔۔۔ہم سے زبان دانی نا کرئیے۔۔۔۔
صبا۔۔۔۔سر منیں نے کہا غلط کہا یا زبان دانی کی ہے۔منیں تو صرف اپنے حق کی بات کر رہی ہوں۔۔۔۔
آپ کو کہہ دیا نا۔۔۔۔زیادہ نا بولے۔۔۔۔اپنی حد میں رہے۔۔۔۔
یہ سُن کر صبا کی نرم آواز بُلند ہوگئی۔۔۔۔اور بلند آواز میں ہر ایک بات بیان کر دی جو اتنے دن تک اپنے اندر دفن کی ہوئی تھی۔۔۔۔آج لہجے میں غصے کی جگہ نوابوں کا سا رُباب نظر آنے لگا۔۔۔۔یہ رُباب آنا بھی لازمی تھا۔۔۔۔آخر نوابوں کا خون جگرمیں شامل تھا۔
اب صبا اپنی حدوں کو توڑتی گئی اور اپنا حق منواتی گئی۔۔۔۔آج اُس کے چہرے پر گھبراہٹ یا ڈر نہیں بلکہ حق کا جوش تھا۔۔۔۔
شعبے سے باہر نکلی تو دیگر فیکلٹی میمبر نے اُسے مُسکرا کر کر جھانسی کی رانی کہہ کر گلے لگا لیا۔
٭٭٭ۙۙ٭٭٭٭
[…] post افسانہ appeared first on […]