9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
حقانی القاسمی
یہ خیال مہمل ہے کہ
(الف) اردو میں بچوں کا ادب کم لکھا گیا ہے۔
(ب)ادب اطفال کو تحقیق و تنقید کا موضوع کم بنایا گیا ہے۔
(ت) اردو میں بچوں کے کم رسائل شائع ہوئے ہیں۔
(الف)
مقدار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اردو میں بچوں کے ادب کا وافر ذخیرہ موجود ہے بلکہ بچوں کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ جیسا کہ مناظر عاشق ہرگانوی کی کتاب ’’بچوں کا ادب کی اینتھالوجی‘‘ 22 جلدوں پر مشتمل گوپی چند نارنگ اور مظفر حنفی کی مرتب کردہ ’’وضاحتی کتابیات‘‘ اور اردو کے اہم اشاعتی اداروں(مکتبہ پیام تعلیم، مکتبہ کھلونا، نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی، قومی اردو کونسل، نئی دہلی،رحمانی پبلی کیشن، مالیگاؤں، ادارہ الحسنات رام پور، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ)کی فہرست کتب سے اندازہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی بچوں کے ادب کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو اردو ادب کے بہت سارے اہم نام ادبِ اطفال کے ضمن میں سامنے آتے ہیں۔ امیر خسرو، نظیر اکبر آبادی، مرزا غالب، ڈپٹی نذیر احمد، محمد حسین آزاد،انشاء اللہ خاں انشاء، الطاف حسین حالی، پریم چند، اقبال، اسماعیل میرٹھی، برج نارائن چکبست، تلوک چند محروم، نظم طبا طبائی، سرور جہاں آبادی، حفیظ جالندھری، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، رضیہ سجاد ظہیر، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، فیض احمد فیض، عظیم بیگ چغتائی، امتیاز علی تاج یہ وہ نام ہیں جنہوں نے بچوں کے ادب میں گراں قدر اضافے کئے ہیں۔
کمیت کے اعتبار سے ادب اطفال کی کمی نہیں ہے۔ کیفیت کے لحاظ سے یقینا کم ہے اسی لئے ادب اطفال کے معیار پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ پروفسیر مظفر حنفی نے ادب اطفال کے نثری حصہ کو کسی حد تک ادبیت کا حامل قرار دیا ہے مگر شاعری کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ:
’’شاعری کی حالت خستہ ہے۔ 95فیصد لکھنے والے اسکولوں کے اساتذہ ہیں جو پند و موعظت سے مملو ایسی سپاٹ قسم کی تک بندیاں پیش کرتے ہیں جنہیں پڑھ کر ابکائی آتی ہے۔‘‘
کچھ ایسی ہی رائے اسد اریب کی بھی ہے:
’’جو شاعری بچوں کے لئے اس وقت تخلیق کی جار ہی ہے وہ اخلاقی، مذہبی اور ملی پروپیگنڈے کی شاعری ہے۔ اس میں بچوں کی بھولی بھالی معصوم فطرت کی خواہشوں کی کوئی لہر وہر نہیں ملتی۔ نہ پرندے ہیں نہ طوطے ، کوے، بلبلیں نہ چوہے ، بلیاں، چوزے اور بطخیں، نہ شرارتیں، شوخیاں اور تحیر ہے، نہ چہلیں۔‘‘
معیار کے اعتبار سے بچوں کے ادب کی اب بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر سائنس ، ٹیکنالوجی اور ماحولیات کے حوالے سے کہ اس ضمن میں بچوں کا ادب کم تخلیق کیا گیا ہے جب کہ انسانیت کا مستقبل سائنس سے وابستہ ہے اور اس پہلو پر بچوں کے ادیبوں کو زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(ب)
اردو میں ادب اطفال کے حوالے سے بہت سے تحقیقی و تنقیدی مطالعات بھی سامنے آئے ہیں۔ جن میں خوشحال زیدی کی ’’اردو میں بچوں کاادب‘‘(ادارہ بزم خضر راہ کانپور، 1989) ، ’’اردو ادب اطفال میں خواتین کا حصہ‘‘(بزم خضر راہ نئی دہلی، 2009) ’’اردو ادب اطفال کے معمار‘‘(نہرو چلڈرن اکیڈمی، نئی دہلی،1993)بچوں کا ادب اکیسویں صدی کی دہلیز پر (ادارہ بزم خضر راہ، نئی دہلی،2007)
سیدہ مشہدی کی ’’اردو میں بچوں کا ادب‘‘، (ایمن پبلی کیشنز ،رانچی، 1996) مشیر فاطمہ کی ’’بچوں کے ادب کی خصوصیات‘‘ ۔ (انجمن ترقی اردو، علی گڑھ، 1962) ڈاکٹر اسد اریب کی ’’اردو میں بچوں کا ادب نئے رجحانات‘‘( کاروان ادب ملتان،1983) مرزا ادیب کی ’’اردو میں بچوں کا ادب‘‘ پروفیسر اکبر رحمانی کی ’’اردو میں ادب اطفال ایک جائزہ‘‘ (ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ، جلگاؤں، 1991) ضیاء الرحمن غوثی کی ’’بہار میں بچوں کا ادب‘‘(نئی دہلی، 2005) بانو سرتاج کی ’’ادب اطفال ایک مطالعہ‘‘، حافظ کرناٹکی کی ’’بچوں کا ادب اور ہماری ذمہ داریاں‘‘(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2015) سیداسرارالحق سبیلی کی ’’بچوں کے ادب کی تاریخ‘‘ (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2016) زیب النساء بیگم کی ’’اقبال اور بچوں کا ادب‘‘ امیر حمزہ کی مرتب کردہ ادب اطفال (عذرا بک ٹریڈرس، دہلی۔2018)نہایت اہم ہیں۔
ان کے علاوہ مختلف عصری جامعات میں ادب اطفال کے حوالے سے تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں۔ جن میں فوزیہ چودھری کا تحقیقی مقالہ، اردو میں بچوں کا ادب، شیخ محمد صابر محمد محمود کا پی ایچ ڈی مقالہ، مہاراشٹر میں اردوادب اطفال کا تنقیدی مطالعہ(شعبۂ اردو مہاراشٹر ادے گیر کالج، اود گیر، ضلع لاتور، مہاراشٹر)آفاق عالم کا تحقیقی مطالعہ، کرناٹک میں اردو ادب اطفال، (کوئمپو یونیورسٹی، شیموگا، کرناٹک)، مسز عابدہ خانم سونور کا تحقیقی مقالہ: بیسویں صدی میں بچوں کا اردو ادب(دھارواڑ یونیورسٹی، کرناٹک) ، مہہ جبیں بانو کا آزادی کے بعد ہندوستان میں بچوں کے ادب کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (شعبۂ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) قابل ذکر ہیں۔
بہت سے رسائل نے بھی ادب اطفال پر خصوصی شمارے شائع کئے جن میں نیا دور (لکھنؤ) کا اطفال نمبر(نومبر، دسمبر1979) ، آجکل نئی دہلی کا ادب بچوں کا نمبر(جنوری1979ء) شاعر ممبئی کا بچوں کا ادب نمبر (جون 2013)مژگاںکولکاتہ کا ادب اطفال نمبر اہم ہیں۔ ان کے علاوہ ادب اطفال کے حوالے سے مقالات اور مضامین کی اشاعت رسائل میں ہوتی رہی ہے۔ جن میں مظفر حنفی کا مضمون ’’اردو میں ادب اطفال‘‘ نہایت وقیع ہے جو ان کی کتاب ’جہات و جستجو‘ (1982)میں بھی شامل ہے۔ نیرنگ خیال میں شائع کسری مہناس کا مضمون ’’بچوں کا ادب اور اسماعیل میرٹھی‘‘ بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔
(ت)
یہ کہنا بھی بے معنی ہے کہ اردو میں بچوں کے رسالے کم شائع ہوئے ہیں۔ ضیاء اللہ کھوکھر کی کتاب ’’بچوں کی صحافت کے سوسال‘‘ (عبدالمجید کھوکھر یادگار لائبریری گوجرانوالہ) سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ تقریباً دو سو سے زائد بچوں کے رسالے ماضی تا حال شائع ہوتے رہے ہیں۔ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ بچوں کے رسائل کے مدیروں سے ہماری واقفیت بہت کم ہے جب کہ بڑوں کے رسائل کے بیشتر مدیران سے ایک بڑا طبقہ واقفیت رکھتا ہے ۔بچوں کے بہت سے رسائل کے نام ہمارے ذہنوں پر نقش نہیں ہیں۔صرف چند ہی نام ہیں جو ہمارے ذہن میں آتے ہیں ان میں ماہنامہ ’پھول‘ ’نونہال‘ ’کھلونا‘ ’غنچہ‘ ’پیام تعلیم‘ ’امنگ‘ ’ٹافی‘ ’کلیاں‘ قابل ذکر ہیںمگر ان رسالوں کے مدیران سے بھی ایک بڑا طبقہ ناآشنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے رسائل کے مدیران کا نہ تو مکمل سوانحی خاکہ ملتا ہے او رنہ ہی ان کے کارناموں کی تفصیلات ۔ بچوں کے رسائل بھی ان مدیران کا تعارف نہیں کراتے جس کی وجہ سے مستقبل کے یہ معمار دشت گمنامی میں کھو جاتے ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ بچوں کے مدیران پر سیمیناروں کا انعقاد کیا جائے اور ان کی خدمات پر مشتمل دستاویز مرتب کی جائے کیوں کہ بچوں کے رسائل کے یہی مدیران ہیں جنہوں نے بڑے بڑے قلم کاروں کو جنم دیا ہے۔ آج کے بہت سے مشہور ادباء و شعراء انہیں بچوں کے رسائل کی دین ہیں ۔ ماضی میں ماہنامہ ’پھول‘ (لاہور ) نے بہت سے تخلیقی اور ادبی ذہنوں کی تربیت کی اور آج ان کے نام ادبی منظرنامہ پر روشن ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کا بنیادی ارتکاز بچوں میں مضمون نگاری کا ذوق پیدا کرنا اور صحیح انداز میں ان کی تعلیم و تربیت کرنا تھا۔ ان کے سامنے ایک مشن اور مقصد تھا اسی لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔
دراصل رسائل سے ہی بچوں کی تحریری اور ذہنی تربیت ہوتی ہے اور یہی رسائل ہوتے ہیں جو بچوں کے ذہن اور ذوق کو جلا بخشتے ہیں۔ ان رسالوں میں بچوں کے لئے بہت ہی دلچسپ اور معلوماتی مواد ہوتا تھا۔ معروف ادیبوں کی دلچسپ کہانیو ںاور نظموں کے علاوہ ایسے کالم ہوتے تھے جو بچوں کو مہمیز کرتے تھے۔ دراصل ایک رسالہ کا مقصد بچوں کو Curious, Creative, Caring اور confident بنانا ہوتا ہے۔ اور ماضی میں زیادہ تر رسالوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا۔ صحیح خطوط پر بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔ خاص طور پر بچوں کے رسائل کی ضرورت کا احساس ان افراد کو زیادہ تھا جو قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم کو سمجھتے تھے۔ اسی لئے ان لوگوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے رسائل شائع کئے۔ تفریح کے ساتھ تعلیم و تربیت بھی ان کا مقصد تھا۔
صحافتی تاریخ کے مطابق بچوں کا اولین ماہانہ رسالہ پیسہ اخبار کے مدیر مولوی محبوب عالم نے مئی 1902ء میں شائع کیا تھا ۔جس کا نام تھا ’’بچوں کا اخبار‘‘یہ کثیر الاشاعت ماہنامہ تھا۔ اس میں ترغیب و تشویق کے لئے بچوں کی غیر معیاری تحریریں بھی شائع کی جاتی تھیں۔ دس سال کی مدت اشاعت پوری کرنے کے بعد یہ رسالہ بند ہوگیا۔ اس رسالے کی قیمت اس وقت سالانہ معہ محصول ڈاک دو روپے چھ آنے تھی ۔اس کے بعد جو رسالے نکلے ان میں تہذیب نسواں کے ایڈیٹر مولوی ممتاز علی (فاضل دیوبند) کا ’’پھول‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز اکتوبر؍1909ء میں لاہور سے ہوا۔ یہ بچوں کا پہلا ہفت روزہ رسالہ تھا۔ جس کا بچوں کو بہت ہی شدت سے انتظار رہتا تھا۔ اس میں بچوں کی نگارشات ترجیحی طور پر شائع کی جاتی تھیں۔ مولوی ممتاز علی نے اس رسالہ میں آسان اور سلیس زبان کا التزام رکھا تھا۔ اس بابت انہوں نے ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ :
