9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
انجینئر منظر زیدی
اس وقت دنیا کے زیادہ تر ممالک کی طرح ہندوستان اور یہاں کے باشندے بھی کورونا وائرس کی وجہ سے پریشان ہیں۔ دن بدن کورونا سے متاثر افراد کی تعداد اور اس سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے ملک میں اس بیماری کو ٹیسٹ کرنے کے محدود وسائل ہونے کی وجہ سے کورونا متاثرین کا صحیح اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس کی ٹیسٹنگ کے لئے مخصوص جگہیں ہیں۔ پرائیویٹ لیب اس کو ٹیسٹ نہیں کررہے ہیں۔ ٹیسٹ کی قیمت بھی تقریباً ساڑھے چار ہزار روپئے آتی ہے اور نتیجہ آنے میں بھی کم سے کم 48 گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت لگتا ہے۔ اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم ندیم رحمان، جو اس وقت نئی دہلی کی ایک پرائیویٹ کمپنی میں ڈائرکٹر ہیں، نے اس مرض کو ٹیسٹ کرنے کے لئے ایک کٹ تیار کی ہے جو پندرہ منٹ میں ٹیسٹ کا نتیجہ بتا دے گی اور قیمت محض پانچ سو روپئے ہوگی۔ چین نے بھی ہندوستان کو کئی لاکھ کٹس دی ہیں مگر ان کے استعمال پر ابھی روک لگادی ہے۔ ہمارے ملک میں اس بیماری کی ٹیسٹنگ کا کام تیزی سے نہیں ہورہا ہے۔ اسی لئے درجہ حرارت 35 ڈگری تک پہنچنے کے بعد بھی اس بیماری سے متاثر لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جبکہ کورونا وائرس کے بارے میں یہ خبر تھی کہ 30 ڈگری درجہ حرارت پر یہ وائرس ختم ہوجائے گا۔ دراصل نئے مریضوں کی تعداد اتنا زیادہ نہیں بڑھ رہی ہے۔ بڑھنے والے وہی افراد ہیں جن کی ٹیسٹنگ محدود و وسائل ہونے کی وجہ سے نہیں ہوسکی اور وہ کورونا سے متاثر تھے جن کی وجہ سے ان کی قربت میں آنے والے افراد بھی متاثر ہوگئے۔ اب جب ان کی جانچ ہورہی ہے تو یہ سب کورونا متاثر نکل رہے ہیں۔ ہمارے یہاں جانچ کرنے کیلئے ضروری سامان اور اسپتالوں میں جانچ کرنے والوں کی کمی ہے۔ ان کے لئے ضروری سہولیات بھی مہیا نہیں ہیں۔ ایسے میں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کورونا کیئرفنڈ جو وزیراعظم کے نام سے ہے اور جس میں ملک کے ہزاروں لوگوں نے ہزاروں کروڑ روپیہ عطیہ میں دیا ہے وہ آخر کہاں پر خرچ ہورہا ہے۔ اس روپئے کا استعمال غریبوں کو کھانے کا سامان تقسیم کرنے میں بھی صحیح طرح نہیں ہورہا ہے۔ نہ ہی نقد روپیہ سب غریبوں کو ایمانداری سے تقسیم کیا جارہا ہے۔
