حفیظ نعمانی
جھارکھنڈ میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں بھی وہی ہورہا ہے جو راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ہورہا ہے علیم الدین انصاری نام کے ایک 55 سالہ تاجر کو جو اپنی گاڑی میں ہمیشہ کی طرح گوشت لے کر آرہے تھے بی جے پی کے غنڈوں کی بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ خدا جانے کیسے پولیس نے گرفتاری کی اور سیشن عدالت نے علیم الدین انصاری کے قتل کے الزام میں گیارہ غنڈوں کو عمرقید کی سزا دے دی۔ پورے ملک کے انصاف پسندوں نے اس کی تعریف کی اور ہم نے بھی عدالت اور پولیس کا قصیدہ لکھا۔ ہر مقدمہ کی طرح اسے بھی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ اور جتنے دن یہ مقدمہ چلا بی جے پی کے بڑے بڑے اس فیصلہ کے خلاف میدان میں آتے رہے ان بڑوں میں یشونت سنہا جیسے ملک کے عظیم لیڈر کے بیٹے جینت سنہا بھی تھے جو مرکز میں کابینی وزیر ہیں۔ انہوں نے اور ماحول کو اتنا گرم کردیا کہ ہائی کورٹ کے جج صاحبان بھی متاثر ہوگئے اور انہوں نے گیارہ میں سے آٹھ کو ضمانت دے دی اور سزا معطل کردی۔
یہ آٹھ غنڈے جب ضمانت پر آئے تو جینت سنہا نے انہیں بلایا اور ان کے گلے میں پیلی مالا ڈالی اور مٹھائی کھلائی۔ وہ پریشان اس سے تھے کہ ان کے والد ماجد یشونت سنہا بی جے پی اور وزیراعظم پر مسلسل حملے کررہے تھے۔ اور بیٹے کو یہ ڈر تھا کہ باپ کی سزا بیٹے کو نہ ملے اور اس کا ٹکٹ نہ کٹ جائے؟ انہوں نے وہ کیا جو اترپردیش اور راجستھان میں ہوچکا تھا۔ اترپردیش میں علی گڑھ میں ٹھیلہ لگانے والے دو لڑکوں جن میں ایک ہندو تھا اور ایک مسلمان جگہ کے معاملے میں کچھ کہاسنی ہوگئی اور دوسرے دن ہندو لڑکے نے رات میں اس کے گھر میں گھس کر دونوں بھائیوں کو گولی ماردی اور فرار ہوگیا۔ پولیس نے گھر کے دوسرے ممبروں پر دبائو بنایا تو بی جے پی کے لوگوں نے کہا کہ اسے حاضر کردو ہم مقدمہ سے چھڑا لیں گے۔ اور دوسرے دن ہی خبر آگئی تھی کہ اس کے گلے میں ہار ڈال کر اور جے شری رام اور وندے ماترم کے نعرے لگاتا ہوا جلوس گیا جیسے الیکشن جیت کر جارہا ہے اور عدالت میں حاضر کردیا۔ راجستھان میں بھی تین ملزموں کو جن پر پیٹ پیٹ کر شہید کرنے کا مقدمہ چل رہا تھا جیل سے پولیس عدالت لے جارہی تھی راستہ میں ایک جوان خوبصورت پیلی ساڑی پہنے طوائف جیسی عورت نے روک کر ان لڑکوں سے کہا کہ اگر تم کو پھانسی بھی ہوجائے تو تم بھگت سنگھ ہوجائوگے۔ اور ہم نے خود دیکھا کہ پولیس والے اس رنڈی کی باتوں پر مسکرا رہے تھے۔
