کرونا وائرس اور میڈیا کا مذہبی رنگ

0
96

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


اویس سنبھلی

ملک میں لاک ڈائون کے چلتے اگر دہلی پولیس نے دوراندیشی اور غیرجانبدارانہ عمل کا مظاہرہ کیا ہوتا تو تبلیغی جماعت کے مرکز بستی حضرت نظام الدین ،دہلی میںیہ واقعہ نہ ہوتا۔نظام الدین مرکز کے اس حادثہ میں دہلی پولیس ہی نہیں مقامی انتظامیہ بھی برابر کی شریک ہے۔پوری دنیا اس وبائی مرض کورونا سے لڑنے میں مصروف ہے اورہم اس کو ایک الگ چشمے سے دیکھ رہے ہیں ۔ میڈیانے ہمیشہ کی طرح وہی کیا اور ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنایا ۔
مرکز نظام الدین میں عام دنوں میں بھی سیکڑوں لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے۔ لاک ڈائون کے اعلان کے بعد محض چار گھنٹے کی مہلت تھی ۔ایسے میں جوجہاں تھا وہیں پھنس گیا۔مرکز نظام الدین میں موجود لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا یعنی جہاں تھے وہی رُکے رہے۔کیونکہ اعلان میں یہ بھی وضاحت کی گئی تھی کہ جو جہاں ہے وہیں رہے ۔
لاک ڈاؤن کے لیے کوئی پالیسی یا پلاننگ نہیں تھی اسی لیے روزنامہ مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالنے والوں کے لیے یہ اعلان قیامت صغری سے کم نہ تھا ۔اور اسی لیے ایسے تمام لوگ اپنے اپنے گھروںکے لیے پیدل لوٹنے لگے ۔ مزدوروں میں سے تقریباً ۳۰؍لوگوں کے مرنے خبر آنے لگی تو اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لیے اس کا ٹھیکرا کسی کے سر تو پھوڑنا تھااور ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنا دیا گیا ۔لاک ڈائون کے سبب دہلی اور مرکزی حکومت کی ناکامی کی وجہ سے جگ ہنسائی ہورہی تھی۔دہلی سمیت پورے ملک کا غریب طبقہ سڑکوں پر تھا ۔ ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں کا ادھر اُدھر جانے کا معاملہ طول پکڑ رہا تھااور ہر طرف ’تھو تھو‘ ہورہی تھی کہ ایسے میں مرکز نظام الدین کا معاملہ سامنے آگیا۔
ایسا باور کرایا جارہا ہے کہ جسے یہ لوگ’’ چھپ ‘‘کر یہاں رہ رہے تھے جبکہ تمام چیزیں پولیس کے علم میں تھیں۔مرکزنظام الدین میں رہ رہے لوگوں سے پولیس کے اہلکاروں نے سوشل ڈسٹینٹنگ بنانے کو کہا تھا۔ان میں تقریباً ۲۰۰؍لوگ غیر ملکی ہیں۔ ان میں سے بعض اپنے اپنے ملک کی ایمبیسی پہنچ گئے اور وہیں رہ رہے ہیں۔معلوم ہونا چاہئے کہ یہ غیر ملکی بنا ویزے کے نہیں آتے اور ان کی آمد کی اطلاع وزارت داخلہ اور خارجہ دونوں کے پاس ہوتی ہے۔ جو بیرون دہلی کے لوگ ہیں وہ لاک ڈائون کی وجہ سے کہیں سفر نہیں کرسکتے تھے۔لہٰذا مرکز نظام الدین میں لوگ ’’چھپے ‘‘ نہیں ’’پھنسے ‘‘ ہوئے تھے۔لیکن میڈیا کے اکثر طبقے نے نظام الدین بنگلے والی مسجد کو کورونا کا مرکز کہنا شروع کردیا ہے۔جبکہ یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ انھیں لاک ڈائون سے قبل اپنے اپنے گھروں کو بھیجنے کا انتظام کرتی۔مرکز نظام الدین کے ایک ذمہ دار مولانا یوسف نے 25؍مارچ کو اپنے دستخط والے خط میںاسٹیشن ہاوس آفیسر(SHO) کو لکھا تھا: (ترجمہ):
