پنچھی بنوں اڑتی پھروں

0
194

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

محمد قمر سلیم

’پنچھی بنوں اڑتی پھروںمست گگن میں، آج میں آزاد ہوں دنیا کے چمن میں‘ وہ دن بھر ایسے ہی گانے گاتی پھرتی تھی ۔اس کا نام گلخشاں تھا۔وہ کشمیر کے ایک چھوٹے سے دیہات میں رہتی تھی جو حسین و جمیل وادیوں سے گھرا ہوا تھا۔خوبصورت جھرنے دل کو لبھانے والے سُر میں رواں دواں تھے۔سورج اپنی پوری جولانی کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ ہوائیں مستی میں جھومتی ہوئی کبھی اس وادی سے تو کبھی اس وادی سے ٹکراتیں ۔ایک عجب سماں تھا اس پر گلخشاں کی دل موہ لینے والی آوازکہ ہرراہ گیر لازمی طور پر اس کی سریلی آواز کی داد دیے بنا نہیں رہتا تھا۔گلخشاں گیارہ سال کی بے پناہ حسین کشمیری لڑکی تھی۔اس کا کام دن بھر وادی میں گھومنا اور گانے گانا۔صبح اٹھ کر اسکول جاتی اور اسکول سے گھر آکر بستہ پھینکا اور باہر گاتی ہو ئی نکل گئی۔گانے بھی وہی گاتی جو کشمیر کے حسن کو دوبالا کرتے تھے ۔
اس کی ماں تو بہت غصہ کرتی تھیں لیکن باپ کی بہت چہیتی تھی ۔باپ اس کی چنچل اداؤوں اور الّڑ پن پر فدا ہوہو جاتے تھے اور اس کی معصوم حرکتوں پر بہت ہنستے تھے۔وہ اپنے کام سے فارغ ہوکر گھر آتے تو سب سے پہلے بیوی سے پوچھتے گلخشاں کہاں ہے۔ بیوی ہمیشہ چڑھ کرہی جواب دیتیں، مٹر گشتی کررہی ہوگی کہیں ۔تمہیں کیا فکر ہے ۔تم نے تو خوب سر پر چڑھا رکھا ہے۔ بچی بڑی ہو رہی ہے ۔ کچھ دن میں شادی کے لایق ہو جائے گی ۔ نہ کوئی ہنر نہ ہی سنجیدگی۔ پھر مجھے ہی الزام دینا میں نے کچھ نہیں سکھایا ۔ ارے بچی گھر بیٹھے تو کچھ کروں۔ وہ ادھر آتی ہے اور کب غائب ہو جاتی ہے، کسے کیا معلوم ۔بس دن بھر پنچھی پرندوں کے پیچھے بھاگنا اور گانے گانااور ساتھ میں وہ دم چھلّا لگا رہتا ہے۔ ‘
وہ خاموش ہوتیں تو ناظر حسین بولتے، ’ارے بیگم سلطانہ وہ ابھی بچی ہے ، بہت چھوٹی ہے ۔کر لینے دو اس کو جتنی شرارت کر سکے ، کر لینے دو اسے جو وہ کرنا چاہتی ہے ۔جی لینے دو اسے زندگی! جی بھر کر!!آج اپنے ماں باپ کے گھر ہے اس لیے اتنا سب کچھ کر رہی ہے۔ کل کس نے دیکھا ہے۔ کیا لکھا ہے اس کے نصیب میں ،کسی کو کیا معلوم ۔‘
’ہاں ہاں میں تو اس کی دشمن ہوں۔‘بیگم سلطانہ کہتی تھیں
’ارے سلطانہ! میرا یہ مطلب نہیں ہے ۔اگر نصیب اچھے ہوئے تو عیش کرے گی سسرال میں ۔۔۔لیکن یہ تم نے ابھی سے اس کی شادی کے بارے میں کیسے سوچ لیا۔‘ناظر حسین سنجیدہ ہوگئے تھے۔
’تو کب سوچوں گی جب بڑھیا ہو جائے گی ۔دیکھو وہ دو تین سال میں ہی جوان ہو جائے گی۔‘بیگم سلطانہ بھی فکر مند تھیں
’تم سے بات کرنا بیکار ہے ، کچھ بھی سوچتی ہو۔‘ناظر حسین بات کو ٹال دیتے تھے۔
’ارے بابا جانی آگئے ۔‘ گلخشاں نے گھر میں گھستے ہی آواز لگائی اور اپنے باپ کی گود میں چڑھ گئی۔
’کہاں چلی گئی تھی گُل بیٹا۔‘ناظر حسین نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا۔
