[email protected]
9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹرمظہر عباس
مشرف عالم ذوقی کا ’’ناول پوکے مان کی دنیا‘‘ نواستعماریت،صارفیت ، میڈیا، گلوبلائزیشن، انٹرنیٹ، چیٹنگ، جنک فوڈ کے اثرات کے نتیجے میں تبدیل ہوتی اخلاقیات اور روایتی اقداری سانچوں کے درمیان کشمکش کو سامنے لاتا ہے۔ناول ہندوستان کے تناظر میں تیسری دنیا کی تہذیبی اور ثقافتی شکست وریخت اور خاص طور پر جنس کے حوالے سے بدلتے رویوں کو زیرِبحث لاتا ہے۔تبدیلی کا یہ عمل پیداواری اور سماجی عمل سے جڑا ہونے کے بجائے عالمگیریت اور صارفیت کے اثرات کا نتیجہ ہونے کی وجہ سے ’فیوچر شاک‘اور ’کلچرل شاک‘ کا باعث بنتا ہے۔یہ ناول اسی بدلتے تناظر اور اس کے اثرات پر مکالمے کی دعوت دیتا ہے۔یہ مضمون اس ناول کی فکری اساس اور فنی وسائل کو سامنے لاتا ہے۔
کلیدی الفاظ:استعماریت، اخلاقیات،رویتی اقداری سانچے،ثقافتی شکست و ریخت،سماجی عمل، میڈیائی یلغار،فیوچر شاک، جنریشن گیپ
نواستعماریت،صارفیت ، میڈیا، گلوبلائزیشن، انٹرنیٹ، چیٹنگ، جنک فوڈ کے اثرات صرف معاشی سطح پر نہیں ہیں۔سماجی سطح پر نوجوان نسل اور کم عمر بچے بہت تیزی کے ساتھ اس منظرنامے کو نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ ان کے مضر اثرات سے براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ کم عمر بچے اور نوجوان نسل اپنے بزرگوں کی اخلاقیات، روایات کو فرسودہ سمجھنے لگے ہیں۔والدین کی مداخلت کو قبول نہیں کررہے بلکہ اسے جنریشن گیپ کا نام دے رہے ہیں۔ خاندان ،رشتے ،محبتیں اور سماجی اقدار جو اگلی نسل کی آبیاری کیا کرتی تھیں،اُس نسل کے کردار کو ایک خاص نہج عطا کرتی تھیں،سیکڑوں سالہ اقدار ،رویے اور اخلاقیات کا بیج اگلی نسل میں بویا کرتی تھیں وہ نہ رہیں۔ہم آنے والی تبدیلیوں کو قبول کرنے سے اِنکاری ہیں ، لیکن آنکھ بند کر لینے سے حقائق بدل تو نہیں جاتے۔ بدلتے ہوئے سماجی منظرنامے میں خاندانی نظام سب سے زیادہ شکست و ریخت کا شکار ہے۔ ہمارا سماج اِس حقیقت کو قبول کرنا تو ایک طرف رہا ،اِس پر مکالمہ کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔میڈیائی یلغار نے خبر دینے کے بجائے ذہین سازی کا عمل شروع کر رکھا ہے ۔نوجوان نسل سب سے زیادہ اِس یلغار سے متاثر ہو رہی ہے۔آخر اِنٹر نیٹ پر اتنازیادہ مواد ’پورن‘کیوں ہے؟کون لوگ ہیں جو فری یہ سروس مہیا کر رہے ہیں؟ہم اِس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے،یا تبدیل ہوتی اِس اخلاقیات کو زیرِبحث لاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔اِن کی ایک بڑی وجہ ہمارا مشرقی مزاج اور مذہبی تشخص ہے جو تبدیلی کو ناپسند کرتا ہے۔ایک اور وجہ اڈھاک ازم ہے جسے ہم ڈنگ ٹپائو پالیسی بھی کہ سکتے ہیں۔اِنفرادی اور اجتماعی رویوں کے ساتھ ساتھ ملکی پالیسیوں میں ،سلیبس میں یہاں تک کہ دانش میں بھی یہی پالیسی کارفرما نظر آتی ہے۔
