9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
حقانی القاسمی
دنیا کی کسی قوم ‘ مذہب اور ملک کو شاید ہی روشنی سے نفرت ہو ۔ اس سے صرف وحشت انہی لوگوں کو ہوتی ہے جنہیں تعصبات اور توہمات کی تاریکیاں عزیز ہوتی ہیں ۔
روشنی کسی قوم کی نہیں‘ انسانی کائنات کی توانائی اور تحرک کا ایک لازمی عنصر ہے ۔ اس لئے اجالوں سے محبت انسانی فطرت میں شامل ہے ۔اور یہ روشنی انسانی زندگی اور جذبہ سے جڑی ہوئی ہے ۔
روشنیوں کا تہوار دیوالی کا رشتہ بھی انسانوں کے جذبہ مسرت سے ہے ۔ اس کاتعلق اخلاقی اقدار اور ‘ خیر خلوص نیکی اور سچائی سے ہے ۔ یہ سماجی اقدار اور خاندانی رشتوں کے استحکام کا جشن ہے ۔ اس تیوہار سے زندگی اور رشتوں کو ایک نئی تازگی ملتی ہے ۔یہ مکمل طور پر ایک اقداری جشن ہے ۔اسے تطہیر ذات اور تزکیہ نفس کا تہوار بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کے جو محرکات اور مقاصد ہیں وہ بہت ہی اعلی و ارفع ہیں ۔ کہتے ہیں کہ یہ تاریکی پر روشنی ‘ جہالت پر علم ‘ بدی پر نیکی اور ما یوسی پر امید کی فتح کا جشن ہے ۔ اس تیوہار سے کئی روایتیں جڑی ہوئی ہیں ۔ رامائن کی رو سے یہ بن باس سے رام جی کی واپسی کا جشن ہے ۔وہ جب بن باس سے لوٹے تھے تو ایودھیا میں لوگوں نے گھی کے دیپ جلا کر ان کا والہانہ خیر مقدم کیا تھا ۔ یہ ان کے لئے عقیدت و محبت کا جشن تھا اور یہ ان کا حق بھی تھا کہ مریادا پرشوتم رام جی نے ایثار ‘ قربانی اور وفا کا جو مثالی کردار ادا کیا تھا اس نے عقیدت مندوں کے دلوں میں جانے کتنے چراغ جلا دیے تھے ۔ اخلاق ‘ مہر وفا کی یہ ایک ایسی مثال تھی کہ بعد میںبھی وہ دلوں کو روشن کرتی رہی۔ بڑے بڑے مفکروں اور دانشوروں کے تفکر اور تخیل کو مہمیز کرتی رہی ۔ علامہ اقبال نے تو انہیں اسی مضبوط اور مستحکم کردار کی وجہ سے امام ہند تک کہہ ڈالا :
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا
ایودھیا میں جو دیپ جلے تھے دیوں کی وہی قطار اب دنیا کے بیشتر حصہ میں روشن ہے ۔ ملیشیا ’ ماریشش نیپال ‘ سری لنکا ‘ سنگاپور ‘ فجی ترینداد ‘ آسٹریلیا ‘ برطانیہ اور امریکہ تک میں نہایت جوش و خروش کے ساتھ یہ تیوہار منایا جاتا تھا ۔دیپ کی یہ روشنی اپنا دائرہ بڑھاتے بڑھاتے پوری دنیا میں پہنچ چکی ہے ۔
روشنی کا یہ سفر ایودھیا سے شروع ہوا ہو یا مہا بھارت کے مطابق پانڈووں کے بارہ سالہ بن باس سے واپسی کی خوشی میں یا یہ لکشمی جی کے جنم دن کا جشن ہو یا وشنو کی لکشمی سے شادی کی شادمانی کا اظہار ہو ۔ اس روشنی کا رشتہ مسرتوں سے جڑا ہوا ہے ۔روایتوں کے اختلاف سے اس تیوہار کی مقصدیت اور معنویت متاثر نہیں ہوئی ہے ۔ اور ویسے بھی یہ تیوہار تین الگ الگ مذہبی ‘ ثقافتی روایتوں کا سنگم ہے ۔یہ بہت ہی خوبصورت تروینی ہے ۔ یہ ثقافتی امتزاجیت کی ایک روشن مثال ہے کہ جین دھرم والوں کے لئے یہ ایک پاکیزہ اور مقدس ترین دن ہے کہ مہاویر کو نروان پراپت ہوا تھا ‘ سکھوں کے لئے بھی یہ دن تقدس لئے ہوئے ہے اس لئے وہ بھی دیوالی کے دن ہی بندی چھور کا جشن مناتے ہیں ۔ اس طرح دیوالی کا دن اپنے دامن میں کئی طرح کی مسرتیں سمیٹے ہوتا ہے ۔ اس دن ہر طرف قندیلیں اور شمعیں روشن ہوتی ہیں ۔ چراغوں کی قطار بنائی جاتی ہے ۔ منظر اتنا حسین ہوتا ہے کہ آنکھیں بس دیکھتی رہ جاتی ہیں ۔تبھی تو شاہ حاتم جیسے کلاسیکی شاعر نے کہا تھا :
قطار ایسے چراغوں کی بنائی
کتابوں پر ہوں جدول طلائی
درو دیوار بام و صحن و گلشن
چراغوں سے ہوا ہے روز روشن
اور نظیر اکبر آبادی جیسے عوامی شاعر تو یہ منظر دیکھ کر اتنے مدہوش ہوئے کہ پوری ایک طویل نظم دیوالی کے عنوان سے ہی کہہ ڈالی ۔
ہر اک مکاں میں جلا پھر دیا دیوالی کا
ہر اک طرف کو اجالا ہوا دیوالی کا
سبھی کے جی کو سماں بھا گیا دیوالی کا
کسی کے دل کو مزا خوش لگا دیوالی کا
دیوالی میں ہر سو بہاروں کا سا سماں رہتا ہے ۔ مٹھائیاں ‘ کھلونے ‘ نئے کپڑے ‘ تحفوں کی برسات ‘ ہر چہرے پر مسرت کی لکیریں رقصاں ہوتی ہیں ۔ ایسے ہی منظر کو دیکھ کر نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا :
