9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
احتشام الحق آفاقی
گلستان ہند کے درخشندہ ستارہ ، ملت اسلامیہ ہندیہ کی روح رواں، عشق ِمحمدی کے پیروکار ،اہل نظر کے اطمینان قلب ،دلوں کو تہہ وبالا کردینے والی شخصیت ، پیکر دعوت و عزیمت اور صاحب عزم و استقلال ،اخلاص و للہیت کا خوبصورت نمونہ ، فطری ذہانت وطباعی کے منجھدھار ، تلاش و تحقیق کے سفر میں آبلہ پائی کے جذبہ سے شرسار اور ان سب کے ساتھ ریشم سے زیادہ نرم خوئی اور برف سے زیادہ خنک طبعی رکھنے والی شخصیت، سلطنت علم و ادب کے بادشاہ، قلم و زبان اور انشاء و خطابت کے فرمانروا مولانا ابو الکلام آزاد ؒ کی ذات گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ان کی شخصیت پرکچھ لکھنے اور ان کی خدمات کا احاطہ کرنے کے لئے ، مجھ جیسے ناکارہ قلم کے لئے آسان نہیں تاہم انھیں نظر انداز کرنا اور ان کی ذات بابرکت سے استفادہ نہ کرنا بھی ظلم اور بدنصیبی ہے ۔ اسلئے آیئے کچھ دیر ان کی شخصیت سے اکتساب کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی شخصیت کی وہ تمام پہلو سامنے آجائیں جن کے ذریعہ وہ عالم انسانیت کے پیر مغاں بن کر متعارف ہوئے ۔
سرزمین مکہ جہاں اماموں کے امام ، سردار انبیاء، فخررسل ،محبوب کبریا محمد عر بی صلی اللہ علیہ وسلم آج سے ساڑھے چودہ سو برس پہلے مبعوث ہوئے تھے ، اسی قابل رشک سرزمین میں امام الہند، فخر اکابر مولنا ابو اکلام آزاد ؒ نے۱۱؍ نومبر /۱۸۸۸ء میں آنکھیں کھولیں ، ان کا اصل نام محی الدین تھا ، آپ کے والد بزرگوار کا نام خیر الدین اور تاریخی نام فیروز بخت تھا والد محترم کا تعلق مدینہ منورہ سے تھا ، آپ کے خانوادہ عہد اکبری میں ارض ہند تشریف لائے اور آخر عمر تک یہیں کے باشندہ ہو کر رہ گئے ۔ امام الہند کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے روحانی منظراور ایمانی فضا میں گزرا ، پانچ برس کی عمر میں ان کی تقریبِ بسم اللہ شیخ عبد اللہ مراد ؒ کے ہاتھوںہوئی ، شیخ عبد اللہ مراد ؒ حرم شریف کے خطیب تھے اور شریف حسین بن علی کے عہد میںمنصب قضا پر معمور تھے، تقریب ِبسم اللہ کے بعد مولانا کی ابتدائی تعلیم گھر کی چہاردیواری میں شروع ہوئی ، آپ زیادہ تر اپنی خالہ سے پڑھتے تھے جو بہت خوش الحانی کے ساتھ قرآن پڑھا کرتی تھیں ۔ اور پھر چودہ سال کی قلیل مدت میںموصوف نے علوم شرعیہ کی نصابی کتابوں کی تعلیم پاکر جامعہ ازہر مصر سے فراغت حاصل کی ۔(انڈیا وِنس فریڈم ،ص ۱۸)