اِنڈیا اِس حوالے سے ہم سے آگے ہے۔وہاں سوشل میڈیا،الیکٹرانک میڈیا،فکشن،اور فلم میں ایسے موضوعات کو چھیڑا جا رہا ہے جن پر ہمارے ہاں لکھنا تو دور کی بات ہے گفتگو کرنا بھی ممنوع ہے۔ہماری نوجوان نسل عطائی حکیموں کے اِشتہارات کو پڑھ پڑھ کر جنسی مریض اور علاج کے نام پر گردے فیل کراتی جارہی ہے اور ہم اُن سے مکالمہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری اخلاقیات میں جنس پر بات کرنے کی اِجازت نہیں۔مغرب میں یہ مسئلہ نہیں ہے۔اُس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے سماج میں بتدریج اور تسلسل کے ساتھ تبدیلی آئی ہے ۔مغرب میںپیداواری ارتقاء ، سماجی ارتقاء اورفکری ارتقاء میں تسلسل اور ہم آہنگی رہی۔اِس لیے وہاں کے سماج کو اس نوع کے مسائل کا سامنا نہیں ہے(اُن کے سماجی مسائل اور نوعیت کے ہیں)۔
ہمارے ہاں پیداواری نظام اور بدلتی سماجی اقدار میں کوئی ربط ہی نہیں ہے ۔ہم مابعدجدید عہدمیںرہتے ہوئے نیم جاگیردارانہ،نیم سرمایہ دارانہ اور نیم قبائلی نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ہماری سماجی زندگی میںآنے والی تبدیلیوں کا تعلق ہمارے اپنے تناظر سے نہیں بلکہ عالمگیریت کے اثرات سے ہے۔یہ تبدیلیاںبظاہر مصنوعی اور غیر اہم نظر آتی ہیں ،شاید اِس لیے ان پر سنجیدہ مکالمے کا آغاز نہیں ہوا،لیکن یہ اِتنی غیر اِہم نہیں کہ اِنہیں نظر انداز کیا جائے۔نوجوان حیران ہوتے ہیں کہ بزرگ انٹر نیٹ ،کیبل،ٹی وی اور کلب جیسی سہولیات کے بغیر زندہ کیسے تھے ؟ یعنی اب زندگی میںرشتوں ،محبتوں،روایات اور اخلاقیات سے زیادہ اہمیت میڈیا اور کلب کی ہو گئی ہے۔بزرگ تنگ سلیولیس لباس میںبیٹی کودیکھ نہیں سکتے۔نوجوان اسے دقیانوسیت اور جنریشن گیپ کہتے ہیں۔بات صرف جنریشن گیپ کی نہیں ہے،جنریشن گیپ تو ہر دور میں ،ہر نسل کا مسئلہ رہا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ نئی نسل اور پرانی نسل میں یہ گیپ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔اسے سمجھنا ضروری ہو گیا ہے کیونکہ اسے سمجھے بغیر سماج میں آنے والی تبدیلیوں کو سمجھنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس سارے منظرنامے کی موثر اور بھرپور عکاسی مشرف عالم ذوقی کے ناول ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ میں کی گئی ہے۔ ناول میں ہندوستانی معاشرے کے اندر آنے والی تبدیلیوں کو موضوع بنایا گیا ہے اور خاص طو رپر نوجوان نسل کی جنسی زندگی پر جواثرات پڑے ہیں ان کو پیش کیا گیا ہے۔