’’پھول میں وہ مضامین نہیں چھاپے جاتے جن میں مشکل الفاظ یا مشکل خیالات ہوں یا بے جا مبالغہ ہو۔‘‘
اس رسالے کو معروف ادیبوں کا تعاون حاصل تھا۔ ایک خوبصورت دیدہ زیب رسالہ جس سے حفیظ جالندھری، عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاج، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کی وابستگی تھی۔ محترمہ بنت نذرالباقر، محمدی بیگم اور حجاب امتیاز علی بھی اس کی ادارت سے وابستہ رہی ہیں۔ اس رسالہ کے قلم کاروں میں پطرس بخاری، محمد دین تاثیر، شوکت تھانوی اور اختر شیرانی جیسی قدآور شخصیتیں تھیں۔تقریباً 48 سال تک بچوں کے لئے دلچسپ اور خوشنما یہ رسالہ شائع ہوتا رہا اور 1958ء میں یہ رسالہ بھی بند ہوگیا۔ اس کے بعد بہت سے رسالے شائع ہوئے جن میں سعید لخت کا تعلیم و تربیت(لاہور) کلیم چغتائی کا ساتھی (کراچی)مقبول احمد کا بچوں کاباغ (لاہور) علامہ تاجور نجیب آبادی کا ’’پریم‘‘ (لاہور) نونہال(کراچی) انوکھی کہانیاں (کراچی) جنگل منگل(کراچی) وغیرہ اہم ہیں۔ ان میں ’’ہمدرد نونہال‘‘ کو بے پناہ شہرت و مقبولیت ملی اور یہ شاید واحد ایسا رسالہ تھا جو مواد اور موضوعاتی تنوع کے اعتبار سے بچوں کے ذہنی تقاضوں کی تکمیل کرتا تھا۔ یہ ایسا رسالہ تھا جس کے بارے میں کہا جا سکتا تھا کہ بچوں کے لئے اس میں کمپلیٹ پیکج ہے۔ حکیم محمد سعید نے جس مقصد اور مشن کے تحت اس رسالہ کا اجراء کیا تھا اسے مسعود احمد برکاتی اور سعدیہ راشد نے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی۔ یہ بے نظیر مجلہ ہے جس کی تقلید کی جاتی تو شاید ہندوستان سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالوں کو بھی اتنی ہی شہرت اور مقبولیت ملتی۔ مگر ہندوستان میں چند رسالوں کوچھوڑ کر بیشتر رسالے بچوں کا رابطہ رسائل سے جوڑنے میں ناکام رہے۔ اس لئے بچوں نے اسکرین سے اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ جس کی وجہ سے اب بچوں کے تجسس اور تخیل کی قوت بھی ختم ہو جارہی ہے۔ اب یہ شکوہ عام ہے کہ اردو میں بچوں کے رسائل کم شائع ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ بچوں کے کچھ رسائل بازار میں تو ضرور ہیں مگر ان کے خریدار نہیں ہیں اور یہ بھی المیہ ہے کہ یہ رسائل قاری تو پیدا کر رہے ہیں مگر قلم کار نہیں۔ جب کہ ماضی میں بچوں کے رسائل نے قاری کے ساتھ ساتھ قلم کار بھی پیدا کئے ہیں۔
اردو میں بچوں کے رسائل کے ساتھ بڑے مسائل ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کے معتبر اور مستند ادباء بچوں کے لئے لکھنا کسر شان یا کارزیاں سمجھتے ہیں اور بقول شعیب مرزا ’’بچوں کے لئے معیاری ادب تخلیق کرنے کے بجائے بڑوں کے لئے بچکانہ ادب لکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘ اور یہ بھی ٹریجڈی ہے کہ جن کے پاس وسائل ہیں وژن نہیں ہے اور جن کے پاس وژن ہے وہ وسائل سے محروم ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے رسالوں کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش نہیں کر پاتے۔ اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردو کے زیادہ تر مدیران انگریزی یا دیگر ہم رشتہ زبانوں میں نکلنے والے بچوں کے رسائل پر نگاہ بھی نہیں رکھتے اس لئے عالمی منظرنامہ سے ان رسائل کی مطابقت نہیں ہوپاتی اور وہ اپنے رسائل میں وہ مواد فراہم نہیں کرپاتے جن کی ضرورت بچوں کو ہے۔ ان رسائل میں سائنسی اور تکنیکی ایجادات پر مضامین کم ہوتے ہیں اور ان رسائل کا دائرۂ موضوعات بھی بہت محدود ہوتا ہے۔ بچوں کی ذہنی عمر کا بھی خیال کم رکھا جاتا ہے۔ جب کہ انگریزی اور دیگر رسائل میں تعلیم اور نفسیات کے ماہرین کی ایک ٹیم بچوں کے لئے مواد کا انتخاب کرتی ہے اور ان کے ذوق و ذہن کے مطابق انہیں رسالے میں شائع کیا جاتا ہے۔ اور اس میں خاص طور پر ایسے موضوعات کو شامل کیا جاتا ہے جو بچوں کے شعور و ادراک اور ایموشنل انٹلی جینس کو ترقی دے سکے۔ ان کے بیشتر موضوعات بچوں کے ذہنی ارتقاء پر مرکوز ہوتے ہیں اور یہ بچے کی تخلیقی اور ادراکی صلاحیتوں کو نکھارنے میں معاون ہوتے ہیں۔ان لوگوں کی میگزین کا کینوس بھی وسیع ہوتا ہے اور وہ ایسے مواد بچوں کو فراہم کرتے ہیں جس سے بچے اپنی زبان، تاریخ، جغرافیہ، ریاضی اور دیگر معلومات عامہ سے واقف ہو سکیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لئے بچوں کی نگارشات بھی شائع کرتے ہیں۔’بنک روم‘ ایسا ہی ایک رسالہ ہے جس میں آٹھ سے اٹھارہ سال کے بچوں کی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مشہور کارٹونسٹ کے شنکر پلائی کی میگزین ’’چلڈرینس ورلڈ‘‘ میں نہ صرف بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کی تحریریں شامل کی جاتی ہیں بلکہ یوم اطفال کے موقع پر پورا شمارہ ہی بچوں کی نگارشات سے مزین ہوتا ہے۔ ان رسالوں میں بچوں کے بنیادی حقوق کے تعلق سے بھی گفتگو ہوتی ہے۔ جب کہ ہمارے یہاںاردو میں بچوں کے ایسے رسالوں کی کمی ہے جو بچوں کو ماحولیات، منشیات، ان کے حقوق ، ذمہ داریوں اور مسائل سے آگاہ کر سکیں۔ صرف پاکستان سے ایک رسالہ ’’ساحل ‘‘نکلتا ہے جو بچوں کے تحفظ اور شعور و آگہی کے لئے مختص ہے۔ منیزے بانو کی ادارت میں نکلنے والا اس رسالہ کا ایک وژن اور مشن ہے اور اس کا مقصد بچوں کے حقوق کا تحفظ، فلاح و بہبود اور بچوں پر ہونے والے تشدد، استحصال، غذائی قلت اور دیگر مسائل سے معاشرے اور بچوں کو آگاہ کرنا ہے۔ اردو میں بہت کم رسالے ایسے ہیں جن میں بچوں کی صحت اور حقوق کے حوالے سے مضامین ہوں یا ڈیجیٹل میڈیا کے خطرات سے آگاہ کرنے والی تحریریں ہوں۔جب کہ دوسری زبانوں میں بچوں کے لئے ایک مخصوص تھیم پر مبنی رسالے شائع ہوتے ہیں۔ لبنان کے آزاد اشاعتی ادارہ ’دارانیوز‘ نے بچوں کے لئے ایک رسالہ جاری کیا ہے جس کے ہر شمارے کا ایک تھیم ہوتا ہے۔ سائنس، کھیل، کامکس، آرکی ٹیکچر، آرکیا لوجی، کیلی گرافی، سنیماٹو گرافی، آرٹ، تاریخ، انفوگرافکس اس طرح یہ رسالہ بچوں کو ایک خاص موضوع سے آگاہ کرتا ہے۔ اس طرح کے رسالوں سے بچوں کا ذہنی افق بھی وسیع ہوتا ہے اور انہیں مسائل کی تفہیم میں بھی مدد ملتی ہے۔ عربی میں بچوں کے لئے بعض رسالے ایسے ہیں جو صحت پر مرکوز ہیں۔ مگر اردو میں اس طرح کے مجلات کی بڑی کمی ہے ،دلچسپ معلوماتی مواد نہ ہونے کی وجہ سے بچے اردو کے رسائل سے جڑ نہیں پاتے اور بالآخر یہ رسالے دم توڑ دیتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے گگن کے بالغ نظر مدیر شمس کنول نے بچوں کے رسالہ ماہنامہ امنگ دہلی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ رسالہ بچوں کے لئے شائع ہوتا ہے مگر اس میں بچوں کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ اور اسی طرح کا شکوہ آموزگار کے مدیر پروفیسر اکبر رحمانی کو بھی ہے کہ:
’’اردو میں شائع ہونے والے بچوں کے رسائل کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں لیکن یہ رسائل جدید تقاضوں، بچوں کی ضروریات اور دلچسپیوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ رنگین تصویروں کی کمی، کارٹونوں، خاکوں اور موضوعات میں یک رنگی بار بار کھٹکتی ہے۔ ان رسائل کا کوئی علاحدہ اور بڑا ادارتی عملہ نہیں ہے۔ ان رسائل کے مدیران نے مختلف عمروں کے بچوں کی ضرورتوں دلچسپیوں اور رجحانات کو جاننے کے لئے مطالعاتی کیمپ یا سروے کیا ہو ایسا واقعہ اب تک میری نظروں سے نہیں گزرا ہے۔ ‘‘
یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ آج اردو میں بچوں کے رسائل میں بچوں کی کشش کا زیادہ سامان نہیں ہوتا اور یہ رسالے بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام ہیں۔ اسی لئے بہت سے بچے صرف اپنے نصاب سے میکانکی رشتہ قائم کرنے پر مجبور رہتے ہیںجس سے ان کے تجسس کی صلاحیت مر جاتی ہے۔ یا انٹرنیٹ کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ انہیں انٹرنیٹ سے باہر نکال کر کتابوں سے رشتہ قائم کرنا آج کے وقت کی بڑی اہم ضرورت ہے اور اس کے لئے انہیں ان رسائل پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی جو ہندوستان کی دوسری زبانو ںمیں نکلتے ہیں۔ خاص طور پر تیلگو، ملیالم میں جو بچوں کے رسالے شائع ہوتے ہیں وہ بچوں کے ذوق اور ذہن کی پوری تکمیل کرتے ہیں اور ان رسالوں کی تعداد اشاعت کی اچھی خاصی ہوتی ہے جب کہ وہاں رسائل بھی زیادہ ہیں۔ یہ رسائل بچوں کی ذہنی بالیدگی اور جذباتی آسودگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ تیلگو کا چندا ماما ہندی، مراٹھی،گجراتی، ملیالم، اڑیہ ، سندھی، بنگالی، پنجابی، آسامی، سنسکرت، سنہالی اور دیگر زبانوں میں شائع ہوتا ہے اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ اردو میں چمپک، ننھے سمراٹ، بال بھاسکر، نندن جیسے رسالے کتنے ہیں۔ دراصل اردو رسائل کے پاس نہ ماہرین کی ٹیم ہے اور نہ ہی مصور اور آرٹسٹ اور نہ ہی تولیکا جیسے اشاعتی ادارے ہیں جہاں بچوں کے تقریباً 150 مصنفین،125 السٹریٹر اور 100 کے قریب ترجمہ نگار ہیں۔ اسی وجہ سے اردو کے رسالے بچوں کے ذہنی تقاضے کی تکمیل نہیں کر پاتے۔ ہمیں اب یہ سوچنا ہوگا کہ ہمارا مقابلہ ’’ہیری پوٹر سیریز‘‘ سے ہے۔ جس نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ جے کے رولنگ (J.K Rowling)کی یہ کتاب 500 ملین سے زائد فروخت ہوچکی ہے اور تقریباً 80 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ کردار ہمارے بچوں کے ذہن پر نقش ہو چکا ہے۔ اردو کے رسائل ایسا مضبوط کردار آج تک بچوں کو نہیں دے پائے ہیں اسی لئے اب ہمیں نئے تناظر میں سوچنا ہوگا اور ہمیں اپنے پڑھنے والوں کی تعداد بڑھانے کے لئے نئے تکنیکی ذرائع استعمال کرنے پڑیں گے ۔بچوں کی پسند اور ترجیحات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا تبھی بچوں کے اچھے رسائل شائع ہو پائیں گے اور بچوں کا اچھا ادب تخلیق ہو پائے گا۔ ہمیں ان موضوعات اور مسائل کی تکرار سے بھی بچنا ہوگا جو ماہنامہ کھلونا، غنچہ، ٹافی اور پیام تعلیم جیسے پرانے رسالے پیش کر چکے ہیں۔ بچوں کی بدلتی ترجیحات کے تناظر میں ہمیں رسائل کو نئی شکل و صورت عطا کرنی پڑے گی اور رسائل کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنا پڑے گا۔ غیر روایتی طرز کی تخلیقات کے علاوہ وہ مواد پیش کرنا ہوگا جس سے بچہ اپنے مستقبل کا ذہنی نقشہ ترتیب دے سکے۔ اس وقت بچوں کے ذہنی ارتقاء پر مرکوز رسائل کی ضرورت ہے کہ بچوں کے Optimal growth کے لئے رسائل لازمی ہیں۔ پھر بھی مادیت اور صارفیت کے اس عہد میں جب کتاب کلچر سے ہمارے معاشرے کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے تو ایسے میں اگر بچوں کے کچھ رسائل نکل رہے ہیں تو ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ مکمل مدد کرنی بھی چاہئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ماضی میں بچوں کے صحافتی ادب کا منظر نامہ زیادہ تابناک رہا ہے اور اب یہ منظرنامہ دھندلا سا گیا ہے۔ پھر بھی جو رسائل نکل رہے ہیں انہیں مزید مستحکم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان رسالوں کو سرکاری اشتہارات بھی ملنے چاہئیں بلکہ اس وقت ضرورت ہے کہ ہندوستان کی تمام اردو اکیڈمیاں بچوں کے رسالوں کی اشاعت پر توجہ دیں کیوں کہ جب تک ہماری جڑ مضبوط نہیں ہوگی زبان ترقی نہیں کرے گی۔ ہماری زبان کا مستقبل انہی بچوں سے وابستہ ہے۔ یہی بچے مستقبل کے معمار ہیں اور ان بچوں کی کردار سازی ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ کہ بقول معروف شاعر قیس رام پوری:
کریں نہ ٹھیک سے بچے کی ذہن سازی ہم
تو بڑھ کر یہ کئی فتنے جگا بھی سکتا ہے
یہی چراغ جسے خون دل پلائیں ہم
نظر نہ رکھیں تو گھر کو جلا بھی سکتا ہے
یہ خوش آئند بات ہے کہ ماضی میں بچوں کے اچھے رسائل شائع ہوتے رہے ہیں اور ان رسائل نے بچوں کی تربیت و تعلیم کے ساتھ زبان و ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ریاستی اعتبار سے بچوں کے رسائل کی اشاعت کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آج کے مقابلے میں پہلے بچوں کے زیادہ رسائل شائع ہوا کرتے تھے۔
qqq
ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔لیلیٰ خواجہ بانو، اشرف صبوحی، صالحہ عابد حسین، غلام ربانی تاباں،مظفر حنفی، سراج انور، حسین حسان، قدسیہ زیدی، مسعودہ حیات ، اظہار اثر، شمیم حنفی، مظفر حنفی، پرکاش پنڈت، خوشحال زیدی، یوسف پاپا، انور کمال حسینی، خسرو متین، پریم پال اشک، عبدالغفار مدھولی، آصفہ مجیب ان کے علاوہ موجودہ دور میں غلام حیدر، محمد خلیل، ڈاکٹر اسلم پرویز، شمس الاسلام فاروقی، ابرار کرت پوری، اسد رضا، نصرت ظہیر، فیروز بخت احمد، ابوالفیض عزم سہریاوی، سراج عظیم، عادل اسیر، عادل حیات، کرن شبنم وغیرہ بچوں کا ادب تخلیق کر رہے ہیں اور اسی دہلی سے ’نونہال‘ ’کھلونا‘’پیام تعلیم‘ ’امنگ‘ ’بچوں کی دنیا‘ ’پھلواری‘، ’نرالی دنیا‘ ، ’سائنس کی دنیا‘ ، ماہنامہ ’پھول‘ جیسے رسائل بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔
کھلونا، نئی دہلی
پیارے بچوں کا پیارا ماہنامہ رہا ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز اپریل،1948ء میں ہوا۔ اس کو جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ کسی اور رسالے کو نہیں نصیب ہوئی۔ اس کے بانی ادارہ شمع کے مالک یوسف دہلوی تھے۔ ان کے بعد یونس، ادریس اور الیاس دہلوی نے اس کی ادارت کی۔ اس رسالے کو جن مشاہیر قلم کاروں کا قلمی تعاون حاصل تھاان میں کرشن چندر، بلونت سنگھ، عادل رشید، سلام مچھلی شہری، مرزا ادیب ، عصمت چغتائی، رام لعل، خواجہ احمد عباس، واجدہ تبسم، اے آر خاتون، رضیہ سجاد ظہیر، جیلانی بانو، خدیجہ مستور اور شفیع الدین نیر جیسی شخصیات تھیں۔کھلونا آٹھ سے 80 سال کے بچوں کے لئے شائع ہوتا تھا۔اسی رسالہ میں سراج انور کا خوفناک جزیرہ ، کالی دنیا، نیلی دنیا، ظفر پیامی کا ستاروں کے قیدی اور کرشن چندر کی چڑیوں کی الف لیلیٰ جیسی شاہکار تخلیقات شائع ہوئیں۔ کھلونا کا سالنامہ بچوں میں بہت مقبول تھا۔ جو معتبر ادیبوں کی نگارشات پر مشتمل ہوتا تھا۔ یہ شاید واحد رسالہ تھا جس میں بچوں کی پسند اور ناپسند کے بارے میں پوچھا جاتاتھا۔ اپنے جاذب نظرگیٹ اپ، السٹریشن اور دیدہ زیب طباعت کی وجہ سے اس رسالے نے بہت جلد مقبولیت اور شہرت کی بلندیاں طے کر لیں۔ شمع گروپ کی سرپرستی کی وجہ سے یہ بچوں کا ہردلعزیز رسالہ بن گیا۔ بچوں کے رسائل کے ضمن میں یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک مثالی مجلہ جس کی کمی آج کے دور میں بھی محسوس کی جار ہی ہے۔ یہ رسالہ 1987ء میں بند ہوگیا۔
پیام تعلیم،نئی دہلی
اس کاشمار بھی بچوں کے اہم رسائل میں ہوتا ہے۔ اس رسالے کے روح رواں ڈاکٹر ذاکر حسین تھے۔ ڈاکٹر عابد حسین پی ایچ ڈی برلن جیسے دانشور کی سرپرستی کی وجہ سے اس رسالہ کو بہت مقبولیت ملی۔ اپریل؍1926ء میں یہ پندرہ روزہ تعلیمی رسالہ کی شکل میںجاری ہوا، پھر ماہنامہ بن گیا۔ 1956ء میں اس کی اشاعت بند ہوگئی تھی پھر اس کی اشاعت ثانی جولائی 1964ء میں عمل میں آئی اور محمد حسین حسان ندوی جامعی اس کے مدیر بنائے گئے۔ جو خود بچوں کے معروف کہانی کار اور ادیب تھے۔ ’’دنیا کے بچے‘‘ ان کی مشہور کتاب ہے۔ وہ برسوں تک اس رسالے کی ادارت کرتے رہے اور نوک و پلک سنوارکر خوب سے خوب تر بناتے رہے۔ انہوں نے چھوٹاچمو، ننھا پپی کے علاوہ ’’پیام تعلیم کی کہانی‘‘ کے عنوان سے بھی ایک کہانی لکھی جس میں رسالہ پیام تعلیم کے آغاز و ارتقاء کی پوری داستان ہے۔ اس رسالہ کو بھی مشاہیر قلم کاروں کا تعاون حاصل تھا۔ اس کے سرورق پر ایک بہت ہی معنی خیز عبارت ہوا کرتی تھی کہ ’’جاگو اور جگاؤ‘‘ اور یہ شاید واحد رسالہ تھا جو یوپی ، سی پی، برار، میسور، حیدر آباد، کشمیر وغیرہ کے محکمۂ تعلیم کی طرف سے منظور شدہ تھا۔ اس رسالے نے بہت سے اہم تجربے کئے۔ اس کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس رسالہ نے ہر عمر کے بچوں کے ذوق اور ذہن کا خیال رکھا تھا۔ اس کے ایک گوشے میں بچوں کے لئے مضامین ہوتے تھے اور دوسرے گوشے میں بڑے لڑکوں کے لئے اور تیسرے گوشے میں لڑکیوں کے لئے۔ پیام تعلیم میں موضوعات کی سطح پر بھی تنوع کا خیال رکھا جاتاتھا۔ معلوماتی اور مفید فیچرس کی وجہ سے اس کی بہت زیادہ مقبولیت تھی۔ کشیدہ کاری، باغبانی، فوٹو گرافی اور دیگر دلچسپ موضوعات پر مضامین کی اشاعت ہوتی تھی اور اداریے میں بطور خاص بچوں سے تخاطب ہوتا تھا۔ ان کے مسائل اور مشکلات پر گفتگو ہوتی تھی۔ اس لئے اس رسالے میں بچوں کی بہت دلچسپی تھی۔ پیام تعلیم کا سب سے پہلا شمارہ اپریل 1926ء میں نکلا تھا جو پندرہ روزہ کی شکل میں تھا۔ تو اس وقت امیر جامعہ حکیم اجمل خان تھے۔ انہوں نے بچوں کے نام ایک اہم پیغام بھیجا تھا جس کی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔ انہوں نے بچوں کو نصیحت کی تھی:
’’تم اکیلے ہو ‘‘یا اوروں کے ساتھ اپنے کمرے میں ہو یا مدرسے میں یا کھیل کے میدان میں ہر جگہ اور ہمیشہ وہ کرو جو سچ مچ تمہارا من چاہتا ہے۔ اپنی اصلی دلی خواہشوں کو دباؤ مت دوسروں سے ڈر کر یا دوسروں کو خوش کرنے کی خاطر، دوسروں کی خواہ مخواہ نقالی نہ کرو خود اپنی اپج سے کام کرو۔ ایسا کروگے تو تمہارا ذہن، تمہاری سیرت، تمہارا جسم سب کے سب اچھی سے اچھی شکل اختیار کریں گے جن کے حاصل کرنے کی صلاحیت و قدرت ان میں رکھی ہے۔ ‘‘
محمد حسین حسان کے دور ادارت میں پیام تعلیم کے کئی خصوصی شمارے شائع ہوئے جن میں 1938ء کا سالگرہ نمبر اور نومبر دسمبر 1946ء کا جوبلی نمبر قابل ذکر ہیں۔’’پیام تعلیم‘‘ نے ادب اطفال میں ان کی ادارتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے نومبر 1974ء کا شمارہ حسین حسان نمبر کی صورت میں شائع کیا۔1974میں حسین حسان کے انتقال کے بعد ولی شاہجہاں پوری نے پیام تعلیم کی ادارت سنبھالی۔ ان کے بعد مکتبہ جامعہ کے منیجر شاہد علی خان اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ شاہد علی خان کے ریٹائر منٹ کے بعد مکتبہ جامعہ کے ڈائرکٹر اس کے ایڈیٹر بنائے جاتے رہے جس میں نائب مدیر کی حیثیت سے محفوظ عالم اپنی خدمات مستقل طور پر انجام دے رہے ہیں۔
’’پیام تعلیم‘‘ ہی وہ رسالہ ہے جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر جمہوریہ ہند کی کہانی ’’ابو کی بکری‘‘ سب سے پہلے شائع ہوئی۔ اسی رسالے میں رقیہ ریحانہ کے نام سے ان کی بہت سی کہانیاں اشاعت پذیر ہوئیں۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے مضامین شائع کرنے کا شرف بھی پیام تعلیم کو حاصل ہے۔ محترمہ صالحہ عابد حسین (مصداق فاطمہ) کی بیشتر تخلیقات اسی رسالہ میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کے علاوہ پیام تعلیم میں جوش ملیح آبادی، جگر مرآبادی، شفیع الدین نیر، (جن پر پیام تعلیم کا خاص نمبر بھی شائع ہوا) یوسف ناظم، علقمہ شبلی، سلمیٰ جاوید، مسعودہ حیات، افسر میرٹھی، پروفیسر محمد مجیب، پروفیسر رشید احمد صدیقی، قدسیہ زیدی ،محمد یوسف پاپا وغیرہ کی نگارشات بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس کا ایک مقبول سلسلہ سفرنامۂ ابن بطوطہ بھی تھا جس کے مصنف مولانا مقبول احمد سیوہاروی تھے۔ پیام تعلیم میں زیادہ تر گاندھیائی افکار و نظریات کی تبلیغ ہوتی تھی اس لئے بعض قارئین کو یہ رسالہ کمیونسٹ خیال کا لگتا تھا۔ ’’پیام تعلیم‘‘ کے ایک قاری نے لکھا کہ یہ پرچہ کمیونسٹ خیال کا ہے۔ اس میں گاندھی اور لینن کی باتیں ہمیشہ رہا کرتی ہیں۔ یہ پرچہ مسلمانوں کا دماغ بدل کر رکھ دے گا۔ جواب میں مدیر نے لکھا کہ یہ بچوں کا تعلیمی پرچہ ہے اس میں ہر طرح کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ رسالہ اب بھی جاری ہے اور بچوں میں بہت مقبول ہے۔