مولانا جس خاندان میں پیدا ہوئے ، وہ بہت گہرے مذہبی رنگ میں رنگا ہوا تھا ۔ آپ کے بزرگوار جدت طرازی کے سخت مخالف تھے۔ اپنے بزرگوں کے اصول اور طرززندگی سے ہٹنا سخت ناپسندسمجھتے تھے۔ ان کے والد محترم خود مغربی تعلیم بیزاری رکھتے تھے کیوں کہ وہ مغربی تعلیم و تربیت کومسلمانوں کے لئے نقصان دہ خیال کرتے تھے ، اسی لئے تو انھوں نے اپنے لخت جگر اور نور نظر کو پرفریب جدید تعلیم سے قریب ہونے نہیں دیا ،او ر نہ ہی اس کے لئے انھوں نے کسی جدید ادارہ میں داخل کرایا۔ وہ سمجھتے تھے کہ جدید تعلیم عقیدے کو بگاڑ دیتی ہے ،اس لئے انھوں نے ان کے لئے پرانے دستور کے مطابق ہی تعلیم کا بند وبست کیا ۔
آ پ ناظرہ قرآن مکمل کرنے کے بعد قرآت پڑھنے کے لئے حرم کے سب سے بڑے قاری شیخ حسن کے پاس جایا کرتے تھے ، اسی اثنا ہندستان کا سفر در پیش ہوا ۔کلکتہ پہنچنے کے بعد آپ کے والد محترم نے اردو کی ابتدائی تعلیم مرکب حروف سے شروع کرائی جو وہ خود اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیتے تھے ، اس کے بعد ’’خلاصہ ہندی ‘‘ ’’مصدر فیوض ‘‘، ’’ادب‘‘ ،’’ نحومیر ‘‘ ،’’ صرف میر‘‘ ،’’ کافیہ ‘‘، ’’ گلستاں‘‘، ’’بوستاں ‘‘،’’ آمد نامہ‘‘،’’ مائتہ عامل ‘‘اور ’’کنز ‘‘ کا مطالعہ کروایا ، منطق میں ’’شرح تہذیب اور ’’ایسا غوجی ‘‘ پر توجہ مرکوز کی ۔عربی اور منطق کا سبق مولانا یعقوب کے سپرد تھا ، فارسی اور فقہ کی تعلیم مولا نا کے والد محترم نے خود اپنے ذمہ لے رکھی تھی ، فقہ میں’’ کنز الدقائق‘‘ اور ’’ شرح وقایہ ‘‘ ہدایہ کے کچھ حصے مشکوۃ اور جلالین کے علاوہ مکمل مطول ان کے والد نے ہی ان کو پڑھا یا ۔مولانا کے والد محترم جو کہ نجوم ،رمل اور علم جفر میں پوری دستگاہ رکھتے تھے ، امام الہند کوبھی اس فن سے سیراب کیا اور ان کے اعمال و نتائج کے استخراج کی باقاعدہ مشق کرائی تھی۔مولانا نے دیگر فنون ہی کی طرح طب پر بھی تبحر حاصل کی ، طب کی ابتدائی تعلیم بھی مولانانے اپنے والد سے حاصل کی ، اس کے بعد سات یا آٹھ ماہ تک اودھ کے حکیم سید باقر حسین صاحب سے استفادہ کیا ۔
مولانا کی انگریزی دانی ان کے ذاتی ذوق و شوق کا نتیجہ تھی ،۱۹۰۳ء میں جب انھوںنے سر سید احمد خاں کی کتابوں کا مطالعہ کیاتواس وقت انھیں انگریزی زبان کی اہمیت محسوس ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ اس ترقی پذیر دنیا میںجب تک کوئی شخص جدید فلسفہ ٔ سائنس اورانگریزی ادب کا مطالعہ نہ کر لے وہ صحیح معنوں میں ترقی کے مدارج حاصل نہیں کرسکتا ، اس کا ذکر انھوں نے مولوی محمد یوسف جعفری سے کیا ، جعفری صاحب نے ان کو انگریزی کی ابجد سکھائی ،کچھ دنوں کے بعد فارسی اور اردو انجیل کے نسخوں اور لغت کی مدد سے انھوں نے انگریزی انجیل اور اخبارات کا مطالعہ شروع کردیا پھر بعد میں تاریخ و فلسفہ کی بہت سی کتابیں مطالعہ میں رہنے لگیں ۔(بحوالہ آزادی کی کہانی آزاد کی زبانی ص ۱۲۸/۱۹۱۔ مولانا ابو الکلام آزاد فکرو فن ، ص ۲۸/۲۹/۳۰۔)
