فاروق طاہر
قدیم تعلیمی نظام میں استاد اپنے علم و معلومات کی تر سیل کے لئے صرف طر یقہ تدریس کو ہی کا فی تصور کر تے تھے ۔ طلبہ کی تعلیمی ضروریات ،ان کی ذہنی استعداد ،اکتسابی رویوں، میلانات ا و رجحانات کو قدیم تعلیمی نظام میں کو ئی اہمیت حا صل نہیں تھی۔ قدیم تعلیمی نظام طلبہ کی ذہنی و نفسیاتی مسائل سے کو ئی سروکار نہیں رکھتا تھا۔جس طرح ارتقاء و انقلاب نے زمانے کی اقدار اور ادراک کی سطحوں کو مرتعش کیا اسی طرح زمانے کے تغیرات کا تعلیمی نظام و نظریات اور شعبے درس و تدریس پر بھی گہرا اثرپڑا ہے۔جدید تعلیمی نظام میں درس و تدریس اور اکتسابی امور کی احسن طریقے سے انجام دہی کے لئے طلبہ کی نفسیات سے آگہی کو لازمی قرار دیا گیاہے۔طلبہ کی نفسیات سے آگہی کا علم ،فن تدریس کو سائنسی مزاج کا حامل بناتا ہے ۔تعلیمی تحقیق اور مشاہدے سے اکتساب پر اثرانداز ہونے والے کئی نفسیاتی عوامل و حقائق کا پتہ چلاہے ۔ موثر تدریس کے لئے ضروری ہے کہ ایک معلم کو یہ علم ہو کہ وہ کسے اور کیا پڑھا رہا ہے ۔بچوں میں جسمانی ،ذہنی اور جذباتی نشو و نما مختلف ادوار میں مختلف انداز میں نمو پذیر رہتی ہے جس کی بناء پر طلبہ کمرئہ جماعت میں اپنی کارکردگی درج کرواتے ہیں۔ تدریسی عمل میں طلبہ کی یاداشت کی سطح (قوت انجذاب grasping) ، تعلیمی رویوں،فہم و ادراک او ر بر تائو جیسے اہم عناصر کو بنیادی مقام دیا جا ناچاہئے۔جدید تعلیمی نظریات کاسرخیل پستالوزی اساتذہ کے لئے طلبہ کی نفسیات سے آگہی کو ضروری قراردیتا ہے ۔ نفسیاتی علوم کی اہمیت و افادیت کی وہ پر زور تا ئید کر تا ہے۔ پستالوزی کے مطابق ” بچوں کی مسلسل تر قی و نشو و نما کے لئے لازمی ہے کہ اساتذہ طلبہ کی ذہنی سطح اور صلاحیتوں کا بہتر طور پر جا ئزہ لیں۔”اساتذہ اپنی صلاحیتو ں کی منتقلی کے دوران طلبہ کی جسمانی وذہنی صلاحیتوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں۔کئی بیرونی و اندورنی عوامل بچوں کی ذہنی کارکردگی کو متا ثر کر تے ہیں۔ نفسیاتی رویے فکر کے زیر اثر پرورش پاتے ہیں۔چندرویے جہا ں اکتساب کے لئے موزوں ہوتے ہیں وہیں چند اکتسابی کیفیت کو بری طر ح متاثر کر تے ہیں۔ طلبہ کی پریشانیوں ،مسائل ،الجھنوں اور ضرورتوں کے وقت رہبری اور رہنمائی میں طلبہ کی ذہنی سطح اور نفسیات سے آگہی کا علم اساتذہ کے لئے بے حد مددگار ہوتا ہے۔ طلبہ کی نفسیات سے آگہی کے باعث اساتذہ کو درج ذیل امور کو سمجھنے میں مددملتی ہے
(1) نفسیات سے واقفیت کے باعث اساتذہ طلبہ کی ضرورتوں ،مقاصد ،ذہنی میلان و رجحانات ،خواہشات، اور ان میں وقو ع پذیر جذباتی رویوں کی تبدیلی سے اکتساب پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا کامیاب تجزیہ کر سکتے ہیں۔
(2) نفسیات سے آگہی کے با عث طلبہ کی انفرادی شخصیت اور ان کی پیچیدگیوں کا صحیح اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے اور تدراک کے اقدامات کیئے جا سکتے ہیں۔ نفسیاتی علوم سے لیس اساتذہ بچوں کی صلاحیتوں کی جدید صورت گیر ی کرتے ہوئے اکتسابی عمل کو صحیح سمت دے سکتے ہیں۔
