9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
جشنِ شارب کے موقع پر پیش کردہ مقالہ
ڈاکٹرشبنم رضوی
غنچہ و گل تھے یہی لیکن یہ رعنائی نہ تھی
اس گلستاں میں بہار اس دھوم سے آئی یہ تھی
پروفیسر شارب ردولوی صاحب نے یوں تو بہت ساری کتابوں کی تخلیق کی ہیں۔ اردو ادب کے آپ روشن ستارہ ہیں۔ تنقیدی دنیا کے مضبوط ستون ہیں۔ میں نے جس کتاب کو چنا ہے وہ مختصر سی کتاب اسرار الحق مجازؔ پر لکھی گئی ہے مگر صرف صفحات کی بنا پر مختصر کہی جاسکتی ہے ، معنوی اعتبار سے یہ ’گاگر میں ساگر‘ ہے۔
مجازؔ کو جاننا اور پہچاننا ہو ، ان کے جنون کی تفصیل اور وجہیں جاننی ہوں یا مجازؔ کی عشقیہ، غنائیہ، رومانی انقلابی شاعری کو سمجھنا ہو یا پھر مجازؔ کی غزلیں اور ان کی خوبصورت نظموں کے علاوہ ان کی زبان، انداز بیان، تشبیہ، استعارے، کنایے، جذبات نگاری، پیکر تراشی و تصویرکشی ، تہذیب عاشقی کے ساتھ ساتھ ہی مجازؔ کی سادگی معصومیت اور تہہ داری کا علم اگر چاہتے ہوں تو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
مجازؔ کی شاعری میں باقاعدہ نہ صرف کردارنگاری ہے بلکہ مکالمہ نگاری، منظرنگاری، کلائمکس اور اختتام بھی موجود ہے۔ مرزا غالبؔ نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا تو مجازؔ نے نظموں کو خطابت کا اعلیٰ نمونہ بنا دیا۔
مجازؔ نے نظموں میں معصومانہ انداز میں گفتگو کرنے کا جو ہنر سیکھا وہ نہ صرف مجازؔ کے لئے ایک انوکھا انداز رہا بلکہ اردو شاعری کے لئے بھی نیا تجربہ تھا۔ مجازؔ اپنی نظموں سے بڑی بڑی عالمانہ باتوں سے رعب ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ بڑی ہمدردی کے ساتھ سمجھا بجھا کے بات کو بتاتے ہیں۔
بقول پروفیسر شارب ردولوی
’’…غالبؔ اور مجازؔ میں تقابل کی کوئی گنجائش نہ ہونے کے باوجود دونوں اپنی بڑائی شکست کی آواز میں پاتے ہیں۔
غالبؔ لکھتے ہیں ’’… میں ہوں اپنی شکست کی آواز…‘‘
اور مجاز کہتے ہیں:
ساری محفل جس پہ جھوم اٹھی مجازؔ
وہ تو آواز شکستِ ساز ہے
پروفیسر شارب ردولوی صاحب کا یہ کمال ہے کہ جس موضوع پر رقم طراز ہوئے اسے انوکھا، نرالا، اعلیٰ مرتبہ اور مستند بناکے جِلا بخش دی۔ مجازؔ پر لکھنے والوں کی کمی نہیں مگر جو انداز بیان ، جو سچائی ، جو حقیقت ، جو گہرائی جو فراوانی اور زندگی کی کڑی سے کڑی جس انداز سے شارب صاحب جوڑتے چلتے ہیں وہ بھی پوری صداقت کے ساتھ وہ کہیں اور نظر نہیں آتی چاہے وہ (۱)منظرسلیم ہو، سید علی محمد زیدی ہو، یا حمیدہ سالم اور نہ ڈاکٹر معیزہ عثمانی یا اسی طرح کی بہت سی کتابوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر شارب ردولوی نے مجازؔ پر اتنا عمدہ لکھا اس کی خاص وجہ بھی ہے ۔ دونوںایک ہی قصبہ میں پیدا ہوئے۔ ایک ہی ماحول میں پرورش پائی، ایک ہی آب و ہوا میں سانس لی۔ ایک ہی تہذیبی گہوارے میں پھلے پھولے، ایک ہی چمن میں کھیل کود کے بڑے ہوئے۔
منظر سلیم-مجاز حیات اور شاعری
سعید علی محمد زیدی-اپنی یادیں رودوئی کی باتیں
حمیدہ سالم-ہم ساتھ تھے
معیزہ عثمانی-مجاز: شخص اور شاعر
