اداجعفری کا ادبی سفر

0
354

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹرظفرانہ شاہین

اردوکی معروف شاعرہ اورمشہور خودنوشت نگار اداکا تعلق قدیم تہذیبی تاریخی مرکز بدایوں سے ہے ۔جس کی داغ بیل بدھ نام کے راجانے بیدا مئوکے نام سے ڈالی تھی۔اورمسلم سلاطین نے اسے بقول ادا کے بدایوں بنادیا۔سب سے پہلے جب قطب الدین ایبک نے اسے فتح کرکے اپنی حکومت میں شامل کیا تواسے دہلی سلطنت کی شمالی سرحد کی اہم چوکی قراردیاگیا۔یہ سرزمین اپنی زرخیزی اورشادابی کے باعث ہردورمیں علم وفن کا مرکز رہی ہے۔نظام الدین اولیااسی مٹی کی پیدا وار ہیں ۔مشہورتاریخ نویس عہد اکبری کا ہردل عزیز شخص شہاب الدین مہراورسلطان علاء الدین تک کا مدفن بھی یہی سرزمین ہے اسی سرزمین پر ادانے 22؍اگست 1926میں عزیز جہاں کے روپ میں آنکھیں کھولیں ان کے والد مولوی بدرالحسن خاندانی وڈیرا تھے ۔ان کی والدہ ایک زمین دار خاندان کی بیٹی تھیں۔جہاں یہ عجیب رسم رائج تھی کہ شادی کے بعد بجائے دلہن کے رخصت ہونے کے دولہے کو اپنے گھر سے رخصت ہونا اورسسرال میں ہمیشہ رہنا پڑتاتھا۔اس کی پابندی لازمی سمجھی جاتی تھی ۔لیکن ادا کے والد اس بات کے خلاف تھے وہ محکمہ زراعت سے منسلک ہوگئے تھے جس کی وجہ سے بدایوں کے باہر مختلف شہروں میں ان کی تعیناتی ہوتی رہتی تھی۔ عزیزجہاں کی والدہ اکثر میکے میں ہی رہتی تھیں ۔ ایسے میں ادا کومختلف شہروں کیلئے پھرنا اورمنتقلی کے مسائل سے نبرد آزماہونا اورکبھی ماں توکبھی باپ کے ساتھ رہنے کا مسئلہ کم دشوار گزار نہیں تھا۔ اس کا دل ایک ہی ہوسکتاتھا کہ عزیز جہاں کو ان کے نانہال میں چھوڑ دیا جائے جہاں ان کے ماموں خلیل احمد کے زیرنگرانی ان کی تربیت ہو اورایسا ہی ہوا۔
ادا نے بدایوں میں جس جگہ آنکھ کھولی تھیں وہ جگہ ٹونک والا پھاٹک کے نام سے جاناجاتاتھا۔نام سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس گھرانے کاکوئی فرد ٹونک سے آیاہوگاجس کے نام پر اس کا نام ٹونک والاپھاٹک رکھاگیاہوگا۔حالانکہ ایسا نہیں تھا بلکہ ٹونک میں اس خاندان کے ایک فرد فوجی ملازم تھے ۔وہاں ان کو کوئی مرتبہ یاعہدہ ملااورگھر بھی ان کے رہائش کیلئے ملے۔اس گھر سے وہ اس درجہ متاثرہوئے کہ بدایوں واپس آنے کے بعد انہوں نے مکان اسی نقشہ پر بنوایااوراسی سبب سے ٹونک والا پھاٹک کہاجانے لگااورخود اس کی معترف ہیں ۔وہ لکھتی ہیں :
’’خاندان کے کسی بزرگ نے ریاست ٹونک میں کوئی عہدہ یامرتبہ پایاتھا۔وطن واپس آکرکچھ اسی نقشے پر اس گھرکی بنیاد رکھی گئی ‘‘
ادا نے جس گھرانے میں جنم لیاتھا وہ قدیم جاگیر دارانہ نظام پر سختی سے پابندتھاعورتوں کاگھر سے باہر قدم نکالنا جرم تھا۔کسی طرح کی بغاوت سماج کا کوئی طبقہ برداشت نہیں کرسکتاتھا۔تعلیم کی کوئی خاص ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ہاں فارسی عربی اورمذہبی تعلیم تھوڑی بہت ضرور دی جاتی کہ وہ مذہب پر کاربند رہ سکیں ۔ہر امرمیں عورتوں پر مردوں کی اجارہ داری تھی ۔ان کا کوئی بھی فیصلہ عورتوں کی تقدیر کے برابر تصورکیاجاتاتھا۔کسی امر میں عورتوں کا دخل دینا مردوں کی شان کے خلاف تھا۔مردوں کی بالاتری کے متعلق ادا اپنی خودنوشت میں لکھتی ہیں :۔