’ارے بابا جانی !وہاں جھیل کے پاس بہت پیارے پیارے پنچھی آئے ہوئے ہیں بس ان کے پیچھے پیچھے چلی گئی تھی۔ وہ بھی چہک رہے تھے اور میں بھی گنگنا رہی تھی۔‘گلخشاں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’اور میں یہاں کب سے تیرا انتظار کر رہا ہوں، تجھے میری فکر نہیں ہے ۔ جا میں تجھ سے بات نہیں کر رہا ہوں ، میں تجھ سے روٹھ گیا۔‘انھوں نے گلخشاں کو اپنی گود سے اتارتے ہوئے کہا۔
پھر کیا تھا گلخشاں شروع ہو گئی ،’کاشمیر کی کلی ہوں میں، مجھ سے نہ روٹھو بابوجی،مرجھاگئی تو پھر نہ کھلوں گی ، کبھی نہیں کبھی نہیں۔ ‘اور اپنے باپ کی بانہوں میں جھول گئی اور لگی خوب بوسے لینے۔
’سن گل بیٹا، اب تو کہیں نہیں جائے گی۔تھوڑا بہت پڑھا کر ، اپنی اماں جان کا ہاتھ بٹایا کر، کچھ گھر کا کام کرنا سیکھ۔‘ناظر حسین گلخشاں کو سمجھاتے ہوئے بولے۔
’جی ،ارے اماں جان بہت زور سے بھوک لگی ہے۔کچھ دو نا۔‘ گلخشاں نے چیخ کر کہا۔
’اتنی دیر باہر ر ہی پیٹ نہیں بھرا۔‘ اس کی ماں نے غصے سے کہا۔
’لاؤ مجھے کھانا نکال دو،گل بھی میرے ساتھ ہی کھا لے گی۔‘ان دونوں نے کھانا کھایا اور کھانا کھاتے ہی گلخشاں کب اپنے باپ کی نظروں سے اوجھل ہو گئی انھیں پتہ ہی نہیں چلا۔اس کا پانچ سال کا بھائی کاوش ہر دم اس کے ساتھ لگا رہتا تھا۔وہ گاتا تو نہیں تھا لیکن قدرت کے مناطر سے بھر پور لطف اندوز ہوتا تھا۔
گاؤں وا لے بھی اسے بہت چاہتے تھے۔ہر کوئی اس کی آواز کا دیوانہ تھا۔وقت گذرتا رہا۔آہستہ آہستہ گلخشاں نے جوانی کی دہلیزپر قدم رکھ دیا تھا۔وہ تقریباً ۱۶سال کی ہو چکی تھی لیکن اس کے کسی بھی رویے میں تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اپنے معمول کے مطابق گلخشاں پرندوں کے پیچھے بھاگ رہی تھی اور زور زور سے گانے گا رہی تھی ۔اس کی آواز وادیوں میں گونج رہی تھی۔ ایک گانا ختم ہوتا تو دوسرا شروع کر دیتی ۔تتلی اڑی ، اڑ کے چلی۔ ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل۔ پردیسیوں سے نہ انکھیاں ملانا۔یہ چاند سا روشن چہرہ۔اے نرگس ِمستانا۔تم سے اچھا کون ہے۔میرے یار شب بخیر۔وہ گاتی پھر رہی تھی اس بات سے بے خبر کہ ایک سایہ اس کے پیچھے لگا ہواتھا۔ اس کا پیچھا کرتے ہوئے آج اسے تیسرا دن ہو گیا تھا ۔وہ اس کی آواز کا رسیہ ہوگیا تھااورآج اس کے سامنے آ ہی گیا۔اس نے کہا، ’ارے سنو ، تم بہت اچھا گاتی ہو۔‘
وہ گھبرا گئی اور بولی، ’آپ کون ہیں ۔اور میرا گانا کیوں سن رہے تھے۔‘
’میں ایک پردیسی ہوں۔‘اس سائے نے کہا
’پردیسی،آپ کہاں سے آئے ہو ، پردیسی بابو۔‘اس نے اس میں دلچسپی دکھاتے ہوئے کہا۔
’میں بہت دور فلم نگری ممبئی سے آیا ہوں،تمہاری آواز بہت اچھی ہے ۔میں تین دن سے تمہاراگانا سن رہا ہوں۔ ‘پردیسی نے کہا۔
’ارے اللہ،آپ چوری چوری ہمارا گانا سن رہے تھے۔‘گلخشاں نے شرماتے ہوئے کہا۔
’ہاں تو کیا ہوا، نہیں سن سکتا کیا؟اچھا یہ بتاؤ تمہارا نام کیا ہے؟‘پردیسی نے اس بے تکلف ہوتے ہوئے کہا۔