مولانا ابو الکلام آزاد نے زمانہ طالب علمی ہی سے میدان ترقی میں قدم رکھا اور پھر وہیں اپنے تعلیمی اسفار کو جاری رکھا ، اپنے اندر علم کی پختگی لانے سے کھبی پیچھے نہیں ہٹے، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ علم کے بغیر انقلابی میدان میں کوئی چارہ کار نہیں ،انھوںنے دور حاضر ہی کی طرح درسیات یا پھر نصابی کتابوں کو ہی اپنا مخزن و ماخذ قرار نہیں دیا ، بلکہ انھوں مختلف طریقہ کار کو اپنایا ، کبھی تو وہ آریہ مشینریز سے مناظرہ کرکے تبحر علم میں آبلہ پا ہوئے تو کبھی عیسائی عالموں کو شکست خودرہ کرکے ، اسی زمانہ میں انھوں نے بائبل کاتفصیلی مطالعہ بھی کیا ۔
مولانا آزاد ملک کی آزادی کا اہم ستون ہیں ، وہ بیک وقت ایک ممتاز سیاست داں ،بے مثال خطیب ، بلند پایہ ادیب اور باوقار صحافی تھے ، ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ وہ ایک ماہر تعلیم بھی تھے ، انھوں نے بلا تفریقِ مذہب و ملت صرف اور صرف ملک کی ترقی کی بات کی اور ہندستان کی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے ۔ان جیسی شخصیت ہماری قوم کے لئے باعثِ افتخار ہے ان پر ہماری قوم جتنا بھی فخرکرے کم ہے ، مولانا جیسی شخصیات ہزاروں سال میں پیدا ہوتی ہیں ۔کیوں کہ ؎
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ڈاکٹر حمید اللہ بھٹ نے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ ’’ بحیثیت عالم دین ، باکردار سیاست داں اور عظیم صحافی کے طور پر مولانا آزاد پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے ، لیکن آزادی کے فوراََ بعد ہندستان کی تعلیمی پالیسی کو نو آبادیت کے اثرات سے نکال کر آزاد مملکت کی پالیسی میں بدلنے کا کام سب سے اہم اور مشکل کام تھا جس کو مولانا آزاد نے اپنی صلاحیت سے مکمل کرکے دکھایا ۔ ان ہی کی بیباکانہ صلاحیت کے بنا پر ہندستان بیسویں صدی میں علمی برادری میں باوقار طاقت ور ملک کی حیثیت سے ابھرا۔(بحوالہ ماہنامہ اردو دنیا شمارہ جنوری ۲۰۱۲ء ص ۷۹)
مولانا ابو الکلام آزاد ؒ کے الہلال کا پہلا شمارہ ۱۳/جولائی ۱۹۱۲ء کومنظر عام پر آیا، اس وقت ان کی عمر ۲۴ سال سے بھی کم تھی یہ محض ایک ہفت روزہ پرچہ نہ تھا ، بلکہ ایک مذہبی، سیاسی اورادبی تحریک تھی ، ایک دعوت تھی ، اس نے تیزی سے کامیابی حاصل کی اس کا احاطہ کرپانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ سیاسی میدان میں یہ پہلی آواز تھی جو علی گڑھ اسکول کی کانگریس دشمنی اور انگریز دوستی کے خلاف بلند ہوئی ۔جب کلکتہ سے الہلال نکلا توپورے ملک کی نظریں جادو کی چھڑی کی طرح اس پرپڑی ، اس کی ہر بات انقلاب انگیز تھی اور ہر بات نئی ، ظاہری شکل و صورت بھی نئی اور باطنی محاسن بھی نئے ۔ الہلال کا سب سے بڑا کارنامہ جو ہمیشہ تاریخ ہند میں یادگار رہے گا ، وہ پائدار’’ مذہبی انقلاب ‘‘ہے جو یکایک مسلمانوںمیں اس کے دعوت حق سے پیدا ہو گیا ۔ابو الکلام کی سیاست محض ایک سیاست نہ تھی ، اقتدار اور حکومت حاصل کرنے کا وسیلہ نہیں تھی ، بلکہ انھوں نے میدان ِسیاست میں قدم رکھ کر اس کو تطہیر ،پاکیزگی اور احترام عطا کیا ۔(بحوالہ مولانا ابو الکلام ورثہ ، مضمون نگارڈاکٹر خاور ہاشمی ۔ماہنامہ آج کل شمارہ دسمبر ۲۰۱۳ء )