’’مردتھے جن کے جنبش ابروپرزندگی بھرکی خوشیوں اورمحرومیوں کے فیصلے ہوتے تھے اورعورتیں جو ان فیصلوں کو دین وایمان کے احکام کا درجہ دیتی تھیں‘‘۔
پردے کا انتظام بہت سخت تھاعورتیں صرف مردوں سے ہی نہیں بلکہ اپنے خاندان کے علاوہ دوسرے خاندان کی خواتین سے بھی پردہ لازمی تھا۔اداجب تین برس کی تھیں ان کے والد کا انتقال ہوگیا اورایک مدت تک ان کی واپسی کا انتظار کرتی رہیں ۔ کیونکہ ان سے بتایاگیا تھا کہ ان کے والد ڈاکٹرکے پاس علاج کیلئے گئے ہوئے ہیں ۔ لیکن جب واپسی کا وقفہ طویل ہوا اورادا کا اصرار بھی بڑھنے لگاتو بالآخران کی والدہ نے ادا کو قبر کی زیارت کرائی اورانہیں صاف صاف بتادیا ۔اس طرح انتظار کا طویل لمحہ ختم ہوکر یادداشت میں تبدیلی کا باعث بنااورانہوں نے اپنے والد کو پھر سے یاد نہیں کیا۔
ادا کی ماں ایک عرصہ تک شوہر کی موت کے غم میں مبتلا ہوکر بے توجہ رہیں ۔لیکن جلد ہی انہوں نے ادا کو نہ صرف ماں کی ممتادی ،بلکہ باپ کی شفقت وعنایت بھی عطاکی۔گھر کی دیگرخواتین کی طرح اداکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا۔ان پر بھی باہر کا دروازہ بندتھا۔اندر آرام وآسائش کی سبھی اشیاء موجود تھیں لیکن آزادی کی خواہش کسے نہیں ہوتی ،چنانچہ ادا کےگھر کے سامنے والی سڑک پر پیدل چلنے اورگھومنے کی خواہش ان کے بچپن میں پوری نہ ہوسکی اوربعد کے زمانے میں جب انہوں نے نصف دنیا کا طواف کیاتوبھی یادیں دم نہ توڑ سکیں اوروہ سڑک ان کی نظروں کے سامنے باربار گھوم جایاکرتی تھی۔
ادا نے نو(9)سال کی عمر میں شاعری شروع کردی ،کیونکہ بچپن میں جوکچھ نظام جاگیرداری کا ماحول دیکھ رہی تھیں ۔اس کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں ہونا ہی تھا۔چنانچہ چشم بصیرت ،مشاہدہ کی گہرائی اورفطری طبیعت نے شاعری کا اظہار کا وسیلہ بنایا۔نو(9)سال کی عمر میں شاعری کیسی رہی ہوگی اورپہلی کاوش پر انسان کو تشہیر کے سلسلے میں جھجھک لازمی ہوتی البتہ اگرپہلی کاوش پر کوئی حوصلہ بڑھانے والا مل جائے تووہ کاوش رنگ لاتی ہے اوراس پہلی کاوش سے ارتقاء کے منازل طے کرنے میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا،بلکہ سارے مراحل بحسں خوبی انجام پاتے ہیں۔ادا کے ساتھ ہی ایسا کچھ ہوا،انہوں نے جب اپنی ماں کے حضور پہلی کاوش کا نذرانہ پیش کیا توماں نے نہ صرف ان کی دلجوئی کی بلکہ ان کو اپنی کوشش کو جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔اس حوصلہ افزائی نے ادا کو ایک بہترین شاعرہ اوربقول فرمان فتح پوری اردوکی باقاعدہ پہلی شاعرہ کی شکل میں پیش کیا۔جس نے اردو شاعری کی تاریخ میں انہیں عالمی شخصیت بننے میں مدددی۔