’’ہم مرکز خالی کرنے کے لئے آپ کی ہدایات پر عمل کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔23؍مارچ کو ہم پہلے ہی 1500؍سے زیادہ لوگوں سے خالی کراچکے ہیں۔ہمارے پاس اب بھی مرکز میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہیں۔آپ کی ہدایات کے مطابق ہم نے گاڑی کے پاس کے لیے ایس ڈی ایم سے رابطہ کیا تھا کہ ہم باقی لوگوں کو ان کے متعلقہ مقامات پر بھیج سکیں۔ایس ڈی ایم دفتر نے 25؍مارچ کو صبح 11؍بجے ملاقات کے لیے وقت دیا ہے۔آپ سے درخواست ہے کہ کہ برائے کرم ابتدائی کاروائی کے لیے ایس ڈی ایم سے رجوع کریں۔ ہم آپ کی تمام ہدایات پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
اسی طرح 29؍مارچ کو اسٹنٹ کمشنر آف پولیس اتل کمار کو ایک خط لکھاگیا جس میں تبلیغی مرکز کا تعارف کراتے ہوئے اور یہاں لوگوں کی آمد و رفت سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے لکھا:(ترجمہ)
’’جب لاک ڈائون ہوا تھا تو کافی لوگ اندر(تبلیغی مرکز میں)تھے اور اندر ہی رہے۔جنتا کرفیو والے دن کچھ لوگوں کو باہر نکالاگیا تھا۔ جب لاک ڈائون کا اعلان ہوا تو تبلیغی مرکز کا دروازہ بند کر دیا گیا تھااور باہر سے کسی کو اندر نہیں آنے دیا گیاکیونکہ وزیر اعظم نے لاک ڈائون کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ ’’جو جہاں ہے وہیں رہے‘‘۔وزیر اعظم کی اسی بات پر عمل کرتے ہوئے سب کو اندر رکھا گیا۔‘‘
کورونا وائرس کے بارے میں منگل کی پریس کانفرنس میں وزارت کے جوائنٹ سکریٹری لَو اگروال نے کہا کہ ’’یہ وقت غلطیاں بتانے کا نہیں بلکہ تعریف کرنے کا ہے اور جن مقامات پر کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو اس کا طے طریقہ کار کے تحت کاروائی ہونی چاہئے۔ لَو اگروال کا یہ جواب مرکز نظام الدین کے معاملہ میں تھا۔
نظام الدین مرکز کے معاملے میں جس طرح کا ماحول پیداکیا ہے ، وہ بے حد افسوسناک ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر الیکڑانک میڈیا تک صرف یہی بحث چل رہی تھی کہ مرکز میں ایک ساتھ ایک ہزار سے زیادہ لوگ چھپے بیٹھے ہیں۔کوئی اسے کورونا بم تو کوئی کورونا جہادکہہ رہا ہے۔مرکز نظام الدین میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ ایک جگہ جمع تھے ، یہ کورونا کے خلاف لڑائی کے لیے بنائے گئے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن کیا یہ اتنا سیدھا معاملہ ہے؟
کیا مرکز نظام الدین سے چند قدم کی دوری پر موجود دہلی پولیس کے تھانہ کواس کی کوئی خبر نہیں تھی ؟تبلیغی جماعت کا اجتماع 13؍سے15؍مارچ کے درمیان ہوا۔ اس جلسہ کی اطلاع مقامی پولیس اور دہلی کی انتظامیہ کو تھی اور اس میں شامل ہونے والے لوگوں کی تعداد کے بارے میں بھی انھیں پتا تھا۔اس کے علاوہ ایک سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ مرکز نظام الدین کا یہ اجتماع تنہا ایسا پروگرام تھا جس میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ حصہ لے رہے تھے؟۔نہیں بالکل نہیں۔ 21؍فروری کو کویمبٹور میں ہندو گرو جگّی واسودیو نے مہاشیوراتری کے ایک پروگرام کا انعقاد کیا اس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شامل تھے جس میں119؍ غیرملکی افراد بھی شامل تھے۔