یہ چوروں کی بستی ہے

0
263

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

محمد قمر سلیم

میرے ایک دوست نے مجھ سے فون کرکے کہاارے ستّار سیٹھ تمہیں معلوم بھی ہے، چوروں کی بستی میں لوگ بھوکے مر رہے ہیں وہاں بھی کچھ امداد پہنچاؤ۔ یوں تو وہ بستی غریبوں کی بستی تھی لیکن چوروں کی بستی کے نام سے مشہور ہوگئی تھی۔یہ بستی بہت ہی گھنی آبادی پر مشتمل ہائی وے کے پاس بسی ہوئی تھی۔۹۰ فی صد سے زیادہ لوگ غریب تھے۔ دس فی صد میںجرائم پیشہ لوگ اور کچھ غربت کی سطح سے اوپر والے لوگ تھے۔ بستی کے بہت سے مکین بھیک مانگ کر گزارا کرتے تھے۔ میرا گا رمینٹس کا بہت بڑا کام تھااوراکثر مزدوروں کی تلا ش میں اس بستی میںجانا ہوتا تھا ا سی لیے میں اس بستی کی گلیوں سے اچھی طرح واقف تھا۔ چھوٹی چھوٹی لا تعداد پتلی پتلی گلیاں کسی بھول بھلیاں سے کم نہیں تھیں۔چوری کرکے چور کہاں چلا جاتا تھا کسی کو بھی نہیں معلوم ہوتا تھا،پولس کے لیے اسے تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔بستی کے چاروں کناروں پر عوامی بیت الخلا بنے ہوئے تھے جو غلاظت کے ڈھیر تھے۔کیسے یہ لوگ زندگی گزار رہے تھے یہ وہ ہی جانتے تھے یا اوپر والا۔شاید اللہ کا خاص کرم تھا ان لوگوں پر کہ اتنی غلاظت ہونے کے بعد بھی وہ جی رہے تھے۔یہی نہیں بلکہ اس شہر کے مکینوں پر خدا کی خاص مہربانی ہی تھی کہ غلاظت کی وجہ سے کوئی بڑی بیماری نہیں پھیل رہی تھی ورنہ یہ شہر ویرانہ ہوجاتا۔
یہ بستی چوروں کی بستی کے نام سے بدنام تھی لیکن چور مشکل سے پانچ سے دس فی صد ہی ہوں گے۔یہ چور تھے بھی عجیب۔بہت چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتے تھے اپنی ضرورت کے مطابق۔اپنی بستی کے باہر کھڑے ہو جاتے تھے، گاڑی والوں کو روکتے اوراپنی ضرورت کے حساب سے سامان یا پیسہ لیتے پھر رفو چکر ہوجاتے ۔وہ چھوٹی چوری کرتے تھے لیکن واقعات اتنے زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ بستی بدنام ہو گئی تھی اور چراغ نگر بستی سے علاقہ چوروں کی بستی ہو گیا۔جرائم پیشہ لوگ بھی ان کی غربت کا خوب فائدہ اٹھاتے تھے صرف ایک وقت کی روٹی کا لالچ دے کر۔لوگ لاک ڈاؤن میں بھی ادھر سے ادھر گھوم رہے تھے کچھ تو اپنی ذاتی حاجتوں کی وجہ سے، کچھ مزدوری کی تلاش میں شاید بھولے بھٹکے کسی کو کچھ مزدوری مل جائے اور ایک وقت کے کھانے کا انتظام ہو جائے۔کچھ امداد کی آس لگا ئے ہوئے باہر آتے تھے۔ادھر دو تین دن سے پولس اور انتظامیہ نے لاک ڈاؤن میں بہت سختی کر دی تھی۔پورے علاقے کو سیل کر دیا گیا تھا۔پولس کے اجازت نامے کے بغیرکوئی بھی بستی میں نہیں گھس سکتا تھا۔اس کی وجہ یہاں ہونے والی موتیں تھیں۔دودن میں بیس بائس لوگ مارے جا چکے تھے۔میں دوپہر میں تین ٹرکوںاور پانچ چھ چھوٹے ٹیمپوؤں میں کھانے کا سامان لیکر گیا۔ایک ٹرک میں صرف تیار کھانا تھا جبکہ دو میں خرد اشیا ء ۔