’کیوں ؟ ہم کیوں بتائیںکہ ہمارا نام گلخشاں ہے۔‘گلخشاں اپنی بے وقوفی پر ہنسنے لگی۔
’کیا! گل کھشا۔بہت مشکل نام ہے ۔کیا میں تمھیں گل بہاراں کہہ سکتا ہوں۔‘پردیسی نے کہا
کیوں کیوں ؟ہمیںکیوں آپ گل بہاراں کہیں گے۔‘اب گلخشاں بھی بے تکلف ہو رہی تھی۔
’اچھا سنوکیا تم میرے ساتھ کام کروگی ۔میری فلم میں گاؤ گی۔‘پردیسی نے گلخشاں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’کیا؟ آپ فلم میںکام کرتے ہیں۔‘گلخشاں نے تعجب سے پوچھا۔
’ہاں !‘پردیسی نے جلدی سے جواب دیا
’نہیں ہم تو یہیں پر گاتے ہیں اپنے کشمیرکی وادیوں میں ۔‘گلخشاں نے بر جستہ کہا۔
’ہاں ہاں یہیں پر گانا۔تمہارا گھر کہاں ہے ۔میں تمہارے ابو سے بات کروں گا ۔‘پردیسی کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
پردیسی کا نام ارجیت سنگھ تھا اور وہ فلم ڈائریکٹر تھا۔وہ گلخشاں کے والد سے ملا اور انھیں گلخشاں کو فلموں میں گانے کے لیے تیار کیا۔بڑی مشکل سے وہ تیار ہوئے ان کی بیوی تو خلاف تھیں ہی لیکن گاؤں والے بہت خوش تھے وہ چاہتے تھے کہ ان کی گاؤ ں کی آواز پورے ہندوستان میں گونجے۔کچھ لوگوں نے انھیں ڈرایا بھی لیکن وہ گلخشاں کو کامیاب گلوکارہ بننے سے نہیں روک سکے۔گلخشاں کی صرف ایک شرط تھی کہ وہ کشمیر سے باہر نہیں جائے گی ۔اس نے تمام گانے کشمیر کی وادیوں میں رہ کر ہی گائے۔دو تین سال ہی میں وہ ہندوستان ہی نہیں، دنیا کی سریلی آواز بن گئی ۔لوگ اس کی آواز سننے کے ساتھ ساتھ اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستے تھے مگر وہ کبھی بھی عوام کے سامنے نہیں آئی۔
چھ مہینے سے ارجیت سنگھ کی گلخشاں سے کوئی بھی بات نہیں ہو سکی تھی۔وہ بہت پریشان تھا۔جب حالات تھوڑے بہترہو ئے تو ارجیت سنگھ کشمیر میںگلخشاں کے گاؤں پہنچ گیا۔اسے امید تھی کہ وہاں پہنچتے ہی اسے گل بہاراں کی سریلی آواز سننے کو ملے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ بہت پریشان تھا۔وہ گلخشاں کے گھر گیا۔اس کے گھر پر تالا تھا۔ اس نے گلخشاں کو سب جگہ تلاش کیا ،سب لوگوں سے معلوم کیا۔اس نے گاؤں میں ہی ڈیرا ڈال دیا تھا۔ مجبور ہوکر اس نے پولس سے رجوع کیا ۔پولس چوکی سے اسے معلوم ہوا کہ گل بہاراں اسپتال میں ہے۔وہ بدحواس اسپتال پہنچا۔ایک بیڈ پر گل بہاراں اسے مل گئی ۔اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ دیکھ پاتا۔اس نے گل بہاراں سے پوچھا لیکن اس کی آنکھوں سے صرف آنسو جاری تھے ،وہ کچھ بھی بولنے سے قاصر تھی۔اس نے ارجیت سنگھ سے کچھ کہا۔ارجیت سنگھ سن تو نہیں سکا لیکن اس کے ذہن کے کسی دریچے میںآواز گئی ،’پردیسی بابو‘