ایک سی ادبی فضا نے ان دونوں کو پروان چڑھایا (ہاں زمانے کا فرق ضرور رہا) اور مجازؔ کی زندگی کے آخری ایاّام جو لکھنؤ کی سرزمین پر گزارے، شارب صاحب قدم بہ قدم ساتھ ساتھ رہے۔ انہوں نے مجازؔ کے ہر دکھ درد ، ناکامی، محرومی اور خوشی کو تنقید کی نظر سے پرکھا ، سمجھا اور محسوس کیا۔ تب بیان کیا۔ اس لئے مجازؔ کو سمجھنے کے لئے پروفیسر شارب ردولوی سے بہتر تو کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔
پروفیسر شارب ردولوی صاحب نے جہاں مجازؔ کی زندگی کے واقعات لکھے وہاں ان کا نفسیاتی جائزہ بھی بہت سنجیدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انہوں نے بڑی سے بڑی اور اہم سے اہم باتوں کے ساتھ نہایت چھوٹی اور غیرضروری دیکھنے والی باتیں بھی بیان کی ہیں تاکہ مجازؔ کا نفسیاتی تجزیہ کرتے وقت ان تمام واقعات ، حادثات اور زندگی کی محرومیوں، ناکامیوں، شادمانیوں، عشق و محبت، لاڈ پیار، گنڈہ، تعویز، محرم میں فقیر اور قاصد بننا، علم و ادب، جنسی تشنگی، بیروزگاری، گویا ’مجاز کی شاعرانہ کامیابی اور ان کی ناکام زندگی‘ کے ہر گوشے کو روشناس کر دیا جس سے قاری کا فطری عمل ،ردّعمل میںتبدیل ہو ا پاتا ہے اور تب قاری کو مجازؔ پر کبھی پیار، کبھی غصہ، کبھی ترس آنے لگتا ہے اور یک لخت ایسی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے کہ کاش مجازؔ کو کوئی آگے بڑھ کے تھام لیتا، کہیں نوکری مل جاتی، کوئی اسے سمجھاتا، کوئی پیار کرتا، اسے سنبھالتا۔ ایک ہمدردانہ جذبہ دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔یہ وہی جذبہ ہے جو ’امرائو جان ادا‘ کو پڑھنے کے بعد قاری کے دل میں ’امرائو‘ کے لئے پیدا ہو جاتا ہے۔
پروفیسر شارب ردولوی صاحب نے نہایت صاف گوئی کے ساتھ مجازؔ کے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’… اگروہ کہیں ملازم ہوتے اور معاشی طور پر انہیں اطمینان ہوتا تو شاید وہ اس طرح شراب میں نہ ڈوبتے۔ دوسرے احباب ۔ وہ خواہ سردار جعفری، سبط حسن، جذبی ہوں یا کوئی اور۔ ان کے اور مجاز کے مالی حالات میں بڑا فرق تھا ۔ جس نے ان کے اندر ایک احساس کمتری پیدا کر دیا تھا۔ اس میں محبت کی ناکامی یا کسی خاتون کے معاملے میں کامیابی نہ حاصل ہونے سے احساس کمتری میں اور اضافہ ہوگیا۔ اس نے نفسیاتی طور پر ان میں خود اذیتی کا جذبہ پیدا کردیا۔ شراب نوشی کی کثرت بھی اسی کا ایک سبب تھی کہ وہ ہوش کے عالم میں اس دنیا کو برداشت نہیں کرپاتے تھے…‘‘
شارب صاحب نے مجازؔ کی زندگی کا کارواں بہت مدھّم رفتار سے آگے بڑھایا ہے۔ رودولی، لکھنؤ، آگرہ، علی گڑھ، دہلی، ممبئی سے ہوتا ہوا پھر لکھنؤ پہونچتا ہے۔ یہاں میر تقی میر اور مجازؔ میں کافی مماثلت نظر آتی ہے۔ میر کو بھی آگرہ اور دہلی راس نہ آیا۔ آگرہ میں والد کا سایہ اٹھ گیا اور دہلی میں دیوانگی اس حدتک بڑھی کہ چاند میں پری پیکر نظر آنے لگی۔ جنون کا دورہ دونوں کو پڑا۔ محبت میں محرومی، بیروزگاری دونوں کو چھیلنی پڑی مگر یہاں میر آگے بڑھ گئے۔ انہیں لکھنؤ راس آگیا۔ ان کی ایک نہیں دو دو شادیاں ہوگئیں۔ نواب سے وابستگی کے بعد ان کی زندگی بحال ہوگئی۔