ناول کو پڑھتے جائیں خودبخود انڈیا اور پاکستانی سماج کا تقابل ہوتا جاتا ہے۔کیونکہ یہ دونوں ممالک ثقافتی مماثلت کے ساتھ ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہیں۔ انہیں اپنی مصنوعات کو فروخت کرنا ہے۔۔۔کسی بھی قیمت پر۔۔۔تہذیب ،سنسکرتی،اخلاقیات کی قیمت پر ہی سہی ۔۔۔مصنوعات کا بِکنا ضروری ہے ۔اِشتہار بازی میں حقیقت اور فنٹسی کواتنا گڈمڈ کر دیاگیا ہے کہ حقیقت کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ گئی ہے۔ویسے بھی ہر نسل کی اپنی حقیقت اور اپنی فنٹسی ہوتی ہے۔مابعد جدید نسل کی حقیقت فینٹسی اور لمحہِ موجود سے عبارت ہے۔
ناول پر مزید بات کرنے سے پہلے مختصر طور پر ناول کی کہانی پیش کرنا ضروری ہے۔ناول کی کہانی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ ادھڑ عمر خواتین و حضرات ، نئی نسل کے نمائندہ کچھ لڑکے لڑکیاں،عالمی استعماری معاشی قوتیں،بکائو میڈیا،مفاد پرست سیاستدان اوراحمق سوسائٹی (جو عقل کا اِستعمال کرنا معیوب خیال کرتے ہیں) کے گرد گومتی ہے۔ناول کا مرکزی کردار سنیل کمار رائے پس ماندہ علاقے گوپال گنج سے تعلق رکھتا ہے۔اپنی محنت کے سہارے جج بن جاتا ہے۔ایک مقدمہ اس کی پرسکون زندگی میں ہلچل مچاتا ہے۔وہ اِرد گرد کی زندگی کو روایتی اقداری سانچوں میں دیکھتا ہے،سب غلط نظر آتا ہے۔اب کہانی کا کچھ حصہ اقتباسات کے ذریعے۔۔۔
’’میری نظر نے ایک مرتبہ پھر اس کا تعاقب کرنا چاہا۔مگر ہر بار بیٹی کی جگہ جسم آڑے آتا رہا۔۔۔وہی تنگ کپڑوں میں سمٹا ہوا ایک کھلا جسم۔۔۔جسے دیکھتے ہوئے باپ اپنی ہی نظر میں ننگا ہو جاتا ہے۔۔۔‘‘[ٍ۱]
’’یعنی بس تھوڑے سے لمحے۔جب رات میں ایک میز کے گرد ۔۔۔تھوڑی دیر کے لیے تم لوگ سمٹ جاتے ہو۔ایک بیوی ہوتی ہے۔ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔۔۔اور ۔۔۔تنہائیوں کا مرثیہ ہوتا ہے۔۔۔‘‘[۲]
ریا زور سے چیختی ہے۔۔۔یہ ہے جنریشن گیپ۔۔۔آپ کے اور ہمارے بیچ کا ڈیڈ۔اونلی جنریشن گیپ۔آپ صرف ہماری جنریشن میںبیکٹیریا ڈھونڈو گے۔۔۔غلط باتوں کا بیکٹیریا۔۔۔یو آسو کنزرویٹواینڈ اولڈ فیشنڈ۔۔۔بدلے ہوئے زمانے میں آپ کبھی ہمیں Accept کرو گے ہی نہیں۔۔۔‘‘[۳]
میری بیٹی اگر چھوٹے کپڑے پہنتی ہے تو پہنا کرے۔۔۔اُس کے دوست اُس کے کمرے میں ’بے کھٹک‘داخل ہو کر دروازہ بند کر لیتے ہوں ۔۔۔تو بند کر لیا کریں۔۔۔نتن اپنی گرل فرینڈ کو آزادانہ سب کے سامنے چوم سکتا ہے ،تو۔۔۔بڑے بننے کے طفیل میں آنکھوں کا بند رکھنا ضروری ہے۔لیکن سنیل کمار رائے سے یہی نہ ہو سکا۔۔۔وہ گوپال گنج کے ’چھوٹے آدمی‘ہی بنے رہے۔شاید۔۔۔پرانے سنسکاروں سے لپٹے ہوئے اور بچے اُڑتے رہے۔۔۔اسنیہ نئی باتوں سے سمجھوتا کرتی رہی۔۔۔‘‘[۴]
