9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
اخلاقیات وہ گوہر ہے جو سماج کے ہر طبقہ کے لئے ناگزیر ہے۔ چاہے کسی بھی شعبہ، محکمہ میں کام کاج کرتا ہو۔ اس کا پیشہ کچھ بھی ہو، ہر شعبہ زندگی میں حسن اخلاق سے پیکر فرد و سماج کو بلند خیال اور تہذیب و تمدن کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کو معاشرے میں وقعت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ جس فرد یا سماج کے دامن میں سلطنت اخلاق کے پھول کھلتے ہوں تو وہ نہ صرف رب کائنات کی نگاہ میں محترم و مکرم ہے۔ بلکہ سماجی اور دینی حلقوں میں بھی اس کو امتیازی تشخص حاصل ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی اٹل ہے کہ روئے زمین پر بسنے والی آ بادی میں کہیں بھی رہیں ،کسی بھی سماج، معاشرہ اور دھرم سے تعلق ہو ،ہر موڑ پر سنجیدہ فکر ، متوازن خیالات اور اخلاق حمیدہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہیکہ اسلام میں حسن اخلاق پر کافی زور دیا گیا ہے، حتی کہ اسلامی تعلیمات میں بتا یا گیا ہے کہ گھر میں والدین ، بھائی بہن ، دوست و احباب، بڑوں اور چھوٹوں سے کس طرح پیش آ نا ہے۔ اسی طرح معلم، طبیب ، کو بھی اوصاف حمیدہ اور حسن سیرت سے مزین ہونا لازمی ہے۔ نیز دینی اور سیاسی امور انجام دیتے ہوئے بھی حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ گویا زندگی کا کوئی پہلو یا حصہ ایسا نہیں ہے جس میں حسن اخلاق و کردار اور صالح تربیت و تزکیہ کی ضرورت نہ پڑتی ہو۔ سچ یہ ہیکہ بغیر اخلاقیات کے حیات کا تصور خوشگوار نہیں ہوسکتا ہے۔ جو سماج یا معاشرے ، حسن اخلاق جیسی عظیم نعمت سے محروم ہوتے ہیں وہ خالق ارض و سماں اور سماج کی نظروں سے گر جاتے ہیں ۔ بدکرداری یا بد نیتی اور سوء اخلاق کا منفی اثر صرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا ہے بلکہ وہ سماج میں نہایت ہی برا اثر ڈالتاہے۔ جس سے نوجوان نسل اور بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ہم آ یے دن دیکھتے ہیں ایسے معاشروں میں، بد عنوانی۔ بے راہ روی، عیاشی، شراب نوشی اور قمار بازی جیسی بیماریاں عام ہوجاتی ہیں ۔زبان درازی اور گالم گلوج ان کے یہاں کوئی عیب نہیں شمار ہوتا۔ عزت و توقیر سے لاتعلقی بنی رہتی ہے ۔ اسی طرح ہر وہ آ لائش اور گندگی پائی جاتی ہے جس کا کوئی مہذب سماج تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ لہذا سماج کو کسی بھی طرح کی بے حیائی اور بد اخلاقی سے محفوظ و مامون رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ حسن اخلاق اور حسن سیرت کو اپنی زندگی کا جزو لاینفک بنانا چاہئے۔ معالج،طبیب یا ڈاکٹر کے لئے حسن اخلاق اور طبی اخلاقیات کے تمام اسلوب و آ داب سے آ راستہ ہونا نہ صرف لازمی ہے بلکہ اخلاقیات اور معالج کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مگر ہم موجودہ معاشرے میں دیکھ رہے ہیں کہ بد اخلاقی اور لاپرواہی کا فروغ اب معالجین کے یہاں بھی نظر آ نے لگا ہے۔ معالج/ڈاکٹر کی خدمات اور اس کی قربانیاں کئی اعتبار سے بڑھی ہوئی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہیکہ معالج انسانیت کی بقاء و تحفظ کے لئے جد وجہد کرتا ہے۔ جو کہ روئے زمین پر انسانی اور عوامی خدمات میں سے ،سب سے زیادہ اہم اور قابل فخر عمل ہے۔ مگر تصور کیجئے اس وقت اور اس منظر کا جب کوئی بھی ڈاکٹر صرف مذہب /دھرم کی بنیاد پر مریض کے ساتھ نہ صرف سوتیلہ رویہ اختیار کرے بلکہ اپنی تمام ذمہ داریوں اور حلف و قسم کو بالائے طاق رکھ کر ،بد اخلاقی اورسطحیت کا مظاہرہ کرنے لگے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ مریض کے مسلم ہونے کی بنیاد پر اس کا علاج نہ کیا جا نا انتھائی افسوسناک اور تشویشناک ہے۔ در اصل اس نوعیت کا واقعہ صوبہ راجستھان میں پیش آ یا۔ جب ایک حاملہ عورت زچگی کے لئے ضلع ہسپتال میں اس نیت سے گئی کہ وہاں مجھے آ رام ملے گا، اور بچہ کی ولادت میں بھی کوئی دقت نہیں آ یے گی۔ انتھائی حیرت کی بات ہے جب وہ حاملہ خاتون ہسپتال میں پہنچی، تو ہسپتال میں موجود خاتون ڈاکٹر نے اس حاملہ عورت کا علاج اس لئے نہیں کیا کہ وہ مسلم ہے۔ اسی اثناء جب اس خاتون نے دوسرے ہسپتال کا رخ کیا تو ولادت راستہ میں ہی ہوگئی ۔لیکن انتھائی دکھ اور کرب سے بیان کرنا پڑرہا ہے کہ اس بچے کی موت ہوگئی۔ اس سے بڑی بےشرمی اور بد اخلاقی نہیں ہوسکتی۔ شاید اس خاتون کا بر وقت علاج ہوجاتا تو اس کا ہونے والا بچہ موت کی آ غوش میں نہ جاتا۔ ڈاکٹر کا صرف ایک دھرم ہوتا ہے اور وہ صرف انسانیت ہے۔ مگر اب یہ کہنا قطعی نا مناسب نہ ہوگا کہ ذرائع ابلاغ نفرت کےجس وائرس کی ترویج و اشاعت کو ضروری سمجھتا ہے، آ ج اس کا اثر سماج کے تقریباً ہر طبقہ میں سرایت کررہا ہے۔ راجستھان یا اس طرح کے واقعات جہاں بھی انجام دیئے جارہے ہیں وہ ہمارے ملک میں فیک نیوز اور میڈیا کا اپنے فرائض منصبی سے لااپالی پن و ہندو مسلم منافرت کو ہوا دینے کا جیتا جاگتا نمونہ ہے ۔ سماج میں میڈیا کا کام ان مناظر اور مباحث کو اجاگر کرنے کا تھا جو عوام سے وابستہ ہیں۔ جن چیزوں سے ہندوستان کی جنتا بری طرح سے نبردآزما ہے۔ شاید ہمارے ملک کا میڈیا روادار اور اعتدال و توازن پر مبنی پروگرام کرتا تو یقینا ہندو مسلم منافرت کی وجہ سے وہ ننھا پھول نہ مرجھاتا اور نہ اس ماں کی گود اجڑتی۔
یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہےکہ طبی اخلاقیات کی اہمیت و افادیت دنیا کی ہر تہذیب ، معاشرہ اور مذہب میں موجود ہے۔ کیونکہ وہ ایک موت وحیات کی کشمکش رہنے والے انسان کو حیات نو سے نوازتا ہے ، لہذا ڈاکٹر کو مریض کے ساتھ خندہ پیشانی اور خوش خلقی کا مظاہرہ کرنا اس کی ذمہ داری کا حصہ ہے۔ مریض کو تسلی اور اطمینان دلانا چاہئے۔ اس کی حوصلہ افزائی کرنی ،مریض کی دیکھ ریکھ اور حفاظت و نگہداشت کو بھی اپنا نا چاہئے ،نہ کہ اس کے ساتھ صرف اس کے مذہب کے جدا ہونے پر مریض کے ساتھ بھید بھاؤ کا سلوک و برتاؤ کیا جائے۔ اگر کوئی ڈاکٹر اس طرح کی حرکت کرتا ہے جو راجستھان کے ضلع ہسپتا ل میں واقع ہوئی تو وہ نہ صرف حسن اخلاق کے فقدان کا بین ثبوت ہے بلکہ انسانی گراوٹ کی اس گھٹیا مثال دنیا میں اور کوئی نہیں ہوسکتی ہے۔ اس واقعہ نے واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ آ ج ہندوستان جیسے مخلوط سماج میں نفرت اور مسلم دشمنی کے ساتھ ساتھ اسلاموفوبیا بھی کافی فروغ پاتا نظر آ رہا ہے۔ نیز نفرت اور سماجی عدم برابری کی مثالیں اب ہر روز ملک کے اطراف و اکناف میں دیکھنے کو مل جائیں گی۔ کہیں مسلم کمیونٹی کو کرونا پھیلانے کے نام پر زدو کوب اور تختہ مشق کیا جارہا ہے ،تو کہیں ان کی حب الوطنی کو مشکوک ٹھہرا کر مجرمین کی صف میں کھڑا کیا جارہا کے۔ گویا ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان جیسی پاک سرزمین کو مسلم کمیونٹی کے لئے آ ہستہ آ ہستہ تنگ کیا جارہا ہے۔ ملک کی اس وقت جو فضا تیار کی جارہی ہے اس سے ہر صاحب عقل و خرد اور حساس فرد ،چاہے وہ کسی بھی مذہب،دھرم یا ذات و برادری سے وابستہ ہو کبیدہ خاطر ہے۔ اندر سے گھٹن اور بے چینی محسوس کررہا ہے۔ مگر اس صورت حال کو معدوم کرنے کے لئے عوامی سطح پر کوئی کام نہیں ہورہا ہے۔ اسی وجہ سے لگاتار چند ناعاقبت اندیش اور ۔فاد پرست مہرے ملک میں نفرت جیسے جرائم کو بڑھا رہے ہیں ۔ہمیں اس ماحول سے نکلنے کے لئے اتحاد و یگانگت اور رواداری کے فلسفہ پر عمل کرنا ہوگا۔ اسی کے ساتھ اس خوفناک صورت حال سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہےکہ سنجیدگی کے ساتھ زمینی سطح پر کام کیا جائے ۔ہندوستان کا بنیادی اور امتیازی تشخص ،انیکتا میں ایکتا اور کنگا جمنی تہذیب ہے۔ ملک کے اسی کردار و سلوک کو دوبارہ زندہ و تابندہ کرنے کے لئے ہم سب کو عملی اقدامات کرنے ہوںگے۔
۔یہاں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جب انسان کے اندر سے مفاہمت، اخوت و محبت اور بھائی چارگی کا احساس مرجائے تو لا محالہ اس سے وہی اعمال بد ،سرزد ہوتے ہیں جن سے انسانیت شرمسار ہوجائے۔ ہمیں بالخصوص میڈیا کے اس طبقے کو جو ملک میں بد عنوانی اور بے چینی کا ماحول بنانے میں لگے ہوئے ہیں ،ایک مرتبہ سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اور سماج کیا مطالبہ کررہا ہے۔ ہندوستان کی روحانیت کے پاکیزہ اثرات ہمارے معاشرے سے آ خر کیوں نابود ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت سماج کو کن چیزوں کی ضرورت ہے۔
انسانی سماج میں ان اصولوں اور ضابطوں پر عمل کرنا نہایت ضروری اور فایدہ مند ہوتا ہے۔ جن سے معاشرے میں بقائے باہم کی فضا ہموار ہو، لیکن ان اخلاقیات کو نافذ کرنے اور معاشرے کو اس سے عملی طور پر جوڑنے کے لئے اعتماد و یقین اور حسن سلوک جیسے پاکیزہ کارناموں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا ہوگا۔ نیز ہمیں اس بات کا بھی احتیاط رکھنا ہوگا کہ ہماری زبان اور فعل و کردار سے کسی کی بھی دل آ زاری نہ ہو،جوبات کہی جارہی ہے اسے کہنے، یا جو عمل انجام دیا جارہا ہے اسے کرنے سے پہلے ،دوہرا لینا چاہئے ایسا نہ ہو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کسی کو تکلیف پہنچ جائے،جب سماج کا ہر فرد اس قدر احتیاط برتنے لگے گا تو یقینا کسی سے بھی بد اخلاقی اور بد کرداری کا مظاہرہ نہیں ہوگا اور نہ ہی سماج میں تناؤ اور عدم برداشت کی روایت فروغ پائے گی۔٭٭٭
پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو،شعبہ دینیات سنی
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی،علیگڑہ
[email protected]