نونہال، نئی دہلی
حکومت ہند کے پبلی کیشن ڈویژن کا رسالہ تھا جس کی اشاعت کا آغاز 15؍اگست 1948 سے ہوا۔ 1949ء میں یہ رسالہ بند کر دیا گیا اور اسے بچوں کا آج کل کے نام سے ماہنامہ آج کل میں ضم کر دیا گیا۔ 1965ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس رسالہ کی ادارت سے جوش ملیح آبادی جیسی شخصیت وابستہ تھی۔
اُمنگ،نئی دہلی
اس کاشمار بھی بچوں کے عمدہ رسائل میں ہوتا ہے اس کا اجراء دسمبر؍1987ء میں ہوا۔ دہلی اردو اکیڈمی سے شائع ہونے والے اس رسالہ سے سید شریف الحسن نقوی، اشتیاق عابدی، مخمور سعیدی، زبیر رضوی، سید صادق علی، منصور عثمانی، منور امروہوی، مرغوب حیدر عابدی، انیس اعظمی اور دیگر معتبر شخصیات کی وابستگی رہی ہے اور اس رسالہ کو رشید حسن خان، مظفر حنفی، سلام بن رزاق، اظہار اثر، راج نرائن راز، مظہر امام، سراج انور، رفعت سروش، مسعودہ حیات کا قلمی تعاون حاصل رہا ہے۔ اس میں معلوماتی مضامین کے علاوہ پہیلیاں، قلمی دوستی، کومکس، انعامی کوپن جیسے فیچرس تھے جس کی وجہ سے یہ رسالہ بچوں میں بہت مقبول ہوا۔ بچوں کی رنگین تصویریں بھی اس میں شائع ہوتی رہیں۔ بعد کے شماروں میں معلومات کی کسوٹی کے عنوان سے معلومات عامہ کا ایک کالم شروع کیا گیا اور امنگی بچوں کے پسندیدہ اشعار بھی اس میں شامل کئے گئے۔ اس کا کامکس کا کالم بہت مقبول تھا۔ اس کے علاوہ کوئز کے عنوان سے ڈاکٹر شمیم احمد صدیقی کا سلسلہ وار ادبی دماغی ورزش بھی بہت اہم ہے۔ اہم شخصیات پر اس میں مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔
’’امنگ‘‘ کے کئی خصوصی شمارے بہت مقبول ہوئے جن میں چاچا نہرو نمبر(نومبر؍1989) مستقبل کے قلم کارنمبر(فروری؍1989) قابل ذکر ہیں۔ ’’امنگ‘‘ میں بہت عمدہ کہانیاں شائع ہوتی تھیں۔ چھ جلدوں میں امنگ کی منتخب کہانیاں شائع ہو چکی ہے جس کے مرتبین ثنا فرقان ثنا خانم اور زین الدین ہیں۔
بچوں کی دنیا، نئی دہلی
قومی اردو کونسل، نئی دہلی سے شائع ہونے والا یہ بچوں کا مقبول ترین رسالہ ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز جون 2013 سے ہوا۔ پہلے شمارے پر مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین، نائب مدیر اور اعزازی مدیر کے طور پر باالترتیب ڈاکٹر عبدالحی اور نصرت ظہیر کے نام درج تھے۔ڈائرکٹر شپ کی تبدیلی کے ساتھ ہی مدیر اعلیٰ کا نام بدل جاتا ہے اسی لئے رسالے کے تمام مشمولات کے انتخاب اور ترتیب کی ذمہ داری نائب مدیر کے ذمہ ہوتی ہے اور رسالہ کا معیار اسی کے حسن ذوق کا غماز ہوتا ہے۔ اس رسالہ کے پہلے اداریہ میں لکھا گیا تھا کہ:
’’ماہنامہ بچوں کی دنیا آپ کے بچپن کی دنیا کو اور بھی حسین بنانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ جو امید ہے آپ کو ضرور پسند آئے گی۔ ہم آپ کو آپ ہی کا بچپن پیش کر رہے ہیں۔ اس میں مزے دار قصے کہانیاں ہیں، کارٹون ہیں، کامکس ہیں، دلچسپ معلوماتی مضامین ہیں، حیرت انگیز چیزوں کا بیان ہے، دنیا بھر میں بے حد شوق سے پڑھے گئے ایک ناول کی قسط وار شروعات ہے، پیاری پیاری نظمیں ہیںاردو فیس بک کے عنوان سے آپ کا اپنا کالم ہے۔ نانی کے صندوق سے نکالی گئی وہ پرانی نظمیں، کہانیاں اور چٹکلے ہیں جنہیں ہر دور کے بچوں نے بہت پسند کیا ہے۔‘‘
اس رسالہ کے مستقل سلسلوں میں اردو ایس ایم ایس، دماغی ورزش، مہینے کی باتیں، آپ کے سوال اہم تھے۔ کارنامے کے تحت بچے اور بچیوں کے غیر معمولی کارناموں سے روشناس کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں اس میں کچھ تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ جن میں کئی نئے سلسلے شروع کئے گئے ہیں۔ اس کے پہلے شمارے پر پہلا شمارہ پہلا قدم کی عبارت درج تھی ۔خوبصورت اور دل چسپ معلوماتی مواد دیدہ زیب سرورق کی وجہ سے یہ رسالہ بہت جلد مقبولیت حاصل کرتا گیا۔ اس کی تعداد اشاعت بھی دوسرے رسالوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ایک زمانہ میں اس کی اشاعت ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔
بچوں کی نرالی دنیا، نئی دہلی
تنویر احمد کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس رسالہ کو بھی شکیل الرحمن، مظفر حنفی، احمد وصی، عبدالرحیم نشتر، خوشحال زیدی، اطہر مسعود خان، قمر سنبھلی، مہدی پرتاپ گڑھی جیسی شخصیات کا قلمی تعاون حاصل تھا۔ بچوں کی نرالی دنیا میں کچھ خاص فیچر تھے جو بچوں میں بہت مقبول تھے۔ جیسے انوکھی خبریں، اسپورٹس نیوز، دینی مقابلہ، پہیلی مقابلہ، ذہنی ورزش، آئیے ڈکشنری دیکھیں، بچوں کے مشہور ادیب وکیل نجیب کے مشہور ناول کمپوٹان کی قسطیں بھی اسی میں شائع ہوئی تھیں۔
پھلواری ، نئی دہلی
بچوں کا ایک اہم رسالہ تھا ۔کامل اختر اور سعید اختر کی ادارت میں 1945ء سے اس کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ یکتا امروہوی، عشرت صدیقی، سلام مچھلی شہری، مظفر حنفی وغیرہ اس کے قلم کاروں میں تھے۔ اس رسالے کا ایک سالنامہ شائع ہوتا تھا جو بہت مقبول تھا۔ اے آر سید اور تابش شکیل نے بعد میں اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔ بعد میں فریدہ ناز اس کی مدیرہ مقرر ہوئیں۔ ان کی ادارت میں 1957ء کا سالنامہ بہت مقبول ہوا۔ 1979ء میں بین الاقوامی سال اطفال کے موقع پر ایک یادگار نمبر بھی شائع ہوا۔ اس وقت پھلواری کے مدیر سید اقبال قادری اور معاون اقبال فرید تھے۔ بعد میں یہ رسالہ ماہنامہ بیسویں صدی میں ’’تیر و نشتر‘‘ لکھنے والے ناز انصاری کی ملکیت میں آگیا۔ اس تعلق سے مشہور صحافی مودود علی صدیقی لکھتے ہیں:
’’جب 1956 میں انہو ںنے سعید اختر اور کامل اختر سے بچوں کا رسالہ ’’پھلواری‘‘ کی ملکیت خریدی تو ایک دن انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں رات کو کچھ وقت ان کی ’’پھلواری‘‘ کے لئے دے دیا کروں۔‘‘
(بحوالہ صریر گم گشتہ، ناز انصاری، مرتب ظفر انور)
سائنس کی دنیا،نئی دہلی
بچوں میں سائنسی ذوق پیدا کرنے کے لئے 1945ء میں اس رسالہ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ پروفیسر اے رحمن اس کے بانی مدیر تھے۔ اس میں زیادہ تر سائنسی مضامین، سوالات و جوابات ہوتے ہیں۔ مشہور سائنٹسٹ محمد خلیل برسوں تک اس کی ادارت سے وابستہ رہے ہیں۔
ماہنامہ پھول، نئی دہلی
بچوں اور بچیوں کا یہ دل پسند ماہنامہ حضرت مولانا مفتی محمد ضیاء الحق دہلوی کی سرپرستی میں شائع ہوتا تھا۔ یہ رسالہ بر صغیر کے علاوہ افریقہ اور عرب میں بھی مقبول تھا۔ مٹیا محل، دہلی۔6 سے نکلنے والا یہ رسالہ 60 صفحات پر مشتمل تھا اور قیمت فی پرچہ 5آنے تھی۔ زر سالانہ تین روپے آٹھ آنے تھا۔ اس کے علاوہ خاص نمبر اور سال نامہ مفت دیئے جاتے تھے۔ ہر مہینہ پابندی سے شائع ہوتا تھا۔ اب یہ رسالہ بند ہو چکا ہے۔
qqq
ا ترپردیش ریاست کا بچوں کے ادب کے فروغ میں نمایاں حصہ رہا ہے۔ مولوی اسماعیل میرٹھی، حامد اللہ افسر میرٹھی، شفیع الدین نیر جیسے ادب اطفال کے معمار کا تعلق اسی سرزمین سے رہا ہے۔ رام لعل، متین طارق باغپتی، شوکت پردیسی، نورالحسن ہاشمی، مسعود حسین خاں، ضمیر درویش، محمد قاسم صدیقی، مسرور جہاں، قمر قدیر ارم، قدیر جاوید پریمی، بدیع الزماں اعظمی، وامق جون پوری، سلام مچھلی شہری، شمیم انہونوی، عزیز مرادآبادی،الیاس سیتا پوری، تسکین زیدی، شکیل انوار صمدانی، شکیل جاوید، مرتضیٰ ساحل تسلیمی،محسن خان، اطہر پرویز، سعید اختر اعظمی، شفیق اعظمی، انصار احمد معروفی، مہدی پرتاپ گڑھی،انیس الحسن صدیقی، انجمن آرا انجم،زینب نقوی، ارشد اقبال، عطیہ پروین، عطیہ بی، رضاء الرحمن عاکف وغیرہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں میں اہم ہیں۔ یہاں سے جو رسائل شائع ہوئے ان میں ’غنچہ ‘ (بجنور) ’ٹافی‘(لکھنؤ) ’کلیاں‘ (لکھنؤ) ’نور‘ (رامپور) ’اچھا ساتھی‘ (بجنور) ’چندا نگری‘ (مراد آباد) ’ہم پنچھی ایک ڈال کے‘ (مراد آباد)’چمن ‘ (مراد آباد) ’ہم جولی‘ (امروہہ) ’بچوں کا تحفہ( اعظم گڑھ) ’چمن‘ (کانپور) ’سعید‘ (کانپور) ’جنت کا پھول‘ (کانپور) بچپن (بریلی) ، انور (میرٹھ) ، درخشاں (مرادآباد)، راہی (علی گڑھ) عزیز (گورکھپور)، ماہنامہ چاند (سہارنپور) باغیچہ (لکھنؤ) کے نام اہم ہیں۔
غنچہ ،بجنور
یہ ہفت وار رسالہ تھا جو مدینہ منزل محلہ مردھیگاں،بجنورسے شائع ہوتا تھا۔ اس کے بانی مدیر مدینہ اخبار کے مالک و ناشر مولوی محمد مجید حسن تھے۔ 1922ء میں اس کا اجراء ہوا۔ اس رسالہ کا ایک خاص مقصد اور مشن تھا۔ اس کے سرنامہ پر ایک معنیٰ خیز عبارت درج تھی کہ بچوں کی تعلیم قومیت کی تعمیر ہے اور قومیت کی تعمیر کے جذبہ سے ہی غنچہ کی اشاعت عمل میں آئی تھی۔ اس میں مقتدر ادیبوں کے علاوہ اسکولی طلباء کی تحریریں بھی بطور خاص شامل کی جاتی تھیں۔ غنچہ کے پہلے مدیر محمد وارث کامل بی اے تھے۔ اس کے بعد مدینہ اخبار کے مالک و مدیر مولوی مجید حسن کے داماد اور خوش فکر شاعر حمید حسن فکر بجنوری اس کے سب ایڈیٹر بنائے گئے اورنصراللہ خاں عزیز بی۔اے اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ شبیر بیگ بریلوی، ماہر القادری بھی اس کی ادارت سے وابستہ رہے۔ 16 صفحات پر محیط قوم اور ملک کے بچوں اور بچیوں کے لئے تعلیمی، تاریخی،اخلاقی،حرفتی ہفتہ وار رسالہ غنچہ کا سر ورق تین رنگوں میں شائع ہوتا تھا اور اس کی تعداد اشاعت اس وقت تقریباً ایک ہزار تھی۔ اس رسالہ کی فہرست کے صفحہ پر ایک شعر درج ہوتا تھا۔