(3) بچوں کی نفسیات سے آگہی کے ذریعے اکتسابی عمل کو ذہنی وجذباتی خلفشار سے ہونے والے نقصانات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور اس کے سد باب کے لئے مبسوط حکمت عملی ترتیب دی جا سکتی ہے جس سے اکتسابی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
(4) بچوں کی نفسیات سے واقفیت کے بناء پر استاد اور طالب علم کے درمیان ایک صحت منددمضبو ط تعلق پید ا ہوتا ہے ۔طلبہ کی حوصلہ افزائی سے اکتسابی عمل کو مزید پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
(5) اساتدہ بچوں کی نفسیات سے واقفیت رکھتے ہوئے نہ صرف تعلیمی پسماندگی پر قابو پا سکتے ہیںبلکہ تعلیمی طو ر پر معذور طلبہ کے مسا ئل کا بھی سد باب کرسکتے ہیں۔
(6) طلبہ کی نفسیات سے آگہی رکھنے والے اساتذہ ان کے ذہنی سطحوں کوملحوظ رکھتے ہوئے ایک کامیاب تدریسی حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں ۔
(7) جذبہ اکتساب کو نقصان پہنچانے والے عوامل، حالات سے مطابقت پیدا کرنے سے روکنے والے عناصر کی بر وقت مشورہ سازی کے ذریعہ روک تھام اسی وقت ممکن ہے جب اساتذہ بچوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہوں۔ غیر پسندیدہ رویوںکو فروغ دینے والے حالات، مسائل اور واقعات کا جائزہ لے کر ان کا سد باب کیا جا سکتا ہے اور نا پسندید ہ رویوں کی جگہ پسندیدہ رویوں کو فروغ دینا تب ہی ممکن ہے جب اسا تذہ طلبہ کی نفسیات سے آگہی رکھتے ہوں۔
طلبہ کے رویے اکتسابی صلاحیت پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی لئے اسکول میں ان کے برتائو کا معروضی مشاہدہ ضروری ہوتا ہے۔ طلبہ کے شخصی، انفرادی اوراجتماعی رویوں سے واقف استاد بہتر طور پر طلبہ کی تعلیمی رہبری کے فرائض انجام دے سکتا ہے ۔ طلبہ کے انفرادی میلانات و رجحانا ت کا علم ایک استاد کو تشفی بخش علم کی فراہمی اور موثر طریقہ تدریس میں کافی مدد فراہم کر تا ہے۔نفسیاتی عوامل و عناصرسے آگہی طلبہ کی ذہنی سطح اور ضرورت پر مبنی تدریس کی منصوبہ بندی میں سود مند ثابت ہوتی ہے۔ نفسیاتی علوم سے متصف استاد طلبہ کے میلانا ت ان کے رجحانات اور سماجی پس منظر کی بخوبی نشاندہی کر سکتا ہے۔طلبہ کی نفسیات سے آگہی رکھنے والا استاد نہ صرف بہتر مشاہدہ کا حامل ہوتا ہے بلکہ اس میں واقعات اور مسائل کے تجزیہ کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے وہ مسائل کے حل کے اصلاحی طریقوں سے بھی بخوبی واقف ہوتا ہے ۔یہی اوصاف استاد کو ایک اچھے اور بہتر رہنما و رہبر کا درجہ عطا کر تے ہیں۔
اکتساب چونکہ ایک نفسیاتی عمل ہے اسی لئے طلبہ کی ذہنی نشوونما کے مختلف مراحل جیسے سوچنے کی صلاحیت (فکرThniking)،سوجھ بوجھ کی صلاحیت(فہمcomprehension)،برتائو میں ہونے والی تبدیلیوں کو تعلیمی منصوبہ بندی میںخاص اہمیت دی جا نی چاہئے۔اسکولی بچوں کی نشوونما(بالیدگی) کے تین اہم دور ہوتے ہیں۔ابتدائی بچپن5-7سال کی عمر،درمیانی بچپن8تا 10سال اوابتدائی بلوغت کا دور11(گیارہ) سال اور اس سے آگے کی عمرپر محیط ہو تا ہے۔