گداز پر ایک نظر

0
110

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

فریدہ انجم، پٹنہ

حسین امجدؔ ایک شاعر وادیب صحافی ہیں۔یوں نثر ونظم کا یہ سنگم واضح کر دیتی ہے کہ حسین امجد ؔکے خون میں یا یوں کہیں کہ ادب کے میراث میں شامل ہے۔
حسین امجدؔ کا تعلق صوبہء اٹک پاکستان سے ہے،جہاں کی سر زمین علمی،ادبی، مذہبی،سماجی اورثقافتی اعتبار سے بہت ذرخیز رہی ہے،دبستان اٹک کے ان ممتاز شعرا میں شوکت محمود شوکتؔ کا نام سر فہرست ہے ،جنہوںنے اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے مخصوص رنگ میں اظہار خیال کیا ہے ان کے اپنے اسلوب کا الگ اور منفردرنگ ہے
شوکت محمود صاحب نہ صرف شاعر ،محقیق،ادیب، استادزبان و ادبِ اردہ اور ماہرِ قانون ہیں بلکہ کئی زبانوں پر دسترس بھی رکھتے ہیں ۔حسین امجدؔ نے شوکت محمود شوکتؔ جیسی شخصیت سے اپنی شاعری میں استفادہ کیا ہے جس طرح حسرت موہانی نے کئی نام ور اساتذہ سے شاعری میں کسبِ فیض کیا ہے اسی طرح طبع حسین امجدؔ نے شوکت صاحب کے علاوہ دیگر اساتذئہ سخن سے بھی استفادہ کیا ہے ۔حسین امجدؔ کی پہلی کتابِ شعری ’’ رہ گزر‘‘ بجا طور پر علمی اور ادبی حلقوں میں پذیرائی شرف حاسل ہوا ہے اور ’’ گداز‘‘ ان کی دوسری شعری کتاب کا سر نامہ ہے جو حال یہ میں منصئہ شہود پر جلوہ گر ہوا ہے۔
یہ سچ ہے کہ غزل کے بغیر اردو شاعری کا تصور نہیں کیا جا سکتا یا یوں کہیں کہ غزل اردو شاعری کی پہچان ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ آج سے پچاس برس پہلے اردو شاعری کا سرمایہ زیادہ تر غزل ہی کوسمجھا جاتا تھا۔لیکن مغربی تعلیم نے ہمیں مغربی لیٹیچر سے آشنا کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ حسن کا اصل مفہوم زیادہ وسعت رکھتا ہے، اور اس لے شاعری کی دنیا کو بھی اس حیثیت سے زیادہ وسیع ہونا چاہئیے،اس لے کی فطری طور پر بھی اور روایتی طور بھی غزل سرتاج سخن ہے،عام اصناف سخن میں غزل کو جو ہمیشہ فوقیت ،برتری اور محبوبیت حاصل رہی ہے ۔ اسکی مثال نہ صرف یہ کہ اردو شاعری میں نہیں بلکہ عالمی شاعری میں بھی نہیں ہے۔
رابرٹ فراسٹ نے کہا تھا کہ ’’ شاعری مسرت سے شروع ہو کر بصیرت پر ختم ہوتی ہے‘‘حسین امجدؔ کی شاعری انہیں خطوں پر گردش کرتی ہے ،وہ اپنے ذاتی تجربے سے اور شعری تجربے کو غیر اور آفاقی اندازمیں پیش کرکے اور اپنے آپ پر بیتی ہوئی بات کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والوں کو خود بیتی معلوم ہوتی ہے۔ اضطرابیت کی آخری حد کو چھوتا ہوا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں؎
زندگی اضطراب میں گذری ہے
ایک لمحہ سکوں نہیں پایا
ان کے کلام میں جو اہم بات مجھے نظر آتی ہے وہ یہ کہ ان کا مشاہدہ بہت تیز ہے ،وہ ہر وہ چیز کو محسوس کرلیتے ہیں جس سے بہت سارے لوگ سرسری طور پر گذر جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں زندگی مختلف جہتی پرایسی نظر آتی ہے۔مختلف موضوعات پر ’’گداز‘‘سے کچھ منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔شاعر اپنی زندگی بے بسی ،بے کسی یوں بیان کرتے ہیںـ ؎
اجڑے ہوئے دیار میں رہناپڑا ہمیں
آنکھوں میں رنگ ونور کے منظر کہاں رہے
نسل در نسل ساتھ چلتی ہے
خون میں کرتی ہے نمو خوشبو
میں نے دہشت زدہ چمن دیکھا
میں نے دیکھی ہے بے اماں خوشبو
امجدؔ کی شاعری سوز و گداز کی شاعری ہے ،اس شعر کے ہر لفظ میں زندگی کی ایک گہری حقیقت پوشیدہ ہے، جو حالات کے دبائو کے سبب امجدؔ نے ایک نازک اور تیکھا لہجہ اختیار کیا ہے یہ شعر ملاحظہ فرمائیں؎
میں سلگتے ہوئے صحرائوںکا باشندہ ہوں
دھند میں لپٹی ہوئی رات سے مر جائوں گا
جو لوگ اس دنیا میں رہ کر خود پر غرور کرتے ہیں امجدؔنے ان کے لے یہ شعر کہے ہیں؎
ؔـؔـؔؔؔشہرکی ہر بڑی عمارت کے
در و دیوار جھوٹ بولتے ہیں
انسان کے دل کی زمین کا بھی یہی حال کہ جس امید کی طلب تھی شاعرکے خواب جب بکھر گئے غور کیجئیے تو شاعر کے ظبط کی دہلیز پر کھڑا ہوا ایک مضطرب خیال پیش ہے،یہ شعرملاحظہ فرمائیں ؎
بنے بنائے سبھی کام ہو گئے مٹی
ہمارے خواب سرشام ہوگئے مٹی
آج کویل کی کوک سنتے ہی
پیڑ کے پات ہو گئے خاموش
امجدؔ عشقیہ شاعری بھی بہت خوبصورتی سے کرتے ہیں اشعار لاحظہ فرمائیں؎
زلف بھی پریشاں ہوئی
اسی کا صدقہ اتاڑا گیا
کس لے اجنبی حسین چہرے
بات ہے بات مسکراتے ہیں
یا پھر یہ شعر
شام کے وقت ہو حسین لڑکی
راگ ایمن میں گنگنائے غزل
جھیل ہو،چاند ہو کنول ہو تم
میرؔ و غالبؔ کی اک غزل ہو تم
کہاں تک مثالیں دی جائیں۔ امجد ؔ کا پورا سرمایہء کلام اسی طرح کے گوہر آبدار سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے امید کہ ترجماں یہ اشعار مقبول ہوں گے اور ادب نواز حلقوں میں اس ذی شان شعری مجموعے ’’ گداز‘‘ کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here