9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
شکیلا سحر
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اُتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، ﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔‘‘ (البقرۃ، 2: 185)
رمضان میں افطار کےلئے خصوصی طور پراہتمام کیا جاتا ہے اس لئے روزہ دار کی افطاری کا ثواب حاصل کرنے کے لئے مختلف قسم کے ماکولات ہمسایوں اور رشتہ داروں کی طرف بھجوائے جاتے ہیں جس سے معاشرہ میں محبت و مودت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ رمضان گزرتے ہی ہمسایوں کی طرف کھانے کی اشیاء بھجوانے کا جذبہ آہستہ آہستہ ماند پڑنے لگتا ہے ،حالانکہ اس کی طرف قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ وخلفاء کے ارشادات میں بڑی تاکید آئی ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں جہاں ہمسائے کے حقو ق بیان ہو ئے وہاں ہمسایہ کا ایک حق یہ بھی آیا ہے کہ اپنی ہانڈی کی (خوشبو) سے ہمسایہ کو تکلیف نہ پہنچاؤ سو اس میں سے کچھ اسے بھی دے دو نیز ذکر ہے کہ اگر تم نئے پھل خریدو تو ہمسایہ کے پاس بھی ہدیہ کرو اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ اس سے پڑوسی کے بچوں کو پھل نہ ملنے کی صورت میں تکلیف ہوگی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے !پورے طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے بہت کم لوگ ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ مہربانی کرتا ہے ۔ (شعب االایمان باب اکرام الجار)
حدیث مبارکہ میں ہمسائے کی طرف کھانے کی اشیاء بھجوانے کی اس قدر تاکید بیان ہوئی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ فلاں عورت اپنی نمازوں میں ،اپنے روزوں میں ،اپنے صدقہ خیرات میں بہت مشہور ہے لیکن وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے ۔آپ نے فرمایا وہ آگ میں ہے ،اس شخص نے عرض کی کہ فلاں عورت جو ہے وہ بہت زیادہ نماز ،روزہ اور صدقہ وخیرات کی پابند تو نہیں لیکن پڑوسیوں کو (کھانے کا کچھ نہ کچھ ) بھیجتی رہتی ہے اور اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دیتی آپ نے فرمایا وہ جنت میں ہو گی(مسند احمد )
قرآن کریم نے ایک مقام پر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے اوریہ حسن سلوک کس طرح ہو،اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات گرامی سے واضح کیاہے۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی ہی یہی تھا کہ لتبین للناس مانزل الیھم کہ قرآن کی آیتوں کو واضح کریں،کھول کر بیان کردیں۔اس کے مفہوم ومعانی سے لوگوں کوآگاہ کریں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء میں فرمایا۔واعبدوا اللہ ولاتشرکوابہ شیئا وبالوالدین احسٰناوبذی القربی والیتمی والمسکین والجارذی القربی والجارالجنب والصاحب بالجنب،وابن السبیل،وماملکت ایمٰنکم،ان اللہ لایحب من کان مختالافخورا(سورہ نسائ،36)اور اللہ کی بندگی کرو اورکسی کو اس کا شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور قریبی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اورپاس بیٹھنے والے او رمسافر او راپنے غلاموں کے ساتھ بھی نیکی کرو بے شک اللہ اترانے والے بڑائی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ۔اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالی نے والدین کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں،یتیموں،مساکین کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے ساتھ نیکی کرنے یعنی حسن سلوک کرنے کاحکم دیاہے۔الجارذی القربی اورالجارالجنب کے ایک معنی حضرت ابن عباس سے یہ مروی ہیں کہ وہ پڑوسی جس سے تمہاری رشتہ داری ہو اوروہ پڑوسی جس سے تمہاری رشتہ داری نہ ہودونوں کے ساتھ اللہ نے نیکی کرنے کا حکم دیاہے۔ ایک حدیث آگے ذکر ہوگی۔جس میں اسی اعتبار سے پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنے کا حکم دیاگیاہے۔(تفصیل کیلئے تفسیر طبری کی جانب رجوع کریں)
نبی کریم نے فرمایا: کہ بعض پڑوسی وہ ہیں جن کا صرف ایک حق ہے، بعض وہ ہیں جن کے دو حقوق ہیں اور بعض وہ ہیں جن کے تین حقوق ہیں۔ ایک حق والا پڑوسی وہ غیر مسلم ہے جس سے کوئی رشتہ داری بھی نہیں، دو حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلمان بھی ہے، تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہے، مسلمان بھی ہے اور رشتہ دار بھی۔
نبی کریم ؐ نے تین مرتبہ قسم کھا کر فرمایا: خدا کی قسم وہ مومن نہیں، خدا کی قسم وہ مومن نہیں، خدا کی قسم وہ مومن نہیں۔ صحابہ نے پوچھا: کون یا رسول اللہؐ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔ (بخاری)
سرکاردوعالمؐ خود اپنی ازواج مطہرات کو پڑوسیوں کے ساتھ محبت و استواری کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ اسی بنا پر ایک مرتبہ سیدہ عائشہؓ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے کس کو پہلے یا زیادہ ہدیہ دیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری).
حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :وہ مومن نہیں ہے جو خود توپیٹ بھرکر سوئے اوراس کا پڑوسی بھوکاہو۔ اسلام حسین و خوشگوار ماحول اور الفت بھرے معاشرے کو نہ صرف پسند کرتا ہے بلکہ جابجا اس کی تعلیم و تاکید کرتا ہے۔ ہم میں ہر شخص کے لیے معاشرے کا پہلا فرد اس کا پڑوسی ہے۔ جب ہر پڑوسی دوسرے پڑوسی کا خیال رکھے گا اور غم و خوشی، مشقت وتکلیف میں اس کی مددکے لیے کھڑا ہوگا تو خودبخود دین کا مقصد اجتماعیت ظاہر ہوگا۔
پڑوسی کا کتنا حق ہے اس کے بارے میں آپؐ کا یہ ارشاد کافی ہے کہ جبرئیل! مجھے پڑوسی کے بارے میں اتنی کثرت سے نصیحت کرتے ہیں کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید اس کو وراثت میں بھی حق دار قرار دیں گے۔ (بخاری و مسلم)٭٭٭
پونے، مہاراشٹر