ارجیت سنگھ نے نرسوں سے معلوم کیا ، کسی نے بھی اسے کچھ نہیں بتایا کہ اسے کیا ہوا ہے۔ اس نے پھر پولس چوکی کا رخ کیا۔وہاں اسے معلوم ہوا کہ گل بہاراں کے والد اور بھائی کودہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا ۔اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا ناظر حسین دہشت گرد!!!نہیں یہ نہیں ہو سکتا اور پھر گل بہاراں کا بھائی ، وہ تو صرف دس گیارہ سال کا ہے۔وہ بڑبڑانے لگا،’ایسا نہیں ہو سکتا۔‘میں آفیسرز سے ملوں گا۔
’آفیسر پلیز ناظر حسین کو چھوڑ دیجیے ۔وہ بہت نیک آدمی ہیں ۔وہ دہشت گرد نہیں ہو سکتے اور ان کا بیٹا تو بہت چھوٹا ہے۔ میں ان لوگوں کی ذمے داری لے سکتا ہوں آفیسر۔ پلیز انھیں چھوڑ دیجیے پلیز۔‘ارجیت سنگھ کے چہرے پر مایوسی کے آثار نمایاں تھے۔
’دیکھیے جناب، ان پر بہت سنگیں الزامات ہیں۔میں اس میں کچھ نہیں کر سکتا۔آپ کو حکومت کے نمائندوں سے بات کرنا پڑے گی، شاید کچھ بات بن جائے۔‘آفیسر نے اپنی لاچاری ظاہر کی۔
’ٹھیک ہے آفیسر‘کہتا ہوا وہ وہاں سے اٹھ کر سیدھا گل بہاراں کے پاس گیا۔اسے دیکھ کر گلخشاں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہیں سکی۔ بڑی مشکل سے ارجیت سنگھ نے اسے اٹھایا۔گل بہاراں کے چہرے سے وہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ اسے شدید درد ہو رہا ہے ۔وہ کرسی لیکر اس کے بیڈ کے پاس بیٹھ گیا۔ گلخشاںپھوت پھوٹ کر روئے جا رہی تھی اور روتے روتے اشارے سے کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ارجیت سنگھ نے نرس کو بلایا۔نرس نے گلخشاں کو ایک پیپر اور قلم دیا۔
’یہ تمھیں ہوا کیا ہے؟ اور تمہارے ابو اور بھائی کہاں ہیں؟‘ارجیت سنگھ سچائی جاننے کے لیے بے چین تھے۔
گلخشاں پھوٹ پڑی تھی،’پردیسی بابو !انھوں نے ہمارے بابا جانی اور بھیّا کو گرفتار کر لیا کہ وہ دہشت گرد ہیں ۔انھوں نے میرے بابا جانی کو بہت مارا ہے۔وہ میرے بھیّا کو بھی لے کر چلے گئے۔میں نے بہت چکر کاٹے ،ہر جگہ دوڑی لیکن کچھ نہیں ہوا ۔کوئی بھی کچھ نہیں کر پایا۔جب میں نے زیادہ شور مچایا تو وہ لوگ مجھے بھی گرفتار کرنے آگئے ۔میں ان کو دیکھ کربھاگی لیکن گر پڑی ،پردیسی بابو میری ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اورمیری آواز بھی چلی گئی ہے۔ اب میں شاید ہی کبھی چل اور گا سکوں ۔میری اماںجان بھی غم سے نڈھال اسپتال میں ہیں۔پردیسی بابو ہمارے گھر کو کسی کی نظر لگ گئی ۔‘
ارجیت سنگھ نے پیپر پڑھنے کے بعدگلخشاں کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے دلاسہ دیتے ہوئے بولا،’مجھے معلوم ہے تمہارے بابا جانی بے قصور ہیں اور تمہارے بھائی کو دہشت گرد بتانا میری سمجھ سے باہر ہے۔میں حکومت کے بڑے سے بڑے آفیسر ،سیاست داں ، وزیروں سب سے ملوں گا اور ناظر حسین کو آزاد کراکرہی رہوں گا ۔میں ثابت کروں گا کہ وہ بے گناہ ہیں۔تم بالکل فکر مت کرو ۔ میںتمہارا علاج بھی کراؤں گا۔تم پھرگاؤگی۔ ایک بار پھر تمہاری آواز ان وادیوں میں گونجے گی۔گل بیٹا۔‘
گلخشاں نے دل ہی دل میں’جی بابا جانی‘ کہا اور پردیسی بابو کے ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here