کھلونے کھیلوں بتاشوں کا گرم ہے بازار
ہر اک دکاں میں چراغوں کی ہو رہی ہے بہار
چراغوں کی یہی وہ بہار ہے جس نے اس تیوہار کو ہمارے اجتماعی لا شعور کا حصہ بنا دیا ہے ۔ یہ اتحاد پسندی اور اندرونی وحدت کا مظہر ہے ۔پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس تعلق سے بہت معنی خیز بات کہی ہے کہ ’دیوالی کی تقریب میں مسلمان بادشاہ بھی شریک ہوتے تھے ۔ شاہ عالم آفتاب کے ہندی اردو کلام سے ثابت ہو تا ہے کہ قلعہ معلی میں دیوالی بھی عید ‘ بقر عید ‘ آخری چار شنبہ اور عرسوں کی طرح بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی تھی ۔ اماوس کے روز سرسوتی کے پوجن کا التزام کیا جاتا تھا ۔ جا بجا چراغ جلائے جاتے تھے ۔ آتش بازی کے تماشے ہوتے تھے ۔عورتیں سولہ سنگار کرتی تھیں ۔ اور منگل گان ہوتے تھے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج سے دو سو برس پہلے ہندوستان کے مذہبی تہوارمحض مذہبی مراسم نہیں سمجھے جاتے تھے بلکہ سماجی میل جول اور باہمی رواداری کا مرقع بن گئے تھے ۔ دیوالی اور شب برات میں ایک حد تک یک رنگی پیدا ہو گئی تھی ۔ سید احمد دہلوی نے رسوم دہلی میں لکھا ہے کہ دہلی کے مسلمان رمضان اور عید کی طرح دیوالی کو بھی ایک تہوار گنتے تھے ۔ ‘‘
مغل بادشاہوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دیوالی کے موقع پر اکیس چھید والے برتن سے نہاتے تھے ۔ بادشاہ کو اس دن تولا جاتا تھا اور رقم غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تہوار کسی بھی قوم کا ہو جذبہ کی یکسانیت اسے مشترک بنادیتی ہے ۔ دیوالی بھی ایک ایسا ہی جشن چراغاں ہے جس کا تعلق شعوری یا لا شعوری طور پر ہر اس فرد سے ہے جسے اجالوں سے محبت اور اندھیروں سے نفرت ہے ۔
یہ روشنی ایک علامت ہے ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ اس علامت کے دائرے بڑھتے رہتے ہیں اور یہ اپنی شکلیں بھی بدلتے ہیں ۔یہ ایک پیغام بھی ہے سماج کے لئے ‘ ۔ یہ بے کراں نور ہے جسے کسی قوم ‘ ذات ‘ فرد تک محدود نہیں کیا جاسکتا ۔ اگریہ روشنی اپنی ذات ‘ گھر اور خاندان میں قید ہو جائے تو روشنی کی روح مجروح ہو جاتی ہے ۔ اسے گھٹن محسوس ہونے لگتی ہے اور یہی گھروں اور سڑکوں کے ساتھ ہمارے سینوں میں بھی منتقل ہو جائے تو سوچئے کہ امیدوں اور آرزووں کے جانے کتنے چراغ جل اٹھیں گے اور تب ان چراغوں کی روشنی میں انسانی معاشرہ کے چہرہ کی چمک بڑھ جائے گی ۔اس روشنی کا رشتہ زندگی کے تمام شعبوں سے جڑ جائے تو روشنیوں کے تیوہار دیوالی کی معنویت دو چند جائے گی ۔یہی چراغ ہر راہ میں جلتے رہیں تو پھر ہر انسان کو اپنی منزل آسانی سے مل جائے گی ۔ دیوالی کے دیپ سے اپنا گھر ہی نہیںبیواوں کا حال اور بچوں کا مستقبل بھی ہم روشن کر سکتے ہیں کیونکہ دیوالی صرف گھروں اور بام و درکو روشن کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ باطن کے اندھیروں کو دور کر کے اپنے داخلی وجود کو روشن کرنے سے عبارت ہے ۔خارجی روشنی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے مگر داخلی روشنی انسانی وجود کو سنوارتی اور نکھارتی ہے ۔
دیوالی تفریحی تقریب نہیں ایک مقصدی جشن ہے ۔یہ اپنے اندر سماج کے لئے مثبت اور صحت مند پیغام چھپائے ہوئے ہے ۔ اس دن جو اشلوک پڑھا جاتا ہے وہ معنویت اور مقصدیت سے بھر پور ہے :
استوماست گمے
تمسوماتر گمے
مریتورما گمے
یہ جھوٹ سے سچائی ’ تاریکی سے روشنی اور فنا سے بقا کی سمت بڑھنے کی دعا ہے اوراس دعا میں پوری انسانیت شریک ہے کہ آج کے انسان کو اس سچائی اور روشنی کی ضرورت ہے جو اس کے قلب کو مصفی اور مجلی کردے ۔ اس کے باطن کو منور کردے ۔ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل اور تعمیر کے لئے اس سے اچھی دعا اور کیا ہو سکتی ہے ۔ دیوالی پورے انسانی سماج سے اسی دعا کی تعبیر چاہتی ہے ۔
Cell:9891726444
E-mail:[email protected]