حالانکہ ذہنی کیفیت اور کارکردگی انفرادی حیثیت کی حامل ہوتی ہے لیکن بالیدگی کے مراحل میں اس کا مشاہدہ کا فی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ طلبہ کے طرز عمل اور برتائومیں پائے جانے والی تبدیلیوں سے آگہی کی وجہ سے اساتذہ موقع کی مناسبت سے اپنی تدریسی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔طلبہ کے برتائو کی تبدیلیاں جیسے دبائو ،غم و سوگواری،چڑچڑاپن۔تنہائی پسندی،اور ان تبدیلیاں کے پیچھے کارفرما وجوہات و حالات ، ناقص تعلیم و تربیت جیسے عوامل کو ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔طلبہ کو ذہنی خلفشار میں تحفظ فراہم کرنا،ناکامی کے خوف سے با ہر نکال کر ان کی توانائی اور صلاحیت کو صحیح سمت دینا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب اساتذہ طلبہ کی نشوونما (بالیدگی) کے مختلف مراحل کا نفسیاتی شعور رکھتے ہوں۔طلبہ کی نفسیات سے آگہی کا عمل درس و تدریس سے وابسطہ کئی مسائل کا کامیاب حل پیش کر تا ہے۔ نا تجربہ کار اور خراب انتظامیہ مسائل کو حل کر نے کے بجائے بد سے بدتر بنا دیتے ہیں۔ایک استا د اپنی تدریس کو اسی وقت بال و پر عطا کر سکتا ہے جب وہ اپنی تدریس کو طلبہ کے ذہن اور صلاحیتوں کے عین مطابق بنائے۔طلبہ کی ذہنی سطحوں کو ملحوظ رکھ کر ترتیب دیا جانے والا درس ہی طلبہ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کر تا ہے اور طلبہ میں تعلیم سے دلچسپی اور رغبت کو فروغ دیتا ہے۔
ہر طالب علم کی نشوونما و ترقی میں اختلاف پایا جا تا ہے لیکن اس تفریق کے باوجود ہم عمر بچوں کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں میں چند مشترکہ خصوصیات پائی جا تی ہیں اور ان مشترکہ خصوصیات کو تدریسی منصوبہ بندی کے دوران اہمیت دینا ضروری ہوتا ہے۔ما ہرین نفسیات اور بچوں کے نشوونما کی جا نچ کر نے والے ماہرین کے مطابق ابتدائی بچپن 5تا 7سال کی عمر میںچند نمایا ں خصوصیات پائی جا تی ہیں۔ مثلااس عمر کے بچے کسی کام کی انجام دیہی کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اکثر اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیل کو د سے لطف حا صل کر تے ہیں۔پانچ تا سات سا ل کے بچوں کی قوت تخیل بہت ہی اچھی ہوتی ہے اور وہ تخیلاتی واقعات میں گہر ی دلچسپی لیتے ہیں۔اس عمر میںبچوں کی یا داشت عموما ًبہتر ین ہوتی ہے ۔وہ سنے ہوئے واقعات اور دیکھی ہوئی اشیاء کو با آسانی یادرکھ سکتے ہیں اور دہر ا سکتے ہیں۔جسمانی سرگرمیاں ان کے لئے لطٖف کا سامان فراہم کر تی ہیں اسی وجہ سے وہ لطف فراہم کرنے والی اکتسابی سرگرمیوںمیں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
فکر کی جامعیت (Abstract Thinking) کے یہ متحمل نہیں ہوتے۔حرکی(Motor)استعداد ان میں بہترین معیار کی پائی جا تی ہے۔متحرک اکتساب اور جسمانی سرگرمیاں اس عمر کے بچوں کی دلچسپی کا محور ہوتی ہیں۔کسی قسم کی جسمانی چوٹ یا نقصان کا خوف یا کسی اور قسم کا خوف ان کی ذہنی صلاحیتوں پر کاری ضرب لگا تا ہے۔اس عمر میںبچے اکثر لایعنی سوالات کرتے ہیں اور معمولی سے ردعمل پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ۔عموماً اس عمر کے بچوں کا مزاج خودپسندی (Egocentric) ہوتا ہے اور یہ دوسرے بچوں کے لئے رحم کا جذبہ نہیں رکھتے ہیں۔
