9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
مبصر:خان محمد رضوان
مصنف : جاوید اختر
سن اشاعت :2019 ۔۔۔قیمت :300
پبلشرز: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی. 6
مظفر حنفی شخصیت اور فکر وفن” نوجوان اسکالر جاوید اختر کی دوسری باضابطہ تحقیقی کتاب ہے.اس کتاب کی اہمیت اور معنویت کئی اعتبارسے دوچند ہے کیوں کہ پروفیسر مظفرحنفی نہ صرف اردو زبان و ادب کے ایک مخلص اور مشفق استاذہیں بلکہ وہ ایک اچھے اور زودگو شاعر ہونے کے ساتھ کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی ہیںوہ قدیم روا یتوں کے پاسدار اور جدید انداز فکر کے نمایاں شاعر ہیںانہیں یہ اعتبار مسلسل محنت جانفشانی یکسوئی اور مستقل جہد وعمل کے ذریعہ حاصل ہوسکا ہے. اس طور پر ان کی زندگی اورتخلیقی کارنامے نئی نسل کے لیے مشعل راہ اور قابل تقلید ہیں.
پروفیسر کوثر مظہری اس کتاب کے فلیپ پر لکھتے ہیں-
مظفر حنفی اردو شعر وادب کا ایک نمایاں اور اہم نام ہے-وہ ایک معلم ادب کے ساتھ ساتھ خود بھی ادیب وشاعر ہیں-جدید شعری افق پر ان کا نام دور سے نمایاں نظر آتاہے-جدیدیت کے عہد میں بھی انھوں نے اپنی تخلیقات کو غیر ضروری فیشن پرستی سے بچائے رکھا-انھوں نے بھی جدید لب ولہجہ کی پیروی کی لیکن اپنی شعری روایت کے مستحکم نظام سے انحراف نہیں کیا، اور یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں تیزی اور تندی کے ساتھ ساتھ روایت کی پاسداری بھی دکھائی دیتی ہے”-
کبھی کبھی یہ احساہوتا ہےکہ انسان کی محنت اور اس کی انتھک کوشش ہی اسے منزل مقصود تک پہنچاسکتی ہے.اور کسی حد تک یہ احساس درست بھی ہے. مظفر حنفی نے اپنی پوری عمر ادب لکھنے اور ادب سکھانے میں صرف کی ہے.یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو جنون کی حد تک بڑھا ہوا ہے. بھی قابل قدر ہے یہ بات کہ انہوں نے شاعری، تنقید، تحقیق، صحافت، افسانہ، ادب اطفال، سفرنامے آور ترجمہ جیسی اصناف کے علاوہ ترتیب وتدوین کے میدان میں بھی قابل قدرکام کیا ہے. دراصل مظفر حنفی جیسے بذرگ ادیب وشعراکی ادبی خدمات اور ان کی زندگی کے کارناموں کا اعتراف کرنا میدان ادب کے نوواردان طلبہ اور اسکالرس کوادب کی مستحکم روایت اور روشنی سےروبروکراناہے.
اس تعلق سے ان کا ایک شعر ہے کہ:
جہاں کہیں روشنی ملی بانٹ لی مظفر
ہمارے دل میں کشاکش کفر و دیں نہیں تھی
جاوید اختر نے اس کتاب کو لکھ کر ایک مستحن کام انجام دیاہے اور بے حد خوبصورتی سے یہ کردکھایا ہے کہ اپنے بذرگوں کی خدمات کو کس طرح اجاگرکیا جا سکتا ہے.
ڈاکٹر عطاعابدی اس تعلق سے لکھتے ہیں-
جاوید اختر نے اپنی نگاہ حسن بیں سے کام لے کر فن شناسی جذبے کے تحت مظفر حنفی کی خدمات کا نہ صرف واضح طور پر اعتراف کیاہے بلکہ اپنے اعتراف کو منطقی استدل کا پیکر عطا کرنے کی کوشش بھی کی ہے-یعنی یہ کتاب مظفر حنفی کی شعری ونثری خدمات کا آئینہ کہی جاسکتی ہے-”
جاوید اختر نئی نسل کے فعال اور متحرک اسکالر ہیں.