جانے سے پہلے میں نے اس علاقے کے پولس انسپکٹر سے رابطہ قائم کیا،وہ مجھے جانتا تھا۔میں نے اس سے بستی میں جانے کی اجازت مانگی لیکن اس نے مجھے منع کر دیا کہ حالات بہت خراب ہیں۔جب میں نے اسے بتایا کہ میں وہاں امدادی اشیاء اور دوا ئیاں تقسیم کرنا چاہتا ہوں تو وہ اجازت دینے پر رازی ہوگیااور اس نے میرے ساتھ فورس کے دس بارہ سپاہی مجھے دے دیے ۔وہ جانتا تھا کہ جس بستی میں میں جا رہا ہوں وہ یہ تمام چیزیں دیکھ کر لوٹ مار شروع کر دیں گے۔
دور سے ہی بدبو احساس دلا رہی تھی کہ بستی آگئی ہے۔میں نے ٹرکوں کو بستی کے باہر کھڑا کر دیا ۔تنفس کی وجہ سے میرا دم گھٹ رہا تھا مگر مجبور تھا۔بستی کا اطراف پولس چھاؤنی لگ رہا تھا۔مجھے اطمینان ہو اکہ میں آسانی سے سامان بانٹ سکوں گا۔میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ میں تقسیم کی شروعات کہاں سے کروں۔اسی بستی میں ایک آٹو والا میری جان پہچان کا تھا۔میں اکثر کپڑا لانے اور لے جانے کا کام اس کے ہی آٹو سے کرتا تھا۔چھ مہینے پہلے ہی میں نے ٹیمپو لے لیے تھے اس لیے کئی مہینوں سے ادھر آنا نہیں ہو اتھا۔میںنے بستی کی تنگ غلیظ گلیوں میں گھسنا شروع کیا۔بدبو سے مجھے الٹی ہو نے لگی۔ میں نے سوچا یہاں کوئی بھی کرونا سے نہیں مرا ہوگا۔ان لوگوں کو مارنے کے لیے ان کی بھوک اور بدبو کافی ہے۔بعد میں مجھے انسپکٹر نے بتایا تھا کہ ایک بھی موت کرونا سے نہیں ہوئی ہے۔تین دن سے علاقہ سیل تھا اب لوگ باہر بیت الخلا بھی نہیں جا پا رہے تھے اس لیے اپنے گھروں کے سامنے ہی اپنی حاجتیں پوری کر رہے تھے۔
میں گلیوں میں کودتا پھاندتا ہوا اکرم کے گھر پہنچا۔میں نے اس کے گھر جاکر کنڈی کھٹکھٹائی۔اس کی بیوی نے مجھے پہچان لیا ،جیسے ہی میں نے اکرم کے بارے میں دریافت کیا، وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
تھوڑا چپ ہونے کے بعد بولی ،’کئی مہینوں سے بستر پر ہیں۔کیسنر ہو گیا ہے۔‘
مجھے سن کر بہت تکلیف ہوئی ،وہ بہت اچھا انسان تھا ۔ایمانداری سے کمائی کرتا تھا اور پانچ بچوں، جو ایک سال سے لیکر نو سال کے تھے، کی کفالت کرتا تھا۔ میں نے اس کی بیوی سے پوچھا ،’پھر تم لوگ کا گذر بسر کیسے ہو رہا ہے۔‘
وہ بولی ،’میںتھوڑی بہت سلائی کر لیتی تھی لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ بھی بند ہے۔‘
میں نے کہا،’ابھی تمہارا کھانا پینا کیسے ہو رہا ہے۔‘
اس نے دوپٹے سے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے کہا،’دو دن سے بچوں کے منھ میں دانا بھی نہیں گیاہے۔‘