ذہنی نشوونما کا دوسرا دور 8تا 10سال کی عمر پر محیط ہوتا ہے۔ اس دور میں اکثر بچوں میں ادراک اور دانش مندی کی نشو و نما اتم درجہ کی ہوتی ہے۔یہی عمر رسمی تعلیم کے لئے بھی موزوں ہوتی ہے۔عمر کے اس دور میں حرکی استعداد،سماعت کی صلاحیت،سوجھ بوجھ اور حقائق پسندی بھی نمو پذیر رہتی ہے۔اسی عمر میں مصلحت پسندی اور دوسروں سے تعاون کا جذبہ بھی فروغ پا تا ہے۔اس عمر میں بچے دوسروں کی صحبت کو پسند کر تے ہیں اوران میں دوست بنانے کا رجحان فروغ پاتا ہے۔تعریف و توصیف نمایا ں کارکردگی میں محرکہ کا کام انجام دیتی ہے۔اس عمر کے بچے خو د کو نمایاں اور اعلی ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔اساتذہ کے بہتر برتائو سے بچوں میں اچھے اخلاق پروان چڑھتے ہیںعمر کے اسی دور میں اقدار اور انضباط کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے جس کی وجہ سے ان کی نگرانی ضروری ہوجاتی ہے۔بچوں کو ان کی نگرانی سے واقف بھی کرا یا جا ئے تا کہ وہ اپنے حدود کو جان لیں اور اس سے تجاوز کی کوشش نہ کر یں۔11
سال اور اس سے آگے کے دور کو نوخیزی (Teenage) سے تعبیر کیا جا تا ہے۔بچوں کی زندگی کا یہ دور بہت ہی نازک دور ہوتا ہے اگر اس دور کو دانش مندی سے نہیں سنبھالا گیا تو بچوں کا نا قابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔یہ دور بچوں کے ذہنی ہیجان و انتشار کا دور ہوتا ہے۔بچے اس عمر میں جذباتی عدم استقامت کا شکار ہوتے ہیں۔جسمانی اور ذہنی نشو ونما اس عمر میں اپنے عروج پر ہوتی ہے۔اس عمر میں بچے خود شناسی اور خود پرستی کے علاو ہ مخالف جنس میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔اپنے مقام و مرتبے ،تعریف و توصیف کے خوگر ہوجاتے ہیں۔عمر کے اس دور میں واقع ہونے والی تبدیلیوں سے آگہی کے ذریعہ استاد اکتسابی امور کی بہتر انجام دہی کو ممکن بناتا ہے،طلبہ کی شخصیت سازی کا اہم کام انجام دیتا ہے اور طلبہ سے اپنے اٹوٹ تعلق کو استوار کرتا ہے۔عمر کے اس دور میں بچوں کی جسمانی نشوونما ذہنی نشو ونما سے تیز تر ہوتی ہے اور یہ اکتساب کے عمل میں ما نع بھی ہو سکتی ہے۔ اس عمر کے بچے اکثر دبائو(anxiety)کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی روز مرہ کی سرگرمیاں متاثر ہوجاتی ہیں۔نفسیات کی اصطلاح میں اس کیفیت کو anxiety necrosisکہاجا تا ہے۔عمر کے اسی دور میں بچے احساس کمتری اور عدم تحفظ کے احساس سے گزرتے ہیں۔قابلیت و صلاحیت کے اظہار کے مواقع نہیں ملنے کی وجہ سے ان میں جھگڑالوپن یا چڑچڑے پن فروغ پا نے کے قوی امکانات پائے جا تے ہیں۔خوابوں کی دنیا میں مگن رہنے کی کیفیت اس عمر کے بچوں میں دیکھی جا سکتی ہے اور یہ کیفیت اکثر اس وقت دیکھی جا تی ہے جب بچے زندگی کے حقائق سے آنکھیں چرا نے لگتے ہیں۔یہ کیفیت تعلیم کے تئیں ان کی توجہ و دلچسپی کو کم کر دیتی ہے۔