مگر مجازؔ کو نہ آگرہ راس آیا نہ دہلی، نہ ممبئی، نہ لکھنؤ۔ ان کی قسمت علی گڑھ میں چمکی اور وہ شاعری کے آسمان کا روشن ستارہ بن گئے۔ جگمگاتی جاگتی راتوں کا تارہ بن گئے۔ علی گڑھ میں ہی انہوں نے اپنی شاعری کا لوہا منوالیا۔ علی گڑھ کی فضا میں مجازؔ نے ایسا رس گھولا کہ ہاسٹل کی لڑکیوں کی نیندیں اڑا دیں ۔ ہر طرف محبت ہی محبت تھی۔ کوئی لڑکی ہاتھ کی نس کاٹ رہی ہے، کوئی آہ بھر رہی ہے، کوئی دیوانی ہوئی جاتی ہے۔ ’’آہنگ‘‘ خریدے اور تحفہ میں دے جارہے ہیں۔ عصمت چغتائی نے نہایت عمدہ طریقہ سے اس منظر کو اپنی ناولوں میں پیش کیا ہے۔ شہرت اور ہر دل عزیزی بھی کبھی کبھی انسان کو نقصان پہونچا دیتی ہے۔ مجازؔ کے ساتھ یہی ہوا ۔ بقول شارب ردولوی:
’’… ان کے ایک ایک شعر پر لوگ سر دھنتے، بار بار پڑھنے کی فرمائش کرتے۔ مجازؔ کی نظمیں اور غزلیں ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہر دل کی پکار بن گئی تھی…‘‘
مجازؔ کسانوں، مزدوروں اور غریبوں میں بھی اتنے ہی مقبول تھے۔بقول سجاد ظہیر:
’’… مجاز بہت جلد اردو بولنے والے مزدوروں میں مقبول ہوگئے اور ان کا ترانہ…
شیر ہیں ہم چلتے ہیں درّاتے ہوئے
بادلوں کی طرح منڈلاتے ہوئے
زندگی کی راگنی گاتے ہوئے
لال جھنڈا ہے ہمارے ہاتھ میں
نظم کلکتہ کے مزدوروں کا محبوب ترانہ بن گیا۔
4 نومبر1955ء کو لکھنؤ میں اپنی نوعیت کا پہلا اسٹوڈینٹس اردو کنووکیشن تھا۔ بقول شارب ردولوی:
’’ بنّے بھائی سجاد ظہیر اور احتشام حسین رہنما طاقت تھے۔ جن کے خطوط پر سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، نواز حیدر، ڈاکٹر عبدالعلیم، باقرمہدی، رضیہ سجاد ظہیر، حیات اللہ انصاری، عصمت چغتائی ، ڈاکٹر محمد حسن اور کتنے ہی ادیب و شاعر جمع ہوگئے۔‘‘
لکھنؤ کی سفید بارہ دری میں مشاعرہ تھا۔ شارب صاحب لکھتے ہیں :
’’سفید بارہ دری کے شاندار ہال میں کنووکیشن کا افتتاح تھا۔ افتتاحی اجلاس کے بعد مشاعرہ تھا جس کا لوگ بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ مجازؔ سرگوشی کے عالم میں تھے لیکن بہت خوش تھے۔ میں نے انہیں اتنا خوش نہیں دیکھا تھا۔ میں نے مجازؔ کا نام پکارا اور سارا ہال تالیوں سے گونجنے لگا۔ مجازؔ نے دو تین غزلیں پڑھیں۔ ان میں ایک یہ بھی تھی:
بڑی مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تیری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
لوگ ’آوارہ‘ آوارہ کا نعرہ بلند کرنے لگے۔ اس شاندار استقبال کے بعد مجازؔ 5 دسمبر 1955 کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سارا شہر سوگ نشین تھا۔ ان کے جنازے میں وہ تمام ادیب و شاعر جو باہر سے آئے تھے۔ مشاعرے کا مجمع اور پورا شہر شامل تھا۔ مجازؔ کو شاندار زندگی تو نہیں ملی مگر ایک شاندار موت ضرور ملی۔ مجازؔ کی برات کی جگہ ان کا جنازہ بڑی دھوم سے اٹھا۔ بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ
عاشق کا جنازہ ہے، بڑی دھوم سے اٹھّے گا
صدرشعبہ اردو، کرامت حسین مسلم گرلز پی جی کالج،
9415547544
ضضض