اس سلسلے میں راجندر نارائن، اسسٹنٹ پروفیسر عظیم پریم جی یونیورسٹی نے ہزاروں مزدوروں میں اس بابت سروے کیا تو پتہ چلا کہ نہ ہی سب کو اناج مل رہا ہے اور نہ ہی سب کو نقد روپیہ ملتا ہے جس کی وجہ سے وہ گھبراکر پیدل ہی اپنے آبائی وطن کی طرف چل پڑتے ہیں۔ تلنگانہ سے چھتیس گڑھ جاتے وقت ایک بارہ سال کی معصوم بچی کی موت تین دن لگاتار پیدل چلنے کی وجہ سے گھر پہنچنے سے پہلے ہی ہوگئی۔ کورونا کیئر فنڈ میں جمع ہوئی رقم کا صحیح استعمال کیوں نہیں کیا جارہا ہے۔ اس کے استعمال میں شفافیت کیوں نہیں برتی جارہی ہے۔ سی اے جی کے ذریعے اس کا آڈٹ بھی نہیں کیا جانا ہے۔ پھر اس کا حساب کون چیک کرے گا۔ اس روپئے کو وہاں کیوں نہیں استعمال کیا جارہا ہے جہاں کوارنٹائن وارڈ کی کمی کی وجہ سے غیرممالک سے آنے والے سب افراد کو کوارنٹائن نہیں کیا گیا جس کے نتیجہ میں کورونا ملک میں پھیل گیا۔ اس رقم کو وہاں کیوں نہیں استعمال کیا جارہا ہے جہاں اسپتالوں میں کورونا سے متاثر افراد کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کے پاس ضروری سامان کی قلت ہے۔ نرسوں کے ٹھہرنے اور کھانے کا انتظام اچھا نہیں ہے۔ علاج کرتے وقت احتیاط کیلئے ضروری اشیاء کی غیرموجودگی میںڈاکٹر اور نرسیں مررہے ہیں۔ عام آدمی کیلئے تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس بیماری سے بچنے کیلئے ضروری احتیاط نہیں کررہے ہیں مگر ڈاکٹروں اور نرسوں کیلئے تو یہ نہیں کہہ سکتے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اور نرسیں کن حالات اور کیسے ماحول میں کورونا متاثرین کا علاج کررہے ہیں اور اسپتالوں کی کتنی بری حالت ہے۔ اس روپئے کا استعمال وہاں کیوں نہیں کیا جارہا ہے جہاں آیسولیشن وارڈ کی کمی ہے اور جو بنائے گئے ہیں وہاں سینی ٹائرزرس اور صفائی کی بیحد کمی ہے۔ اخبارات میں آئے دن خبریں آتی ہیں ’’کورونا کے مریض نے خودکشی کرلی‘‘۔ ’’کوارنٹائن وارڈ سے افراد بھاگ گئے۔‘‘ ’’آیسولیشن وارڈ سے مریض فرار ہوگئے۔‘‘ ’’کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے لئے گئے ہوئے ڈاکٹروں کی ٹیم پر عوام نے کیا پتھرائو‘‘ اور اسی طرح کی بہت سی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ پہلے لگتا تھا کہ عوام اتنی بے وقوفی کیوں کررہی ہے۔ کیوں ڈاکٹروں پر حملے کررہے ہیں۔ کیوں آیسولیشن وارڈ سے بھاگ رہے ہیں مگر جب میں نے 20 اپریل کو فیس پر پیولوسواتنجا‘ جو سپریم کورٹ نئی دہلی میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ہیں، کی وال پر سیکٹر 122 نوئیڈا کے رہنے والے مرتیونجے شرما کی کورونا وائرس کی جانچ کے سلسلے میں دل دہلا دینے والی آپ بیتی پڑھی تو رونگٹے کھڑے ہوگئے اور سمجھ میں آگیا کہ اخبارات میں اس طرح کی خبریں کیوں شائع ہورہی ہیں اور عوام کورونا بیماری سے زیادہ اس کے ٹیسٹ اور علاج سے کیوں گھبرا رہے ہیں۔ مرتیونجے شرما نے جو کچھ لکھا ہے اسے مختصر طور پر یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