میں اس کی کھولی میں گھس چکا تھا۔چاروں بچے بیمار وںکی طرح پڑے ہوئے تھے۔چھوٹی بیٹی ماں کے سینے سے چمٹی اس کا خون چوس رہی تھی۔میں اکرم کی طرف بڑھا ،اس کے آنسو ا یک میلے سے تکیے میں پیوست ہورہے تھے۔مجھ سے اس کے آنسو نہیں دیکھے جا رہے تھے۔میں نے دس بارہ کھانے کے پیکٹ اس کو دیے اور اکرم پر غصہ بھی کیالیکن اس کی خودداری نے اسے منھ کھولنے سے روکے رکھا۔اکرم کی بیوی نے مجھے بتایا کل شام وہ کئی گھنٹے کھڑے ہونے کے بعدبہت مشکل سے کھانے کا ایک پیکٹ لیکر آ رہی تھی کہ معلوم نہیں، کون وہ پیکٹ ہاتھ سے چھین کر لے گیا۔میں نے اسے دلاسہ دیا،وہ فکر نہ کرے۔ اس کی کھولی سے نکلتے ہوئے میں نے اسے کچھ روپے دیے ۔اکرم نے حسرت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا۔
باہر نکل میرے ہوش اڑ گئے ۔کئی سو لوگوں کی بھیڑ گلی میں اکٹھی ہو گئی تھی اور بے قابو ہو رہی تھی۔ایک پولس کا نوجوان میرے پاس آیا اور بولا صاحب یہاں سے نکلیے نہیں تو یہ آپ پر ٹوٹ پڑیں گے۔اتنا شور تھا کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔اچانک میں نے اس پولس والے سے پوچھا تمہارے پاس لاؤڈ اسپیکر ہے۔وہ جلدی سے پولس جیپ سے سسٹم لیکر آیا ۔
میںچلّا چلّا کر اعلان کرنے لگا،’دیکھو شور مچانے سے کچھ نہیں ہوگا،تم لوگ میری بات سنو ! میں تم سے وعدہ کرتا ہوںپوری بستی کو کھانا ملے گا اور جب تک لاک ڈاؤن تب تک ملے گامگر تم سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں جاؤتاکہ میں اورساتھی کھا نا اور دوسری چیزیں بانٹ سکیں۔‘ میں خود حیرت میں پڑ گیا تھا۔بھیڑ آہستہ آہستہ چھٹنے لگی اور سب اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے اس معصوم بچے کی طرح جس ماں کہتی ہے چپ جا بیٹا میں ابھی تیرے لیے دودھ لیکر آتی ہوں اور وہ روتے دودھ کی آس میں خوش ہوکر چپ ہوجاتا ہے۔میں اور میرے ساتھی گلی گلی میں جاکر کھانے کے پیکٹس اور دوسری چیزیں تقسیم کر رہے تھے۔
میں ایک گلی میں سامان بانٹ رہا تھا کہ مجھے یاد آیا کہ یہاں میں اپنی بیوی جو ایک ٹیچر ہیں ان کے ساتھ ان کی ایک طالبہ کے گھرآچکا ہوں جب اس بچی کے باپ کا انتقال ہوا تھا۔میں نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔دروازہ کھلتے ہی وہ بچی نظر آئی ،اس نے بھی مجھے پہچان لیا تھا۔ آٹھ بہنوں میں وہ سب سے بڑی تھی اور اب کسی اسکول میں نوکری کر رہی تھی۔اس نے خود شادی نہیں کی تھی لیکن اپنی دو بہنوں کی شادی کر چکی تھی اورباقی کی کفالت کر رہی تھی۔اس کو دیکھ کر میںکانپنے لگا۔اس کی آنکھوں میں گہرے حلقے پڑ گئے تھے ۔جسم ایساتھا جیسے ہڈیوں پر چمڑی منڈ ھ دی گئی ہو۔
میں نے اس سے پوچھا ،’امی کہاںہیں؟‘
وہ افسردہ ہوکر بولی ،’انتقال ہوگیا۔‘
’پھر تم ہی سب کی دیکھ بھال کر تی ہو۔‘میں نے اس سے کیا
’نہیں ابھی تو سبھی بہنیں کچھ نہ کچھ کرتی ہیںلیکن ان کی کمائی میں بینک میں جمع کرتی ہوں سر،شادی جو کرنا ہے۔‘وہ ایک بزرگ کی طرح بولی۔
میں نے اس کو ضروری سامان کے ساتھ کچھ رقم بھی دے دی۔بہت مشکل سے اس نے وہ رقم اور سامان لیا۔