توہم پرستی اور عقائد کے بگاڑ کا بھی یہی وقت ہوتا ہے۔اکثر بچے غیر صحت مند عادتوں کو اپناکر ذہنی انتشار اور چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔غلطی اور احساس ندامت بھی ان میں چڑچڑے پن کا باعث بنتے ہیں۔مختلف النوع حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں یہ دقت محسوس کر تے ہیں۔مثالی اشخاص کے اسوہ کو قبول کرنے سے کترا تے ہیں۔نئی روایات و اطوار کو اپنانے میں ان کو شادمانی ملتی ہے۔اساتذہ اور والدین عمر کے اس دور میں اپنی بے جا امیدیں وتوقعات ان سے وابستہ کر کے ان کو دبائو کا شکار نہ کر یں۔اساتذہ اپنے بر تائو اور طرزعمل کو بچوں کے ذہنی رویوں کے عین مطابق بنائیں۔اساتذہ کی غفلت و لاپرواہی ان میں غصہ،چڑچڑاپن،شدت پسندی جیسے نا پسندیدہ اطوار و عادتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔
غیر صحت مند سماجی ماحول کے نتیجے میںبچوں کا برتائو خراب ہوجاتا ہے۔عمر کے اس دور میں استاد بچوں سے دوستانہ طرز عمل کو رواج دیں تاکہ بچوں میں اعتماد کی فضاء بحال ہو اور وہ اساتذہ کی سنجیدہ کوششوں کو سمجھ سکیں۔ عمر کے اس دور میں بچوں کو اظہار کے سلیقہ سے واقف کروایا جائے اور یہ امر بھی ذہن نشین کیا جائے کہ جذبات کے اظہار سے دوسروں کے جذبا ت کو ٹھیس نہ پہنچے۔تیزجسمانی نشو ونما کے باعث اس دور میں بچے بے راہ روی کا شکار ہو سکتے ہیں۔استاد کو چاہئے کہ وہ طلبہ میںاقدار سے پاسداری کے جذبے کو پر وان چڑھائیں تاکہ وہ کسی بھی بے راہ روی سے محفوظ رہیں۔ بچوںکو جذبات کی پردہ پوشی کے نقصانا ت سے واقف کروانا بھی استاد کی ذمہ داری ہے۔ طلبہ کو زندگی کا ایک مثبت اور صحت مند نظریہ پیش کیا جائے،خیالات ،نظریات اور جذبات کے اظہار کے لئے مناسب مواقع فراہم کئے جا ئیں۔ تنائو اور دبائوپر قابو پا نے کے طریقوں سے طلبہ کو روشناس کیا جائے۔ عمر کے اس دور میں مسلسل ہمت افزائی اور رہبر ی کے ذریعہ اساتذہ طلبہ میں خود انضباط اور احساس ذمہ دار ی کو فروغ دے سکتے ہیں۔طلبہ کو ذہنی طو ر پر اس طر ح تیار کر یں کہ وہ غیر صحت مند اور مضر صحت سرگرمیوں سے احتراز کر یں۔بچوںمیں اختراعی اور فکر ساز رجحانا ت کو جا گزیں کیا جا ئے تا کہ ان میں قوت فیصلہ اور تجزیہ کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔شخصی اختلافات کے احترام کا جذبہ پیدا کیا جائے تا کہ وہ سماج کا فعال حصہ بن سکیں۔اساتذہ بچوں پر تنقید کے بجائے ان کے خراب تعلیمی مظاہرے کے اسباب کو تلاش کر یں اوراس کا سدباب کر یں۔ مذکورہ اہنمایانہ خطوط کی روشنی میں اساتذہ بہتر رہنما ئی کے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔ایک استاد کو مربی کا مقام اسی وقت ملتا ہے جب وہ نہ صرف علم کی منتقلی کو یقینی بناتا ہے بلکہ طلباء کی ذہنی سطحوں کو بھی ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے تدریسی لائحہ عمل کو مرتب کر تا ہے؎۔ایسے اساتذہ اپنے پیشے کی عظمت و وقار کو جلابخشتے ہیںاور در حقیقت یہی لوگ سماج کے حقیقی معمار بھی ہیں۔
Also read