کیا سی اے اے ایک بہانہ ہے؟

0
207

9415018288

کیا حقیقت میں سی اے اے ایک بہانہ ہے اقتصادی مندی نجکاری، روزگار، کاروبار، جی ایس ٹی سے دھیان بھٹکانے کا، اگر نہیں تو کیا ضرورت تھی اتنے شور شرابے، اتنے ہنگامے کے ساتھ اس نئے سی اے اے کی جبکہ پہلے سے ہی ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، جین، بودھ پناہ گزینوں کو بھارت کی شہریت دینے کی تجویز موجود تھی۔ کیا اس نئے قانون سے پہلے اگر کوئی مسلم نپاہ گزیں بھارت کی شہریت مانگتا تو اس کو شہریت دینا حکومت کی مجبوری تھی؟ کیا کسی بھی پناہ گزیں کو شہریت دینے یا نہ دینے کا پورا حق حکومت کے پاس نہیں تھا؟ کیا اب کوئی مسلم پناہ گزیں بھارت میں کبھی شہریت نہیں مانگ پائے گا؟ اگر مانگے گا، تو کیا اسے بھارت کی شہریت دینا حکومت کی مجبوری ہوگی؟ اگر پہلے بھی شہریت دینے یا نہ دینے کا پورا اختیار حکومت کے پاس ہی تھا اور اب بھی مسلم پرانے قانون کے تحت شہریت کیلئے درخواست کرسکتے ہیں، تو پھر اس نئے قانون کی ضرورت کیوں پڑی؟ اگر کچھ نیا کرنا ہی تھا کچھ بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کے اقلیتوں کیلئے کچھ خصوصی محبت دکھانا ہی تھا تو آسان تھا کہ کہہ دیا جاتا کہ بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان کے اقلیتوں کو مذہبی استحصال کی بنیاد پر بھارت کی شہریت دی جائے گی؟ تو بھی مسلمان اس دائرے میں نہیں آتے اور اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ پورے ہندوستان میں تحریک ہوتی نہ آئین کی دُہائی دی جاتی، نہ سڑک پر طلباء ہوتے اور نہ یونیورسٹی کی لائبریری میں پولیس۔ تو کیا حکومت کو کچھ ایسا لگا کہ 370  اور اجودھیا میں رام للا کے مندر بننے کا راستہ صاف ہونے سے وہ احتجاج نہیں ہوا جس کی اس نے تصور کیا تھا اس لئے اس نے ایک ایسا ایک نیا شوشہ چھوڑا جس میں پورا ملک لگ جائے، ہر طرف ہندو مسلم کی چرچا ہو جبکہ یہ حکومت اتنی مسلم مخالف ہے نہیں جتنا اپنے کو دکھانے کی کوشش کرتی ہے جبکہ اس کے برعکس کانگریس نے تو پہلے سے ہی وہ سارے قانون بنا رکھے ہیں جس سے مسلمانوں کے ساتھ جب چاہے جو چاہے وہ کرے اور اس نے کیا بھی، اگر کیا نہ ہوتا تو سچر کمیٹی کی رپورٹ یہ ہرگذ نہ کہتی کہ ہندوستان میں آج مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ بس اسنے جو کام کیا خاموشی سے کیا بغیر کسی شور شرابے کے کیا، ایسے کیا کہ سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی، خاموشی اتنی کہ رات کے اندھیرے میں مسجد میں مورتیاں رکھوا دیں اور 70  سال تک کسی کو پتہ نہیں چلا، دن کے اُجالے میں مندر کا تالا کھلوا دیا پھر مسجد کو بھی شہید کرادیا اور بی جے پی کی تین حکومتیں بھی گرادیں اور ایک الزام بھی نہیں لگا، اس کی پولیس ایس کہ 42  مسلموں کو پی اے سی کی گاڑی میں بٹھالا اور سب کو گولی مارکر ندی کے کنارے ڈال دیا۔ سب کچھ کیا لیکن اپنے زبان سے کبھی ہندو مسلم کا نام نہیں لیا اس لئے ہندو کبھی اپنے اوپر فخر نہیں کرپایا اور مسلمان کبھی دہشت میں نہیںرہا ہر حادثے کو حادثہ سمجھ کر ٹال دیا نہ کبھی آج جیسی مسلمان اور ہندوئوں کے درمیان درار پیدا ہوئی نہ نفرتیں پروان چڑھیں نہ ایک دوسرے نے کبھی ایک دوسرے کے خلاف اعتماد کھویا، سبھی اپنے کو ہندوستانی سمجھتے رہے اور جی جان سے ملک کی ترقی کیلئے کوشش کرتے رہے لیکن کل کی طرح مسلمانوں کے پاس آج بھی کچھ کرنے کو نہیں ہے اور دوسری طرف ہمارے ہندو بھائیوں کے پاس کچھ ہو نہ ہو لیکن فخر کرنے کو بہت کچھ ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here