اسنیہ کا سمجھوتا اور سنیل کمار کا فرارجاری رہتا اور زندگی اسی طرح گزر جاتی،بچے اپنی پسند اور اپنے انداز سے شادی بیاہ کر کے اُڑ جاتے ۔۔۔کہانی ختم۔۔۔ہیپیلی اینڈ۔۔۔ناول کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔شاید ایسا ہی ہوتامگر ایسا ہوا نہیں۔ کہانی میں ایک دھماکہ دار انٹری ہوئی،پرانی روایات اور تبدیل ہوتی نئی اخلاقیات کا ٹکرائو کھل کر سامنے آ گیا۔ایک بارہ سالہ بچے نے اپنی ہم عمر کلاس فیلو کے ساتھ جنسی عمل کیا۔گھٹیا سیاست کے علمبرداروں نے اسے ’دلت ایشو‘ ،’دلت بالکا بلاتکار‘ بنا دیا۔سنیل کمار رائے پر سیاسی دبائو ہے کہ وہ سزا سنائے،اور وہ جاننا چاہتا ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے؟اس کا ذمہ دار کون ہے؟والدین؟میڈیا؟انٹرنیٹ؟جینک فوڈ ؟یا ہارمونز میں کوئی تبدیلی؟جاننے کے اِس عمل میںوہ ہندوستانی معاشرے اورعالمی سطح پر تبدیل ہوتی سماجی اور جنسی اخلاقیات خصوصاََ بچوںمیں آنے والی تبدیلیوں کا مطالعہ کرتا ہے ۔اُس کا یہ مطالعہ قارئین کے لیے معلومات کا باعث بنتا ہے۔اسی عمل کے دوران اُس کا اپنی بیٹی ریا، بیٹے نتن اور بیوی اسنیہ سے مکالمہ اِحساس دلاتا ہے کہ نئی نسل اور پرانی نسل کے درمیان بڑھتی خلیج کو صرف جنریشن گیپ کہ دینے سے معاملات کو سمجھا نہیں جا سکتا۔اِس بڑھتی ہوئی خلیج کو سمجھنے کے لیے روایتی اخلاقیات اورتبدیل ہوتی نئی اقدار کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
روایتی اخلاقیات میں اپنی ’ذات ‘کو ہی سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔نام سے لے کر مذہب، عقائد، رویے، روایات ، لباس، طرزِزندگی ،مستقبل کے فیصلے دوسرے کرتے ہیں۔میں کیا چاہتا ہوں سے زیادہ فکر معاشرے،والدین،بہن بھائی،ہمسائے،اور لوگوں کی ہوتی ہے۔سب سے زیادہ خوف ان دیکھی قوتوں کا ہوتا ہے۔ماضی یا مستقبل میںزندگی گزاری جاتی ہے۔لمحہِ موجود کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ جزا اور سزا کی ان دیکھی آنے والی زندگی پر،حقیقی اور موجودہ زندگی کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ جزا اور سزا کے روایتی تصورات کی وجہ سے’خوف‘اور’لالچ‘ فرد کی شخصیت کے غالب عناصر بن جاتے ہیں ،جو آزاد ی ،خود مختاری اور خود اختیاری جیسے بنیادی وجودی اختیارات کو ختم کر دیتے ہیں۔
نئی نسل یہ سب جان چکی ہے ،اِس لیے وہ روایتی اقداری سانچوں سے باغی ہے۔وہ ہر اُس قدر کو نظر انداز کر رہی ہے جو اُس کی آزادی، اختیاراورقوتِ فیصلہ کو چیلنج کرتی ہے۔اُسے سنہرے ماضی ،عظیم شخصییات سے کوئی دلچسپی نہیں، اور نہ ہی وہ مستقبل کی لمبی منصوبہ بندی کے قائل ہیں۔ نئی اخلاقیات میں لمحہِ موجود اور ’ذات‘ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ہمارے روایتی ہیروز سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔اُن کے اپنے ہیروز ہیں۔۔۔ لمحاتی نوعیت کے۔۔۔ آگے کی کہانی کے لیے کچھ اقتباسات۔۔۔