اترپردیش کے راجدھانی لکھنؤ میں کونیکا کپور جو غیر ملکی دورے سے ٹھیک اسی وقت لوٹیں تھیں ، جس وقت مرکز میں غیر ملکی مہمان آئے۔ کنونیکا کپور نے لکھنؤ اور کانپور میں پارٹیوں میں حصہ لیا ۔دہلی میں پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا۔وہاں کا اسٹاف اور دونوں ایوانوں کے اراکین کی تعداد ملاکر بھی نظام الدین مرکز میں موجود لوگوں کے تقریباً برابر ہی ہوگی۔صدر جمہوریہ ہند 50-50 ؍اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ناشتہ کررہے تھے اور اس میں وسندرا راجے سندھیا کے بیٹھے دشینت بھی شامل تھے ، جنہوں نے کانپور میں کونیکا کپور کے ساتھ نہ صرف حصہ لیا تھا بلکہ فوٹو شوٹ بھی کرایا تھا۔ 23؍مارچ کو مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان وزیراعلی کا عہدہ سنبھالنے کے لیے حلف لیتے ہیں۔اس جشن میںکورونا پازیٹولوگ بھی شامل تھے ، لیکن ان پر تنقید کون کرسکتا ہے؟۔ویشنو دیوی مندر میں چار سو لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ سد گروجی کے آشرم میں آج بھی 150؍غیر ملکی لوگ موجود ہیں۔سابق وزیر مالیات یشورنت سنہا نے ٹیوٹر پر لکھا ہے:(ترجمہ)
’’اترپردیش کے وزیر اعلی ایودھیا میں مورتی استھاپنا کی تقریب میں شرکت کرسکتے ہیں اور کرناٹک کے ایک وزیر شادی میں شرکت کرسکتے ہیں(اور دونوں تقریبات کا انعقاد لاک ڈائون کے بعد ہوا)۔ملک کے بیشتر حصوں میں دیگر ہندو تقریبات کا انعقاد کیا جاتا رہا لیکن ساراالزام مرکز نظام الدین پر لگادیا جاتا ہے جنہوں نے 13؍مارچ کو ایک مذہبی جلسے کا انعقاد کیا اور اس وقت تک لاک ڈائون کا کوئی ذکر بھی نہیں تھا۔۔۔۔اور مرکز کا اجتماع ختم ہونے کے بعد سیکڑوں کی تعداد میں لوگ ہندومہاسبھا کی تقریب’’یاگیا‘‘میں شرکت کرتے ہیں اور کورونا سے بچنے کے لیے ’’گئو موتر‘‘کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب جائز ہے اس لیے کہ وہ ہندو ہیں۔‘‘
ان تمام معاملات پر سارے نیوز چینل خاموش ہیں اس کے برعکس مرکز نظام الدین کا معاملہ اتنا زیادہ تشویشناک نہیںہوتااگر دہلی حکومت چاہتی تو اسے وقت رہتے کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔
لوگ اپنے گھروں میں ’قید تنہائی‘کے دن کاٹ رہے ہیں ۔وبا سے لڑنے کے لیے میڈیا کو ایک خوش گوار ماحول بنانا چاہیے مگر حیرت ہے کہ یسے مشکل وقت میں میڈیا اپنے تماشے میں مصروف ہے ۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا خمیازہ افراد نہیں ملک کو اٹھانا پڑے گا ۔ میڈیا کوملک کو درپیش کورونا وائرس سے لڑنے کی ہمت اور طاقت دینے کے بجائے اس معاملہ کو مذہبی رنگ دینے لگا ہے۔اپنی ٹی آر پی کو بڑھانے اور ایک خاص فرقہ کو خوش کرنے کے لیے ہی وہ ’’کورونا بم‘‘ یا ’’کورونا جہاد‘‘کا لفظ استعمال کررہا ہے ۔تاریخ میں یاد رکھا جائے گا کہ جب کورونا کے خلاف لڑ رہی تھی اور اس کی ویکسین تیار کرنے میں لگی تھی تو ہمارا ملک کورونا کا مذہب تلاش کررہا تھا۔بقول شخصے’’کورونا چین میں پیدا ہوا۔ اٹلی، اسپین، امریکہ، ترکی اور ایران میں پلا بڑھا اور ہندوستان پہنچ کر مسلمان ہوگیا۔
٭٭٭
رابطہ: 9794593055

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here