مندر توڑکر نہیں بنی مسجد، اسے منہدم کرنا اور اس میں مورتیاں رکھنا دونوں غیرقانونی، یعنی رام للا کامعجزنماظہور نہیں ہوا
امام ہند رام للا کی ہوئی 2.77ایکڑ زمین
شیعہ وقف بورڈ اور نرموہی اکھاڑے کی اپیل خارج,سنی وقف بورڈ کو ملے گی 5 ایکڑ زمین
نہ شــریعت بچی اور نہ مسجد
9415018288
آج کے بعد شاید کبھی بابری مسجد کا نام اپنے وجود کیلئے نہ لیا جائے لیکن اس کے لئے تو ہمیشہ لیا جاتا رہے کہ اس نے کتنوں کو زمین سے عرش تک پہنچا دیا، کتنوں کو سیاسی رہنما بنا دیا کتنوں کو برسراقتدار کردیا اور کتنوں کو ٹیلیویژن اور اخباروں کا چہرہ بنا دیا لیکن یہ سب لوگ مل کر بھی نہ طلاق ثلاثہ پر قانون بننے سے روک سکے اور نہ بابری مسجد اپنی جگہ پر قائم رکھنے یا بنوانے میں کامیاب ہوسکے اس کے برعکس اگر یہ مدعا ایسے دانشوروں کے پاس ہوتا جن کے دل میں قوم کا درد ہوتا تو جس وقت ایک سیاسی جماعت کو برسراقتدار ہونے کے لئے واقعی میں مندر کی ضرورت تھی اس وقت اس سے جامعہ عثمانیہ جیسی یونیورسٹی مانگ کر قومی مفاد میں کوئی پرُوقار معاہدہ کیا جاسکتا تھا، لیکن آج وہ وقت ختم ہوگیا اور آپ کو آگے کی سیاست کرنے کیلئے پانچ ایکڑ زمین دے دی گئی جس سے آپ اپنے فروغ کیلئے آگے کی منصوبہ بندی کرتے رہیں اور ٹیلیویژن اور اخباروں میں نظر آتے رہیں۔
موجودہ صورت حال میں مرکزی و ریاستی حکومت کی موجودگی میں آستھا اور اعتماد کے عوامی سیلاب کو دیکھتے ہوئے قومی یکجہتی کے مدنظر اس سے اچھا فیصلہ شاید ممکن بھی نہیں تھا، یہ فیصلہ کسی کی جیت اور ہار کا نہیں کیونکہ یہ فیصلہ نہ کسی کے خلاف آیا ہے اور نہ کسی کے حق میں، یہ فیصلہ تو امام ہند شری رام للا کے حق میں آیا ہے جن کا نہ صرف ہندو بلکہ سبھی مسلمان بھی احترام کرتے ہیں آج سے برسوں پہلے اسی بھارت کی زمین پر علامہ اقبال نے انہیں امام ہند کہا تھا یعنی پورے ہندوستان کے امام۔ اگر ظفریاب جیلانی صاحب کے زبانی ان کے کچھ اور حقائق کو منظور بھی کرلیا جاتا تو بھی یہی فیصلہ آتا کیونکہ اس کے علاوہ کسی دیگر فیصلے کا نافذ ہونا ناممکن تھا، ہاں اگر ملک کے تمام دانشوروں اور علمائوں کے ساتھ اس مقدمے میں بابری مسجد کے سبھی فریقین بھی پہلے سے ہی یہ اعلان کردیتے کہ اگر فیصلہ ہمارے فیور میں بھی آیا تو ہم ملک میں قومی یکجہتی بنائے رکھنے کے لئے یہ زمین امام ہند شری رام کے مندر کے لئے خوشی خوشی دے دیں گے، تو ہوسکتا ہے کہ جتنا آستھا میں یقین کیا گیا اُتنا سچائیوں پر بھی یقین کیا جاتا۔
70 سال سے مسجد میں رام للا کا خود بخود ظاہر ہونے کو یہ کہہ کر انکار کرنا کہ مسجد میں مورتیاں رکھنا غیرقانونی تھا پھر واضح طور سے یہ کہنا کہ مندر توڑکر مسجد بنانے کے کوئی ثبوت نہیں ملے اور 1992 ء میںمسجد کا گرایا جانا غیرقانونی تھا، اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم فریق کے حقائق قابل غور تھے، اور اسی کی منظوری کے لئے سنی وقف بورڈ کو 2.77 ایکڑ زمین کی جگہ اجودھیا میں کسی اچھی جگہ پر پانچ ایکڑ زمین دیئے جانے کے ہدایات دیئے گئے، کورٹ کے اس احکام کو مسلم فریق کو اپنی جیت کی شکل میں دیکھنا چاہئے کیونکہ جہاں اس احکامات نے اسلام کو اس الزام سے بری کردیا کہ کسی کی عبادت گاہ کو توڑکر اپنی عبادت گاہ کبھی نہیں بنائی جاسکتی وہیں کورٹ کے اس احکام میں یہ بھی واضح کردیا گیا کہ آستھا اور اعتماد کے نام پر کئی بار غیرقانونی کام کئے گئے۔