’’۔۔۔جو وقت بدل رہا ہے۔اس کی آواز بھیانک ہے۔۔۔ایک بھیانک طوفان ہے۔جس کی صدا کم لوگ سن رہے ہیں۔لیکن یہ طوفان آچکا ہے۔مختلف شکلوں میں۔۔۔نئی ٹکنالوجی اور نئے’سیسموگراف کے طور پر۔۔۔طوفان آ چکاہے۔اور سچی بات یہ ہے کہ یہ طوفان سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔۔۔‘‘[۵]
’’سامنے والا،ہر دوسرا آدمی دھوکا ہے ۔۔۔illusion ہے۔۔۔فریب ہے۔۔۔کسی کے ہنسنے پر کبھی دکھی نہیں ہوتا۔۔۔ہم کس کے لیے جیتے ہیں۔۔۔اپنے لیے ریا۔کس کے لیے خوش ہوتے ہیں۔۔۔اپنے لیے۔۔۔کس کے لیے کھاتے پیتے ہیں۔۔۔عمر کی گاڑی آگے بڑھاتے ہیں ۔۔۔اپنے لیے ۔۔۔اِس لیے جینے کا سارا فلسفہ اپنے لیے،صرف اپنے لیے سے جڑا ہے۔۔۔‘‘[۶]
’’آج میں جیو۔کیونکہ۔۔۔ہم تو ہمیشہ سے ایسے ہیں۔۔۔ہم ایسے ہی رہیں گے۔۔۔پیچھے مڑ کے مت دیکھو۔ہمیشہ ورتمان پر نظر رکھو۔۔۔جو ہو رہا ہے اچھا ہے۔۔۔آگے جو ہو گا اچھا ہو گا۔۔۔یہی اِس پوسٹ ماڈرن ایج کا فلسفہ ہے۔‘‘[۷]
’’۔۔۔یو نو۔یہ پروگرام ہم Afro Asian Society کے contributionسے کر رہے ہیں۔ہم سب کا راستہ ایک ہے۔۔۔ایک دوسرے کی ’دھنوں ‘کو پہچاننا۔دراصل سنگیت کے بہانے ہم دیس ،ریلیجین،ہر طرح کی بائونڈری،سرحد اور دیواروں سے پار نکل جانا چاہتے ہیں۔۔۔‘‘[۸]
یہ ہے پوسٹ ماڈرن عہد،اس کی زندگی اور فلاسفی جو نہ ماضی پر یقین رکھتی ہے نہ مستقبل کی فکر،جو نہ رشتوں پر یقین کرتی ہے نہ روایات پر،لفظ کا اعتبار کرتی نہ ہی معنی کا۔ہر قسم کی حدود کا انکار۔۔۔کوئی اِقرار بھی تو ہونا چاہیے ۔۔۔چاہے binery oppositeکے طور پر سہی۔۔۔ ہو تو ۔۔۔ بس لمحہ ِموجوداور میں ،میری persiption، جوعدم تیقن،بے معنویت،لایعنیت سے عبارت ہے۔۔۔اِس ساری فلاسفی کا فائدہ کس کو ہے؟سنیل کمار کو ؟اسنیہ کو؟نکھل کو ؟اب ذرا نکھل کا قصہ بھی سن لیں۔۔۔سنیل کمار کا دوست ،سپریم کورٹ کا دھانسو وکیل،’نکھل‘ زندہ دل، ہنس مکھ ، ملنسار اور فلرٹ انسان ہے وہ بھی ایک دن پھپھک پھپھک کر رونے لگا۔ اس کی بیوی ’لالی‘ اپنے کالج کے ایک نوجوان کے ساتھ افیئر چلا رہی ہے اور اس کی بیٹی ’رَتو‘ نے فرنچ ایمبیسی کے ایک نوجوان کے ساتھ رہنا شروع کر دیا ہے۔ نہ شادی، نہ نکاح نہ کوئی جھنجھٹ، اس لیے سنیل کمار رائے سے کہتا ہے:
’’سالے تہذیب کے محافظ___ اپنا گھر بچائے گا___ میرا گھر بچائے گا___ کس کس کا گھر بچائے گا___ اور کیوں بچائے گا___ مجھے لگا ’دتہ‘ ٹھیک کہتا ہے___ یہ بچے کچھ بھی کر سکتے ہیں___ سارے گناہ، سارے غلط، ناجائز دھندے___ یہ بچے اگر پیدا ہونے کے ساتھ ہی ریپ کرنے لگیں تو مجھے حیرت نہیں ہوگی۔‘‘[۹]