ادا کے ایام جوانی میں ہندوستان میں ہرطرف شوروہنگامہ کی فضاتھی ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پورے عالم پر تباہی وبربادی کا سایہ تھا۔ایک طرف دوسری جنگ عظیم برپاتھی جس نے انسانیت کو پژمردہ اورآدمیت کو ذلیل کرکے رکھ دیا۔
انسان ہلاکت کے دہانے پر کھڑا تھا،دوسری طرف ہندوستان کی فضامسرت والم کے درمیان ہچکولے کھارہی تھی ۔جہاں اس بات کی خوشی تھی کہ ہندوستان کو غیرملکی تسلط سے آزادی مل رہی تھی ،وہیں ہندوستان دوحصوں میں تقسیم ہورہاتھا ملک کے عوام دوحصوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے درپے تھے اورآنے والاہرلمحہ کسی ہیبت ناک منظرسے قریب ترہورہاتھا بالآخر 1947ء میںملک دوحصوں میں تقسیم ہوگیااوراس تقسیم نے سماج اورقوم کے لوگوں اوربہوبیٹیوں کوجس طرح تقسیم کیااس کا تصوربھی انتہائی بھیانک تھا۔
اسی بھیانک دورمیں یعنی1947ء میں ادا کی شادی ہوگئی اوروہ ادا بدایونی سے ادا جعفری بن گئیں ،ماحول کی خرابی کے باعث انہیں نقاب بھی اتارناپڑا۔یہ پہلا موقع تھا جب ادا گھر سے باہر اس طرح قدم نکال رہی تھیں اس طرح وہ لکھنؤ اورالہ آباد گئیں ان کے شوہر نورالحسن جعفری بہت اچھے مزاج کے انسان تھے ۔انہوں نے ادا کو ہرطرح سے پرسکون رکھنے کی کوشش کی ۔شادی کے بعد 13؍برس تک ادا کا مزاج شاعری کا متحمل نہ ہوسکااورانہوں نے تقریباً شاعری چھوڑ دی ۔لیکن ان کے شوہرنے ان کی نظمیں رسالوں میں دیکھ کر شادی کی خواہش ظاہر کی تھی ۔چنانچہ ادا کے اس عمل سے انہیں بہت صدمہ پہنچااوروہ برابر اصرار کرتے رہے آخرکاادا نے شاعری کا دوبارہ آغاز کیا ان کی اس دور کی شاعری اعلیٰ شاعری میں شمار کرنے کے لائق ہے۔
شادی کے بعدادا کو 1947ء میں ٹونک والاپھاٹک اور1948ء میں بدایوں کو خیربادکہنا پڑا۔ادا کے شوہر نورالحسن جعفری اعلیٰ عہدے پر فائز تھے 1948 میں ان کا تبادلہ اسی عہدے پر پاکستان میں ہوگیا جہاں وہ کئی عہدوں پر فائز رہے اور ہر جگہ اپنی ایمانداری اور دیانت داری کی چھاپ چھوڑی جس وقت نورالحسن جعفری کاتبادلہ ہوا اس وقت ادا اپنی طبعیت کی خرابی کے باعث ان کے ساتھ پاکستان نہیں جاسکیں انہیں کچھ دنوں بعد جانانصیب ہواپاکستان پہنچنے کے بعد اداکراچی میں رہیں اورنورالحسن جعفری کوفنانس میں ملازمت مل گئی ان کاقیام اسلام آباد میںرہا۔ادافوراً بعد اسلام آباد نہ جاسکیں لیکن بعد میں جب گئیں تومستقل شوہر کے ساتھ ساتھ رہیں پاکستان میں ان کاقیام کراچی راولپنڈی لاہور اوراسلام آباد میں رہا اورآخر میں انہوں نے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی ۔اسلام آباد میںانہوںنے ایک ادبی محفل ’سلسلہ‘کی بنیاد ڈالی جس کے اراکین میں معدودے چند لوگ تھے یہاں ہونے والے پروگرام کی نشرواشاعت ممنون تھی۔