منتظر

0
156
[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ندا کوثر
روز کی طرح آج بھی صبح نو بجے دفتر کے لیے نکلی۔ رکشے میں بیٹھی ،حسبِ معمول اپنے بیگ سے ایئرفون نکالے اور موبائل میں لگانے ہی جا رہی تھی کہ دیکھا آج ایئر فون کے تار بہت الجھے ہوئے ہیں۔میں نے انہیں سلجھاناچاہا، لیکن اس کے تار وں میںگرہیں لگ چکی تھیں۔ انہیں سلجھاتے سلجھاتے میرا خیال میری زندگی کی طرف چلاگیا۔میں جس طرح رکشے میں بیٹھ کر اس ایئر فون کے تاروں کو سلجھا رہی تھی ، ٹھیک اسی طرح اپنی ذاتی زندگی میں بھی اس کی پریشانیوں اور مشکلوں سے جوجھ رہی تھی۔لیکن ایئر فون کے تاروں کوسلجھانا آسان ہے زندگی جینا بہت مشکل۔اس کی الجھنیں اور اتار چڑھاؤ یاتو انسان کو مضبوط بنا دیتی ہیں یاپھر مکمل طور پر توڑدیتی ہیں۔ہر انسان کے لیے زندگی کا تصور مختلف ہوتا ہے، لیکن مرے لیے اس تصور کا تانا بانا شاید اس تلخ حقیقت کے تحت بنا تھا جس سے میں دوچار تھی۔ وہ شخص میری زندگی میں بہارکے موسم کی طرح آیا تھا ،جس کے آنے سے سب کچھ بے حد خوبصورت ہوجاتاہے لیکن صرف وقتی طور پر،اورجب جاتا ہے تو اپنے ساتھ تمام خوبصورتی لے جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اس شخص کے آنے سے ڈھیروں خوشیاں میری زندگی میں شامل ہوگئیں تھیں، لیکن اس کے جاتے ہی میرا وجودجیسے ختم ہوگیا تھا۔وہ شخص جو کچھ ہی وقفے میں میرے لیے بے حد عزیز ہوگیاتھا، جس کے ساتھ زندگی آسان اور رنگ برنگی ہوگئی تھی۔اور جس سے میں بنا کسی شرط کے بے حد محبت کرنے لگی تھی، وہی میری زندگی کو بے رنگ بناگیاتھا۔وہ مجھ سے کہتا تھا تم بہت مضبوط اور خود مختارہو۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھاکہ میں صرف اس کے ساتھ مضبوط ہوں اور اس کے بنا بہت کمزور۔وہ کہاں چلاگیا،کیوں چلاگیا، میں نہیں جانتی۔۔۔جانتی ہوں تو صرف یہ کہ وہ میرا شوہرتھا اورمیں آج بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتی ہوں۔
اس کے ساتھ گزرا ہواہر لمحہ مجھے یاد ہے۔۔۔وہ ہر بار سڑک پار کرتے وقت میرا ہاتھ پکڑلینا،کھانابناتے وقت اگر میرا ہاتھ جل جاتاتو فوراََ اس پر مرہم لگانااور مجھ سے بھی زیادہ اس کا درد خود محسوس کرنا،میرے روٹھ جانے پر مجھے منانے کے لیے اپنی جان لگادینا، میری ہر ضد پوری کرنا اور۔۔اورنہ جانے کیا کیا۔۔۔
’’ہاں جی آپ کا اسٹاپ آگیا‘‘ اچانک تیز آواز میں یہ الفاظ میرے کانوں میں پڑے ، دیکھا رکشے والا چلا کر بول رہا تھا،نہ جانے کب سے کہ رہا ہوگا ۔میں تو منتظر کے خیالوں میں گم ہوگئی تھی۔گھر سے دفتر تک پچیس منٹ کی دوری نے مجھے میری زندگی کے مشکل ترین وقت کی سیر کرادی تھی۔ رکشے سے اتری تو مہر۔۔ مہر۔۔ کی آواز سنائی دی۔ پلٹ کر دیکھا تو میری دوست ریکھامجھے آواز دیتی ہوئی میری طرف بھاگی چلی آرہی تھی۔اور آتے ہی سوال کیا :
’’منتظر واپس آیا؟ ‘‘
 ریکھا کے اس سوال نے میری آواز کو بھاری کردیا تھا بمشکل کہہ پائی :
 ’’نہیں‘‘
اس نے پھر سوال کیا :
’’وہ واپس آگیا تو کیا کرے گی؟‘‘
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ اس سوال کا کیا جواب دوں۔۔ صرف اتنا کہا:
پتہ نہیں!
اس جواب کے پیچھے شاید یہ وجہ تھی کہ اب میری یاس حسرت میں بدل گئی تھی۔میں اس سے ناامید ہوچکی تھی اور یہی سمجھتی تھی کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔۔۔نہیں۔۔۔کبھی نہیں!
’’کل تیری سالگرہ ہے۔ مجھے تو یقین ہے۔۔۔ منتظر کل ضرور آئے گا۔۔۔۔تجھے یاد ہے نا !  پچھلے سال تیری سالگرہ پر اس نے کیا کچھ نہیں کیا تھا تجھے خوش کرنے کے لیے۔‘‘
ریکھا نے بہت خوش ہوکر اور مجھے اس کی واپسی کی امید دلاتے ہوئے کہا۔
لیکن میں نے ریکھا کی بات کاٹتے ہوئے کہا :
’’ایسا صرف کہانیوں میں ہوتا ہے۔ اگر اسے واقعی میری خوشی کا خیال ہوتا تو کبھی مجھے اس طرح تنہا چھوڑ کر نہیں جاتا، اب مجھے کسی جھوٹی آس میں نہیں جینا۔‘‘
یہ کہ کر میں اندر دفتر میں چلی گئی،اور اپنا کام کرنے لگی۔ اور میری دوست ریکھا میری ناامیدی دیکھ کرنم آنکھوں کے ساتھ وہیں کھڑی رہی نہ جانے کب تک۔
اگلی صبح تقریباَ َساڑھے چھ بجے کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں نیند میں تھی،اٹھی، جلدی سے دوپٹہ لیا اور دروازہ کھولنے ہی جا رہی تھی کہ اچانک قدم رک گئے، ریکھاکی بات یاد آئی اور دل زور زورسے دھڑکنے لگا ، آنکھیں نم ہوگئیں، شاید یہ اسی کی دستک تھی۔۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دروازہ کھولاتو میں حیران رہ گئی۔۔۔۔!
ایم ۔اے (اردو)،شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here