تفریح کا ساماں ہے تعلیم کا ساماں ہے
بچوںکے لئے غنچہ ایک علمی گلستاں ہے
اس کے مخصوص کالم میں معلوماتی مضامین کے علاوہ کشیدہ کاری، بوجھو تو جانیں، مسکراہٹ، دنیا میں کیا ہو رہا ہے شامل ہیں۔ غنچہ کے کئی سالنامے بھی شائع ہوئے جس میں بچوں کی طبع زاد تخلیقات پر پانچ روپے کے انعامات کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس رسالہ کے اہم قلم کاروں میں سری رام سیٹھی، امجدحیدرآبادی، ابوعبیدہ لکھ مینوی، نزاکت جہاں فاروقی، شفیع الدین نیر، محمد ارمغان ساحل سہسرامی، غلام قادر، (پشاور) شامل تھے۔ اسی رسالے میں بدروفا شیدائی اور جلیس سہسوانی کے قسط وار ناول شائع ہوئے۔ غنچہ کی فائلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا دائرہ اثراس وقت پشاور اور ملتان تک تھا اور ہندوستان کے بیشتر علاقوں تک اس غنچہ کی رسائی تھی۔ پٹنہ، مظفر پور اور بھاگل پور کے قلم کاروں کی بھی تحریریں اس میں شائع ہوتی تھیں۔آج کے معروف ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ فکشن نگار ڈاکٹر عبدالصمد کی پہلی کہانی ’’جھوٹ کی سزا‘ ‘ اسی غنچہ بجنور کے اپریل1961ء میں شائع ہوئی تھی۔ ان کی ادبی تخلیقی زندگی کا آغاز بچوں کے اسی رسالہ سے ہوا۔ شاہد جمیل کا جاسوسی ناول ’آدم خور انسان‘ بھی غنچہ ہی میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ غنچہ کا سالنامہ بڑا مفید اور معنی خیز ہوتا تھا۔ 8؍ جنوری 1951ء کے سالنامہ پر حامد حسن قادری نے بڑا خوبصورت قطعہ لکھا تھا۔
اس غنچہ کی دھوم ملک میں ہر سو ہو
اس گل کا نیا رنگ نرالی بو ہو
اس غنچہ کا ہر ورق سخن سنجوں کو
آئینۂ حسن اور شاہد اردو ہو
اس رسالہ کا مقصد جہالت کا خاتمہ اور علم کی ترقی تھا اور اس مقصد میں یہ رسالہ کامیاب رہا۔یہ رسالہ 1978ء میں بند ہوگیا مگر آج بھی غنچہ کو بچوں کے رسائل میں ایک مثال اور نظیر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ٹافی، لکھنؤ
یہ بھی اپنے عہد میں بچوں کا مقبول ترین رسالہ تھا۔ اس کی اشاعت کا آغاز 1960ء سے ہوا۔ یہ رسالہ 10۔ہاتھی خانہ لکھنؤ سے نکلتا تھا۔ فیض علی فیض اور فیض علی نوشہ اس کی ادارت سے وابستہ تھے۔سعادت علی صدیقی سندیلوی، حامد اللہ افسر، احمد جمال پاشا، عادل رشید، شمیم انہونوی، شجاعت حسین سندیلوی جیسی اہم شخصیات کا تعاون اس رسالہ کو حاصل تھا۔ یہ رسالہ تقریباً دس برس تک جاری رہا اور پھر مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہو گیا۔ اس کی مجلس ادارت میں اوصاف احمد اور معظم جعفری تھے۔ محمد مسلم شمیم اور جاوید حسن بھی اس رسالہ سے وابستہ رہے ہیں۔ احمد مشکور سیوانی کی بھی بحیثیت مدیر اس رسالہ سے وابستگی رہی ہے جو گورکھپور میں ریلوے کی ملازمت سے وابستہ تھے اور کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی۔ ’نئی شمع اور نئے پروانے‘، ’سونے کی لاش‘، ’ سوئے حرم‘، ’امریکن مسلم‘، ان کی اہم کتابیں ہیں۔ انہوں نے افسانے بھی تحریر کئے ہیں۔’آئینۂ حیات‘ ان کی ایک اہم تصنیف ہے جس میں مختلف شخصیات کے حوالے سے بھی اہم مضامین ہیں۔ ڈاکٹر ارشاد احمد نے اپنی کتاب ’نگاہ نقد‘ (2019ء) میں ان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے والد بزرگوار مولوی محمد ذکی صدیقی عربی، فارسی، اردو کے عالم اور ’تاریخ الہری ہانس ‘کے مصنف تھے۔ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ لکھنؤ سے شائع ہونے والا بچوں کا مقبول رسالہ ٹافی کی ادارت تقریباً 6برسوں تک کی۔ آپ کی ادارت میں ٹافی نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔
کلیاں،لکھنؤ
شمیم انہونوی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا جو خود بھی بچوں کے اچھے ادیب تھے۔ انوکھا پل، جادو کا ہنس، پریوں کی کرامت، شہزادی زر نگار وغیرہ ان کی مشہور کہانیاں ہیں۔ اس کے اہم لکھنے والو ںمیں شاد عارفی، سطوت رسول، محشر بدایونی، شفیع احمد تاج ،عطیہ پروین، عفت موہانی، اے آر خاتون قابل ذکر ہیں۔ سیدہ اعجاز کا ناول ’مونگے کے جزیرے‘کلیاں میں ہی شائع ہوا تھا۔
نور، رامپور
اس کا شمار بھی بچوں کے اہم اور مقبول رسالوں میں ہوتا ہے۔ ابو سلیم عبدالحئی اس کے بانی مدیر تھے۔ ستمبر 1953ء میں پندرہ روزہ کی شکل میں اشاعت کا آغاز ہوا۔ دسمبر 1968ء میں یہ ماہنامہ میں تبدیل ہوگیا۔ اس رسالہ کو اہم ادیبوں کا تعاون حاصل تھا۔ جن میں شکیل انور صدیقی، سلامت علی مہدی، اور مہر النساء کے نام بھی ہیں۔ اس رسالہ کا ایک خاص فیچر ریڈیو نورستان تھا۔ اس کے علاوہ بچوں کی آپ بیتی، تلاش کیجئے انعام لیجئے معلوماتی مشغلہ بھی اس کے اہم کالم تھے۔ یہ مکتبہ الحسنات کا رسالہ تھا جہاں سے بچوں کے لئے ہلال بھی جاری ہوا۔ جس میں بچوں کی لغت جیسا مفید کالم بھی ہے۔ ماہنامہ ’نور‘ سے مائل خیرآبادی اور مرتضیٰ ساحل تسلیمی جیسی اردو کی معتبرشخصیات کی وابستگی رہی ۔نور کے کئی خصوصی شمارے بہت مقبول ہوئے ہیں جن میں شکاریات نمبر قابل ذکر ہے۔
چندا نگری
مرادآباد سے شکیل انوار کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ جون 1970ء سے اس کا آغاز ہوا۔ 34 صفحات پر مشتمل اس رسالہ کی قیمت فی پرچہ 40 پیسے تھی۔ اس میں نثری اور شعری تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ اس رسالہ کی عمر بھی بہت مختصر رہی۔ یہ بچوں میں زیادہ مقبول نہیں ہو پایا۔
ہم جولی
سید مجاہد حسین کی ادارت میں اگست 1919 سے شائع ہونا شروع ہوا۔ امروہہ سے شائع ہونے والے بچوں کے اس رسالہ کے سرورق پر ماہرین فن تعلیم کے تجربات کا ذخیرہ لکھا ہوتا تھا۔ بقول انور حسن اسرائیلی :
’’بچوں کی فطری تعلیم میں مدد دینے والا اور دور جدید کے موافق تربیت طبعی بہم پہنچانے والا ماہوار رسالہ تھا۔ بچوں کی صحافت کے ضمن میں ایک اہم رسالہ ہے۔‘‘
اس کے اہم لکھنے والوں میں پروفیسر عاصی اور ایڈیٹر ذوالقرنین تھے۔
سعید ،کانپور
یہ بھی بچوں کا ایک اہم رسالہ ہے جو اردو کے معتبر ناقد و محقق اور داستان تاریخ اردو کے مصنف مولانا حامد حسن قادری کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ یہ رسالہ 1918ء سے 1922 تک شائع ہوتا رہا۔ اس میں بچوں کے لئے بہت ہی عمدہ مواد ہوتا تھا۔ خواجہ احمد فاروقی جیسی شخصیت نے لکھا ہے کہ’’ اس میں ادب اطفال سے متعلق بہترین مواد شائع ہوتا تھا جو کسی بھی طرح غنچہ کے معیار سے کم نہ تھا۔ ‘‘
عزیز
1930ء سے نکلنا شروع ہوا۔ اس کے مدیر بدیع الزماں تھے۔ 64 صفحات پر محیط اس رسالہ کا سالانہ چندہ ایک روپیہ آٹھ آنا تھا۔
چاند ،سہارنپور
یہ رسالہ اغفار احمد ناز انصاری کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ جو اردو کے ممتاز صحافی تھے۔ انصاری، الجمعیۃ ، ہفت وار پیام مشرق، روز نامہ مشرقی آواز اور انتباہ جدید کی ادارت سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ بچوں کے ادیب بھی تھے۔ انہوں نے بچوں کے لئے جو کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں پری زاد پرندہ،جادو کی بندوق، میاں جی بکری، چٹانوں کی چیخ بہت مقبول ہے۔ ماہنامہ چاند کے حوالے سے عبدالقادر بندھولوی نے لکھا ہے کہ 1935ء سے 1940ء کے درمیان وہ باضابطہ بچوں کا ماہنامہ چاند سہارنپور سے نکالتے تھے۔ جس میں ہندوستان کے نامور ادیبوں کی تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ (بحوالہ صریر گم گشتہ ناز انصاری، مرتبہ ظفر انور)
بچپن،بریلی
یہ رسالہ 193؍گلی نواباںبریلی سے شائع ہوتا تھا۔ اس کے مدیر قدیر جاوید پریمی بچوں کے معروف ادیب تھے جن کی بہت سی کہانیاں ماہنامہ کھلونا میں شائع ہوتی تھیں۔ ان میں اپنا خون، خوشی دینے والے، ہمارے بھی ہیں مہربان کیسے کیسے، سوچو تو ذرا قابل ذکر ہیں۔
اچھا ساتھی،بجنور
سراج الدین ندوی کی ادارت میں سرکرہ ضلع بجنور سے شائع ہوتا ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز نومبر 1993ء سے ہوا۔ اس کے معاون مدیروں میں فخرالدین فخر، محمد یٰسین ذکی ہیں۔ یہ بھی بچوں کا ایک اہم رسالہ ہے جو تقریباً بیس بائیس برسوں سے جاری ہے۔ اس میں دینیات اور اخلاقیات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور بچوں کی دلچسپیوں کا بھی پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ ماہنامہ مقابلہ، مشغلہ، دلچسپ خبریں ،بچوں کی تحریریں، کارٹون، انعامی کوپن اس کے خصوصی فیچر ہیں۔ اس کا ایک خصوصی شمارہ قرآنی اسباق نمبر بے حد مقبول ہوا تھا۔
بچوں کا تحفہ، اعظم گڑھ
شاد اعظمی ندوی کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔ اس میں مضامین کے علاوہ معلومات کی جانچ، بیت بازی، لطیفے وغیرہ شائع کئے جاتے ہیں جو بچوں میں بے حد مقبول ہے۔ یہ رسالہ 36 صفحات پر مشتمل ہے۔
باغیچہ ،لکھنؤ
اترپردیش اردو اکیڈمی لکھنؤ سے شائع ہونے والا بچوں کا ماہنامہ ہے جس کی سرپرست پروفیسر آصفہ زمانی اور ایڈیٹر ایس رضوان ہیں۔ اعزازی مدیر کی حیثیت سے ڈاکٹر شمیم احمد صدیقی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے مشمولات باغیچہ کی کیاریاں اور پھلواریاں کے نام سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اس میں کہانیاں، سائنس، طب، ماحولیات، منظومات، لذیذ پکوان، رنگ برنگ، بعض الفاظ کے معنی، دماغی ورزش اور معلومات عامہ، انعامی شعری پہیلیاں، پھلجھڑیاں جیسے عنوانات ہیں۔
qqq
