نڈر سوچ کی طاقت کو ختم کرنے کی سازش: گوپال کررشن گاندھی

0
194

ونود دُوا اور ہریش کھرے اسامہ طلحہ ایوارڈ سے سرفراز

سید کاظم رضا ’شکیل‘

لکھنؤ۔ 5 اگست۔ راجدھانی کے گومتی نگر واقع پریاٹن بھون میں اسامہ طلحہ فائونڈیشن کے زیراہتمام منعقدہ پروگرام میں صحافی ونود دُوا اور ہریش کھرے کو اسامہ طلحہ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ اس موقع پر مہمان خصوصی بابائے قوم مہاتما گاندھی کے پوتے گوپال کرشن گاندھی نے جہاں اُردو کے لئے راج بھون خاص کر گورنر رام نائک کی تعریف کی کہ وہ راج بھون میں ہندی انگریزی کے ساتھ اردو کو بھی فروغ دے رہے ہیں کیونکہ اردو میں بھی راج بھون لکھنا ہونا رام نائک کی ہی پہل کا نتیجہ ہے۔ اس موقوع پر ہند کے وعوام کے موضوع پر بولتے ہوئے گوپال کرشن گاندھی نے کہا کہ ہند کے عوام کے الفاظ میں ایک بھروسہ ہے انہوں نے کہا کہ آئین کے ترجمے کیلئے ہندی اور اردو کی کمیٹی بنائی گئی تھی بنگال کے مرشد آباد کا ذکر کررتے ہوئے کہا کہ وہاں پر معصوم لڑکیاں اور خواتین بیڑی بنانے کا کام کرتی ہیں اور جب وہ وہاں گئے تو تعلیم کے بارے میں پوچھنے پر انہوں نے دیکھا کہ آئین بھی پڑھ رہی ہیں۔ وہ لوگ گوپال کرشن گاندھی سے کہا کہ ڈائیورژن لوگوں کو بہکا دییتا ہے ڈائیورژن کی سیاست ہمارے سوچنے کی طاقت کو ختم کرنے کی سازش کررہے ہیں لوگوں میں خود پیدا کیا جارہا ہے نڈر سوچ کی طاقت کو ختم کر آئین میں ترمیم کی سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی عوام اپنے بنیادی حقوق کو جانتی ہے انہوں نے آسام میں شہریت معاملے کو بھی اٹھایا اور کہا کہ اگر 16 پہچان کے دستاویزات میں سے کوئی ایک بھی ہے تو وہ کافی ہے انہوں نے سوال کیا کہ کیا واقعی میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ بنگلہ دیش میں آسکتے ہیں۔ گوپال کرشن نے کہا کہ پولرائزیشن سے بہت بڑا خطرہ ہے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے مقابلہ ڈر سے نہیں بلکہ عقل سے کرنے کی ضرورت ہے اوسامہ طلحہ کی صحافت پر بولتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کیا سچی صحافت اسامہ طلحہ کے قلم میں صاف دکھائی دیتی تھی انہوں نے موجودہ دَور میں ونود دُوا اور ہریش کھرے کوصحافت کیلئے مثال بتایا۔ نیئر جلال پوری کی نظام کی بھی انہوں نے تعریف کی۔
اس موقع پر پروفیسر روپ ریکھا ورما نے خطاب اکرتے ہوئے اسامہ طلحہ کی کم وقت کی صحافت کو مثالی بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی صحافت سے سمجھوتہ نہیں کیا اور سرکاری مہربانی کے لئے کبھی کچھ نہیں لکھا۔ انہوں نے کہا کہ آج صحافت زیادہ تر پریس نوٹ پر آکر ٹکتی جارہی ہے لیکن اسامہ طلحہ خود موقع پر جاکر رپورٹنگ کرتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ آج صحافت پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ نوٹ بندی کی چرچا کی گئی لیکن زبان پر تالا بندی سے ملک کو خطرہ ہورہا ہے سماج کی مدد کرنے والوں پر مقدمے ہورہے ہیں میڈیا کا بڑا حصہ سرکاری مشینری کے سامنے گھٹنے تک ٹیک چکا ہے جو نہیں جھک رہا ہے اس کو باہر کا راستہ دکھایا جارہا ہے۔
یا پھر پھنسایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج میڈیا مارکٹ پروڈکٹ بنتا جارہا ہے۔ ونود دُوا نے اپنی صحافت کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے ایک شعر کے حوالے سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ’میری ترجمانی اس شعر سے ہوتی ہے خاموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زبان ہماری۔‘ فائونڈیشن کی چیئرپرسن پروین طلحہ نے سبھی مہمانوں کا استقبال اور شکریہ ادا کرتے ہوئے فائونڈیشن کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے تعلیمی، سماجی اور صحافتی حلقہ میں کام کیا جارہا ہے لیکن اس میں کوئی سرکاری یا چندے سے کوئی کام نہیں ہوگا بلکہ وہ پینشن اور اپنے دوستوں کے تعاون سے انجام دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوسامہ طلحہ کو سچی خراج عقیدت اور ان کے مشن کو جاری رکھنے کے لئے فائونڈیشن کا قیام کیا گیا ہے۔
اسامہ طلحہ کی زوجہ کلثوم طلحہ نے کہا کہ اوسامہ ان کے اوپر دو ذمہ داری چھوڑ گئے تھے جس کو وہ نبھا رہی ہیں انہوں نے کہا کہ اسامہ کی رحلت پر ایک شعر پڑھا ’پتہ نہیں میرے بعد ان پر کیا گذری، میں چند خواب ان کے درمیان چھوڑ آیا تھا۔‘ کلثوم طلحہ نے کہا کہ جب وہ ان سے ملیں گے تو اس شعر کے ساتھ کی بعد جانے کے تیرے نہ پوچھ مجھ پر کیا گذری، ان چند خواب کی تعبیر کرکے آئی ہوں۔‘ مرحوم اسامہ طلحہ کی بیٹی عظمیٰ طلحہ نے آخر میں سبھی کا شکریہ ادا کیا۔ نیئر جلال پوری اور سوربھی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here