کورونا کے خوف کے سائے میں ادائیگی فرائض رمضان

0
180

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

تقدیس نقوی

ہر انسان کےاندرکوئی نہ کوئ خوف پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے. کسی بھی ذی روح مخلوق کا اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثرہوکرخوف ذدہ ہوجانا اسکے زندہ ہونے کی علامت ہوتی ہے. انسان مخلوقات میں سب سے زیادہ حساس واقع ہوا ہے اس لئے اس کے اندر مختلف قسم کے خوف پیدا ہونےلازمی ہیں. انسان کے اندر پیدا ہونے والے خوف کا کسی حد تک تدارک توکیا جاسکتا ہے لیکن اس سے مکمل طور سے مفرمشکل ہے.
ماہران نفسیات کے مطابق خوف ایک ایسا احساس یا جذبہ ہے جو انسان کے اندراپنے کسی نقصان یا ضرر ہوجانے کے احتمال کو سوچ کر پیدا پوتا ہے. یہ خوفجان ومال واہل وعیال اورعزت کےمتوقعنقصان سے متعلق ہوسکتے ہیں. یہ سب خوف الگ الگ یا بیک وقت بھی ہوسکتے ہیں.آج کل جاری کورونا کا خوف بھی ایسا ہی خوف ہے جس کی موجودگی میں جان مال اور اولاد کچھ بھی محفوظ نہیں ہے .ان تمام خوفوںمیں سب سے شدید اپنی موتکا خوف ہوتاہے.
پوری دنیا میں اس وقت جاری کو رونا کی وباء نے بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب ہرانسان کے اندراپنی جان جانے کا خوف پیدا کردیا ہے. اور یہ خوف پیدا ہوجانا عین فطری ہے. خصوصا” ایسے حالات میں جب بظاہر اس کا کوئی ابھی تک علاج بھی دریافت نہیں کیا جاسکا ہے. اسی لئے ہرانسان کواپنی موت سامنے کھڑی نظرآرہی ہے. لوگ حتی الامکان حفاظتی تدابیر کررہے ہیں مگر یہ تدابیراس خوف سےنجات دلانےمیں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی ہیں . دولت طاقت حکومت اورشہرت سب ہی موت کے خوفناک پنجوں کی گرفت سے بچانے میں ناکام ہورہے ہیں جس کے نتیجہ میں اس وباء کا خوف شدید صورت اختیار کرتا جارہا ہے.
کیونکہ خوفکا تعلق انسانی نفسیات سے ہے اس لئےانسانی نفسیات پرکنٹرول خارجی عناصرسے زیادہ داخلی کیفیت پرکنٹرول حاصل کرکے ہی ممکن ہوسکتا ہے.لہذا اس کا تدارک بھی نفسیاتی تدابیر کرنےسے ہی ممکن ہوگا. اللہ تعالی نے خوف کا یہ احساس انسان کے اندر اس لئے رکھا ہے کہ وہ کسی متوقع خطرہ سے دفاع کرنےکےلئے خود کو ذہنی اورجسمانی دونوں طرح سے پہلے سے تیار کرلے یا اس خطرہ سے بچ نکلنے کی کوئی تدبیراختیار کرلے. کورونا سے لڑنے کے لئے اج ہمیں دونوں ہی تدابیردرکارہیں.
بلاشبہ اس نفسیاتی علاج کی جانب پہلا قدم خود کو جسمانی طور سے ہر ممکنہ خطرہ سے دور رکھنا ہے جو ہم سب social distancing اور quarantineکے ذریعہ مسلسل کررہے ہیں. خود کوجسمانی طور سے محفوظ پاکر انسان نفسیاتی طور سے بھی سکون محسوس کرتا ہے اور اسکا خوف کم ہوجاتا ہے . مگر کیا یہ تدابیر اختیارکرنے سے ہمارے ذہنوں میں روز بروز بڑھتا ہوا خوف ختم ہوگیا ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہےکیا ہم کورونا کی اس وباء کو بیماری کی شکل میں اللہ کی جانب سے نازل کیا گیا اک عذاب مانتے ہیں یا اسکی جانب سے یہ ہمارا اک امتحان ہے؟”
عذاب کسی گناہ کی پاداش میں نازل کیا جاتا ہے اوراللہ کی جانب سے امتحان قرب الہئ کے حصول کے لئے لیا جاتا ہے. عذاب سے جلد از بچنے کے لئے اللہ نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور امتحان میں کامیابی اور سرخرو ہونے کے لئے صبرو شکر کے ہتھیار مہیا کردئے ہیں .دونوں ہی شکلوں میں ہمیںکورونا کی اس وباء سے بچنے اور اس کے مکمل اورموثرعلاج کی تلاش کے ساتھ ساتھ قرب الہی حاصل کرنے کی جستجو کرنا چاہئے. اور یہ قرب الہی اللہ تعالی کی بتائی ہوئی عبادت کرکے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے. ان عبادات کو بجالانے سے اللہ پر ہمارے توکل اور بھروسے میں اضافہ ہوتا ہے. اللہ پرتوکل اوراس پرمکمل بھروسہ کرنا ہی وہ نفسیاتی علاج اورتدبیر ہے جو ہمارے دلوں سے ہرطرح کے خوف کو دورکرتا ہے.
