9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹرنیہا اقبال
زندگی میں کسی کی ذات باعثِ مسرت ہوتی ہے تو کوئی اپنے رویے سے دکھ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ بعض چہرے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی شخصیت اور کا رناموں کی بدولت لوگوں کے دلوں میںجگہ بنا لیتے ہیں ۔جن سے دوری باعث تکلیف ہوتی ہے۔ ایسی شخصیت اور کارناموں کے ذیل میں ایک نام نداؔ فاضلی (۱۹۳۸۔۲۰۱۶)کا بھی ہے ۔ اردو ادب میں نداؔ فاضلی جدید انداز و اسلوب کے ایک اہم شاعر کے طور پر نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔حالانکہ شاعری کے علاوہ بھی ان کی ادبی خدمات خاصی اہم ہیں ۔
نداؔفاضلی ۱۲؍اکتوبر ۱۹۳۸ء کو پیدا ہوئے۔ انھوںنے اپنی خود نوشت ’’دیواروں کے بیچ ‘‘میں اپنے بارے میں جہاں اور بہت کچھ لکھا ہے وہیں یہ بھی لکھ دیاہے کہ وہ دلی میں پیدا ہوئے ۔ ڈرامائی اور افسانوی عناصر سے لبریز خود نوشت کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیں ۔وہ لکھتے ہیں:
’’ہر بچے کی پیدائش دہلی میں ہوتی ہے۔وہ اب تیسرے بچے کی ماں بننے والی ہیں ۔ دو کے بعد تیسرا بچہ ایسی حالت میں مناسب نہیں ہے۔ لیکن کیا کیا جا ئے ۔ تین مہینے پورے ہو چکے ہیں ۔۔۔۔ ایسے کا م چھپ چھپا کر ہی کیے جاتے ہیں ۔ سنی سنائی جڑی بوٹیوں سے ہی خدا کے کام میں دخل اندازی کی جاتی ہے کئی گرم سرد دوائیں استعمال ہوتی ہیں ۔ ابھی یہ سلسلہ جاری ہے کہ اچانک ایک دن دہلی میں ان کے بھاری پائوں تلے موروثی مکان کی چھت کھسک جاتی ہے۔۔۔۔ گرتے ہی بے ہوش ہو جاتی ہیں ۔ کیس نازک ہے ۔ فوراً ہاسپیٹل لے جایا جاتا ہے جہاں وقت سے پہلے جمیل فاطمہ اپنی مرضی کے خلاف تیسرے بچّے کو جنم دیتی ہیں۔ اس کا نام بڑے لڑکے مصطفی حسن کے قافیے کی رعایت سے مقتدیٰ تجویز ہوتا ہے۔ یہی مقتدیٰ حسن آگے چل کرقافیے کی پابندی سے خود کو آزادکر کے نداؔ فاضلی بن جاتا ہے۔‘‘ ۱ ؎
اس اقتباس سے ان کے مقام پیدائش کے ساتھ ساتھ یہ یہ بات بھی معلوم ہو تی ہے کہ ان کی ماں جمیل فاطمہ نے اپنی مرضی کے خلاف تیسرے بچے کو جنم دیتی ہیں ۔اللہ کی مرضی کے سامنے انسان بے بس ہے ۔
پہچانتے تو ہوگے ندا ؔ فاضلی کو تم
سورج کو کھیل سمجھا تھا چھوتے ہی جل گیا
نداؔ فاضلی کے والد مر تضیٰ حسن کا شمار داغ اسکول کے نمائندہ شعرا میں کیا جاتا ہے ۔ ان کا آبائی وطن گوالیار تھا جہاں نداؔ فاضلی کی تعلیم و تربیت ہوئی ۔ایم ۔اے(اردو، ہندی)وکرم یونیورسٹی، اجّین سے کیا۔شاعری کی ابتداء ایک بھجن سن کر ہوئی، ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی۔ نداؔ فاضلی کا بچپن بڑے ہنگامے خیز ماحول میں گزرا ۔ سیاسی ،سماجی ،ثقافتی اور معاشی غرض یہ کہ ہر طرح سے انسان کی زندگی عذاب بنی ہوئی تھی۔ سماج کا کوئی بھی شخص فرقہ وارانہ فسادات سے خود کو بچا نہیں سکا۔ یہ زمانہ مایوسی، بے یقینی اور تنہائی کا تھا اور اسی کے بطن سے لاحاصلی کا جنم ہوتا ہے ۔ تقسیم ِ ہند نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا۔نداؔ فاضلی کے والدین اورخاندان کے دیگر افراد نے بھی پاکستان جانے کا فیصلہ کیا، مگر نداؔ فاضلی کے پائوںمیں وطن کی محبت نے بیڑی ڈال دی اور وہ ہندوستان میں ہی رہ گئے۔