آج جو فیصلہ آیا ہے اس پر مودی جی کا تبصرہ قابل ستائش ہے کہ یہ نہ رام بھکتی کا موقع ہے نہ رحیم بھکتی کا بلکہ یہ بھارت بھکتی کا موقع ہے، ملک کے وزیر داخلہ اور ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی جی نے بھی ملک کی یکجہتی بنائے رکھنے، سبھی کی آستھا کا احترام کرنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی ہے ہم سب کو ان کے سرُ میں سرُ ملانا چاہئے اور کورٹ کے اس فیصلے کا دل سے احترام کرنا چاہئے اور امام ہند شری رام کی جائے پیدائش کو اس شکل میں ترقی یافتہ بنانے میں مددگار ہونا چاہئے کہ یہیں سے رام راج کا طلوع ہو، یہ جگہ کسی ایک مذہب خاص کے لئے نہیں بلکہ پورے انسانی برادری کی آستھا کی علامت بنے۔
موجودہ صورت حال میں مرکزی و ریاستی حکومت کی موجودگی میں آستھا اور اعتماد کے عوامی سیلاب کو دیکھتے ہوئے قومی یکجہتی کے مدنظر اس سے اچھا فیصلہ شاید ممکن بھی نہیں تھا، یہ فیصلہ کسی کی جیت اور ہار کا نہیں کیونکہ یہ فیصلہ نہ کسی کے خلاف آیا ہے اور نہ کسی کے حق میں، یہ فیصلہ تو امام ہند شری رام للا کے حق میں آیا ہے جن کا نہ صرف ہندو بلکہ سبھی مسلمان بھی احترام کرتے ہیں آج سے برسوں پہلے اسی بھارت کی زمین پر علامہ اقبال نے انہیں امام ہند کہا تھا یعنی پورے ہندوستان کے امام۔ اگر ظفریاب جیلانی صاحب کے زبانی ان کے کچھ اور حقائق کو منظور بھی کرلیا جاتا تو بھی یہی فیصلہ آتا کیونکہ اس کے علاوہ کسی دیگر فیصلے کا نافذ ہونا ناممکن تھا، ہاں اگر ملک کے تمام دانشوروں اور علمائوں کے ساتھ اس مقدمے میں بابری مسجد کے سبھی فریقین بھی پہلے سے ہی یہ اعلان کردیتے کہ اگر فیصلہ ہمارے فیور میں بھی آیا تو ہم ملک میں قومی یکجہتی بنائے رکھنے کے لئے یہ زمین امام ہند شری رام کے مندر کے لئے خوشی خوشی دے دیں گے، تو ہوسکتا ہے کہ جتنا آستھا میں یقین کیا گیا اُتنا سچائیوں پر بھی یقین کیا جاتا۔
70 سال سے مسجد میں رام للا کا خود بخود ظاہر ہونے کو یہ کہہ کر انکار کرنا کہ مسجد میں مورتیاں رکھنا غیرقانونی تھا پھر واضح طور سے یہ کہنا کہ مندر توڑکر مسجد بنانے کے کوئی ثبوت نہیں ملے اور 1992 ء میںمسجد کا گرایا جانا غیرقانونی تھا، اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم فریق کے حقائق قابل غور تھے، اور اسی کی منظوری کے لئے سنی وقف بورڈ کو 2.77 ایکڑ زمین کی جگہ اجودھیا میں کسی اچھی جگہ پر پانچ ایکڑ زمین دیئے جانے کے ہدایات دیئے گئے، کورٹ کے اس احکام کو مسلم فریق کو اپنی جیت کی شکل میں دیکھنا چاہئے کیونکہ جہاں اس احکامات نے اسلام کو اس الزام سے بری کردیا کہ کسی کی عبادت گاہ کو توڑکر اپنی عبادت گاہ کبھی نہیں بنائی جاسکتی وہیں کورٹ کے اس احکام میں یہ بھی واضح کردیا گیا کہ آستھا اور اعتماد کے نام پر کئی بار غیرقانونی کام کئے گئے۔
آج جو فیصلہ آیا ہے اس پر مودی جی کا تبصرہ قابل ستائش ہے کہ یہ نہ رام بھکتی کا موقع ہے نہ رحیم بھکتی کا بلکہ یہ بھارت بھکتی کا موقع ہے، ملک کے وزیر داخلہ اور ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی جی نے بھی ملک کی یکجہتی بنائے رکھنے، سبھی کی آستھا کا احترام کرنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی ہے ہم سب کو ان کے سرُ میں سرُ ملانا چاہئے اور کورٹ کے اس فیصلے کا دل سے احترام کرنا چاہئے اور امام ہند شری رام کی جائے پیدائش کو اس شکل میں ترقی یافتہ بنانے میں مددگار ہونا چاہئے کہ یہیں سے رام راج کا طلوع ہو، یہ جگہ کسی ایک مذہب خاص کے لئے نہیں بلکہ پورے انسانی برادری کی آستھا کی علامت بنے۔
Also read