9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
پروفیسرشارب ردولوی
کیرلا ہندوستان کا ایک ایسا صوبہ ہے جہاں اردو کسی کی مادری زبان نہیں ہے. اس کے باوجود اردو کی ایک طویل تاریخ اس صوبہ سے وابستہ ہے. اس موضوع پر ابھی حال میں ڈاکٹر پی کے شمس الدین ترورکاڈ کی کتاب کیرلا میں اردو زبان و ادب آئی ہے۔ یہ کتاب اس لئے بہت اہم ہے کہ اردو مراکز سے دور اس صوبہ میں اردو کو کس طرح اور کتنا فروغ ہوا. اس کا اندازہ ان کی اس کتاب کے مطالعہ سے ہوتا ہے. یہ کتاب ان کے 15 مضامین پر مشتمل ہے جو ظاہر ہے کہ مختلف اوقات میں لکھے گئے ہوں گے. لیکن یہ تمام مضامین کیرلا میں اردو کے فروغ اور اردو کے مسائل سے متعلق ہیں لہٰذا انہیں علیحدہ علیحدہ مضامین سمجھنے کے بجائے ایک کتاب کے مختلف ابواب سمجھنا چاہئے. مثلا پہلا اور دوسرا مضمون کیرلا میں اردو زبان کی ابتدا اور اس کی مختصر تاریخ پر ہے. انھوں نے کیرلا میں اردو کی آمد کی ابتدا پیرس کے ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کے ایک اہم سوال سے کیا یے.بلکہ ایک طرح ڈاکٹر شمس الدین ترورکاڈ نے ڈاکٹر حمیداللہ کی تائید کی ہے ان کا خیال ہے کہ اردو اگر مختلف اقوام اور بالخصوص مسلمانوں کے میل جول سے پیدا ہوئی جس کی بنیاد پر پنجاب دہلی حیدر آباد اردو کی پیدائش کو اپنے علا قے سے وابستہ کرتے ہیں تو ان جگہوں سے بہت پہلے عرب تاجر ملابار میں آکر بسنا شروع ہو گئے تھے اور ان کے میل جول سے ایک نئی زبان کے فروغ کی بنیاد پڑ چکی تھی. اس طرح مولانا سلیمان ندوی کا یہ کہنا کہ ہندوستانی زبان ملباریوں کی موروثی ملکیت ہے صحیح معلوم ہوتا ہے. اس کے علاوہ چودھویں صدی میں خلجی فوج کی کیرلا یعنی ملابار کوچی ٹراونکور وغیرہ میں آمد سے زبانوں میں الفاظ کا لین دین زیادہ بڑھا. اور اس طرح محمد تغلق کے زمانے تک اچھے خاصے اردو الفاظ کیرلا کی زبان میں شامل ہو گئے تھے“(صفحہ 15)
یہاں کے لوگوں نے بھی لسانی تعصب کو فراموش کر کے اردو زبان و ادب کو فروغ دینے اور اسے رائج کرنے کی ہر کوشش کی. جدید دور میں اردو کے مشہور مصنف اور شاعر نگار ایس ایم سرور نے اس سلسلے میں بہت کام کیا. میں اگر یہ بات کہوں کہ آج جو لوگ میں اردو کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں وہ ایس ایم سرور صاحب کے شاگرد اور انہیں کے بنائے ہوئے لوگ ہیں. ڈاکٹر شمس الدین ترورکاڈ نے ایک دلچسپ واقعہ اس سلسلہ میں لکھا ہے کہ ملاپورم ضلع کا ایک چھوٹا سا گاؤں کوڈور کے نام سے مشہور تھا. یہ ایک تجارتی گاؤں تھا اور یہاں ہر شخص کدو کی کاشت کرتا تھا. یہ وہی پھل ہے جس سے پیٹھے کی مٹھائی تیار کی جاتی ہے لہذا یہاں بڑی تعداد میں بھٹکل آگرہ اور ممبئی سے لوگ کدو کی خریداری کے لئے آیا کرتے تھے. اس لئے سب سے زیادہ اردو کو فروغ کوڈور میں ہوا. اور ہر شخص یہاں اردو میں بات چیت کرنے لگا. جس کہ وجہ سے اس گاؤ ںکا نام اردو نگر مشہور ہوگیا۔
