ریاض احمد بٹ پی ۔ایچ۔ڈی ریسرچ اسکالرشعبہ فارسی مولانا ازاد نیشنل اردو یونیورسٹی لکھنو کیمپس
کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں ۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہے ۔ وہ ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں ۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہے ۔ وہ ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرومحبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔معاشرے میں جہاں ماں باپ کا کردار بچے کے لیے اہم ہے، وہاں استاد کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ ماں باپ بچوں کو لَفظ بہ لفظ سکھاتے ہیں، ان کی اچھی طرح سے نشوونما کرتے ہیں، ان کو اٹھنے، بیٹھنے اور چلنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں مگر استاد وہ عظیم رہنما ہے جو آدمی کو انسان بنا دیتا ہے، آدمی کو حیوانیت کے چُنگل سے نکال کر انسانیت کے گُر سے آشنا کرواتا ہے۔ استاد آدمی کو یہ بتاتا ہے کہ معاشرہ میں لوگوں کے ساتھ کیسے رشتے قائم رکھنے چاہئیں۔ استاد، ایک معمولی سے آدمی کو آسمان تک پینچا دیتا ہے۔ استاد مینار نور ہے جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے جو ہمیں بلندی پر پہنچادیتی ہے۔ ایک انمول تحفہ ہے جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔دیکھا نہ کوئی کوہ کن فرہاد کے بغیرآتا نہیں ہے کوئی فن استاد کے بغیراستاد کو والدین کے بعد سب سے زیادہ محترم حیثیت حاصل ہے، بادشاہ ہوں یا سلطنتوں کے شہنشاہ، خلیفہ ہوں یا ولی اللہ سبھی اپنے استاد کے آگے ادب و احترام کے تمام تقاضے پورے کرتے نظر آئیں گے۔ مشہور ہے کہ خلیفہ ہارون رشید کے دو صاحبزادے امام نسائی کے پاس زیرِ تعلیم تھے۔ ایک بار استاد کے جانے کا وقت آیا تو دونوں شاگرد انہیں جوتے پیش کرنے کے لیے دوڑے، دونوں ہی استاد کے آگے جوتے پیش کرنا چاہتے تھے، یوں دونوں بھائیوں میں کافی دیر تک تکرار جاری رہی اور بالآخر دونوں نے ایک ایک جوتا استاد کے آگے پیش کیا۔ خلیفہ ہارون رشید کو اِس واقعے کی خبر پہنچی تو بصد احترام امام نسائی کو دربار میں بلایا۔مامون رشید نے امام نسائی سے سوال پوچھا کہ، “استادِ محترم، آپ کے خیال میں فی الوقت سب سے زیادہ عزت و احترام کے لائق کون ہے مامون رشید کے سوال پر امام نسائی قدرے چونکے۔ پھر محتاط انداز میں جواب دیا،میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ احترام کے لائق خلیفہ وقت ہیں خلیفۂ ہارون کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ اتری اور کہا کہ ہرگز نہیں استادِ محترم سب سے زیادہ عزت کے لائق وہ استاد ہے جس کے جوتے اٹھانے کے لیے خلیفۂ وقت کے بیٹے آپس میں جھگڑیں۔ فارسی زبان کے مشہور شاعر مولانا جلال الدین رومی اور ان کے روحانی استاد شمس کے بارے میں سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا رومی اپنے استاد سے کتنی محبت کرتے تھے خود کہتے ہیں کہ “مجھے آج بھی چینی کے گوداموں کے قریب کی وہ جگہ اچھی طرح یاد ہے جہاں میری اپنے روحانی استاد شمس تبریز سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اب جب کبھی اکتوبر کے اُن دنوں میں شمس سے دائمی جدائی کا غم شدت اختیار کر جاتا ہے تو میں چلّے میں بیٹھ کر شمس کے سکھائے محبت کے اُنہی چالیس اصولوں پر غور و غوض شروع کردیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میرا شمس اِس دنیا سے رخصت ہوا تو کہیں دنیا کے کسی اور کونے میں کسی دوسرے نام سے ایک نئے تبریز نے جنم لیا ہوگا، کیونکہ شخصیت تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن روح وہی رہتی ہے۔مغل بادشاہوں کی بداعمالیوں کے قصوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن استاد کا احترام وہ بھی خود پر واجب سمجھتے تھے۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کو ملا احمد جیون سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ شہنشاہ بننے کے بعد ایک روز استاد کی یاد ستائی تو انہوں نے ملاقات کا پیغام بھیجا۔ دونوں نے عید کی نماز ایک ساتھ ادا کی، وقتِ رخصت اورنگزیب نے محترم استاد کو ایک چوّنی چار آنے بصد احترام پیش کیے۔ وقت کا دھارا بہتا گیا، اورنگزیب مملکتی مسائل میں ایسا الجھے کہ ملا جیون سے ملاقات کا کوئی موقع ہی نہ ملا۔ لگ بھگ دس سال بعد اُن سے اچانک ملاقات ہوئی تو وہ یہ دیکھ ششدرہ رہ گیا کہ ملا جیون اب علاقے کے متمول زمیندار تھے۔ استاد نے شاگرد کی حیرت بھانپتے ہوئے بتایابادشاہ سلامت میرے حالات میں یہ تبدیلی آپ کی دی ہوئی اس ایک ۔ چوّنی کی بدولت ممکن ۔ اِس بات پر اورنگزیب مسکرائے اور کہا کہ استادِ محترم آپ جانتے ہیں میں نے شاہی خزانے سے آج تک ایک پائی نہیں لی مگر اُس روز آپ کو دینے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہ تھا، وہ چونی میں نے شاہی خزانے سے اُٹھائی تھی اور اُس رات میں نے ہی بھیس بدل کر آپ کے گھر کی مرمت کی تھی تاکہ خزانے کا پیسہ واپس لوٹا سکوں۔ادب تعلیم کا جوہر ہے زیورہے جوانی کا وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتےہیںارشادِ گرامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ استاد کی حیثیت روحانی باپ کی سی ہے ۔ کسی نےکیا خوب کہا ہے استاد کی عظمت میں عظمت ہے زمانے کیتعظیم ملے اس کو آداب سکھانے کیدنیا میں جو رہنا ہے تعلیم تو لینی ہےہر علم ضروری ہے یہ بات خدا نے کیحضرت علی ؓ نےفرمایا: میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھادے، اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور چاہے آزاد کردے۔ ان کے دلوں میں استاد کی اہمیت کیا تھیاستاد ایک شاگردکو اچھا بنانے میں اپنی پوری طاقت صرف کردیتاہےتاکہ وہ اپنی زندگی میں کامیاب و کمران ہوجاہے۔ مجھے یاد ہے جب میں اسکول جاتا تھا کلاس میں اکثر بار اساتذہ سے یہ کہتے سنا ہے کہ بیٹا پڑھ لکھ لو اور کچھ بن جاؤتاکہ ھمیں بھی خوشی ہو مگر نادانی کی وجہ سے ہم یہ سوچ کر بات ایک کان سے سنتے تھے اور دوسرے کان سے نکال دیتے تھے کہ یہ ایسے ہی کہتے رہتے ہیں مگرجوں جوں وقت گزرتا گیا ان کی کہی ہوہی باتیں اچھی طرح سمجھ میں آنے لگی ۔استاد ہمیشہ اپنے شاگرد کو اچھا بنتا دیکھنا چاہتا ہے اسے ایک شاگرد سے کچھ لینا مقصد نہین ہوتا اور نہ ہی کوئی لالچ ہوتی ہے بلکہ اس کی کامیابی کی خواہش نے اس کے دل میں گھر کیا ہوتا ہے۔ جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہکان کی تدریس سے پتھربھی پگھل سکتے ہیںجناب امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں میں ہر نماز کے بعد اپنے استاد اور والد محترم کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں اور میں نے کبھی بھی اپنے استاد محترم کے گھر کی طرف اپنے پاؤں دراز نہیں کیے، حالاں کہ میرے گھر اور ان کے گھر کے درمیان سات گلیاں واقع ہیں اور میں ہر اس شخص کے لیے استغفار کرتا ہوں جس سے میں نے کچھ سیکھا ہے یا جس نے مجھے علم پڑھایا استاد کی توجہ اور تربیت کے بغیر کوئی بھی کام یابی کے سفر پر گام زن نہیں ہوسکتا۔ اس لیے جو جس قدر استاد کا ادب کر ے گا وہ اتنی جلد کام یابی کی شاہراہ پر گام زن ہوگا یہی استاد ہیں جو قوم کا معمار ہوتے ہیںانہی کے دم سے ہم تم صاحب دستار ہوتے ہیں استاد قوموں کی تعمیر میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اچھے لوگوں کی وجہ سے اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور اچھے معاشرے سے ایک بہترین قوم تیار کی جا سکتی ہے ۔ اساتذہ اپنے آج کو قربان کر کے بچوں کے کل کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ خلیفہ وقت ہارون الرشید نے معلم وقت امام مالک سے درخواست کی کہ وہ انہیں حدیث پڑھا دیا کریں۔ امام مالک نے فرمایا ’علم کے پاس لوگ آتے ہیں ۔ علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا ۔ تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے حلقہ درس میں آسکتے ہو۔ خلیفہ آیا اور حلقہء درس میں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔ عظیم معلم نے ڈانٹ پلائی اورفرمایا:۔ خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہل علم کا احترام کیا جائے ۔ یہ سنتے ہیں خلیفہ شاگردانہ انداز میں کھڑے ہوگےان عظیم ہستیوں کے سامنے اپنے استاد کی یہ قدر تھی کہ خلیفہ ہونے کے باوجود اپنے استاد کے سامنے بغیر کچھ کہے کھڑے ہوگے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ استاد کی عزت کیوں نہ کی جائے استاد کی محنت کی وجہ سے انسان بلندیوں تک پہنچتا ہے اور حکمرانی کی گدی پر جلوہ نشین ہوتا ہے استاد ہی کی محنت کی وجہ سے وہ آسمانوں کی سیر کرتا ہے۔ بغیر استاد کے انسان اس اندھے کی مانند ہے جو بغیر سہارے کے سفر میں نکل جاتا ہے۔اللہ تعالی ہمیں بھی اپنے اساتزہ کی قدردانی کرنے کی توفیق عطا فرماہے آمین واسلام