قرآن کریم میں18 سوروں کی 30 آیات میں 31بارخوف کا زکر کیا گیا ہے جن میں 14 ایات میں اس کا زکرحزن یعنی غم واندوہ کے ساتھ آیا ہے. خوف کسی متوقع مصیبت کے آنے سے پہلے ہوتا ہے جبکہ حزن اس مصیبت کے نازل ہونے اور اس کے نتیجہ میں کوئی نقصان ہوجانے کے باعث پیدا ہوتا ہے. اسی لئے اللہ تعالی اپنے بندوں کی آزمائش کبھی خوف پیدا کرکےکرتا ہےاورکبھی خوف وحزن دونوں کے ساتھ کرتا ہے. کورونا کی وباء میں اس وقت خوف اور حزن دونوں ہی طرح کے حالات سے تمام بنئ نوع انسان دوچارہے.
قرآن کریم میں سورہ البقرہ کی آیت نمبر 155 میں اللہ تعالی نے ان ہی دونوں صورتوں کے ذریعہ انسان کا امتحان لینے کا زکرفرمایا ہے. ارشاد رب العزت ہے :
ولنبلونكم بشيء من الخوف والجوع ونقص الأموال والأنفس والثمرات وبشرالصابرين۔
ترجمہ ( اور ہم یقیناًتمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور جان ومال اورثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبرآپ ان صبرکرنے والوں کو بشارت دیں)
مذکورہ بالا آیت کریمہ کی روشنی میں اللہ تعالی نے دنیاوی زندگی میں انسان کا امتحان لینے کے لئے خوف کا اور نقصان کا انتخاب فرمایا مگر ساتھ ہی اسی آیت میں اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کا حل بھی عنایت فرمادیا ہے یعنی صبر کرنے والے ہی اس امتحان میں کامیاب ہونگے جس کی بشارت دینے کا حکم دیا گیا ہے. صبراورشکرکے ذریعہ ہی ہرانسان اس امتحان میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے. قران کریم میں کسی بھی مصیبت کے وقت صبر کے ذریعہ اللہ تعالی سے مدد مانگنے کی تلقین کی گئی ہے.سورہ البقرہ ایت نمبر153میں ارشاد ہورہا ہے:
یا ایھا الذین آمنوا استعینوابالصبروالصلواة ان اللہ مع الصبرین ترجمہ ( مصیبت کی حالت میں) اے ایمان والو صبر اورنماز کے ذریعہمدد طلب کرو. اللہ تعالی صبروالوں کے ساتھ ہے.
ان آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ صابرین کوپسند فرماتا ہے اس لئے اس کا قرب صبر کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے.قران کریم میں صبر کا زکر 69آیات میں 73 مقامات پر آیا ہے. صبرکےعام فہم معنی کسی مصیبت یا تکلیف کے وقت اللہ کی مرضی اور اسکے حکم پرراضی رہنا ہیں. اسی لئے روزہ کی عبادت کو بھی صبر کی ایک بہترین صورت بتایا گیا ہے. کیونکہ حالت روزہ میں انسان اللہ کے حکم کی اطاعت میں ہی بھوک اور پیاس کی شدت کی تکلیف بخوشی برداشت کرتا ہے جو صبر کا ایک بہترین مظاہرہ ہے . روایتوں میں ملتا ہے کہ روزہ صبر ہے.اس طرح نماز اور روزہ رکھنا دو ایسے عظیم نیک اعمال ہیں جن کے ذریعہ اللہ کا قرب حآصل ہوتا ہے اور اس وقت انسان اللہ سے اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی کا طلبگار ہوتا ہے اور اسکی نعمتوں پر شکرادا کرتا ہے. یوں تو یہ اعمال ہر صاحب ایمان پورے سال ادا کرتا ہے مگر اللہ تعالی نے سال کے بارہ مہینوں میں رمضان المبارک کا ایک مہینہ اپنی جانب منسوب کرکے اس کو اپنے بندوں کے لئے عبادت توبہ واستغفاراور شکرادا کرنے لئے مخصوص فرمادیا ہے.