سوال وہی ہے کہ آخر اِس عہد اور اِس فلاسفی کا فائدہ کس کو ہے؟عام آدمی؟تیسری دنیا کو؟ یاملٹی نیشنلز کو؟عام آدمی کے لیے تو حدود اور بھی سخت ہو گئے ہیں۔کوئی نظریہ نہیں۔۔۔کوئی آئیڈیل نہیں۔۔۔کوئی ضابطہ نہیں۔۔۔کوئی ماضی نہیں۔۔۔ آگے کی فکر نہیں۔۔۔کوئی اخلاقیات نہیں۔۔۔ دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا۔ایک ڈیوائس کے سہارے پوری دنیا سے جوڑ دیا۔۔۔لیکن ماں ،باپ،بہن، بھائی،عزیز و اقارب،دوست اور ساتھیوں سے کاٹ کر ایک کمرے کا قیدی بنا دیا۔حققت سے زیادہ فنٹسی کی دنیا میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔’اسپائیڈر مین‘،’ہیری پوٹر‘،’نی یو‘ جیسے خوابوں میں رہنے والے کرداروں کو آئیڈیل بنا دیاگیا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ بچوں کو یہ آئیڈیل،یہ خواب، یہ طرزِفکر و نظر کون دے رہا ہے؟فائدہ کس کو ہوا؟ترقی یافتہ ممالک۔۔۔جہاں پوری دنیا کا سرمایہ جمع ہو رہا ہے۔۔۔جو پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔۔۔اس سارے منظرنامے میں عالمی معاشی قوتیں اور ترقی یافتہ ممالک اپنی ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی بے حسی کے حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’مارس پر پانی ہے تو سائنس دان، وہاں پائی جانے والی زندگی کے بارے میں مطمئن ہو جاتے ہیں اور یہاں زمین پر___ یہ اُجلا شفاف پانی___ جو ہر دن گزرنے کے ساتھ، سرخ پانی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے وہ___‘‘[۱۰]
اگر مارس پر پانی دریافت ہو بھی جائے یا زندگی کے آثار مل بھی جائیں تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟یہاں زمین پر موجود انسانی زندگی قابلِ توجہ کیوں نہیں۔زمیں پر موجود انسانی آبادی کابیشتر حصہ زندگی کی بنیادی سہولیات کو ترس رہا ہے۔ زمین پر موجود وسائل پر چند ملک،چندسو کمپنیاں اور چند ہزار لوگ قابض ہیں،جواِشتراکیت جیسے کسی بھی فتنے سے بچنے کی خاطر اجتماعیت کے ہر نظرے اور فکر کی نفی کر رہے ہیں۔کسی شاعر کا ایک شعر یاد آرہا ہے
بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو
قرئہ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ
ناول کا اختتام بہت معنی خیز ہے۔ سنیل کمار رائے پر سیاسی پریشر ہے کہ بچے کی عمر پر نہ جائے اور اسے بلاتکار کرنے کی سزا دے۔ سنیل کمار رائے اس فعل کو بچوں کا ایڈونچر قرار دیتا ہے اور نئی تہذیب کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے سزا کا حکم سناتا ہے کہ تعزیراتِ ہند، دفعہ 302کے تحت،اس جدید ٹیکنالوجی، ملٹی نیشنل کمپنیز، کنزیومرورلڈاور گلوبلائزیشن کو سزائے موت ___ ہنگ ٹل ڈیتھ۔‘‘[۱۱] یہ فیصلہ وہ خود کلامی میں سناتا ہے۔۔۔