مجھے خود بھی ایک بار ایس ایم سرور صاحب نے کیرل آنے کی دعوت دی. جب میں ملاپورم پہنچا تو مجھے بہت سے لوگ اردو میں گفتگو کرنے والے ملے سرور صاحب مجھے وہاں کے ایک کالج میں بھی لے گئے اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ انٹر اور بی اے کے لیول پر اردو پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد وہاں پر موجود تھی. وہاں زبان کا کوئی مسئلہ نہیں تھا ملیالی ان کی مادری زبان ہے انگریزی اور ہندی وہ اپنی ضرورت کے لئے پڑھتےہیں۔ اور اردو ان کے شوق اور تہذیب کی زبان یے لہذا ہر زبان وہ بآسانی بچپن سے سیکھتے ہیں سرکاری طور پر بھی اردو کے ساتھ کوئی متعصبانہ رویہ وہاں نہیں پایا جاتا. سرور صاحب اردو کے اچھے شاعروں میں تھے اور انھوں نے وہاں اردو شعرا کی ایک نئی نسل تیار کر رکھی تھی جس نے آگے چل کر فروغ اردو کے کام کو سنبھالا۔
پی کے شمس الدین ترورکاڈ نے کیرلا میں اردو کی مختلف اصناف اور تعلیم و تدریس کا احاطہ اپنے مضامین میں کیا ہے انھوں نے کیرلا میں اردو شاعری، کیرلا کی واحد اردو ناول نگار، کیرلا میں اردو تعلیم اور درس و تدریس کا تاریخی پس منظر، کیرلا میں اردو صحافت ،کیرلا میں اردو افسانوی ادب، 2016 تک کیرلا میں اردو کی صورت حال وغیرہ پر اچھے مضامین لکھے ہیں. ان مضامین سے وہاں پر لوگوں میں اردو زبان کے ذوق و شوق کا پتہ چلتا ہے کیرلا ہندوستان کی ایک ایسی ریاست ہے جہاں سو فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں. ان میں تین زبانوں پر یعنی ملیالم انگریزی اور ہندی جاننے والے تو سبھی لوگ ملیں گے لیکن ایک بڑی تعداد آپ کو اردو بولنے والوں کی ملے گی جس میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں پر ایک خاص بات کا اور ذکر کرتا چلوں اردو نے بہت بڑی حد تک یہاں کی مقامی زبان ملیالی کو بہت شدت سے متاثر کیا اور ملیالی میں بلا تکلف اردو کے الفاظ شامل ہو گئے اردو زبان کی کتابوں کے ملیالی میں جو ترجمے ہوئے ان سے بھی اس پر گہرا اثر پڑا اقبالؔ غالبؔ اور ٹیگورؔ نے یہاں کے شعرا کو بہت متاثر کیا۔ جس سے ان کی فکر اور ان کی زبان بھی اثر انداز ہوئی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو غزل نے ملیالی شاعری کو بہت متاثر کیا اور یہ صنف دھیرے دھیرے ملیالی شاعری کا حصہ بن گئی اور ملیالی میں غزلیں لکھی جانے لگیں. ڈاکٹر کے پی شمس الدین ترورکاڈ نے اس سلسلہ میں ملیالی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ترقی پسند شاعر او این وی کرپ کا حوالہ دیا یے جو ملیالی میں غزلیں لکھنے کے مشہور و مقبول ہیں. شمس الدین ترورکاڈ نے وہاں کے گیتوں اور فلموں پر بھی اردو کے گہرے اثر کا حوالہ دیا یے. انھوں نے لکھ ئے کہ
آج اردو کو ملیالم سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا لسانی طور پر اردو کے الفاظ ملیالم میں کچھ اس طرح ضم. ہو گئے ہیں کہ ملیالی اسے اردو الفاظ نہیں سمجھتے. کیرلا میں ہر خاص و عام اور تمام مذاہب کے لوگ یکساں طور پر ملیالم بولتے ہیں یہ زبان کبھی تعصب یافرقہ واریت کا شکار نہیں ہوئی اس لئے زبان میں سنسکرت اور تمل کے بعد سب سے زیادہ دخیل الفاظ اردو اور عربی کے ہیں۔ “
اردو اور ملیالی کے رشتہ اور اس کے ارتقا کے سلسلہ میں ”کیرلا میں اردو زبان و ادب “ کی تصنیف کے لئے میں ڈاکٹر کے پی ، شمس الدین ترورکاڈ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے امید ہےئ کہ اس کتاب کے ذریعہ ہم کیرلا میں اردو کےنشو نما اور فروغ کو زیادہ بہتر طریقہ پرسمجھ سکیںگے۔ اور کیرلا اور شمالی ہند کے درمیان لسانی لین دین کےاور راستےکھلیں گے۔
ضضض