ہرعبادت کے مقبول ہونے کے لئے خلوص نیت رجوع قلب اور خضوع و خشوع ضروری ہیں اور یہ تینوں خصوصیات گھر کی تنہائی اور گوشہ نشینی میں بہت بہتر طریقہ سے حاصل ہوتی ہیں . دینا کی مادی سہولتوں اور شورشرابے سے دور رہکر ہی انسان اپنی پوری توجہ بارگاہ الہی کی جانب مرکوز کرسکتا ہے .کورونا کے طفیل اب یہ ایسا پہلا رمضان المبارک آیا ہے جس میں گھروں میں ٹہرنے کی پابندیوں کے باعث تنہائی اور گوشہ نشینی کا سنہری موقعہ ملا ہے.ہمیں اللہ کا قرب حاصل کرنےاوراسکی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنے کے لئے اسےاللہ کا مخصوص عطیہ سمجھنا چاہئےاوراسلاک ڈاؤن کا بھر پورفائدہ اٹھانا چاہئے.
اس سال سے پہلے تک رمضان میںہمارے شب وروزیا تولذیذ کھانوں کا اہتمام کرنے میں یا بازاروں میں پوری پوری رات خریداری میں گذرتے تھے. رمضان کی فرصت کی راتوں کے لئے مخصوص کلچرل پروگرامس اور کھیلوں کے نائٹ ٹورنامنٹ منعقد کئے جاتے تھے .لوگ رمضان کا استقبال قیمتی لباس خرید کراورمختلف انواع کے کھانوں اور مشروبات کا ذخیرہ کرکے کیا کرتے تھے. جس کے لئے اگر انہیں بنک سے قرض بھی لینا پڑتا تھا تو وہ اس سے گریز نہیں کرتے تھے. بنکوں اور تجارتی مراکز کے مخصوص آفراسی مبارک مہینہ میں دئے جاتے تھے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ بلکہ اپنی ضرورت سے زیادہ شاپنگ کریں. تمام مسلم ممالک بالخصوص عربستان میں رات کے مخصوص بازار لگائے جاتے تھے جہاں لوگ گھروں میں عبادت کرنے کے بجائے سحری کے وقت تک یا تو شاپنگ کرتے رہتے تھے یا قہوہ خانوں چائے خانوں اور شیشہ خانوں میں الٹے سیدھے گیم کھیل کروقت گذارتے تھے یا ٹائم کل کرتے تھے تاکہ اگلا پورا دن سوکرگذارا جاسکے اوربھوک اورپیاس کی شدت کا احساس نہ ہوسکے. اس کام کے لئے ہرشہرمیں مخصوص رمضان ٹینٹ لگائے جاتے تھے. مگرکیا اس طریقہ کار سے مقصد روزہ حاصل ہوتا تھا ؟ کیا روزہ داراس طرح اس مبارک مہینہ میں قرب الہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا ؟ اتنی مصروفیت کے بعد اسکے پاس توبہ واستغفار کرنے کا وقت کہاں تھا. مگراب وہ وقت آچکا ہے کہ لاک ڈاؤن کے طفیل نہ اب وہ راتوں کے بازار ہونگےاورنہ وہ رمضان ٹینٹوں کی رونقیں نہ وہ کلچرل پروگرامس اور نہ وہ کھیلوں کے ںائٹ ٹورنامنٹس جن کی کشش رمضان کے مبارک مہینہ میں بھی اللہ کی عبادت سے روکتی تھی. گھرکی یہ قید اور گوشہ نشینی جبرا” ہی سہی مگر رمضان المبارک کے فرائض ادا کرنے کے لئے نہایت موزوں اور نادرموقع ثابت ہوگی.