یا سنانا چاہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ فیصلہ سنانے سے پہلے ہی اُس سے یہ مقدمہ لے لیا جاتا ہے۔’’پوکے مان کی دنیا‘‘ کے موضوع کے حوالے سے انور پاشا کی رائے قابلِ توجہ ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’پوکے مان کی دنیا، گلوبلائزیشن کے طوفانِ بلاخیز میں پیروں تلے سے کھسکتی تہذیبی و اخلاقی بنیادوں کا
ادراک عطا کرتا ہے۔ یہ ناول مشرقی تہذیب و کلچر پر مغربی یلغار اور کلچرل امپیریلزم کے مُضر اثرات کو بخوبی اپنی گرفت میں لاتا ہے۔ وہ اثرات جو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہمارے ڈرائنگ روم اور بیڈروم میں داخل ہو کر بالخصوص نئی نسل کے ذہنوں کو آلودہ کرنے میں مصروف ہیں، ذوقی کا یہ ناول قاری کو کلچرل شاک دیتا ہے۔‘‘[۱۲]
انور پاشا کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اِتنا کہنا چاہوں گا کہ بات اتنی سادہ نہیں ہے کہ اسے کلچرل شاک کہہ کر گزر جایا جائے ۔۔۔ یہ ناول ایلون ٹافلر کے ’’فیوچر شاک‘‘ کے مباحث کو تخلیقی سطح پر سامنے لاتا ہے۔یہ سچ ہے کہ دنیا کی سب قوموں اور تہذیبوں کا وقت مختلف ہوتا ہے۔ 2016 ء کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب قومیں 2016 ء میں رہ رہی ہیں۔تیسری دنیا کی بیشتر اقوام معاشی ، تہذیبی اور سماجی سطح پر آج بھی اٹھارویں اور انیسویں صدی میں رہ رہے ہیں۔اُن کی پس ماندگی کے اسباب سے صرفِ نظر کرتے ہوے …آپ سے سوال کرتا ہوں۔۔۔کیا بلوچستان، اندرون سندھ، سرائیکی بیلٹ،ہزارہ اور کے پی کے ، کا وقت ؛لاہور ،کراچی اور اسلام آبادکا وقت ایک ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں… یہی صور ت ِحال اقوام ِعالم میں دیکھنے کو ملتی ہے۔کچھ تہذیبیں علوم ،فنون،سائنس وٹیکنالوجی میں پس ماندہ رہ جانے کی وجہ سے اپنی معاصر تہذیبوں سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔اُن کا ترقی یافتہ معاصر تہذیبوں کے ساتھ جڑنا یا مقابلہ کرنا تقریباََناممکن ہوتا ہے لیکن آزاد عالمی معاشی نظام، گلوبلائیزیشن ،میڈیا،اور صارفیت کے جبر کے تحت انہیں جڑنا پڑتا ہے۔ جڑت کایہ تعلق علمی، پیداواری اور ثقافتی کے بجائے صارفیت کے جبر اور میڈیا کے توسط سے ہوتا ہے،جس کی نوعیت مصنوعی ہوتی ہے اِس لیے پس ماندہ اقوام،تہذیبیںیہاں تک کہ افراد بھی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اسے فیوچر شاک یا ٹائم شاک کا نام دیا گیا ہے ۔پس ماندہ قومیں اور افراد وقتاََفوقتاََیہ شاک سہتے رہتے ہیں ،نظر انداز کرتے رہتے ہیں،تا وقت کہ کسی شدید جزباتی صدمے سے دوچار نہ ہوں۔جیسا کہ سنیل کمار رائے،نکہل،اومارائے… ’پوکے مان کے دنیا ‘ کے دیگر کردار اور قارئین….