کسی نے کہا ہے کہ : مولانا ابو الکلام آزاد ؒ کے تعلیمی نظریات ان کے سیاسی کردار کے پہلو میں گم ہوکر رہ گئے ہیں ‘‘ یہ بات کہاںتک سچ ہے اس سے ارباب علم خوبتر واقف ہیں ، یہ حقیر بھی خاصی حد تک ان کا ہم خیال ہے ، کیوں کہ مطالعہ سے جہاں آپ کے مختلف پہلوؤں پر نظرپڑتی ہے وہیں بیک وقت ان کی تمام خوبیاں و خصوصیات ان کے نظریہ تعلیم میں گم ہو کر رہ جاتی ہیں، اس وقت سوائے کف دست کے کچھ حاصل نہیں ہو تا ، دراصل اس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ لکھنے والوں نے اگر لکھا تو زیادہ تر ان کی حیات و ممات کو ۔اگر مولانا کی تعلیمی نظریات کو یکجا کیا جائے اور اس پر سچے دل سے تحقیق کی جائے تو کوئی بھی شخص ان کو ماہر تعلیم ماننے سے انکار نہیں کرسکتا ۔ کیوں کہ مولانا آزاد کی شخصیت آج بھی لوگوںکے لئے مشعل راہ ہے ، مولانا نے اعلی تعلیم کی بنیاد پر جو قومی و ملی خدمات انجام دی ہیں وہ رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے نمونہ ہیں ۔
مولانا کی حیات و ممات کا نمونہ پیش کرنے کے بعد جب مقالہ کا رخ اصل موضوع کی طرف کیا جارہا ہے تو خود بخود ایک سوال ذہن میں آتا ہے ، کہ آپ دنیا کی کن یونیورسیٹیوں اور دارالعلوموں سے تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ تھے ؟ سب سے پہلے اس سوال کا حل نکالنا ضروری ہے۔ یہی سوال مولانا سے ایک گمنام خط میں پوچھا گیا ، تو مولانا الہلال کے صفحات میں اس کاجواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’’ آپ پوچھتے ہیں کہ میںنے مغرب و مشرق کے کن دارالعلوموں میں ادنی یا اعلی تعلیم حاصل کی ہے ؟ عرض ہے کہ الحمد اللہ کسی میںبھی نہیں ،البتہ رب المغربین و رب المشرقین کی اس درسگاہ سے فیضیاب ہوں جس نے اپنی طرف نسبت کرتے ہوئے کہا ہے کہ :
جب اس درس گاہ الٰہی کا دروازہ مجھ پر کھل گیاتو تمام کاغذ کی سندیں دینے والے انسانی دارالعلوموں سے بے نیاز ہو گیا ہوں ‘‘ یہ تھا مولانا کا جواب ۔ منجملہ جواب سے یہ بات تو ظاہر ہوجاتی ہے کہ مولانا کاغذی سند کے قائل نہیں تھے ۔(بحوالہ آزادکی کہانی ص ۱۹۱/ مولانا ابو الکلام آزاد فکر و فن ، ملک زادہ منظور احمد مرحوم ص ۲۹)