آندھرا پردیش کی ریاست بچوں کی صحافت کے ضمن میں بہت زرخیز رہی ہے۔ بچوں کے لئے یہاں لکھنے والوں میں واجدہ تبسم، عفت موہانی، جیلانی بانو،طیبہ بیگم، رفیعہ منظورالامین، اظہر افسر ، اخترسلطانہ، اشرف رفیع، بانو طاہرہ سعید، برکت رائے، ثریا جبین، خدیجہ بیگم، رفیعہ سلطانہ، زبیدہ رانا، زینت ساجدہ، شبینہ فرشوری، صالحہ الطاف، عابدہ محبوب، عالیہ خان، فاطمہ پروین وغیرہ بہت اہم ہیں۔یہاں سے جو رسائل شائع ہوئے ان میں ادیب الاطفال، اتالیق، نونہال، سب رس، بزم ادب، رسالہ مسلم، تارے، نوخیز، انعام، ننھا، پرواز، میرا رسالہ، روش، ہمارے نونہال، روشن ستارے وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔
ادیب الاطفال حیدر آباد میں بچوں کا پہلا رسالہ ہے جس کا پہلا شمارہ ماہ اگست 1911ء میں شائع ہوا۔ مرزا احمد اللہ بیگ آغائی ابوالعلائی نے اس رسالہ کو جاری کیا تھا۔ بیس صفحات پر مشتمل اس رسالہ کے مقاصد میں بچوں کے اخلاق میں سدھار ،ایثار و استقلال کی تعلیم، صنعت و حرفت کے فوائد بتانا اور مضمون نگاری کا ذوق پیدا کرنا تھا۔ اس رسالہ کی حیثیت تربیت اطفال میں والدین کے معین و مشیر کی تھی۔ اس میں بہت اہم مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ مضمون نگار طلبا کو بطور انعام چاندی کی جیب گھڑی دی جاتی تھی۔
اتالیق
اتالیق بھی بچوں کا ایک اہم رسالہ تھا جو مولوی عبدالرب کوکب فاضل دارالعلوم کی ادارت میں 1917ء سے نکلنا شروع ہوا۔ اس کے جوائنٹ ایڈیٹر احمد عبدالعزیز صدیقی تھے۔ اس رسالہ میں سائنس، ہیئت ، طبیعات، تاریخ، بڑے لوگوں کے بچپن کے حالات، اکابر کی سوانح عمریاں اور کہانیاں وغیرہ شائع کی جاتی تھیں۔ حفظان صحت، ورزش اور کھیل کود سے متعلق مضامین بھی شائع کئے جاتے تھے۔
نونہال
’نونہال‘ محمد مرغوب الدین بی اے علیگ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا اس میں بچوں کے لئے مفید کارآمد اور دلچسپ مضامین ہوا کرتے تھے ۔سرورق پر یہ اشعار درج تھے:
ہے قوم اگر باغ تو تم اس کے شجر ہو
ہے قوم اگر نخل تو تم اس کے ثمر ہو
ہے قوم اگر چرخ تو تم اس کے شمس و قمر ہو
ہے قوم اگر کان تو تم لعل و گہر ہو
سب رس
’سب رس‘ (بچوں کا) صاحب زادہ میر محمد علی میکش کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ یہ سب رس کا ضمیمہ تھا۔ اس میں مضامین کے علاوہ معمہ، پہیلیاں اورلطیفے شائع ہوتے تھے۔
تارے
’تارے‘ مسلم ضیائی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ 1948ء میں جاری اس رسالہ میں مزاحیہ مضامین بھی ہوتے تھے۔ اس لئے بہت مقبول تھا۔
بچوں کی دنیا
بچوں کی دنیا 1949ء میں اظہر افسر کی ادارت میں جاری ہوا۔ یہ ایک باتصویر رسالہ تھا۔
نوخیز
’نوخیز‘ منیر صفوی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس رسالہ کا آغاز 1968ء میں ہوا تھا۔
انعام
انعام‘وقار خلیل جیسے شاعر اور ادیب کی ادارت میں 1957ء میں جاری ہوا مگر ایک سال کے بعد ہی یہ معیاری رسالہ دم توڑ گیا۔
ننھا
’ننھا‘ 1958ء میں جاری ہوا۔ یہ اسد انصاری، مسعود انصاری کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کا ایک مخصوص کالم قلمی دوستی تھا جس کی وجہ سے بچے اس رسالہ سے جڑتے گئے۔ یہ کلیاں اور پھلواری کے پایہ کا رسالہ تھا۔
ہمارے نونہال
’ہمارے نونہال ‘ابوالفہم وحید علی خاں کی ادارت میں شائع ہوا۔ 1989ء میں اس کا اجراء ہوا۔ آسان عام فہم مضامین، تصویروں اور کارٹونوں کی وجہ سے اس رسالہ کو بچوں میں مقبولیت ملی۔ کمپیوٹر اور سائنس کے عنوانات پر بھی اس میںتحریریں ہوتی تھیں۔ کوے کی زبان، ہمیں شکایت ہے، اس کے مشہور کالم تھے۔ اس کے علاوہ اسلامی مقابلے اور کوئز کا بھی خصوصی اہتمام تھا۔ نونہال ادیب کے تحت بچوں، اسکول کے طلباء کے لئے کچھ صفحے مختص کئے گئے تھے۔
بزم ادب
’بزم ادب‘ بچوں کا باتصویر رسالہ تھا جو جیرام پرشاد کی سرپرستی اور وشوناتھ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس میں کہانیوں کے علاوہ صنعت و حرفت پر مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔
بھائی جان
’بھائی جان‘ حیدرآباد سے اظہر افسر کی ادارت میں نکلتا تھا۔ جو بچوں کے معروف ڈرامہ نگار تھے۔ موتی، ننھی سی لڑکی، ایک روپیہ فی مکان ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ اخبار میزان میں بچوں کے لئے کالم بھی لکھتے رہے اور اقدام حیدرآباد میں بچوں کا صفحہ بھی ترتیب دیتے تھے۔
روشن ستارے
’روشن ستارے‘ تلنگانہ، اسٹیٹ اردو کیڈمی کی طرف سے نکلنے والا بچوں کا ماہنامہ ہے۔ اس کا پہلا شمارہ جون 2019ء میں شائع ہوا۔ محمد رحیم الدین انصاری کی نگرانی اور محمد عبدالوحید کی ادارت میں اس رسالے کی اشاعت شروع ہوئی۔ سردار سلیم اس کی ادارتی معاونت سے وابستہ ہیں۔ یہ بھی بچوں کا ایک رسالہ ہے۔ اس نے بہت مختصر عرصہ میں اپنی ایک پہچان قائم کی ہے۔
ڈاکٹر طیب انصاری اور ڈاکٹر انورالدین نے بچوں کے بہت سے رسائل کا ذکر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسری ریاستوں کے مقابلہ میں حیدرآباد نے بچوں کے صحافتی ادب کو زیادہ فروغ دیا ہے۔
qqq
بہار اور جھارکھنڈ کی ریاستوں نے بھی ادبِ اطفال کی ترویج میںاہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں بچوں کا ادب لکھنے والوں میں عبدالغفور شہباز، سید غلام رسول قدسی، صفیر بلگرامی، ڈاکٹر محمد حسنین (ح۔م اسلم) شاہد جمیل، شمیم عالم مصحفی، رضوان رضوی، مرغوب اثر فاطمی، شکیل دسنوی، امان ذخیروی، ضیاء الرحمن جعفری، مجیر احمد آزاد، اسرارالحق سبیلی،قیصر اقبال، سلطان آزاد، قیصر زاہدی، عطا عابدی، عبید قمر، مشتاق احمد نوری، ظہیر نیازی، عظیم اقبال، عشرت ظہیر، نسیم حمد جان، نشاط افزا، طلعت فاطمہ، فرخندہ جبیں، جمیل مظہری، پرویز شاہدی، شکیل الرحمن (باباسائیں) نادم یلخی، مظہر امام، ضیا عظیم آبادی، قمر زاہدی، م۔ق خاں، رضا نقوی واہی، شان بھارتی، عبدالصمد ، عبداللہ کمال، مشرف عالم ذوقی، زکی انور،ناوک حمزہ پوری، غیاث احمد گدی، ذکیہ مشہدی، مناظر عاشق ہرگانوی، شبنم کمالی، قیصر صدیقی، تمنا مظفر پوری، ذکی احمد، شیریں نیازی، ظفر کمالی، التفات امجدی، قاسم خورشید، غضنفروغیرہ کے نام اہم ہیں۔ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی نے اپنے مضمون ’بہار میں ادب اطفال :معاصر منظرنامہ‘ (مشمولہ: محاکمہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2019) میں ادب اطفال کے ادباء کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ یہاں سے بچوں کے جو رسائل نکلتے رہے ہیں ان میں سے چند کا ذکر ڈاکٹر سید احمد قادری نے کیا ہے۔ نو بہار (پٹنہ)، انوار صبح (سہسرام)، آج کے نونہال( دربھنگہ) بچوں کی دنیا (گیا) زمیں کے تارے(گیا) اطفال ادب (گیا) مسرت (پٹنہ) خوشبو (سہسرام) بچوں کا ڈائجسٹ (بہار شریف)،شہد (گیا) شامل ہیں۔ وہیں جھارکھنڈ سے وطن (رانچی) اور طفل (جمشید پور) کے نام بھی لئے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہار سے تربیت (بہار شریف)، قہقہہ (پٹنہ)، شاہین (پٹنہ)،غنچہ (گیا) جیسے رسالے شائع ہوتے تھے۔ پروفیسر علیم اللہ حالی نے بھی بچوں کا دستی رسالہ’’ پیارا‘‘ کے نام سے نکالا تھا۔
٭’نوبہار‘ پٹنہ روزنامہ ساتھی سے وابستہ مشہور صحافی خالد رشید صبا کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔
٭انوار صبح‘ سہسرام، شفق جیسے معروف فکشن نگار کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔
٭’آج کے نونہال‘ دربھنگہ خصال احمد کریمی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔
٭’بچوں کی دنیا‘ گیا کی ایڈیٹر نوشابہ کلیم تھیں اور تمنا مظفر پوری اس کے سرپرست تھے۔ اس کی مجلس مشاورت میں معین شاہد، فرحت قادری، عطا عابدی، بانو سرتاج جیسی شخصیتوں کے نام ہیں۔ اس کی اشاعت کا آغاز نومبر 1993ء سے ہوا۔
٭’زمیں کے تارے‘ شہد کی مکھیاں اور ریشم کے کیڑے جیسی معلوماتی کتابوں کے مصنف ایم اے کریمی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔
٭ماہنامہ ’اطفال ادب‘ گیا کی ادارت کے فرائض ایم۔ اے کریمی انجام دیتے تھے۔اس کا آغاز دسمبر 1998ء میں ہوا۔ اس رسالہ کے معاونین میں ڈاکٹر مرتضیٰ ، شاعر گیاوی تھے۔
٭’خوشبو‘ سہسرام کے مدیر زین معصوم تھے۔
مسرت، پٹنہ
’مسرت‘ پٹنہ کے مدیر مشہور صحافی اور ماہنامہ دہلی کے سابق مدیر ضیاء الرحمن غوثی تھے۔ اس رسالہ نے اپنی ایک تاریخ مرتب کی اور اسے سہیل عظیم آبادی، ذکی انور، علقمہ شبلی، تمنا مظفر پوری، ذکی احمد، مناظر عاشق ہرگانوی جیسے اردو کے بڑے بڑے قلم کار وں کا تعاون حاصل تھا۔ اس کے کئی خصوصی شمارے بھی شائع ہوئے۔ جن میں چاچا نہرو نمبربہت مقبول ہوا۔ بہار میں ادب اطفال کے ضمن میں یہ رسالہ ایک سنگ نشاں کی حیثیت رکھتا ہے۔
’مسرت‘ کا پہلا شمارہ دسمبر 1966ء میں شائع ہوا۔ جس میں آسی رام نگری، رضا نقوی واہی، ظفر اوگانوی، ذکی انور کی تخلیقات کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر حسین اور کلیم الدین احمد کے پیغامات بھی شامل تھے۔ مسرت میں سائنسی معلومات، کارٹون، لطیفے، ابھرتے فنکار، سوال و جواب، جنرل نالج، اقوال زریں، تصویروں میں رنگ بھرو، کھیل کود، دلچسپ خبریں وغیرہ مستقل کالم تھے۔بچوں کے ادب کے ارتقا میں مسرت کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے مطابق اردو میں بہار کا پہلا بچوں کا رسالہ یہی مسرت ہے۔ ضیاء الرحمن غوثی نے اپنی کتاب ’بہار میں بچوں کا ادب‘ میں ماہنامہ مسرت سے متعلقہ تفصیلات کے علاوہ کچھ تحریروں کا انتخاب بھی پیش کیا ہے جس سے ماہنامہ مسرت کی معنویت اور اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
شفیع الدین نیر(3؍فروری1903۔30جنوری1978) بچوں کے معروف شاعر نے مسرت کا خیر مقدم یوں کیا تھا:
مسرت ہوتی ہے مسرت سے بڑھ کر
مسرت نہیں اس مسرت سے بڑھ کر
اگر اہل اردو نے کی آبیاری
تو پودا رہے گا یہ پروان چڑھ کر
مسرت سے قبل انہوں نے جروعہ حاجی پور سے بچوں کا قلمی رسالہ ’’کہکشاں‘‘ بھی نکالا تھا۔
وطن، رانچی
’وطن‘ رانچی مرشد ہوش اور شمس جاوید کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔
طفل، جمشید پور
’طفل جمشید پور‘ ہربن سنگھ دوست کی ادارت میں شائع ہوا کرتا تھا۔
qqq
مہاراشٹر کی سرزمین ’’بچوں کا ادب‘‘ کی تخلیق کے باب میں بہت ہی زرخیز رہی ہے۔ یہاں مختلف اصناف ادب میں بچوں کے لئے لکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ نظم نگاروں میں محبوب راہی، عبدالرحیم نشتر، ارشد مینا نگری، متین اچل پوری، حیدر بیابانی، ظہیر ابن قدسی، انصاری یعقوب حسرت، رئیس احمد قتیل، شکیل احمد تہذیبی، اسحاق خضر، رفیع احمد کے نام ملتے ہیں تو وہیں بچوں کے لئے ناول لکھنے والوں میں وکیل نجیب، بانو سرتاج، ایم مبین، سلطان سبحانی، اقبال برکی، یعقوب بن مرتضیٰ، ابن آدم کے نام بہت اہم ہیں۔ بچوں کی کہانیاں تحریر کرنے والوں میں وکیل نجیب، قاضی مشتاق احمد، بانو سرتاج، ایم مبین، نورالحسنین، احمد عثمانی، اقبال برکی، رفیع الدین مجاہد، سلطان سبحانی، کلیم ضیاء، رفیع احمد، ایم یوسف انصاری، دیپک کنول، رحمن اکولوی، یعقوب بن مرتضیٰ، آصف بختیار سعید، بابو آرکے، ایچ ایم یٰسین ملی، آفتاب حسنین، اسحاق خضر، ساحر کلیم اہم ہیں۔ وہیں بچوں کے ڈرامہ نگاروں میں وکیل نجیب، سرتاج بانو، قاضی مشتاق احمد، اقبال نیازی، نورالحسنین، ایم مبین، مجیب خان، مومن شمشاد، خالق شاہین، مشتاق زبیر، مہر رحمن، شیخ سلیم محمد کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ گلزار، شاہ حسین نہری، نذیر فتح پوری، عطاء الرحمن طارق، صادقہ نواب سحر، متین اچلپوری، فرحان حنیف وارثی ادب اطفال کے اہم نام ہیں۔
مہاراشٹر میں ادب اطفال لکھنے والوں کاشیخ محمد صابر محمد محمود نے اپنے تحقیقی مقالہ مہاراشٹر میں اردو ادب اطفال کا تنقیدی مطالعہ 1970ء کے بعد، میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اسی سرزمین سے بچوں کے بہت اہم رسالے شائع ہوئے ہیں جن میں گل بوٹے(ممبئی) بزم اطفال (مالیگاؤں) ، گلشن اطفال (مالیگاؤں)، فردوس (امراوتی)، منا (ممبئی) اردو کومک (مالیگاؤں) بچوں کا ساتھی (مالیگاؤں)، ہیرا (مالیگاؤں) جل پری (مالیگاؤں) کونپل (ممبئی) ،چاند (ناگپور)، کرنیں (ناگپور) ، گلفشاں (بیاول) کہکشاں (بیاول) بچوں کا کھلونا (بیاول) اسکول ٹائم (ممبئی)نونہال ٹائمز (ممبئی) جنت کے پھول (ممبئی) بال وپر (کھام گاؤں) قابل ذکر ہیں۔
چاند،ناگپور
’چاند‘ فیض انصاری ا ور شفیقہ فرحت کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ڈاکٹر شرف الدین ساحل کے مطابق قیمت فی پرچہ پانچ آنہ اور سالانہ ساڑھے تین روپیہ تھا۔ جنوری 1953ء سے اس کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس میں بچوں کے ذہنی معیار کے مطابق مضامین کی اشاعت ہوتی تھی اور نو مشق طلباء کی تخلیقات کو بھی اس رسالے میں خصوصی طور پر جگہ دی جاتی تھی۔ جون 1954ء میں اس کی اشاعت بند ہوگئی۔ ’چاند‘ کے قلم کاروں میں ملا رموزی، محی الدین قادری زور، نریش کمار شاد، پرکاش پنڈت، مظفر حنفی، خلیق برہانپوری، ادیب مالیگانوی جیسی اہم شخصیات تھیں۔
کرنیں،ناگپور
’کرنیں‘ کی اشاعت کا آغاز اگست؍1954ء میں ہوا۔ شفیقہ فرحت اس کی مدیر تھیں۔ یہ تقریباً ڈیڑھ سال تک نکلتا رہا۔ قیمت فی پرچہ چھ آنے اور سالانہ چار روپے۔ اس میں بھی افسانے مضامین، منظومات کی اشاعت ہوتی تھی۔ رسالے کے اخیر میں طبی حصہ ہوتا تھا جس کے مرتب ڈاکٹر محمد اسلم تھے۔ اس میں معمہ کا بھی ایک سلسلہ تھا۔ سعادت حسن منٹو، اختر انصاری، کرشن چندر، صالحہ عابد حسین، نریش کمار شاد، شفا گوالیاری، عادل رشید کا قلمی تعاون اس رسالے کو حاصل تھا۔
گل بوٹے،ممبئی
’گل بوٹے‘ بچوں کا نہایت مقبول اور معروف رسالہ ہے۔ اس کی اشاعت کا سلسلہ 1996ء سے شروع ہوا۔ فاروق سید کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ گل بوٹے نے بہت مختصر عرصہ میں بچوں کے رسائل کے درمیان اپنی شناخت قائم کی ہے۔ یہ رسالہ بھی ایک مشن اور وژن کے تحت نکلتا ہے اس لئے یہ دوسرے رسائل سے ذرا مختلف بھی ہے اور منفرد بھی۔ اس رسالہ میں فاروق سید کا ادارتی ہنر بھی جھلکتا ہے اور ان کی لگن اور جد و جہد بھی۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کے ذہن اور ذوق کا خیال رکھتے ہوئے مفید اور معلوماتی مواد سے رسالہ کو سجایا اور سنوارا جائے۔ بچوں سے ان کا براہ راست تخاطب بھی ہوتا ہے جس کا بچوں کے ذہن پر بہت خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ اس میں معلوماتی مضامین ، کہانیوں، نظموں، کارٹون کے علاوہ جنرل نالج، کوئز اور کیرئیر گائڈینس جیسے فیچر بھی ہوتے ہیں۔ فاروق سید اپنے اداریے ’چھوٹی سی بات‘ میں بچوں کے لئے کام کی باتیں لکھ جاتے ہیں۔ زیادہ وسائل نہ ہونے کے باوجود گل بوٹے بچوں کے درمیان بہت مقبول ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ غیر سرکاری رسالوں میں اس کی تعداد اشاعت سب سے زیادہ ہے۔ اس کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فاروق سید بچوں کے ذہن، ذوق اور نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔حامد اقبال صدیقی، مبارک کاپڑی، عاصم سید اس کے کالم نگاروں میں شامل ہیں۔اب اس کا ہندی ایڈیشن بھی شروع ہوگیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس رسالہ کو بچوں اور بزرگوں کی بے پناہ محبت اور عنایت حاصل ہے۔
گلشن اطفال،مالیگاؤں
’’گلشن اطفال‘‘ رحمانی سلیم احمد کی ادارت میں مالیگاؤں سے شائع ہوتا ہے۔ یہ بھی بچوں کے درمیان معروف ہے اس میں بچوں کے مشہور ادیبوں ساحر کلیم، ایم مبین، رفیع الدین مجاہد کی کہانیاں اور تخلیقات شائع ہوتی ہیں۔ اس میں فرہنگ، دماغی کھیل، جانوروں پرندوں کی دنیا، خبرناموں کے علاوہ دیگر معلوماتی فیچر بھی ہوتے ہیں۔ انعامی مقابلے اور انعامی تصاویر بھی ہوتی ہیں۔ بچوں کے ادیبوں پر بھی گوشے شائع ہوتے ہیں۔گلشن اطفال کے خصوصی شمارے بھی شائع ہوئے ہیں جن میں قہقہہ نمبر کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
فردوس، امراوتی
’فردوس‘ امراوتی سے محمد رضوان الرحمن کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ 1998ء میں اس کا اجرا عمل آیا۔ کہانیاں نظموں اور مضامین کے علاوہ ذرا مسکرائیے اور اقوال زریں جیسے مواد پر محیط ہے۔ آغا غیاث الرحمن نے اپنی کتاب ’’برار میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔
خیر اندیش،مالیگاؤں
خیراندیش بچوں کا واحد ہفت روزہ اخبار ہے جو خیال انصاری کی ادارت میں 1987ء سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ اس اخبار نے بچوں میں بہت مقبولیت حاصل کی ہے۔
منا،ممبئی
’’منا‘‘ معروف ادیب اور شاعر شوکت علی پردیسی کی ادارت میں ممبئی سے شائع ہوتا تھا۔ اس میں بھی بہت اہم تخلیقات شائع کی جاتی تھیں۔
مالیگاؤں سے اردو کو مک حفیظ الرحمن انصاری بی ایس سی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کی اشاعت کا آغاز1966ء میں ہوا۔
’نونہال ٹائمز‘ ممبئی سے حسین جاوید کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ماہامہ ٹافی لکھنؤ کے مدیر جاوید حسن نے ضیاء الرحمن غوثی کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ:
’’ممبئی سے نکلنے والا ’’نونہال ٹائمز‘‘ بھی بچوں کے لئے ارزاں قیمت میں اچھا پرچہ ہے۔‘‘
بال و پر،ممبئی
’بال و پر‘ پندرہ روزہ بچوں کا رسالہ تھا۔ آغا غیاث الرحمن کے مطابق 1982ء میں جواہر لال نہرو کے یوم پیدائش 14؍نومبر کو اس کا اجراء ہوا۔1982ء سے اس کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس رسالہ کے مدیر اعلیٰ محمد عمر اور مدیر قیوم خان تھے۔
qqq
مدھیہ پردیش میں آ زادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ادب اطفال پر کم توجہ دی گئی ہے پھر بھی ادب اطفال سے جڑے ہوئے کچھ اہم نام ہیں۔ مولانا محمد عباس رفعت، غلام احمد فروعی، محوی صدیقی، یوسف قیصر، کوثر چاند پوری، پروین رشدی، عبدالمتین نیاز۔ ان میں سے محوی صدیقی کا ’’بالک کاباغ‘‘ اور سچی کہانیاں بہت مشہور ہیں۔ جب کہ کوثر صدیقی کی ’’چوہیابیگم ‘‘ ’’کبڑا جادوگر‘‘ ’’بادلوں کی ملکہ‘‘ کی مشہور کہانیاں ہیں۔ اسی طرح شاعری کے باب میں عبدالمتین نیاز کا نام بڑا اہم ہے۔ یہاں سے بچوں کے رسائل کے حوالے سے جو نام سامنے آئے ہیں ان میں طفلستان(بھوپال)، بچوں کی دنیا (بھوپال) ، جگنو (بھوپال) معصوم دنیا( بھوپال)اہم ہیں۔
طفلستان، بھوپال
’طفلستان‘ بھوپال سے بچوں کا پہلا رسالہ ہے جو عباس انصاری کی ادارت میں شائع ہوا۔ 1947ء میں اس کی اشاعت کا آغاز ہوا تھا۔
بچوں کی دنیا، بھوپال
’بچوں کی دنیا‘ جاوید محمود کی ادارت میں 1956ء میں جاری ہوا۔
معصوم دنیا،بھوپال
’معصوم دنیا‘ گوہر جلالی نے شائع کیا تھا۔
جگنو، بھوپال
’’جگنو‘‘ نعیم کوثر جیسے معتبر افسانہ نگار کی ادارت میں یکم جون 1961ء سے نکلنا شروع ہوا۔ اس کے معاون مدیر ظفر احمد نظامی تھے اور اس کے آرٹسٹ ایم ایچ قریشی۔ اس کے اداریے کا عنوان تھا پہلی منزل۔ پہلے شمارے میں لکھا گیا تھا کہ ’’ یہ پہلا شمارہ ہے۔ مہنگائیوں کے اس بھیانک زمانے میں تمہارے چہروں پر تمتماہٹ اور مسکراہٹ پیدا کرنے کے لئے بھرپور سامان سمو دیا گیاہے ۔ اپنی رائے لکھو کہ جگنو کیسا لگا۔‘‘36 صفحات پر مشتمل یہ بچوں کا ایک معیاری ماہنامہ تھا۔
qqq
کرناٹک میں بھی ادب اطفال لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ وہاں مختلف اصناف ادب کے ذریعہ جو بچوں کا ادب فروغ دے رہے ہیں ان میں امید ادیبی، خالد عرفان، ضیاء جعفر، ظہیر الدین ظہیر، حافظ کرناٹکی، رزاق افسر شاہ آبادی، سلیم تمنائی، حلیمہ فردوس، فوزیہ چودھری، شائستہ یوسف، وقار خلیل، نعیم اقبال، میمونہ تسنیم، فاطمہ ردا ٹمکوری، رفیق عارف، شاد باگل کوٹی، ساغر کرناٹکی، الف احمد برق، شبیر احمد منظر قدوسی، مہ نور زمانی، اقبال سلیم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آفاق عالم نے اپنے تحقیقی مقالہ میں بچوں کے ادب اور کرناٹک کے ادیبوں کی ادب اطفال میں خدمات کا بہت تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرناٹک کی ریاست بھی بچوں کے ادب کے سلسلے میں بہت سرگرم اور سنجیدہ رہی ہے۔ اسی ریاست سے دو ماہی غبارہ (بنگلور) ندائے اطفال (شکار پور)، (بنگلور) صدائے اطفال (بنگلور) ماہنامہ پھول (بھٹکل) ، اپنا گلستان (بلگام) جیسے رسالے شائع ہوئے ہیں۔