یہ تو ناول کا موضوع ہوا اب ذرا بات ناول کی کراٖفٹ کے حوالے سے ہو جائے۔ناول میں شعور کی رو، خود کلامی، ہم کلامی اور آزاد تلازمہِ خیال کی تکنیکوں کو برتا گیا ہے۔ انہی تکنیکوں کی وجہ سے ناول کو فنی استحکام حاصل ہوا ہے ورنہ یہ کوئی کیس ہسٹری، کوئی رپورتاژ تو ہو تی ناول نہیں۔سنیل کما ر لاک اپ ( اپنے کمرے۔۔دفتر) میں بیٹھا انٹر نیٹ پر دنیا جہاں کی چیزیں سرچ کر رہا ہے اور یہ سب معلومات،کیس کے حوالے سے حقائق،گھریلواور سماجی معاملات (جو کہ اس کے موضوع کو اِستحکام دے رہی ہیں) کبھی شعور کی رو، خود کلامی، ہم کلامی اور آزاد تلازمہِ خیال کی صورت قاری تک پہنچ رہی ہیں۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ناول نگار اپنے نقطہ نظر کو پیش کرنے میں کامیاب ہوا کہ نہیں؟اُس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ نقطہ نظر ہے کیا؟اس جدید ٹیکنالوجی، ملٹی نیشنل کمپنیز، کنزیومرورلڈاور گلوبلائزیشن کو سزائے موت ___ ہنگ ٹل ڈیتھ۔یہ نقطہ نظر تو فرار ی رویہ کا حامل ہے،مسئلے کا حل تو نہیں ہے۔سائنس و ٹکنالوجی سے فرار ممکن نہیں،اور یہی فرار یا محرومی ہی پس ماندگی کا سبب بنی ہے۔ناول نگار کے اس فیصلے سے اختلاف کی گنجائش ضرور ہے لیکن انہوں نے جس خلوص اور سچائی کے ساتھ تیسری دنیا کی اقوام کو آنے والے دور میں ’فیوچر شاک‘کے لیے تیار کیا ہے ،اس کے لیے انہیں داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔
یہ بھی سچ ہے کہ انڈین سماج اور تہذیب کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ ابھی کھل کر پاکستانی سماج میں سامنے نہیں آئے،لیکن کیا نہیں آئیں گے؟یقیناََآئیں گے اور زیادہ تباہ کُن طریقے سے آئیں گے۔اُنہوں نے تو پھر بھی کچھ حفاظتی بند باندھنے شروع کے ہوئے ہیں مگر ہم تو ہمیشہ کی طرح سوئے ہوئے ہیں۔انہوں نے امریکن،جاپانی اور چینی کہانیوں اور کارٹونز سے جان چھڑانے کے لیے اپنے بچوںکوبھیم،ارجن اور اس نوع کے کارٹون بنا لیے ہیں۔اور ہم نے ابھی تک طے نہیں کیا کہ امریکن،جاپانی ،چینی کارٹونز کے ساتھ ساتھ ہندی دیو مالا پر مبنی کارٹونز کے اثرات سے اپنے بچوں کو کیسے بچائیں گے۔ انٹرنیٹ پر موجود ویب سائیٹس میں سے کس کس کو بلاک کریں گے۔یہ مسائل سے فرار تو ہو سکتا ہے ۔۔۔مسائل کا حل نہیں۔
گورنمنٹ ولایت ِحسین اِسلامیہ کالج ملتان
Also read