’’سب سے پہل میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی سیاسی ایجنڈہ نہیں ہے۔ آپ میرے ٹیوٹر اور فیس بک اکائونٹ پر دیکھ سکتے ہیں کہ میں مودی سرکار کا حمایتی رہا ہوں۔ مگر اب لگتا ہے کہ مودی سرکار صرف دکھاوا کررہی ہے اور میڈیا کو خریدکر ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کررہی ہے۔ میری بیوی کو پچھلے ایک ہفتہ سے بخار آرہا تھا۔ اچانک اسے کھانسی کی شکایت بھی ہوئی تو گھر کے پاس کے اسپتال کے ڈاکٹر نے صلاح دی کہ آپ کورونا کا ٹیسٹ کرالو۔ ٹی وی پر دیکھ کر لگتا تھا کہ کورونا کا ٹیسٹ بہت آسان ہے۔ سرکار نے سب انتظام کرکھے ہیں۔ اسی خیال سے کورونا کا ٹیسٹ کرانے کی بات مان لی۔ پرائیویٹ طور پر ٹیسٹ کرانے کیلئے کئی پرائیویٹ لیب پر بات کی مگر سب نے منع کردیا۔ سرکار کی ہیلپ لائن کے تین نمبروں پر گھر کے مختلف تین افراد فون ملاتے رہے۔ ایک گھنٹہ کی مسلسل کوشش کے بعد اسٹیٹ ہیلپ لائن کا نمبر ملا۔ اس ہیلپ لائن سے کسی عام کال سینٹر کی طرح رٹارٹایا جواب ملا کہ آپ کو کل شام تک فون آجائے گا۔ میں نے کہا کہ حالت تشویش ناک ہے۔ اگر کسی مریض کو کورونا ہے تو اس کا جلد سے جلد علاج ہونا چاہئے مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تب میں نے ڈی ایم گوتم بدھ نگر کو فون کیا اور بتایا کہ گھر میں ایک کورونا کا مشتبہ ہے۔ ان کے پی اے نے کہا کہ ہم کیا کریں یہ تو محکمہ صحت کا کام ہے۔ آپ سی ایم او سے بات کرلو۔ جب میں کہا کہ سی ایم او کا نمبر دے دیں تو انہوں نے کہا کہ سی ایم او کا نمبر نہیں ہے۔ بڑا تعجب ہوا کہ ضلع مجسٹریٹ کے دفتر میں سی ایم او کا فون نمبر نہیں ہے۔ کسی طرح انٹرنیٹ سے سی ایم او کا نمبر نکال کر انہیں فون کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔ آپ 108 نمبر پر ایمبولینس کو فون کرو اور یامبولینس کو بولنا کہ ہمیں کاسنا لے چلو۔ وہیں ہم نے کورونا وائرس کے آیسولیشن وارڈ بنا رکھے ہیں۔ جبکہ میڈیا پر دن رات یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ نوئیڈا میں کورونا کے بڑے بڑے اسپتال ہیں۔ پھر بھی انہوں نے گریٹر نوئیڈا میں کاسنا جانے کو کہا۔ ایک گھنٹہ کی جدوجہد کے بعد 108 کے کال سینٹر پر بیٹھے آدمی نے ایک ایمبولینس کا انتظام کروایا۔ جب ایمبولینس آئی اس وقت رات کے دس بجے چکے تھے۔ یوپی کا لاء اینڈ آرڈر کی حالت دیکھتے ہوئے میں اپنی بیوی کو اکیلے نہیں جانے دے سکتا تھا۔ میری ایک پندرہ مہینہ کی بیٹی بھی ہے جسے بھائی کے پاس چھوڑکر بیوی کے ساتھ ایمبولینس میں بیٹھ کر چل دیئے۔ ہمیں گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سانسز میںلے جایا گیا۔ وہاں ایک جونیئر ڈاکٹر ملی۔ ان کے پوچھنے پر میری بیوی نے اپنی بیماری کی علامتیں بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ دونوں کے ٹیسٹ کرنا پڑیں گے۔ رپورٹ 48 گھنٹے میں آجائے گی اور آپ کو آیسولیٹ ہونا پڑے گا۔ میں نے کہا کہ یہ میرے ممکن نہیں ہے۔ میری پندرہ مہینہ کی بیٹی ہے مجھے واپس جانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو واپس نہیں جانے دے سکتے کیونکہ آپ بھی ایمبولینس میں ساتھ آئے ہیں۔ رات میں ہی ہمارے نمونے لے لئے گئے اور ہمیں ایک ایمبولینس میں بٹھا دیا گیا جس میں پہلے سے ہی تین افراد کورونا مشتبہ بیٹھے ہوئے تھے لہٰذا اس کے پورے چانس تھے کہ اگر ہمیں کورونا نہیں بھی ہوتا تو ان کے ساتھ بیٹھ کر ہوسکتا تھا۔ اس کے بعد ہمیں ایس سی ایس ٹی ہاسٹل میں آیسولیشن میں رکھا گیا جہاں مجھے مردانہ وارڈ میں اور میری بیوی کو زنانہ وارڈ میں بھیج دیا گیا۔ دونوں کا واش روم ایک ہی تھا۔ رات کے ایک بج رہے تھے۔ جو کھانا ہمیں دیا گیا وہ خراب ہوچکا تھا۔ میں بغیر کھانا کھائے ہی سوگیا۔ صبح مجھے ضروریات سے فارغ ہونا تھا۔ میں نے ہاتھ دھونے کے لئے صابن مانگا تو جواب ملا کہ پانی سے ہی ہاتھ دھولینا۔ سینی ٹائزر کے نام پر صفر تھا وہ آیسولیشن سینٹر، چاروں طرف کوڑا پھیلا ہوا تھا۔ مجھے ایک دو گھنٹے کہہ کر سارا دن صابن کے لئے انتظار کروایا۔ اس چکر میں نہ ہی میں فریش ہوپایا اور نہ ہی کھانا کھایا۔ اگلے دن بھی صابن مانگنے پر آدھے گھنٹے میں صابن آرہا ہے کہہ کر مجھے ٹال دیا گیا۔ وہاں بغیر کپڑوں کے اور صفائی کے حالت خراب ہورہی تھی۔ 48 گھنٹے بعد میں نے رپورٹ کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ رپورٹ اتنی جلد نہیں آتی ہے۔ تین، چار دن انتظار کرنا پڑے گا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ آپ چاہے پازیٹو ہوں یا نگیٹو ہوں، سات آٹھ دن سے پہلے رپورٹ نہیں آتی ہے۔ سرکار وہاں آپ کے لئے کچھ نہیں کررہی ہے۔ صرف آپ کو آیسولیٹ وارڈ میں ڈال دیا جاتا ہے تاکہ سرکار کی ناکامی چھپ جائے۔ تقریباً 72 گھنٹے بعد جب دوبارہ رپورٹ کے بارے میں پوچھا تو وہاں موجود ایک آدمی نے کہا کہ ہمیں نہیں پتہ کہ آپ کی رپورٹ کب آئے گی صرف اتنا پتہ ہے کہ آپ کو یہاں سے جانے نہیں دینا ہے۔ میں نے پھر ضلع مجسٹریٹ کے نمبر پر فون کرنا شروع کیا مگر وہ نمبر بند ہوگیا۔ میں نے سی ایم او کو فون کرنا شروع کیا۔ انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ میںنے انہیں میسیج کیا کہ میری پندرہ مہینہ کی بیٹی ہے اور وہ ماں کا دودھ پیتی ہے۔ وہ فی الحال میرے بھائی کے ساتھ گھر پر ہے، مجھے آپ کی مدد چاہئے۔ مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ پھر میں نے ڈپٹی سی ایم او کو فون کیا مگر فون نہیں اٹھا۔ میں نے بہت ہاتھ پیر مارے مگر کچھ نہیںہوا۔ میری اُلجھن بڑھتی جارہی تھی۔ میرے ساتھ ہی ایک اور لڑکا آیسولیٹ ہوا تھا۔ گرمی اور گندگی کی وجہ سے وہ میرے سامنے ہی بیہوش ہوگیا۔ کوئی اُسے اٹھانے، اس کے پاس جانے اور اسے چھونے کیلئے تیار نہیں تھا۔ وہاں کسی بھی مریض کی طبیعت خراب ہورہی تھی تو کوئی اس کے پاس نہیں جارہا تھا۔ اگر کسی کو بخار ہوتا تو اسے ’پیراسیٹامول‘ دے کر وارڈ کے اندر چپ چاپ سونے کو کہا جاتا۔ سیڑھیوں کے پاس اتنا کوڑا اکٹھا ہورہا تھا کہ بدبو کے مارے کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا۔ وہاں جو بڑے افسر دورے پر آتے وہ باہر سے ہی واپس جارہے تھے۔ اندر آکر حالات جاننے کی کوشش کسی نے نہیں کی۔ اس کے بعد میری بیوی کا فون آیا کہ لیڈیز کو کہین اور لے جارہے ہیں۔ پتہ چلا کہ عورتوں کو گلگوٹیا یونیورسٹی کے ہاسٹل میں آیسولیشن وارڈ میں لے جارہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ میںاپنی بیوی کو اکیلا نہیں جانے دوں گا۔ تب انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ آپ کو بھی بھیج دیں گے۔ انہوں نے میرے ہاتھ میں ایک پرچی پکڑائی کہ اس وارڈ سے دوسرے وارڈ کے لئے آپ کی ٹرانسفر سلپ ہے۔ میں نے پرچی کو دیکھا تو اس میں لکھا تھا ’’مرتیونجے کووِڈ- 19 نگیٹو‘‘ اس پر میں نے کہا کہ جب میری رپورٹ آئی ہوئی ہے تو آپ مجھے دوسرے وارڈ کیوں بھیج رہے ہیں۔ انہوں نے میرے ہاتھ سے پرچی لے لی اور کہا کہ شاید کوئی غلطی ہوگئی ہے۔ پھر باہر آکر انہوں نے کہا کہ آپ کی رپورٹ نگیٹو ہے۔ آپ کی بیوی کی رپورٹ نہیں آئی ہے۔ انہیں وہاں جانا پڑے گا۔ میںنے ان سے سوال کیا کہ میری بیوی کا نمونہ مجھ سے پہلے لیا گیا تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میری رپورٹ آگئی اور بیوی کی نہیں آئی۔ پھر وہ اندر گئے اور کچھ دیر بعد آکر بتایا کہ آپ کی بیوی کا بھی نگیٹو آیا ہے۔ کتنے غیرذمہ دار ہیں یہ لوگ۔ کوئی سسٹم نہیں۔ جس کے جو دل میں آرہا ہے وہ کئے جارہا ہے۔ کسی کو نہیں پتہ کہ کیا چل رہا ہے اور کیا ہونا ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ آپ گھر واپس جاسکتے ہیں۔ واپس آتے وقت بھی ایمبولینس میںپانچ لوگ دوسرے بھی ساتھ تھے۔ وہاں ہائی جین کی خراب حالت کی وجہ سے اگر آپ کو کورونا نہیں بھی ہے تو ایمبولینس میں یا آیسولیشن وارڈ میں کورونا ہونے کی پوری اُمید ہے۔ پہلے ایمبولینس ڈرائیور نے ہم سے کہا تھا کہ ہمیں سیکٹر 122 چھوڑ دے گا مگر ہمیںنٹھاری اتارکر چلا گیا۔ لاک ڈائون کے چلتے رات کو ایک بجے کسی طرح ہم نوئیڈا سیکٹر 122 میںپہنچے۔‘‘
مرتیونجے شرما کے بارے میںیہ خبر ہندی کے اخبار نوبھارت ٹائمس نے 19 اپریل کو کافی تفصیل سے شائع کی ہے۔ خبر کے ساتھ اخبار نے تین فوٹو بھی چھاپے ہیں جس میں آیسولیشن وارڈ کی حالت، وارڈ میں بیہوش پڑے ہوئے آدمی کی تصویر اور وارڈ میں پھیلی گندگی کو دکھایا گیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسپتالوں اور وارڈ کی کیا حالات ہے اور کورونا کے ٹیسٹ اور علاج کو لے کر عوام میںکتنی دہشت پھیلی ہوئی ہے جب ٹیسٹ میں یہ دشواریاں ہیں تو علاج میں کتنی مشکلیں پیش آرہی ہوں گی۔
Mob. No. 7991207188 ۔
خخخ