کورونا کی وباء کے باعث کتنے ہی ایسےغریب اورمسکین لوگ اپنا روزگاراورذریعہ معاش کھو بیٹھے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ بمعہ اہل وعیال بھوک اورافلاس کا شکار ہورہے ہیں. ایسے وقت میں صاحب حیثیت اور آسودہ حال لوگوں نے گھروں میں مقید ہوجانے کے باوجود بھی اپنی غذاء کا مناسب اہتمام کررکھا ہے. مگرچند نیک لوگوں کو چھوڑکراکثرصاحب حیثیت حضرات کو مسکینوں اورغریبوں کی بھوک اورافلاس کا احساس نہیں ہے اور نہ وہ ان کی خبرگیری رکھنے کی فکر کرتے ہیں. مگرماہ مبارک رمضان کی برکتوں کے طفیل ہرمسلم کوخود بخود یہ موقعہ میسر ہوتا ہے کہ وہ بھی بھوک کی تکلیف اورپیاس کی شدت کا احساس کرکے اپنے ان بھائیوں کا خیال کرے جن کے پاس ایک وقت کے کھانے کا بھی انتظام نہیں ہے. اسی لئی روزہ کے مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی ہے کی اس کے توسط سے فقیراورغنی دونوں ایک کیفیت میں آجائیں تاکہ امیروں کے دلوں میں اپنے غریب بھائیوں کی بھوک کا احساس ہوجائے اوروہ آگے بڑھ کران کی مدد کریں. رمضان سے پہلے انہیں بھوک کی تکلیف کا احساس کبھی نہیں ہوپاتا اس لئے اللہ نے روزہ امیروں غریبوں سب پر برابر فرض قرار دیا ہے. امیرروزہ کے ذریعہ غریبوں کی بھوک کا احساس کرسکیں اورغریب بھوک کی حالت میں صبر وشکر کے عادی ہوجائیں .اسی لئے اللہ تعالی نے روزہ دار کا روزہ افطارکرانے کا بہت زیادہ ثواب رکھا ہے. حدیث رسول ہے کہ جو شخص کسی کا روزہ افطار کراتا ہے خدا اس پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے رزق میں وسعت عطا کرتا ہے بھلے ہی یہ افطار آدھی کھجور ہی سے کیوں نہ ہو.
اسی ماہ مبارک میں ایک شب وہ بھی ہے جسے شب قدرکہا جاتا ہے جوایک ہزار مہینوں سے افضل ہے. یہی وہ شب ہے جس میں قران نازل کیا گیا. نزول قرآن کی نسبت سے ہی اس مبارک مہینہ میں تلاوت قرآن پاک کی تاکید کی گئی ہے. اب تو ڈیجیٹل سہولتوں کے باعث ہرغیرعربی داں مسلمان کے لئے یہ اس قدر آسان ہوگیا ہے کہ وہ تلاوت قران پاک بغیر کسی ٹوئٹر کے بھی گھر کے اندر رہ کرکرسکتا ہے ترجمہ اور تفسیر قران اپنی پسند کی زبان میں پڑھ سکتا ہے. بس اس کے لئے جذبئہ صادق کی ضرورت ہے. لاک ڈاؤن کے دوران فضول واٹس اپ چیٹس اورویڈیوزدیکھنے سے کہیں بہتر ہے کہ اس پورے رمضان میں تلاوت قرآن کی آن لائن کلاسیز اٹنڈ کرکے اس مہینہ کو اپنی زندگی کا اک یادگار اور بیش قیمت مہینہ بنا لیا جائے. اس طرح یہ جبراً لاک ڈاؤن نہ صوف وقت کا صحیح استعمال کرنے کا نادر موقعہ بن جائیگا بلکہ آخرت کے لئے کچھ زاد راہ تیار کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا. قرآن کی تلاوت کرنے سے جو ذہنی سکون حاصل ہوگا وہ کورونا کے خوف کو تحلیل کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا.
لاک ڈاؤن کے سبب ہمارے کتنے ہی ہمسائے اورعزیز اس سال رمضان میں اپنی سحری اورافطار کا مناسب اہتمام کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے ہونگے. اس لئےعام طورسے سال بھرکی واجب زکواة نکالنے کے علاوہ بھی ہم صلہ رحمی کا فرض نبھائیں تاکہ ہم اور ہمارے اہل وعیال جب سحری اور افطاری اپنی پسند کی غذا سے کریں تو یہ دیکھ یا سن کرہمارے کسی ایسے ہمسائے اورعزیز کے اہل وعیال کو اپنی مفلسی اور ناداری کا احساس نہ بڑھ جائے.
ہرمصیبت کو دور کرنے اور پریشانی سے جلد ازجلد نجات پانے کے لئے صدقہ دینا ایک بہترین عمل قرار دیا گیا ہے. اس وقت پوری دنیا میں کورونا سے بڑی اور کون سی مصیبت ہوسکتی ہے. لہذا اس کو دور کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ صدقات دینا چاہئے. کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان صدقات کی مساکین اور مستحقین کو اشد ضرورت ہے. اس لئے ماہ رمضان سے بہتر وقت صدقہ دینے کا اور کیا ہوسکتا ہے جس میں ہرنیکی کا ثواب ہزارگنا ہوتا ہے. اس میں شک نہیں کہ تمام اہل ایمان کورونا کی وباء کے نازل ہونے کے بعد سے اپنے اپنے طریقہ سے توبہ واستغفار میں اپنا وقت صرف کررہے ہیں مگرماہ رمضان المبارک میں کی گئ عبادت اور توبہ واستغفارانتہای مقبولیت کا درجہ رکھتی ہیں. ہمیں اس مبارک مہینہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگنا ہے کہ وہ ہماری عبادت کو کورونا کی وباء سے نجات پانے کا ذریعہ قرار دے۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here