غبارہ،بنگلور
’’غبارہ ‘‘بچوں کا دو ماہی رسالہ جو بنگلور سے شائع ہوتا تھا۔ اس کی چیف ایڈیٹر ڈاکٹر فوزیہ چودھری کرناٹک اردو اکیڈمی کی سابق چیئر پرسن تھیں اور معاون مدیران میں ان کی دو بیٹیاں قدسیہ واجد اور فوقیہ واجد ہیں جو انگریزی کی بہترین شاعرہ ہیں۔ یہ کرناٹک میں بچوں کا پہلا اردو رسالہ ہے۔ اس کے بہت سے شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ اور اس میں بچوں کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے مضامین شامل کئے جاتے تھے۔ اس رسالے میں فوزیہ چودھری تماپوری ’باجی‘ کے قلمی نام سے اداریے لکھا کرتی تھیں۔ بچوں سے گفتگو کرتی تھیں۔ اس رسالے کے مشمولات میں کہانیاں، لطیفے، نامور ہستیوں کے انٹرویو، مشہور لوگوں کا تعارف، یادداشتیں، سالگرہ کی مبارک بادیاں، پسندیدہ اشعار کے علاوہ دلچسپی کے دیگر عنوانات ہوا کرتے تھے۔ اس رسالے کے حوالہ سے ممتاز ناقد پروفیسر سلیمان اطہر جاوید مرحوم نے لکھا تھا کہ:
’’ فی زمانہ رسائل و جرائد کا شائع کرنا اور پابندی سے شائع کرنا ایک کار دشوار ہے۔ ایسے میں بچوں کے لئے جریدے کی اشاعت کسی مہم سے کم نہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ چودھری نے یہ قدم اٹھایا اور نہایت جرأت و ہمت سے کام لیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ غبارہ کی تاحال اشاعت میں تخلیقات بھی ایسی ہیں جن سے بچوں کی کردار سازی میں مدد ملے گی۔ ‘‘
(بحوالہ: فوزیہ چودھری فنکار اور فن؍محمد شاہد علی)
بیچ میں یہ رسالہ تعطل کا شکار ہوا پھر 2010ء سے اس کی اشاعت شروع ہوئی۔ یہ رسالہ سات سال تک شائع ہوتا رہا۔
صدائے اطفال،بنگلور
’’صدائے اطفال‘‘ کرناٹک اردو اکیڈمی کا ترجمان ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز بچوں کے معروف ادیب حافظ کرناٹکی نے کیا تھا۔ 48 صفحات پر مشتمل اس رسالہ میں مشہور قلم کاروں کے ساتھ ساتھ اسکولی بچوں کی نگارشات بھی شائع کی جاتی ہیں۔ اس میں کشیدہ کاری کا بھی ایک کالم ہے جس سے بچیوں کو بڑی مدد ملتی ہے۔
اپنا گلستاں،بلگام
’اپنا گلستاں‘ بلگام سے محمد غوث منیار کی ادارت میں اگست 2003ء سے شائع ہونا شروع ہوا۔ محمد غوث کے تعلق سے عین صمد خانہ پوری اپنی کتاب ’بلگام تاریخ کے آئینے میں‘‘ لکھتے ہیںکہ:
’’ موصوف کو ہمیشہ ہی سے بچوں کے ادب سے دلچسپی اور شغف رہا ہے۔ ‘‘
ان کے مطابق یہ رسالہ پرائمی اور ثانوی طلبہ و طالبات میں مقبول ہے۔
ندائے اطفال،شکارپور
’ندائے اطفال‘ حافظ کرناٹکی نے انجمن اطفال کے زیر اہتمام 2009ء میں نکالنا شروع کیا۔ اس کے اداریے میں حافظ کرناٹکی نے بچوں کو ترغیب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ:
’’اٹھائیے قلم اور اپنے جذبات کی خوشبو سے اس رسالے کے صفحات کو معطر کر دیجئے۔ یہ صرف ایک رسالہ ہی نہیں آپ کے خوابوں کو سچ کر دکھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ (بحوالہ: ہندوستان میں بچوں کا ادب آزادی کے بعد؍ آفاق عالم)
پھول، بھٹکل
بھٹکل سے شائع ہوتا ہے۔ یہ ایک مشن کے ساتھ شائع ہوا ہے اس میں ادب کے ساتھ اسلامی افکار و اقدار پر زیادہ ارتکاز ہے۔ ادب اطفال کی بقا اور ترویج کے لئے اس رسالہ کا اجراء ہوا ہے جس کا مقصد تفریح نہیں بلکہ تعلیم و تعمیر ہے۔ ظاہری اور باطنی خوبیوں سے آراستہ اس رسالہ کے ایڈیٹر عبداللہ ندوی ہیں۔ اس کے سرورق پر یہ مصرعہ درج ہے جو اس کے مشن اور مقصد کی ترجمانی کرتا ہے۔
پھول ہاتھوں میں لئے نکلے ہیں ملت کے جواں
ہے نہاں اس پھول میں علم و ہنر کا گلستاں
qqq
اڑیسہ ریاست جہاں سے دو ماہی شاخسار جیسا عہد ساز ادبی رسالہ شائع ہوتا تھا وہاں سے آزادی کے 58 برسوں بعد اردو کے معتبر ادیب و شاعر اور مجلہ ترویج کے مدیر خاور نقیب، (سید معشوق الٰہی) کی ادارت میں جگنو کے نام سے بچوں کا پہلا رسالہ شائع ہوا۔ یہ بچوں کا پہلا سہ ماہی رسالہ تھا جس کے صرف دو ہی شمارے نکل سکے۔ اولین شمارہ ستمبر۔نومبر2016 کا تھا۔
qqq
مغربی بنگال میں بھی بچوں کا ادب لکھنے والو ںمیں کئی اہم نام ملتے ہیں۔ پروفیسر عاصم شاہنواز شبلی نے اپنی کتاب ’’مغربی بنگال اور بچوں کا ادب‘‘ میں بچوں کے شعری ادب کے ضمن میں جرم محمد آبادی، جمیل مظہری، پرویز شاہدی، اشک امرتسری، حرمت الاکرام، مظہر امام، علقمہ شبلی، ساگر چابدانوی، محی الدین شاہین، معصوم شرقی، احمد کمال حشمی وغیرہ کے ناموں کا اندراج کیا ہے۔ جب کہ نثری ادب میں سالک لکھنوی، نشاط الایمان، جاوید نہال، عابد ضمیر، مشتاق اعظمی، نذیر احمد یوسفی، کمال احمد، شوکت عظیم، جمیل ارشد کے نام لکھے ہیں۔علقمہ شبلی نے ’حرف حرف تلاش‘(2008)میں شامل اپنے مضمون ’مغربی بنگال میں بچوں کا اردو ادب‘ میں آزادی کے بعد ادب اطفال لکھنے والوں میں جاوید نہال، حرمت الاکرام، مظہر امام، نشاط الایمان، علقمہ شبلی، مظفر حنفی، ساگر چاپدانوی، عابد ضمیر، مشتاق اعظمی، حشمت کمال پاشا، جان عالم سیف، ذوالنورین، کمال احمد، محمد شان، شوکت عظیم، جمیل ارشد، محسن باعشن حسرت، احمد کمال حشمی، عبدالودود انصاری، شمیم انجم وارثی، کلیم حاذق، نور پیکر، فراغ روہوی، خالدہ حسینی، ضمیر یوسف کے نام لکھے ہیں جب کہ ان کے علاوہ جان عالم سیف، شہناز نبی،انور ادیب، ایم نصراللہ نصر بھی بچوں کا ادب تخلیق کر رہے ہیں۔
اردو کے اولین اخبار ’جام جہاں نما‘ کی جنم بھومی کلکتہ سے ہفتہ وار’ بچوں کی دنیا‘،ماہنامہ ’آج کا سکندر‘ ،دو ماہی ’غنچہ‘ ،ماہنامہ ’نوخیز‘، دو ماہی ’شرارت‘،ماہنامہ ’طالب علم‘، دوماہی ’گلدستہ‘ ، دو ماہی ’ساتھی‘ ، ماہنامہ ’شیریں‘،ماہنامہ ’منفرد‘ اور ’نیا کھلونا‘ شائع ہوتے رہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ضیاء اللہ کھوکھر کی مرتب کردہ کتاب ’’بچوں کی صحافت کے سوسال‘‘ میں مغربی بنگال سے شائع ہونے والے بچوں کے کسی بھی رسالے کا ذکر نہیں ہے۔
غنچہ کے مدیر خورشیداحمد شیدائی تھے۔1969ء میں اس کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس کے نگراں معروف و مقبول شاعر و نثر نگار اعزاز افضل تھے۔
رضوان رضوی کی ادارت میں بچوں کا ڈائجسٹ نکلنا شروع ہوا۔ کامل حمیدی کی ادارت میں 1978ء میں نوخیز کا آغاز ہوا۔ اس کی مدت اشاعت صرف ایک سال رہی۔ 1985ء میں مٹیابرج سے سید اصغر حسین رضوی کی ادارت میں شرارت نکلنا شروع ہوا۔ سید محفوظ عالم کی ادارت میں ’’آج کا سکندر‘‘ مارچ 1994ء سے شروع ہوا۔ ان کا تعلق مہوا ویشالی سے تھا۔ تجارت سے وابستگی تھی۔ اخبارات و رسائل میں ان کے مضامین چھپتے رہے ہیں۔
بچوں کی دنیا کلکتہ سے 1941ء سے نکلنا شروع ہوا۔ اس کے مدیر عنایت اللہ تھے۔ گلدستہ کی اشاعت کا آغاز 1970ء میں خضر دانش شمسی کی ادارت میں ہوا۔ اس کے شایددس شمارے شائع ہوئے۔ بعد کے کچھ شمارے شانتی رنجن بھٹا چاریہ کے بقول شاہد انور یعقوبی اور محمد عیسیٰ سنجرکی ادارت میںشائع ہوئے۔ساتھی کلکتہ سے 1971ء میں نکلنا شروع ہوا جس کے مدیر شمیم احمد تھے۔اس کے بھی چار پانچ شمارے ہی شائع ہو سکے۔ شیریں بھی کلکتہ سے مارچ 1972 میں خضر دانش کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا۔ منفرد کلکتہ سے 1991ء میں شروع ہوا۔ اس کے مدیر سید ایاز احمد تھے اور طالب علم کی اشاعت 1998 میں ہوئی اور عنبر شمیم اس کے مدیر تھے۔
ماہنامہ نیا کھلونا کے چیف ایڈیٹر نوشاد مومن جیسے متحرک اور فعال ادیب و شاعر ہیں جو مژگاں جیسے وقیع مجلہ کے بھی مدیر ہیںاور ایڈیٹر خورشید جہاں صاحبہ ہیں۔یہ مشرقی ہند سے شائع ہونے والا بچوں کا واحد ماہنامہ ہے جو اپنے موضوعاتی تنوع اور مفید مواد کی وجہ سے بچوں میں بے حد مقبول ہے۔ اس کے خصوصی کالموں میں گوشہ دختراں ،باورچی خانہ، بیوٹی ٹپس وغیرہ اہم ہیں۔ نیا کھلونا میں وہ کچھ نئے تجربے کر رہے ہیں خاص طور پر ارو زبان کی قواعد اور گرامر کے تعلق سے ایک عمدہ تجربہ کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں امیر حمزہ ان کی مستقل معاونت فرما رہے ہیں۔ اس لئے امید ہے کہ یہ رسالہ بہت جلد اپنی الگ شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوگا۔
qqq
تمل ناڈ جیسی ریاست سے صرف ماہنامہ گلستاں اور باغ و بہار کے نام ملتے ہیں۔
’’گلستاں‘‘ محمد ذکریا ذکی کی ادارت میں شائع ہوا تھا۔ جس کے تقریباً گیارہ شمارے منظر عام پر آئے اس کے بعد یہ رسالہ بند ہوگیا۔
باغ و بہار عمر فاروق کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا۔ اس کی مدت حیات بھی بہت مختصر رہی۔ یعنی صرف ایک سال تک یہ رسالہ نکلتا رہا۔ یہ دونوں رسالے میل وشارم آر کاٹ سے نکلتے تھے۔
qqq
پنجاب کے امرتسر سے ’شبنم‘ نام کا ایک رسالہ شائع ہوتا تھا۔
qqq
جموں سے صرف ایک رسالہ کا نام ملتا ہے جو کندن لال ایم۔اے کی ادارت میں رتن کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ اس کا سن اشاعت1932 ہے۔
راجستھان، ہریانہ ، ہماچل پردیش،چھتیس گڑھ کچھ اور ریاستوں میں بھی بچوں کے ادیب تو ہیں مثلاً پنجاب میں سالک جمیل براڑ اور چھتیس گڑھ میں رونق جمال مگر ان ریاستوں میں بچوں کی صحافت پر توجہ نہیں دی گئی اس لئے وہاں سے بچوں کے رسالوں کی اشاعت کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
Haqqani Al Qasmi
B-145/8 4th Floor
Thokar No-8
Shaheen bagh, Okhla
New Delhi-110025
E-mail:[email protected]
Cel:9891726444