انہوں نے منٹو پر تحقیقی مقالہ ڈاکٹر ندیم احمد کی نگرانی میں مکمل کیا ہے. پیشتر ان کی ایک قابل قدر کتاب تحقیقی وتنقیدی مضامین کے عنوان سے منظر عام پر آچکی ہے.جاوید اختر کا شمار اپنی روایت کے پروردہ اور پاس دار نوجوانوں میں ہوتا ہے. وہ اپنےہڑوں کا اسی طور احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہیں جیسا رکھنا چاہیےوہ منکسر المزاج ہمدرد اور مخلص انسان ہیں. وہ ذین اس معنوں میں بھی ہیں کہ اپنے متعلق افراد کی ذہنی اور فطری عادات و اطوار سے واقف ہوکر معاملات کرتے ہیںیوں تو وہ ہر خاص وعام سے رشتہ استوار رکھتے ہیں مگر رشتوں کی سماجی اور معاشرتی نوعیتوں کا ہمہ آن خیال رکھتے ہیں جو عموما لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے-
وہ باصلاحیت بااخلاق اورباکردار نوجوان ہیں جس پر ہمیں فخربھی ہےکیوں کہ نئی نسل ان چیزوں سے بہت تیزی سے عاری ہوتی جارہی ہےایسے بے بہرہ دور میں ان اقداری نوجوانوں کی نہ صرف قدر ہونی چاہیے بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہیے تاکہ ہماری اسلامی تہذیبی اقدار کی نشات ثانیہ ممکن ہوسکے-
یہ کتاب سات ابواب پر منقسم ہے.ابواب اس طرح ہیں-
باب اول:شخصیت اور فکر وفن , باب دوم :’’شعری تخلیقات‘‘ باب سوم: ’’نثری تخلیقات‘‘ باب چہارم: ’’تحقیق و تنقید‘‘باب پنجم:’’شاد عارفی پر کتابیں‘‘ باب ششم:’’مدیرانہ صلاحیت‘‘باب:ہفتم:’’ترتیب وتدوین و تدوین وتراجم‘‘ کے عنوانات سے ہے .
اگر مجموعی طور پر اس کتاب کا جائزہ پیش کیا جائے تو کہا جاسکتاب ہے یہ کتاب یقینا مظفرشناسی میں ایک خوبصورت پیش رفت ہے، اس کا باب اول اس معنی میں اہم ہے کہ مصنف نے توقیت نامہ کے علاوہ کتابوں کی موضوعی فہرست سازی بھی کی ہے-باب دوم اس طور پر نہ صرف اہم ہے بلکہ وقیع ہےکہ اس میں مظفر حنفی کی شاعری کا موازہ ہم عصروں سے کرنے کے ساتھ ادبا اور ناقدین کی آرا کو بھی اس حوالے سے پیش کیا ہے اور یہی طریقہ نظم نگاری کے باب میں بھی اختیار کیاہے-ساتھ طنزیہ ومزاحیہ شاعری اورطنزیہ غزلوں کا موزنہ بھی شادعارفی، غالب، میر، ظفر، آتش اور آرزو جیسے شعرا کے شعار کے حوالے سے پیش کیا ہے، اس کے علاوہ بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کے حوالے سے بھی مضمون شامل کتاب ہے-جس کی وجہ سے یہ باب دیگر ابواب سے اہم معلوم ہوتا ہے-
اسی طرح باب سوم میں مظفر حنفی کے افسانے، بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں، مکتوب نگاری اور سفرنامہ(چل چنبیلی باغ میں) کو موضوع بحث بنایاگیا ہے-باب چہارم میں ان کی تحقیق وتنقید، تبصرے اور ہیش لفظ کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے-باب پنجم میںشاد عارفی پر مظفر حنفی کی لکھی چھہ کتابیں، شاد عارفی کی عشقیہ غزلیں، طنزیہ غزلیں، منظریہ نظمیں، عشقیہ نظمیں، طنزیہ نظمیں اور ان کی خطوط نگاری پر جامع گفتگو کی گئی ہے-باب ششم میں مظفر حنفی کی مدیرانہ صلاحیت، وضاحتی کتابیات اورکتاب شماری پر مختصرا گفتگو کی گئی ہے-باب ہفتم جو اس کتاب کا آخری باب ہے مظفر حنفی کی ترتیب، تدوین اور تراجم کے حوالے سے ہے-
اس طور پر اگرہم اس کتاب کو دیکھیں تو اس کی جامعیت کا اندازہ بخوبی لگاجاسکتے ہیں. اور اس بات کا بھی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ جاویداختر نے اس کام کو بےحد سنجیدگی محنت اور لگن سے کیا ہے. یقینا یہ تحقیقی نوعیت کا کیا ہوا کام ہے.یہ کتاب مظفر حنفی پر آئندہ تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ماخذ کی حیثیت رکھے گی – میں اس کتاب کے لیے مصنف کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔٭٭