ابھی انہوں نے یہ ’سلسلہ ‘شروع ہی کیاتھا کہ ان کے شوہر کاتبادلہ لاہور ہوگیااور اداکواچانک لاہور جاناپڑا لاہور سے اسلام آباد پہنچنے کے بعد بھی انہوںنے اس محفل کوقائم رکھنے کی کوشش کی اورباقاعدہ ایک منشورلکھا اوریہ ادبی محفل بڑی دھوم دھام سے چلنے لگی اوربڑی کامیاب محفل رہی اس محفل میں ادب کی بڑی بڑی شخصیات نے شرکت کیں جب اداایک بار پھر کراچی پہنچی توانہوںنے ’سلسلہ ‘کی ایک شاخ وہاں بھی قائم کرنی چاہی لیکن مشتاق یوسفی نے پیشین گوئی کی تھی کہ کراچی کامزاج دوسراہے ۔’سلسلہ ‘کو مشکل سے راس آئے گا۔لیکن ان کی ادبی دوستوں کاحلقہ وسیع ہوگیا۔ادامحفل کی جان بن گئیں مگروہ مزاج کے لحاظ سے سادہ طبیعت کی مالک تھیں ۔ان کاکردار صاف شفاف تھا اوران کادل نیکی کی طرف مائل ۔اپنی ذات سے کسی کوتکلیف پہنچاناانہوںنے سیکھا ہی نہیں تھا لہٰذا اپنی شہرت کے بعد بھی پہلے ہی کی طرح زندگی گزارتی رہیں اورادبی کاوشوں میںمصروف رہیں ۔شاعری کی خاصیت ہوتی ہے کہ جب تک وہ اپنے تازہ اشعار کسی کوسنانہیں لیتا چین نصیب نہیں ہوتا اداکے ساتھ یہ بات بھی نہیں ہے ۔بلکہ وہ شہرت کی خواہاں نہیں وہ زندگی کوادب میں برتنے کے قائل ہیں ۔پاکستان جاکر اداکی شاعر ی نے ارتقائی منازل طے کیں اوران کی کوشش وکاوش اورمحنت کی وجہ سے ہی ان کواردو شاعری کی خاتون اول بھی کہاگیا۔اداکی شاعری کے کل چار مجموعے شائع ہوئے ان کاپہلامجموعہ ان کی شادی کے فوراً بعد ’میں ساز دھونڈتی رہی ‘منظر عام پر آیا ۔دوسرا مجموعہ ’شہردرد‘کے نام سے1967ء میں شائع ہوااورتیسرا مجموعہ ’غزالہ تم توواقف ہو1974 ء ،اورچوتھا اورآخری شعری مجموعہ ’ساز سخن بہانہ ہے ‘کے نام سے 1982ء میں منظر عام پرآیا جس نے اردو شاعر ی کی دنیا میں اداکی دھاک بٹھائی ۔اس کے علاوہ ادانے شاعری کاایک انتخاب ’غزل نما‘کے نام سے ترتیب دیاجس کے بارے میں جمیل الدین عالی کاخیال ہے کہ یہ ایک بلند پایا انتخاب ہے ۔ادانے ایک خود نوشت بھی ’جورہی سوبے خبری رہی ‘کے عنوان سے تحریر کی جواردو نوشتوں میں اپنے دلچسپ اسلوب اورسادہ اورپرکشش طرز بیان کے سبب اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں ۔اداکے پاکستان جانے کے بعد زندگی کے مراحل میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں اوراب انہیں کھلی فضامیں سانس لینے کاموقع ملاتھا ۔چنانچہ ان کے اندر چھپے جوہر ظاہر ہونے لگے ۔ ادا کوشہرت کافی دیر سے ملی اس کی وجہہ یہ تھی کہ اداخاموش طبع واقع ہوئی تھیں ۔انہیں ہنگاموں سے کوئی خاص سروکار نہیں تھا ۔مشاعروں میں شرکت کرناانہیں بہت زیادہ پسندنہیں تھا ۔ایسانہیں تھا کہ ان میں غرور تھابلکہ ان کامزاج ہی ایسا تھاوہ تو اپنے حلقہ عزیز کے لئے سراپاخلوص تھیں لیکن خوش قسمت ضرور تھیں کہ پہلے ہی مشاعر ے میں انہیں کرسی صدارت ہاتھ آگئی جس نے ان کی شہرت کوچار چاند لگادئے ۔
