9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
حقانی القاسمی کایہ کامیاب صحافتی سفر کہاں رکے گانہیںکہاجاسکتا،لیکن اتناضرور ہے کہ آنے والی کئی نسلوں کواپنی صحافتی صلاحیتوں سے متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں
—ڈاکٹر سید احمد قادری
عہدِحاضر کے صحافیوں میںحقانی القاسمی اپنے منفرداسلوب،اورمتنوع معیاری تحریروں کے باعث اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔
حقانی القاسمی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤںکے اسکول سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ اسلامیہ(ڈہٹی)جامعہ اسلامیہ(بنارس)اوردارالعلوم (دیوبند)کے علمی فیوض کو سمیٹتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی پہنچے اوروہاںسے ایم۔اے(اردو)کی ڈگری لینے کے بعد ’’فلسطین کے چارممتازشعراء‘‘جیسے بالکل مختلف موضوع پرایم۔فل کیااوراس کے بعد’’فلسطین کی کہانیاں‘‘پرتحقیقی مقالہ سپردقلم کیا۔
کئی اہم دینی مدرسوں اورعلی گڑھ مسلم یونیورسیٹی سے مختلف علوم وفنون کی تعلیم و تربیت نے حقانی القاسمی کے اندراعتماد بحال کردیا۔
حقانی القاسمی اپنی علمیت کے جوہر کوبحیثیت نقاد مختلف کتابوںمثلاً فلسطین کے چار ممتازشعراء،طواف دشت جنوں،لاتخف،تکلف برطرف،رینوکے شہرمیں، خوشبو روشنی رنگ،شکیل الرحمن کاجمالیاتی وجدان،بدن کی جمالیات اور ادب کو لاژ وغیرہ میں سامنے آچکے ہیںاوران کی پذیرائی پوری اردودنیامیںہورہی ہے۔’’تاریخ ادب اردو‘‘ (جلدسوم کے صفحہ1889)میںپروفیسر وہاب اشرفی نے جولکھاتھا وہ توجہ طلب ہے ۔ لکھتے ہیں:
’’حقانی القاسمی کالم نویسی بھی کرتے رہے ہیں۔تکلف برطرف کے عنوان سے انکے کالم دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ موصوف کاوصف خاص ان کااسٹائل ہے۔ان کی نثرمیںبڑی جان اور تمکنت ہے۔فارسی اورعربی پردست رس،ان کے اسلو ب کو نکھار دیتی ہے۔سچی بات تویہ ہے کہ ان کی نثرکاجوامتیاز ہے، وہ کسی کی تقلیدپرمبنی نہیں،بلکہ اس میںانفرادیت نمایاں ہے ۔ ‘‘
حقانی القاسمی کاجوتنقیدی مزاج و آہنگ ہے اورصحافت میںجوگہرائی وگیرائی ہے۔ اس سے یہ فیصلہ کرنامشکل ہوتاہے کہ حقانی القاسمی دراصل کس صنف میںقابل قدرہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ان کا فن خواہ وہ تنقید میںہویاصحافت میں،منفرداوراعلیٰ ہے۔ ادب اورصحافت کے امتزاج سے دونوںمیںایک خاص کیفیت پیداہوتی ہے ۔ انھوں نے اپنے صحافتی سفر میںہفتہ وار’’اخبارنو‘‘ (دہلی)اور ہفتہ وار’’نئی دنیا‘‘ (دہلی) جیسے بے حد متمول اورمقبول اخبارات میںتجربات بھی حاصل کئے اور اپنی صحافتی صلاحیتوں کابھرپور مظاہرہ بھی کیا۔’’اخبار نو‘‘اور’ ’نئی دنیا‘‘جن لوگوں کے مطالعہ میں رہا ہے وہ اس امرسے واقف ہوںگے کہ ان دونوں اخبارکامزاج کیاتھا اورعوام کے درمیان کس قدر مقبول تھا۔ان دونوںاخبارات کی مقبولیت کا سہرابہرحال حقانی کے سر جاتا ہے۔ ان دوہفتہ واراخبارات کے بعد صلاح الدین پرویزکے ادبی مجلہ ’’استعارہ‘‘سے جب حقانی وابستہ ہوئے تواس رسالہ نے ادبی دنیامیںدھوم مچادی۔ حقانی نے’’نئی دنیا‘‘ اور ’’اخبار نو‘‘میںجہاںسیاسی، سماجی،معاشرتی ،تہذیبی، اقتصادی اور لسانی مسائل پر تجز یا تی مضامین اورتبصرے لکھے، وہیںاستعارہ میںادب کے حوالے سے جوکچھ بھی لکھا ، انھیںپڑھ کر لوگوںکوچونکنے پرمجبورکردیاکہ عہدحاضر کے کسی نوجوان کی تحریروں میں ایسی تازگی ،شگفتگی ،جولانی ،توانائی،وارفتگی،سنجیدگی اورعلمی وادبی رنگ وآہنگ ہے جو لوگ عہدحاضر کے نوجوانوںکی اردوصلاحیتوںسے مایوس ہورہے تھے ،ان لوگوں نے اطمینان کی سانس لی کہ اردوزبان وادب اورصحافت کامعیار اوروقار بچانے والا کوئی ہے جوآنے والی نسلوںکی آبیاری کرے گا۔
حقانی القاسمی جب سہاراگروپ کے ’’بزم سہارا‘‘کی ادارت میںشامل ہوئے تو اپنی ’’بزم سہارا‘‘کواپنی صحافتی ہنرمندی سے ایسی آفاقیت بخشی کہ اس رسالہ میں شاعر و ادیب اپنی شمولیت کو ایک اعزازتصورکرنے لگے۔
’’بزم سہارا‘‘کاہرشمارہ ایک دستاویزہوتا۔اس قدرخوبصورت،معلوماتی اور معیاری رسالہ ہندوستان کے صحافتی منظرنامہ پرکم ہی نظرآیا۔افسوس کہ یہ رسالہ نظر بد کاشکار ہوکربندہوگیا،لیکن حقانی القاسمی کی صحافتی بصیرت کاپرتواپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سہاراگروپ کے رسالہ ’’عالمی سہارا‘‘کے ادبی حصہ میںنظرآتا ہے ۔
حقانی کی تحریروںمیںجومعنویت ،نشتریت اور آفاقیت ہوتی ہیںاس کی ایک مثال دیکھئے:
’’پچھلے دس برسوںمیںہندوستان میںیہ ہواکہ ایساکچھ نہیںہوا کہ جسے سنگ میل،نشان منزل یایادگار کہاجائے ۔ہاں ا س دہائی کو Decade of Decline قراردیاجاسکتا ہے کہ ادبی جہاں میںقلب ونظر کی مہجوری عام رہی۔زوال وبحران کاتسلط رہا۔اس دہائی میںدیکھنے کوصرف یہ ملاکہ اطاعت کی دہلیزپہ دست بستہ بالشتیوں کو بلندی کی خلعت عطاکی گئی۔ ‘‘
(’’پچھلے دس سال کے اردو ادب کاسرسری جائزہ‘‘ادب کولاژ۔صفحہ:356)
ادبی رسالہ کااجراء کس قدر مشکل اوردشوار گزارمرحلہ ہوتاہے،اس کا تجربہ حقانی القاسمی کوبخوبی ہے۔اس تجربہ کااظہارکرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
حقانی القاسمی
’’ایسے بحرانی حالات میںرسائل نکالنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیںہے۔یہ تو کوئی بھی نہیںسوچتاکہ کیاگزرتی ہے قطرے پہ گہر ہونے تک ۔کیسے کیسے شوائد،مصائب،موج حوادث کا مقابلہ کرنے کے بعد ایک رسالہ معرض وجودمیںآتاہے۔‘‘
(ادبی صحافت کاعصری منظرنامہ ’ادب کولاژ‘صفحہ:336)
حقانی القاسمی کایہ کامیاب صحافتی سفر کہاں رکے گانہیںکہاجاسکتا،لیکن اتناضرور ہے کہ حقانی القاسمی آنے والی کئی نسلوں کواپنی صحافتی صلاحیتوں سے متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں،جن سے نئی نسل بہرحال استفادہ کررہی ہے۔امیدہے کہ صحافت کی عظمت کوحقانی القاسمی نئی نسلوںتک پہنچانے کی ذمہ داری کوپوراکریں گے۔٭