مولانا آازاد ؒ،ہندستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شاید ہندستان میں اس وقت ان کا ہم پلہ کوئی نہ تھا ، اگر تھا بھی تو تاریخ میں کوئی شواہد کیوں نہیں ؟، پنڈت نہرو ان کی ٹھاٹھیںمارتے ہوئے تبحر علمی کے معترف تھے اور قومی وملکی رائے پر رمزشناس ہوتے تھے ،آپ کے تعلیمی میدان میں لامحدود طریقے سے خدمات بکھرے پڑے ہیں ، ان کے کارنامے روشن اور تابناک ہیں ، انھوں نے ہی سب سے پہلے مفت پرائمری تعلیم کا بندو بست کیا ، اعلی و معیاری تعلیم کو فروغ دیا ۔ انھوں نے بحیثیت وزیر تعلیم سائنس و ٹیکنالوجی اور انسانی مسائل کی ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام تک پہنچایا ۔ انگریزوں کے زمانہ میں عام ہندستانیوں کو بس اتنی تعلیم دی جاتی تھی کہ وہ غلامانہ مشنری کا حصہ بن سکیں،مولانا آزاد ؒ نے ملک کو درپیش حالات اور تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے تعلیم و سائنس کے میدان میں ترجیحات پیش کیں ۔ انھیں کے زمانہ میں اعلی تعلیم کے لئے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ، نیشنل آرکیوز کا قیام عمل میں آیا ۔ تکنیکی تعلیم کا ادارہ (IIT)وجود میں آیا ، سائنسی و ٹیکنالوجی خصوصاخلائی سائنس ، جوہری توانائی کے میدانوں میں پیش رفت ہوئی ، گویا کہ سائنس او ر ٹیکنا لوجی کی بنیاد پر تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا گیا ۔ ان کے زمانے میں فنون لطیفہ کو بھی خوب ترقی دی گئی ۔ ساہتیہ اکیڈمی ، للت کلا اکادمی اور نانک اکادمی کی بنیادیں ڈالی گئیں ۔ان سے جڑے فنکاروں کو قدر و منزلت اور باعزت مقام عطا کیا گیا ۔ اس طرح ملک سائنس ، ٹیکنالوجی ، آبی توانائی ، خلائی کھوج ، جوہری توانائی ، ماحولیاتی مطالعے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میںآگے بڑھتا گیا آج ہمارے ملک کو جو عالمی پیمانے پر شہرت و مقبولیت حاصل ہے ان سب کا سہرا مولانا ابو الکلام آزادؒ کے سر جاتا ہے ۔(بحوالہ مولانا آزاد کا سائنسی شعور مضمون نگار ڈاکٹر جاویداحمد کامٹی ۔ ماہنامہ آج کل شمارہ دسمبر ۲۰۱۳ء ص ۲۰)
اگرچہ مولانا آزاد ؒ مشرقی اور اسلامی علوم کے پروردہ تھے اور ان کی تعلیم اسی نہج پر ہوئی تھی ، مگران کا مزاج فلسفیانہ تھا،وہ قومی حمیت سے لبریز تھے ، رہ رہ کردرد ملت میں مبتلا ہوجاتے تھے ۔وہ تقسیم کے مخالف تھے ۔لیکن جب مسلمان ملک پاکستان بن جانے کے بعد جوق در جوق پاکستان جانے لگے تو انھوں نے ۲۴/اکتوبر ۱۹۴۷ ء کو جامع مسجد کے منبر پر ایک پر تقری کی جس کو مشفق و مربی استاذ سید ضیاء الحسن( سابق لکچرر امیر الدولہ اسلامیہ کالج لکھنؤ )نے اپنی یادداشت ڈائری میں تحریر کیا ہے ۔ مولانا اس تقریر میں فرماتے ہیں کہ ’’عزیزو! تبدیلیوں کے ساتھ چلو ، یہ نہ کہو کہ ہم اس تغیر کے لئے تیار نہیں تھے ،