جھارکھنڈ کے ہزاری باغ میں وہی ڈرامہ ہوا۔ جس کے دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جینت سنہا اپنے ہاتھ سے ان کو ایسے مٹھائی کھلا رہے ہیں جیسے شوقین اپنے کتوں کو کھلاتے ہیں اور دونوں کے چہروں سے محسوس ہورہا ہے جیسے وہ کوئی جرم کررہے ہیں۔ اب یہ تو ہائی کورٹ کے جج جانیں کہ انہوں نے اتنی جلدی ضمانت کیوں دی اور سزا معطل کیوں کی؟ لیکن ایک عظیم باپ پر جو گذری وہ ان جملوں سے اندازہ ہوگا کہ اب تک ہم اپنے آپ کو ایک لائق بیٹے کا نالائق باپ سمجھتے تھے لیکن آج کہنا پڑا کہ ہم نالائق بیٹے کے لائق باپ ہیں۔ یشونت سنہا صاحب بہت بڑے آدمی ہیں اور یہ بھی ان کی بڑائی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو باپ کو بے عزت کرنے والی پارٹی کی دی ہوئی وزارت قبول کی ان کو تو اسی وقت ٹھکرا دینا چاہئے تھا۔ اور علیم الدین انصاری کے قاتلوں کو مٹھائی کھلانے کے بجائے ہائی کورٹ کے ججوں پر تنقید کرنا چاہئے تھی کہ انہوں نے اتنی جلدی ضمانت کیوں دی؟ بدقسمت ہے وہ بیٹا جس کا باپ اپنے بیٹے کی حرکتوں سے شرمندہ ہو۔
صحافت سے رشتہ نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے کہنے کو کوئی کچھ کہے لیکن ہم نے اپنے کو نہ کبھی صحافی کہا اور نہ لکھا ہاں لکھنے کا شوق 1950 ء سے تھا وہی شوق آج بھی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم نے اٹل جی کا وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب وہ لکھنؤ آتے تھے اور اعلان ہوتا تھا کہ اٹل بہاری بولے گا سارا لکھنؤ ڈولے گا۔ اور جب وہ تقریر کرتے تھے تو کانگریس نشانہ ہوتی تھی اور مسلمانوں پر چھینٹے پڑتے تھے لیکن کوئی جملہ دل آزاری کا نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے ان کی وہ تقریر بھی سنی تھی جب وہ جنتا پارٹی کے وزیر خارجہ تھے اور بیگم حضرت محل پارک میں بول رہے تھے۔ مجمع میں سوال کئے گئے کہ کیا کیا وعدے کئے گئے تھے کیا وہ پورے نہیں ہوں گے؟ اس کا جو شاعرانہ جواب دیا تھا وہ بھی یاد ہے کہ ہم کو حکومت کرنا نہیں آتی تم نے اچانک لاد دی ہے تو صبر کرو سب وعدے پورے ہوں گے۔
اور جب 2002 ء میں گجرات کو وزیراعلیٰ مودی نے خون سے نہلا دیا تو انہوں نے مودی جی کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا تھا مگر اڈوانی جی اَڑ گئے کہ ابھی نہیں۔ لیکن انہوں نے مودی جی سے رام راج نہ کرنے کا ذکر ضرور کیا۔ بی جے پی کی قیادت میں سب سے گرم لیڈر اٹل جی تھے لیکن انہوں نے جب 2004 ء میں اپنا آخری الیکشن لڑا تو مسلمانوں کو آواز دی اور ان کی آواز پر مسلمان گئے بھی لیکن جیسے ان کے ساتھیوں نے ان کی آواز میں آواز نہیں ملائی ایسے ہی عام مسلمانوں نے ان مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا اور اٹل جی ہار گئے۔ اگر اٹل جی کے زمانہ میں پیٹ پیٹ کر قتل کردینے کے واقعات ہوئے ہوتے اور جینت سنہا وزیر ہوتے ہوئے اتنی ذلیل حرکت کرتے تو ہمیں یقین ہے کہ وہ مودی جی کی طرح منھ پر ٹیپ لگائے نہ بیٹھے ہوتے۔ یقین نہ ہو تو آج بھی ان سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی ان کی بہادری ہے کہ انہوں نے کہا کہ کنوارہ تو میں بھی ہوں مگر اس حد تک کہ شادی نہیں کی ہے۔ آج جب یاد آتا ہے کہ کتنا کتنا ان کے خلاف لکھا ہے تو خیال آتا ہے کہ ہم نے زیادتی کی لیکن یہ کیا معلوم تھا کہ ایسے دن بھی دیکھنا پڑیں گے؟
Mobile No. 9984247500
Also read