وہ اندر جاتے جاتے بولی،’آپ فرشتہ بن کر آئے ہیں سر،سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔کل سے تو ہم لوگ فاقے پر تھے۔‘ مجھ میں اس سے زیادہ سننے کی ہمت نہیں تھی۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور دلاسہ دیا ۔اس کو اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہا،’کوئی بھی ضرورت ہو تو بلا جھجک مجھے فون کر دینا۔‘ وہ مجھے دعائیں دیتی رہی اور میں آگے بڑھ گیا۔
میں نے ایک اور گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔اندر سے روتی ہوئی ایک عورت نکلی جس کا نام سندھیا تھا ۔میں نے پوچھا،’ کیا ہوگیا؟
جواب ملا،’بچے کو بہت تیز بخار ہے ۔‘ میں کمرے کے اندر گیا ۔بڑی بہن اس کے سر پر اپنے جمپر کے دامن کوگیلا کرکر کے اس کے ماتھے پر رکھ رہی تھی ۔ وہیں قریب میں اس کا باپ غم اور صدمے کی مجسم تصویر بنا اکڑوں بیٹھا تھا۔

میں نے اس سے پوچھا،’ڈاکٹر کو نہیں دکھایا۔‘
’صاحب کھانے کے پیسے نہیں ہیں تو ڈاکٹر کے پیسے کہاں سے لائیں۔ کھانے کے اگر پیسے ہوتے تو یہ بیمار ہی نہیں پڑتا۔‘ وہ ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گئی۔
’کیا مطلب؟‘ مجھے تشویش ہو رہی تھی۔
’صاحب، دو دن سے فاقے سے تھا۔باہر جاکر کچھ نہیں ملا تو نالے کے پاس جو گھاس لگی ہے وہ کھا کر آگیا۔بس جب سے ہی بخار میں پڑا ہے۔‘ وہ متواتر روئے جا رہی تھی۔
’کیوں تم کچھ کام نہیں کرتے ہو۔‘ میں نے اس کے شوہر کو مخاطب ہوتے ہو ئے کہا۔وہ پتھر کی مورت بنا بیٹھا رہا ۔میرے کہنے پر اس کے چہرے پر غصے کے آثار ضرور نمایاں ہوئے تھے۔
اس کی بیوی بولی ،’دہاڑی پر کام کرتا تھا۔جب سے یہ بند ہوا ہے ہمارے نصیب پر بھی تالے لگ گئے ہیں۔‘
میں نے سامان کے ساتھ ساتھ اسے بھی کچھ نقدی دی ۔اب میں بہت الجھنے لگا تھا۔لوگوں کی داستانیں سن سن کر دل بیٹھا جا رہا تھا۔سوچا اب گھر چلا جاؤں لیکن قدم وہاں سے جانے کے لیے اٹھ ہی نہیں رہے تھے۔ہر ایک کی داستان اتنی دردناک تھی کہ میںاپنے آپ کو بھولنے لگا تھا۔بھول گیا تھا کہ میں ایک بدبودار غلیظ بستی میں ہوں۔
اب میرا رخ اس گھر کی طرف تھاجس کا پتہ مجھے میرے دوست نے دیا تھا۔میں نے مقامی آدمی کی مدد سے اس گھر کو تلاش کیا۔ میں اس گھر کے سامنے کھڑا تھا ۔میں نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔اندر سے ایک عورت نکلی ،اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ میری آواز کی طرف رخ کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ عورت اندھی ہے۔میں نے کہا،’آپا،آپ کے یہاں کوئی مرد یا کوئی اور نہیں ہے۔‘
وہ بولی ،’بھیا،میں ہی ہوں اور میری چار بچیاں ہیں۔ہم سب اندھے ہیں۔کوئی مرد نہیں ہے۔بولو بھیا۔‘
’آپا ہم لوگ آپ کے لیے کھانا اور دوسری چیزیں لائیں ہیں۔‘ میں نے کہا۔
’اس نے خوش ہوتے ہوئے وہ پیکٹس اور دوسرا سامان لے لیا۔اس نے اپنی بیٹیوں کو آواز دی اور سامان ان کو رکھنے کے لیے دیا۔سامان بچیوں کو دے کر بولی،’بھیا ! کیا ہو رہا ہے ۔کرونا کوئی تہوار ہے کیا؟سنا ہے بچوں کے اسکولوں کی بھی چھٹیاں ہو گئی ہیں۔ کئی دنوں سے ہمارے گھربھی اچھے اچھے کھانے آرہے ہیں۔‘