بلکہ اب تیار ہو جاؤ ، ستارے ٹوٹ گئے لیکن سورج تو چمک رہا ہے ، اس سے کرنیں مانگ لو ۔ اور ان اندھیری راہوں میں بچھا دو ، جہاں اجالے کی سخت ضرورت ہے ،میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم حاکمانہ اقتدار کے مدرسہ سے وفاداری کا سرٹیفکٹ حاصل کرو ۔ یا پردیسی کی وہی زندگی اختیار کرو ، جو غیر ملکی حاکموں کے عہد میں تمھارا شعار رہاہے ۔ میں کہتا ہوں جو اجلے نقش و نگار تمھیں اس ہندستان میں ماضی کی یادگارکے طور پر نظر آرہے ہیں وہ تمھارا ہی قافلہ لایا تھا ۔ انھیں بھلاؤ نہیں ، انھیں چھوڑو نہیں ۔ ان کے وارث بن کر رہو اور سمجھ لو کہ اگر تم بھاگنے کے لئے تیار نہیں تو پھر تمھیں کوئی طاقت بھگا نہیں سکتی ۔ آؤ عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے ، ہم اس کے لئے ہیں اور اس کی تقدیر کی بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے‘‘ ۔
مولانا آگے فرماتے ہیں :’’ آج زلزلوں سے ڈرتے ہو ، کبھی تم خود زلزلہ تھے ، آج اندھیرے سے کانپتے ہو ، کیا یاد نہیں ! کہ تمہارا وجود ایک اجالاتھا ۔ یہ بادلوں کے پانی کی سیل کیا ہے کہ تم نے بھیگنے کے خوف سے پائیجامہ اوپر چڑھا لئے کیا یا د نہیں کہ تمہارے اسلاف ہی تھے جوسمندر وں میں اتر گئے پہاڑ وں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئی تو اس پر مسکرادیئے ، بادل گرجے تو اس پر قہقہوں سے جواب دیا ،صرصراٹھی تو رخ پھیر دیا ، آندھیاں آئیں تو ان سے کہا کہ یہ تمہارا راستہ نہیں‘‘ ۔( بحوالہ ڈائری سید ضیاء الحسن )
آخر یہ سب کیوںتھا ؟قومی درد محو آشنا کیوں تھا، یہ سب اسلئے تھا کہ اپنی قوم کو وہ بٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے ، اپنی تعلیمی و تہذیبی ثقافتوں کے میراث حصوں میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے ، اگر علامہ شبلی نعمانی نے محققین و مصنفین تیار کرنے کے لئے دارلمصنفین قائم کیا تو سرسید احمد خاں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کی تو مولانا آزاد نے بحیثیت پہلے وزیر تعلیم علوم و فنون کی ترویج وسیع پیمانے پر داغ بیل ڈالی اور یونیور سٹی گرانٹس کمیشن ، سکنڈری ایجوکیشن کمیشن ، انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ سینٹر ، سینٹر کونسل فار فیزیکل ریسرچ سینٹر ، سینٹر کونسل فار کلچرل سینٹر جیسے اداروں کو قائم کیا۔مولانا آزاد ہمیشہ ایسی تعلیم کے لئے کوشاں رہے جس سے طلبہ کا ذہن کشادہ ہواور وہ تنگ نظری کی نحوست کا شکار نہ ہو ں، مولانا آزاد کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ہندستان میں آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن قائم کیا ، ملک میں جو آج انجینئرنگ کالج اور ٹیکنیکل کالجوں کا وسیع جال نظر آرہا ہے ، وہ اسی کونسل کی دین ہے اور اسی کونسل کی کوششوں کاثمرہ ہے ، ملک کا سب سے پہلا انسیٹیوٹ آف ہائر ٹیکنا لوجی ۱۹۵۱ء میں کھڑکپور انسیٹیوٹ آف ہائر ٹکنالوجی کے نام سے کھولا گیا تھا جس کی بنیاد مولانا ابو الکلام نے اپنے ہاتھوں سے رکھا تھا ، اس موقع پر انھوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’ میرا پہلا کام ٹیکنیکل تعلیم کی طرف توجہ دینا ہے تاکہ ہم خود کفیل ہو سکیں ، ہمارے بہت سے نوجوان اس تعلیم کو حاصل کرنے کے لئے غیر ممالک سفر کرتے ہیں میں اس دن کا انتظار کررہا ہوں جس دن غیر ممالک کا نوجوان اس میں آکر تعلیم حاصل کرے ‘‘۔