تعلیم پوری کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش ان کو ممبئی لے گئی۔یہاں آ کر ایک دو رسائل کے لئے لکھتے رہے اور ساتھ میں شاعر ی بھی کرتے رہے۔ آہستہ آہستہ ان کی غزلوں کی مقبولیت ہونے لگی اور مشاعروں میں مدعوں کئے جانے لگے۔ ندا فاضلی کے شعری مجموعے جن کا ادبی دنیا نے خاطر خواہ استقبال کیا ان میں لفظوں کا پُل(۱۹۷۱ء)،مور ناچ(۱۹۷۸ء)، آنکھ اور خواب کے درمیاں(۱۹۸۴ء)، کھویا ہوا سا کچھ(۱۹۹۶ء)،شہرمیرے ساتھ چل (۲۰۰۴ء)، زندگی کی طرف(۲۰۰۷ء)، کچھ اور(۲۰۱۲ء) اوران کی کلیات’شہرمیں گائوں‘(۲۰۱۲ء) شامل ہے۔ان میں غزلیں ، نظمیں،گیت اور دوہے ہیں۔ انھو ں نے ۳۱ غزلیں بزرگ شعراء کی زمین میں کہی ہیں۔اس کے علاوہ نثر میں ’دیواروں کے بیچ‘ ، ’دیواروں کے باہر‘ (سوانحی ناول)، ’ملاقاتیں (مشاہیر ادب کے انٹرویوز)، ’چہرے‘(خاکے) ان کی قلمی یادگار ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے بہت سی فلموں کے لیے نغمے بھی لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔ جن میں ’تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے‘(آپ تو ایسے نہ تھے)، ’آبھی جا‘(سُر)،’ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے‘(سرفروش) قابل ذکر ہیں۔
ان ادبی کارناموںکی وجہ سے ہی انھیں متعدد انعامات اور ایوارڈز سے نوازا گیا ہے، جن میںساہتیہ اکادمی ایوارڈ(۱۹۹۸ء) اور پدم شری ایوارڈ(۲۰۱۳ء)اہم ہیں۔فلمی دنیا میں اہم خدمات کے لیے بھی انھیں ایوارڈ سے نوازا نوازا گیا ۔ان میں ’آبھی جا ‘(سُر) کے لیے ۲۰۰۳ء میںانھیںسٹار سکرین ایوارڈاور بالی وڈ مووی ایوارڈشامل ہیں ۔جدید دور کا یہ بڑا تخلیق کار ۸ فروری ۲۰۱۶ء کودل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ممبئی میں ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سو گیا۔
ہم سے محبت کرنے والے روتے ہی رہ جا ئیں گے
ہم جو کسی دن سوئے تو پھر سوتے ہی ر ہ جا ئیں گے
۲۰۱۶ ء میںعابد سہیل، انتظار حسین اورنداؔ فاضلی جیسی غیر معمولی شخصیات ہم سے دور ہو گئیں۔عابد سہیل اور انتظار حسین فکشن کی دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں تو نداؔ فاضلی شاعری کے افق پر روشن ستارے کے مانند ہیں ۔ندا فاضلی کی شناخت کابنیادی حوالہ ان کی شاعری ہے ۔ ان کی شاعری میں خصوصی طور پر شہر کی ویرانی ، تہذیبی اقدار کی پامالی ، سیاسی و سماجی دبائو کے سبب دہشت کا سایہ، بے بسی ، بے حسی و بے چینی ،تصادم ، تنہائی، وقت کی کمی، رشتوں کی تبدیلی، تلاشِ ذات کا مسئلہ، گھر میں رہتے ہوئے گھر سے دوری کا احساس وغیرہ موضوعات ملتے ہیں۔