’نہیں آپا،یہ تہوار نہیں ہے۔ آپ کو نہیں معلوم ہے کیا؟‘میں نے کہا۔
’ہمیں کون بتائے گا بھیا۔ہم گھر سے نکلتے ہی کب ہیں۔میرا شوہر ہماری پرورش کرتاتھا جب سے اس کی موت ہوئی ہے تو کبھی کوئی اللہ کا بندہ ہمیں کھانا دے دیتا ہے۔کبھی ہمارے پڑوسی ،کبھی کچھ بچے سامان لاکر رکھ دیتے ہیں، جب تک وہ سامان چلتا رہتا ہے ،بھوکے نہیں سوتے ہیں ورنہ ہفتے میں کبھی دو دن تو کبھی تین دن بھوک سے لڑتے لڑتے سو جاتے ہیں ۔بھیا ادھر ایک ہفتے سے تو روزانہ ہی کھانا مل رہا ہے ۔یہی سوچ کر پوچھ رہی تھی کہ کوئی تہوار ہے کیا۔کچھ بھی ہو بھیا میرا دل تو یہی کہتا ہے کہ یہ دن کبھی نہ جائیں، میری بچیاں بھی پھرکبھی بھوکی نہیں سوئیں گی۔ ‘
میں اس کا جواب سن کر تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میرا ذہن بوجھل ہو گیا تھا۔آنکھیں نم تھیں اور شرم سے میں نے اپنا چہرہ جھکا لیا تھا۔
میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب مجھ میں اور برداشت کی ہمت نہیں ہے ۔تم لوگ تقسیم کر دو اور دیکھو کوئی گھر چھوٹنے نہ پائے ، تم پیسے کی فکر مت کرنا۔میں جانے کے لیے مڑ ہی رہا تھاکہ ایک مقامی آدمی مجھ سے بولا صاحب ایک اور گھر میں چلیے اس کے باپ کی کل ہی موت ہوئی ہے۔میرے قدم اس کے پیچھے بڑھ گئے۔اس گھر سے سے ایک سولہ سترہ سال کا نوجوان باہر نکلا۔
میں نے اس سے پوچھا،’ کیسے موت ہوئی ۔‘
اس نے بتایا،’ پتہ نہیں ،کرونا کاشک بھی تھا۔
‘ ’کیوں جانچ نہیں ہوئی تھی۔‘ میں حیران تھا۔
’صاحب جانچ بڑے لوگوں کی ہوتی ہے، غریبوں کی نہیں۔‘ وہ غصے سے بولا۔
’وہ کیا کرتا تھا۔‘ میں نے پوچھا۔
’اسپتال میں چپراسی تھا۔شاید اس کو یہ وبا لگ گئی ہو ۔‘ اسے یقین نہیں تھا۔
’پھر ان لوگوں نے تمہیں لاش دی کیا۔ ‘میں نے پوچھا۔
’ہاں، کاش وہ لاش مجھے نہ دیتے ۔‘ وہ بہت مایوس ہوکر بولا
’کیوں ؟ کیوں؟ ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔‘ مجھے تشویش ہونے لگی۔
’ہاں سر، کم سے کم میرے اوپر ان کی لاش جلانے کا گناہ تونہ ہوتا ۔‘ وہ اپنی لاچاری ظاہر کرتا ہوا بولا
’ کیوں ؟ تم نے دفنایا کیوں نہیں؟‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’ کہاں دفنا تا سر، ان کی میت لیے لیے ہر قبرستان کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ سب نام نہاد لوگوں نے اپنے اپنے قبرستان میںدفنانے سے منع کر دیا ۔اپنے رہنے کی جگہ نہیں ہے ۔گھر میں تو قبر نہیں بنا سکتا تھا۔مجبور ہوکر اپنے ہاتھوں سے جلا دیا میں نے انھیں۔‘وہ میرے کندھے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میں سوچ رہا تھا۔میں کس کو دوش دوں ۔انساینت نے دم نہیں توڑا ہے ،انسانیت مر گئی ہے تبھی تو دو گز زمین بھی نہ ملی اسے دفنانے کے لیے۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر
[email protected]
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here