(بحوالہ مولانا ابولکلام آزاد کی علم پروری ،’’پیام سدرہ شمارہ فروری ۲۰۱۶ء ‘‘،مضمون نگار مولانا زین الحق ندوی ص ۲۲)
مولانا آزاد مذہبی علوم اور عصری علوم کا حسین امتزاج تھے اس لئے انھیں مذہبی علوم کی ضرورت کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی ضرورت کا بھی احساس تھا ٹیکنالوجی و سائنس کی ترقیوں کو بھی وہ چشم کشا سے دیکھ رہے تھے ۔ انھوں نے اسی لئے سائنس کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے نمایاں کام کئے اور شانتی سروپ بھٹنا گرکی سربراہی میں اس کی شروعات کی ، ہندستان ایک زرعی ملک ہے اس لئے زراعت کو جدید طرز پر ڈھالنے کے لئے انھوں نے انڈین کونسل فار ایگریکلچراینڈ سائنٹفک سینٹر قائم کیا تھا ، طبی اور علاج و معالجہ کی ضرورتوں کے لئے اندین کونسل فار میڈیکل ریسرچ سینٹر کی بنیاد ڈالی۔ (ایضاََص ۲۳)
مولانا ابو الکلام آزاد ؒ نے روز اول ہی سے اپنے لئے نہایت غور فکر کے ساتھ ایک راستہ اختیار کیا تھا اوروہ راستہ تھا قوم کو تنزل و انحطاط کی کھائی سے نکالنا ۔ وہ زندگی کے سفر میں تاریخ کی کیسی کیسی آزمائشوں سے گزرے ۔ پرائے تو پرائے تھے ان کا اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑدیا ، وہ ملت کی رہنمائی کے لئے اٹھے تھے ایک ایسی ملت جو مذہبی رنگ میں رنگی نہ ہو ، جو وقت اور حالات سے بے قابو ہوکر زندگی کے نشیب و فراز میں گرفتار نہ ہو ، جو اعلی تعلیمی کردار سے آشنا ہو ، جو کہ ایک صدی سے زوال و انتشار میں مبتلا تھی ، وہ ایسی قوم کو آگے بڑھانے کی طرف گامزن تھے ، اس ملت کے لئے انھوں نے ایک خواب دیکھا تھا ۔ ایک روشن مستقبل کا خواب ۔ باوقار ، خوشحال اور تمام سعادتوں کی حامل زندگی کا خواب ۔ وہ ابھی چند ہی قدم چلے تھے کہ پیچھے مڑ کر دیکھا تو خود کو تنہا پایا ۔ اس وقت انھوں نے آگے بڑھنا چاہا تو قوم نے ان کے آگے کانٹے پچھا دیئے ،۔ انھوں نے تاریخ اور وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی تلقین کی لیکن قوم نے اپنی عقل و خرد کو مقفل کر لیا ، انھوں نے گم کردہ راہوں کو آواز دی ، مگر سننے والا کوئی نہ تھا ۔ان کی آواز ریگزاروں نے سنیں اور شاید آج بھی ہندستان کے فضاؤں میں گونج رہی ہیں۔ ابو الکلام اپنا فرض نبھاتے رہے ۔ اس راہ پر چلتے رہے جس کو اپنے روز اول ہی سے منتخب کیا تھا ۔ وہ اپنے ہی قدموں کی آہٹ کو جرس کارواں سمجھتے رہے ۔ قوم کی آنکھیں کھلیں مگر اس وقت جب ہاتھ سے سب کچھ نکل چکا تھا۔(بحوالہ مولانا ابو الکلام کا ورثہ ، مضمون نگار ڈاکٹر خاور ہاشمی ، ماہنامہ آج کل شمارہ دسمبر ۲۰۱۳ء )