ادا نے زمانے کے پیچ وخم دیکھے لیکن ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی گھر کے مذہبی ماحول کا اثر ہمیشہ ان کے اوپر چھایارہااورعقیدہ وعمل دونوں سے سچی اورپکی مسلمان رہیں ۔اس کا ثبوت ان کی خودنوشت ہے ۔جہاں جگہ جگہ قرآنی آیتوں کے ترجمے اللہ کے فضل اوراللہ کے شکر کی بات کی گئی ہے اورخودنوشت کے علاوہ ان کی بعض نظمیں بھی اس بات کی شہادت دیتی ہیں ۔ادا نے پاکستان جانے کے بعد دنیا کے ایک طویل حصے کا سفرکیاہے امریکہ بہت بار گئیں ہیں اوراس کے چپے چپے سے واقف ہوئی ہیں ۔ان کی خودنوشت وہاں کے مشہور شہروں کے متعلق مکمل جغرافیہ ہے ۔امریکہ کے علاوہ جاپان ،لندن، ترکی،کنیڈا ،تھائی لینڈ،لبنان،ہانگ کانگ اورروس کاسفرکرچکی ہیں اوروہاں کی چیزوں کو سرسری نہیں دیکھا ہے بلکہ جزئیات تک سے وہ واقف نظرآتی ہیں اورآخرمیں انہوں نے مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ جاکر حج اورعمرہ کی سعادت بھی حاصل کرچکی ہیں ۔اس طویل سفرنے ادا کے ذہن کووسعت فکر کو گیرائی اورمشاہدے کو گہرائی عطاکی ہے۔جس کی وجہ سے ان کی شاعری اعلیٰ نمونہ بن سکی ہے ۔ جوفن پر محیط ہوتے ہوئے بھی زندگی کے رزم گاہ سے بھی عبارت ہے۔ادا جعفری نے سفرتوبہت کیا لیکن ان کی کیفیت نگری نگری پھرامسافر گھرکا راستہ بھول گیاوالی نہیں ہے ۔بلکہ انہیں اپنے وطن سے محبت ہے اوراس کو کسی قیمت پر چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں اوراپنے اس وطن کو دوسرے ممالک سے بہتر سمجھتی ہیں ۔
ادا جعفری کو ادبی خدمات اورخلوص کے صلے میں 1965ء میں آدم جی ایوارڈ 1981ء اور1997ء میں پاکستان حکومت کی جانب سے تمغہ امتیاز اور2003ء میں کامل فن کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔جس نے اردوادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی اپنی جانب توجہ مبذول کرنے میں اہم کردار اداکیا۔
اس کے علاوہ ان کے دوسرے مجموعے ’’شہردرد‘‘ پر بھی انعام مل چکاہے ۔
ادا کے شوہر کی ایسی ملازمت تھی کہ ان کا تبادلہ ہوتارہتاتھااوراسلئے ادا کو ان کے ساتھ مختلف شہروں میں سکونت اختیار کرنی پڑی اورجب نورالحسن جعفری سبکدوش ہوگئے توانہیں انجمن اردوپاکستان کا صدربنادیاگیااور ان کی مستقل سکونت کراچی میں ہوگئی ۔ حالانکہ ادا کو پاکستان کے تمام شہروں میں اسلام آبادسب سے زیادہ پسند تھا۔
ادا کے پاکستان جانے کے بعد اورادبی سرگرمیوں میں شریک ہونے کی وجہ سے ان کا حلقہ بہت وسیع ہوگیا پاکستان کے مشاہیر ادب سے سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہوا ۔ادبی شخصیتوں سے لے کر خطاطی اورتاریخی شخصیتوں سے بھی وہ متعارف ہوئیں ۔چنانچہ احمدندیم قاسمی ،فیض احمدفیض ، علی سردار جعفری ،زہدہ حنا،خدیجہ مستور،حاجرہ مسرور،مختارزمن ،صادقین وغیرہ ان کے حلقہ احباب میں شامل تھے ۔جن میں ایک دوسرے کیلئے خلوص تھا۔ایثار کا جذبہ تھااورسبھی بے غرض کے اعلیٰ نمونہ تھے ۔اس کی وجہ بھی ادا کا اعلیٰ اخلاق تھاجن سے ایک بار تعلق استوار ہوا ادا نے اس کو پوری زندگی نبھایا۔
عادل نگر،لکھنؤ
��

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here