شہر کی افراتفری میں فرد کی تنہائی کو نداؔ فاضلی نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ وہ اس سے دو چار بھی ہوئے۔ ممبئی جیسے بڑے شہر میں جہاں لوگوں کے پاس اپنے لیے بھی وقت نہیں ہے ایسے میں نداؔ فاضلی کی ملاقات شہر کی اس ویرانی سے ہوئی جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکی ہے۔ اور غالباً اسی وجہ سے لوگ بے حس ہو گئے ہیں ۔ ان کی غزلوں میں اس لفظ اوراس کے متعلقات کا استعمال خوب ہے ۔شہر پر انھوں نے بہت سی نظمیں ( شہر میرے ساتھ چل، بمبئی، میرا شہر وغیرہ ) بھی لکھیں ہیں۔ شہر کی بے حسی اور تنہائی سے متعلق چند اشعار ملاحظہ ہوں:
شہر میں سب کو کہاں ملتی ہے رونے کی جگہ
اپنی عزت بھی یہاں ہنسنے ہنسانے سے رہی
٭
ہنستے ہوئے چہروں سے ہے بازار کی زینت
رونے کی یہاں ویسے بھی فرصت نہیں ملتی
٭
اور تو سب کچھ ٹھیک ہے لیکن کبھی کبھی یوں ہی
چلتا پھرتا شہر اچانک تنہا لگتا ہے
نداؔفاضلی کو چلتا پھرتا شہر بھی تنہا دکھائی دیتا ہے، کیونکہ یہاں کوئی کسی کا ہمدردنہیں ہے ۔ نداؔ فاضلی بارہا شہر میں رونے کی جگہ تلاش کر تے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں:
گھر کی تعمیر چاہے جیسی ہو
اس میں رونے کی کچھ جگہ رکھنا
شہر والوں کی بے رخی اوربے حسی کو دیکھتے ہوئے نداؔفاضلی کو بھی مصلحت و مفاہمت کا لبادہ اوڑھناپڑتا ہے:
اب خوشی ہے نہ کوئی درد رُلانے والا
ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا
٭
کچھ لوگ یونہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
٭
ہم کو بھی یاد تھیں کئی رنگیں کہانیاں
پتھر بنا د یے گئے خاموش ہو گئے
ایسے ماحول میں رہتے ہوئے انسان خود اپنی ذات کی حقیقت کو فراموش کر دیتا ہے ، اور پھر تمام عمر اس کی تلاش میں سر گرداں رہتا ہے۔ نداؔ فاضلی بھی شہر کی بھیڑ میں خود کو کہیں کھو بیٹھے ہیں:
اوپر کے چہرے مہرے سے دھو کا نہ کھائیے
مجھ کو تلاش کیجئے گم ہو گیا ہوں میں
بچپن کی یادیں اور کھوئے ہوئے گھر کی تلاش نداؔ فاضلی کی شاعری کا نمایاں موضوع رہا ہے ۔ گوالیار چھوڑ کر ممبئی آنے کے بعد بھی تمام عمر وہ اپنے گھر کی یاد میں غرق رہے۔ تقسیم ِ ہند کے بعد یوں تو گھر سے دوری اور پھر اس کی یاد میں محو ہو جانے کا مضمون اردو شاعری میں عام ہے ۔لیکن ہر شاعر کا اندازِ بیان مختلف ہے۔گھر سے دور ہو کر تنہائی کے احساس کے بارے میں میراجی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے :
’’سماجی پہلو سے غور کر تے ہوئے نئے شاعر کی زندگی میں ہمیں ایک سے زیادہ باتیں الجھاتی ہیں ۔ شہروں کے فاصلے مٹے نئی تعلیم آئی ۔۔۔۔۔۔تعلیم اور تجارت کی آسانیوں نے نئے مقامات کی سیر کرائی اور گھر یلو زندگی کا نقشہ مٹنے لگا۔ گھر سے دور ہو کر تنہائی کا احساس نشونما پانے لگا۔‘‘۲ ؎
نداؔ فاضلی کے یہاں گھر مختلف رنگوں میں جلوہ افروز رہا ہے ۔ کبھی انھوں نے بے گھری کے غم کو بیان کیا تو کبھی گھر میں رہتے ہوئے انھیں اجنبیت کا احساس ہوتا ہے:
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
٭
چراغ چلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا
اپنے گھر میں گھر کا نشاں نہ ملنارشتوں کے تبدیلی کا ایک افسوس ناک پہلو ہے۔آج انسان اپنے آپ میں اس قدر گم ہو چکا ہے کہ اس کے پاس گھر والوں کے ساتھ بیٹھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ یہ عصر حاظر کی تلخ حقیقت ہے۔انسان کے لیے گھر صرف ایک سرائے سے زیادہ اور کچھ نہیں رہ گیا ہے ۔ انسانی تعلقات میں الجھن پیدا ہو چکی ہے ۔ لو گ اپنا مطلب پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے سے ملتے ہیں ۔ اس طرح تہذیبی اقدار پامال ہو رہی ہیں ۔ اسی نوعیت کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
٭
کچّے بخیے کی طرح رشتے اُدھڑ جاتے ہیں
لوگ ملتے ہیں مگر مل کے بچھڑ جاتے ہیں
٭
مل جُل کے بیٹھنے کی روایت نہیں رہی
راوی کے پاس کوئی حکایت نہیں رہی
ندا ؔ فاضلی کی شاعر ی میں فکری عناصر صاف دکھائی دیتے ہیں ۔ انسانی ذہن کو فعال و متحرک کر کے آگے بڑھانے جیسے موضوعات ان کے یہاں بارہا نظر آتے ہیں۔ نئی نسل کو ہدایت بھی کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی بھی۔ جس سے ان کو ہمّت اورحوصلہ ملتاہے:
دریا ہو یا پہاڑ ہو ٹکرانا چاہیے
جب تک نہ سانس ٹوٹے جیے جانا چاہیے
٭
اپنی تلاش ، اپنی نظر، اپنا تجربہ
رستہ ہو چاہے صاف بھٹک جانا چاہیے
٭
خدا کے ہاتھ میں مت سونپ سارے کاموں کو
بدلتے وقت پہ کچھ اپنا اختیار بھی رکھ
٭
صرف آنکھوں سے ہی دنیا نہیں دیکھی جاتی
دل کی دھڑکن کو بھی بینائی بنا کر د یکھو
نداؔ فاضلی نے مذہبی حد بندیوں کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے مذہب کے ٹھیکے داروں کے بنائے ہوئے حدود کو توڑ کر انسانیت کے پیغام کو عام کیا ۔ وہ مذہبی قید و بند کے قائل نہیں بلکہ آدمی کو انسان بنانے کے لیے فکر مند ہیں۔مذہبی ٹھکے داروں پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اٹھ ا ٹھ کے مسجدوں سے نمازی چلے گئے
دہشت گروں کے ہا تھ میں اسلام رہ گیا
٭
گرجا میں، مندروں میں، اذانوں میں بٹ گیا
ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا
٭
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچّے کو ہنسایا جائے
اس مختصرجائزے کے بعد یہ بات کافی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ نداؔفاضلی کے یہاں جدید دور کے بیشتر موضوعات مثلاًشہر کی ویرانی ، لوگوں کی بے حسی و بے رخی ، کھوے ہوئے گھر کی تلاش ، رشتوں کی تبدیلی، تلاشِ ذات، تہذیبی اقدار کی پامالی وغیرہ اپنی جامعیّت اور اثر آفرینی کے ساتھ موجود ہیں۔
٭٭٭
حواشی :
۱ ؎ ۔دیواروں کے بیچ، نداؔ فاضلی، نئی دہلی، نو مبر ۱۹۹۲ء ، ص۔ ۱۲- ۱۳
۲ ؎ ۔ بہ عنوان : نئی شاعری کی بنیادیں، میراجی ، مشمولہ سوغات جدید نظم نمبر ، ۱۹۶۱ء ،ص ۔ ۱۶۴