آزاد کا خواب حقیقت کے چٹانوں سے ٹکرا کر چور چور ہو گیا تھا ْ۔ اس وقت بھی ابو الکلام نے اپنے اس نافرمان قوم سے نفرت نہیں کی اس کو سینے سے لگایا اور آگے کی منزل کی طرف رہنمائی کی اور انھیں تعلیم کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ نے کی تلقین کی اور کہا دیکھو رب کا قر آن تمھیں پکار کر کہتا ہے ۔ ’’لا خوف علیھم ولاھم یحزنون ‘‘تم گھبراؤ مت تم غمزدہ مت ہو ، بلکہ آگے کا لائحہ عمل تیار کرو، اپنے اسلاف کے طریقے کو اختیار کرو ، قرآن و حدیث کو اپنا ماخذ جانو ، صحابہ کی سیرت کو پڑھو ، ان کی فکر کو سمجھو ، مصیبتوں سے لڑنا جانو ، اپنی تہذیب و ثقافت کو میراث جانو ، غیر کے طریقہ کار میں کامیابی مت جانو، تاریخ کی ورق گردانی کرو ، اپنے اجداد کے نقوش کو تلاش کرو ، علم سے منھ مت موڑو ،علم کو تقسیم مت کرو ، علم ہی کی بنیاد پر تم ایک قوم بن سکتے ہو ، اپنی تاریخ کو لوٹا سکتے ہو ،خدا کے دین کو لادین تک پہنچا سکتے ہو ، اگر علم تمہارے سینے میں ہوگا تو حکومت تمہارے قدموں میں ہوگی ، تم آسمان دنیا کے مسافر ہو ، تم علم کی وسعت کو بلند کرو ، خدا تمہاری حکومت میں وسعت دے گا ،تم علم کو سینے سے لگاؤ ہم تمھیں کامیابی کی بشارت دیتے ہیں ، تم محض زبان و بیان کی حیثیت سے منتشر مت ہو ، تحقیق نظر کو اپنا شعار بنا لو ، تعلیمی سفر میں آبلہ پا ہو جاؤ، انگریزوں نے جو تمھارے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے اس کو تعلیم سے واپس لے لو ۔
ہندستانی مسلمان قومی زندگی سے علیحدہ اپنے خود ساختہ حصاروں میں محدود تھے ، ان کے سامنے حریت فکر و نظر کا کوئی مشن نہ تھا ۔ علماء اور مشائخ کے گروہ کے نزدیک قومی اور ملکی حالت پرغور کرنا اور لوگوں میں اس کی تحریک پیدا کرنا بنجریت میں داخل تھا ، ان کا عقیدہ تھا کہ ان کا کام صرف دین ہے اور اس دین کا کام صرف یہ ہے روزہ ،نماز ،حج ،زکوۃ ،دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ نوجوان دین اور مذہب کو فرسودہ روایت سمجھنے لگے تھے ۔ آج ان دونوں گروہوں کے لئے مولانا آزاد ؒ کی زندگی اسوہ ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی زندگی کا ہر پہلو سے مطالعہ کریں اور پھر اس پر آج ہی سے ہم قوم کے لئے ، ملک میں اپنی شناخت کو برقرار کھنے کے لئے از سر نو عمل پیرا ہوجائیں ، ان کے افکار و نظریات سے اہلیان ہند کو روشناس کرائیں اور خود بھی اس کو اپنی زندگی میں لائیں ، جس سے ہماری دنیا روشن ہو اور آخرت بھی تابناک ہو ۔
٭٭٭٭
محمد علی جوہر یونیورسٹی،رامپور
7060695172
Also read